پوسٹ تلاش کریں

امام مہدی کانفرنس پر شاہ وزیر کا تبصرہ اور تجزیہ

امام مہدی کانفرنس پر شاہ وزیر کا تبصرہ اور تجزیہ اخبار: نوشتہ دیوار

امام مہدی کانفرنس پر شاہ وزیر کا تبصرہ اور تجزیہ

(نمائندہ خصوصی شاہ وزیر) جامعة الشہید للمعارف الاسلامیہ پشاور میں پہلے بھی عظمت قرآن و حج کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس کا احوال نوشتہ دیوار میں تفصیل سے شائع کیا گیا تھا۔ اس مرتبہ ”امام مہدی علیہ السلام کانفرنس ” میں نسبتاً کم علماء نے شرکت کی۔ کانفرنس کی تفصیل جامعہ کی طرف سے ان کی ویب سائٹ پر نہیں دی گئی ۔علامہ عابد حسین شاکری اور ان کے ساتