پوسٹ تلاش کریں

امام مہدی علیہ السلام کانفرنس

امام مہدی علیہ السلام کانفرنس اخبار: نوشتہ دیوار

امام مہدی علیہ السلام کانفرنس
مورخہ19مارچ بروز اتوار2023بوقت3:30بجے
بمقام: جامعہ الشہید للمعارف الاسلامیہ پشاور
عتیق گیلانی کا انقلابی خطاب

عمر نے علی کی مشاورت سے قیصر و کسریٰ کوفتح کیا تو مہدی و مسیح سے پہلے اتحاد ہوسکتا ہے؟

ہال میں شریک عوام نے دل سے تائید کا اظہار کیا۔ علی کی موجودگی میں حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان پر اختلاف رائے کے باوجود اتحاد تھا اور فتوحات حاصل کیں۔

جب حضرت عیسیٰ کا نزول اور امام مہدی کا ظہور ہوگا تو اس پر دنیا متحد ہوگی لیکن ان سے پہلے کسی شخصیت پر سنی شیعہ کا اتحاد قرآن اور شخصیات پر ہوگاتو اس کیلئے افہام و تفہیم ضروری ہے

کانفرنس سے دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے اُستاذ ، جماعت اسلامی کے صوبائی نائب امیر ، اہل حدیث ، بریلوی مکتبہ فکر ، دیوبندی مکتبہ فکر اور اہل تشیع مکتبہ فکر کے علماء نے بھی خطاب کیا۔

الحمد للہ و الصلوٰہ و السلام علیٰ خاتم الانبیاء المرسلین و علیٰ آلہ اصحابہ اجمعین۔ اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ و جاھدوا فی اللہ حق جہادہ ھواجتبٰکم وما جعل علیکم فی الدین من حرج ملة ابیکم ابراہیم ھوسمٰکم المسلمین من قبل و فی ھذٰ ا لیکون الرسول شھیدًا علیکم و تکون شہداء علی الناس فاقیموا الصلوٰة و اٰتوا الزکوٰة واعتصموا باللہ ھوا مولٰکم فنعم المولیٰ و نعم النصیرO
محترم بزرگو،دوستو، بھائیو، دوستو اور بچو! یہ موضوع تو بہت بڑا ہے کیونکہ ایک انقلاب کی خبر پر پوری دنیا متفق ہے۔ بدھ مت ہوں یا ہندو مت، مسلمان ہوں یا عیسائی، یہودی ہوں یا کسی بھی مذہبی طبقے سے ان کا تعلق ہو ان کے ذہن کے اندر یہ ہے کہ ایک انقلاب عظیم آئے گا۔ اللہ نے فرمایاعَمَّ یَتَسَآئَلُوْنَ (1) عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِ (2) اَلَّذِیْ ہُمْ فِیْہِ مُخْتَلِفُوْنَ (3) کَلَّا سَیَعْلَمُوْنَ (4) ثُمَّ کَلَّا سَیَعْلَمُوْنَ (5)
کس چیز کے بارے میں یہ آپ سے پوچھتے ہیں۔ ایک بہت بڑی خبر کے بارے میں۔ انقلاب عظیم کے بارے میں۔ عنقریب جو پوچھنے والے ہیں یہ جان لیں گے اور عنقریب جو پوچھنے والے ہیں یہ جان لیںگے۔ اب اس پر اختلاف تو ہے یہودی سمجھتے ہیں کہ شاید ہمارا دنیا پر غلبہ ہوگا۔ عیسائی سمجھتے ہیں کہ دنیا میں ہمارے نظام کا غلبہ ہوگا۔ ہندو کے یہاں بھی کلکی اوتار کا ذکر ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی کلکی اوتار آئے گا اور دنیا میں انقلاب آئے گا۔ مسلمانوں کا اس حوالے سے جو تصور ہے وہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے ہے۔ مسلمانوں کے اندر پھر جو دو بڑے طبقات ہیں ایک اہل سنت اور ایک اہل تشیع ان دونوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آنے والا انقلاب امام مہدی کے ذریعے سے ہی آئیگا۔ لیکن ان کا اس بات کے اوپر اختلاف ہے کہ اہل تشیع کے نزدیک جو بارہواں امام ہے وہ غیبت کی حالت میں ہے اور وہی امام مہدی ہے۔ اور اہل سنت کے نزدیک یہ ہے کہ آنے والا کوئی پیدا ہوگا اور وہی امام مہدی ہوں گے۔ اس پر جو خوشحالی کی بات ہے وہ یہ ہے کہ انقلاب جو آئے گا وہ قرآن کی بنیاد پر آئے گا۔ سنت کی بنیاد پر آئے گا۔ اس کے اوپر نہ صرف سنی شیعہ بلکہ پوری دنیا اس پر متفق ہوگی۔ زمین والے بھی اس انقلاب سے خوش ہوں گے اور آسمان والے بھی اس انقلاب سے خوش ہوں گے۔ اور یہ بہت بڑی بات ہے۔ اب ہمارے پاس جو دستور ہے وہ قرآن ہے۔ یہاں پر اوپر ایک آیت لکھی ہوئی ہے وقال الرسول یا ربی ان قومی اتخذوا ھٰذا القرآن مہجورًا رسول اللہ کی بارگاہ میں قیامت کے دن اپنی قوم سے شکایت کریں گے اور وہ شکایت کیا ہوگی؟۔ کہ میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ اس قرآن کو چھوڑنے کا جو خمیازہ ہے وہ ہمیں فرقہ واریت کی شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اور یہ فرقہ واریت اس کیلئے جو بنیادیں ہیں وہ شیعہ اور سنی جو فرقے ہیں وہ دونوں کی جو فکر ہے وہ الگ الگ ہے۔ قرآن کے اوپر دونوں کا اتفاق ہے۔ پچھلی مرتبہ میں آیا تھا اور حوالے سے کچھ دوست شاید ناراض بھی ہوئے تھے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کے بغیر شیعہ کا تصور ہوسکتا ہے؟ ۔ قرآن کے بغیر سنی کا تصور ہوسکتا ہے؟۔ میں نے1992میں ”عروج ملت اسلامیہ کا فیصلہ کن مرحلہ” کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی اس میں میں نے بریلوی دیوبندی حنفی اہل حدیث شیعہ سنی اتحاد کے عنوان سے میں نے بہت عمدہ تحریرات لکھی تھیں۔ جس کی وجہ سے دونوں مکتبہ فکر کے بڑوں نے ہماری تائید کی۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے اندر بندوق کے زور پر مجھے کہا کہ دو ٹوک الفاظ میں آپ کہو کہ شیعہ کافر ہیں کہ مسلمان ہیں؟ ۔ میں نے کہا کہ اگر میں شیعہ کو کافر کہتا ہوں تو کوئی وجہ تو ہوگی؟۔ تو انہوں نے کہا کہ شیعہ قرآن کو نہیں مانتے ہیں۔ میں نے کہا قرآن کو سنی نہیں مانتے ہیں تو وہ بھی کافر ہیں، شیعہ کو تو چھوڑو۔ شیعہ تو ہیں ہی کافر اگر وہ قرآن کو نہیں مانتے۔ لیکن میں نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤ ، ہم جو درس نظامی میں پڑھاتے ہیں، پہلے ہم آپس میں ملیں شیعوں کے اکابر کو لانا میرا کام ہے۔ وہ قرآن کا انکار نہیں کریں گے نہ کرتے ہیں تو وہ چھپ گئے ۔ پہلے انہوں نے وعدہ کیا پھر وہاں پر ایک ایسی مجلس بنائی گئی جیسے ہم ان کے اوپر حملہ آور ہونے جارہے ہیں۔ وہ بات نہیں ہوسکی۔ سعودیہ کے اندر مجھے ایک شخص نے کہا دونوں علماء معلوم ہوتے تھے اس نے کہا کہ آپ شیعہ تو نہیں ہو؟۔ میں نے کہا کہ میں شیعہ تو ہوں۔ تو میں نے کہا کہ شیعہ سے آپ کو کیا مسئلہ ہے؟۔ بولتا ہے کہ قرآن کو شیعہ نہیں مانتے ہیں۔ میں نے کہا کہ کیا تم مانتے ہو؟۔ بولا کہ الحمد للہ ہم مانتے ہیں۔ دونوں علماء معلوم ہورہے تھے۔ میں نے ان کو کہا کہ ابن ماجہ اٹھاؤ۔ ابن ماجہ انہوں نے اٹھائی میں نے کہا کہ اس کے اندر رضاعت کبیر کا جو موضوع تھا وہ میں نے نکالا کہ10آیات تھیں جو کس کے بارے میں تھیں کہ اگر کوئی شادی شدہ زنا کرے تو اس کو سنگسار کرو اور بڑا آدمی اگر دودھ پئے تو اس کی رضاعت بھی ثابت ہوتی ہے۔ تو10آیات تھیں رسول اللہ ۖ کے وصال کے وقت چارپائی کے نیچے پڑی ہوئی تھیں اور بکری کھا گئی اور ضائع ہوگئیں۔ وہ بڑا پریشان ہوگیا۔ میں نے کہا کہ میں نہ شیعہ ہوں نہ سنی ہوں۔ بولتا ہے کہ ہم بھی نہ شیعہ ہیں نہ سنی ہیں۔ بولتا ہے کہ کس کی کتاب ہے؟۔ یہ جو باتیں ہیں ہم جان پر کھیل کر کرتے ہیں۔ اورالحمد للہ ہر طرف سے ہمیں تائید حاصل ہے اپنے علماء کی بھی تائید حاصل ہے اور اہل تشیع کے علماء کی بھی ہمیں تائید حاصل ہے بہت عرصے سے کررہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب تک ہم ایک دوسرے کو قریب سے دیکھیں گے نہیں سمجھیں گے نہیں افہام و تفہیم کا موقع ہمیں نہیں ملے گا۔ ہمارے ایک اہل تشیع دوست ہیں بڑے عالم ہیں علامہ حسن ظفر نقوی۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے کمال کیا۔ بولتے ہیں کہ اہل تشیع کے خلاف ایسی ایسی عجیب عجیب باتیں بنائی ہوئیں تھیں کہ لوگ ہمیں دیکھتے تھے تو ڈرتے تھے۔ تو میں نے الحمد للہ اس پر بہت کام کیا ہے۔ اب چونکہ یہ جو مجلس ہے یہ امام مہدی کے عنوان سے ہے۔ امام مہدی خلیفہ ہوں گے یا امام ہوں گے؟۔ اہل تشیع اور سنیوں کے نزدیک امام اور خلیفہ میں فرق ہے۔ اہل تشیع کے نزدیک جو امام ہوتا ہے وہ اللہ کی طرف سے منتخب کردہ ہوتا ہے۔ اور سنیوں کے نزدیک جو امام ہوتا ہے اس کو لوگوں نے منتخب کیا ہوتا ہے۔ فرق ہے دونوں میں؟۔ یعنی ایک لوگوں کا انتخاب اور ایک اللہ کی طرف سے۔ سپاہ صحابہ کے بڑے مشہور عالم گزرے ہیں علامہ ضیاء الرحمن فاروقی اس نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ہمارا شیعوں کے ساتھ قرآن پر صحابہ پر کوئی اختلاف نہیں ہے، ہمارا جو اختلاف ہے وہ امامت کے مسئلے پر ہے۔ امام مہدی کے حوالے سے جو بنیادی بات ہے وہ یہ ہے کہ شیعہ سنی دونوں کا عقیدہ یہ ہے کہ ایک شخصیت پر اتفاق ہوگا۔ لیکن اہل تشیع کے نزدیک خدا کی طرف سے منتخب کردہ ہوتا ہے اور اہل سنت کے نزدیک جس کو عوام بنائے وہ خلیفہ اور وہی امام ہوتا ہے۔ اب اللہ قرآن میں کہتا ہے وجاھدوا فی اللہ حق جہادہ ھواجتبٰکم یہ ھواجتبٰکم کا جو لفظ ہے کہ میں نے تمہیں چن لیا ہے میں نے تمہیں منتخب کرلیا ہے اس پر کفر کا اطلاق ہوتا ہے؟۔ نہیں ہوتا۔ شاہ اسماعیل شہید جو شاہ ولی اللہ کے پوتے ہیں ان کی ایک کتاب ”منصب امامت” اس میں دونوںطرح کی خلافت کا مسئلہ بھی لکھا ہے اور امامت کابھی لکھا ہے اور دونوں کی تائید کی ہے۔ لیکن چونکہ ہمارے ہاں کتابوں کا پڑھنے پڑھانے کا رواج نہیں ہے ابھی اللہ کا بہت بڑا شکر ہے کہ سعودیہ اور ایران کی صلح ہوگئی ہے۔ اب اس صلح کے بعد جن لوگوں کو تھوڑے بہت تعاون کا موقع ملے گا وہ اپنا زور کس چیز پر لگائیں گے ؟۔ اتحاد کے اوپر لگائیں گے۔ انتشار کے اوپر زور نہیں لگائیں گے دہشت گردی پر نہیں لگائیں گے۔ یہ بہت زبردست بات ہے یہ بہت خوشخبری کی بات ہے بہترین خوشخبری کی بات ہے۔ ایک ایک مسئلے پر شیعہ سنی میں اتحاد ہوسکتا ہے۔ جب مہدی آخرزمان آئیں گے تو عیسیٰ علیہ السلام بھی ساتھ میں ہوں گے ناں؟ ۔ اس وقت تو عیسائیوں کو یہودیوں کو ہندوؤں کو کسی کو بھی اختلاف نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے ہمارا کیسے اتفاق ہوسکتا ہے۔ حدیث قرطاس کو آپ جانتے ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک ایسی وصیت لکھ کر دیتا ہوں کہ میرے بعد آپ گمراہ نہ ہوں گے۔ حضرت عمر نے کہا کہ ہمارے لئے قرآن کافی ہے۔ اہل تشیع کے نزدیک حضرت عمر کا یہ جو فعل ہے کہ رسول اللہ ۖ نامزد کرنا چاہتے ہیں امام کو لیکن حضرت عمر نے نہیں کرنے دیا ان کو اس بات سے اختلاف کرنے کا حق ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت عمر کو نامزد کردیا اس سے بھی اہل تشیع کو اختلاف کرنے کا حق ہے۔ لیکن میں جو اتحاد کی بات کرنا چاہتا ہوں وہ کیا ہے؟۔ جب حضرت عمر نے قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کو فتح کیا توحضرت علی نے ان کو مشاورت دی کہ نہیں دی؟۔ مشاورت دی اور اس مشاورت کے نتیجے میں جو ان کا مشترکہ فعل تھا، دنیا کی دو سپر طاقتیں تھیں ایک سپر طاقت فارس مشرق کی سپر طاقت تھی اور ایک سپر طاقت روم تھی دونوں کو شکست مل گئی اور اس شکست کی بنیاد کے اوپر جو اسلام من حیث النظام پوری دنیا کے اوپر غالب ہوا۔ جب تک عیسیٰ علیہ السلام نہیں آئیں گے حضرت مہدی تشریف نہیں لائیں گے۔ تو جب حضرت علی کی موجودگی میں ابوبکر ، عمر اور عثمان پر اختلاف رائے کا حق ہونے کے باوجود بھی ایک اتفاق ہوسکتا تھا تو امام کی غیبت کے اندر کیا پوری دنیا کے اندر اُمت مسلمہ میں اتفاق نہیں ہوسکتا؟۔ ہوسکتا ہے کہ نہیں ہوسکتا؟۔(سب نے کہا کہ ہوسکتاہے) دل و جان کے ساتھ ہوگا۔ اور میں آپ کو یہ بتاؤں کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ ”وہ اُمت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کے اول میں مَیں ہوں، درمیان میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ”۔ اب اہل تشیع کی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ جو درمیان کا مہدی ہے اس سے خلافت عباسیہ کے دور کا مہدی بھی مراد ہوسکتاہے۔ اور اہل تشیع کی کتابوں میں لکھا ہے کہ مہدی کے بعد12افراد آئیں گے جن کو حکومت ملے گی وہ بھی اہل بیت میں سے ہوں گے۔ اہل سنت کی کتابوں میں بھی یہ بات موجود ہے مظاہر حق جو مشکوٰة کی شرح ہے اس میں لکھا ہے کہ جو12خلفاء ہیں مہدی کے بعدپانچ افراد حسن کی اولاد سے آئیں گے اور پھر پانچ افراد حسین کی ا ولاد سے آئیں گے آخری فرد پھر حسن کی اولاد سے ہوگا۔ تو وہ جو12کا تصور ہے وہ دونوں کی کتابوں میں موجود ہے۔ اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس پر علماء اور اکابر سنجیدگی سے اس پر کام کریں تو انشاء اللہ پھر اتحاد بھی ہوگا اتفاق بھی ہوگا۔ دیکھو ایک بات آخر میں آپ سے کرنا چاہتا ہوں۔ آج ہندوستان کے علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ گائے کا ذبح کرنا جائز نہیں ہے ہندوستان کے اندر، کیوں اس لئے کہ اس سے ہمارے ہندو بھائی خفا ہوتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ آپ ہندوستان کی بات کرتے ہو ہم پاکستان سے بھی گائے کے ذبح پر پابندی لگادیں گے۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارے لئے بنی اسرائیل کی طرح حکم تو نہیں ہے کہ خواہ مخواہ گائے ذبح کرنا ہے۔ اگر گائے کے ذبح نہ کرنے سے اتفاق پیدا ہوتا ہے تو کرلیں گے۔ اگر تم کہتے ہو کہ آدم علیہ السلام بھگوان تھے ہم تمہارے اوپر کوئی جبر نہیں کریں گے۔ کیونکہ ہمارے قرآن کے اندر لکھا ہے کہ آدم کو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہیں کیا۔ بھگوان کا اگر یہ تصور ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یوسف علیہ السلام کو بھی سجدہ کیا۔ میرا کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم جو مولیٰ کا لفظ ہے جب تک میں مولانا کا لفظ نہیں بولوں تو مولانا ناراض ہوگا۔ تو علی المولیٰ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے۔ ھو مولیٰ کم میںاللہ مولیٰ ہے۔ اور مولانا جو ہے وہ بھی مولا ہے اور علی مولیٰ بھی مولانا ہے۔ تو اس میں کوئی ایسی تضاد والی بات نہیں ہے کہ جس میں آدمی شرک کے کفر کے اور بہت بڑے بڑے اختلافات کے فتوے لگائے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز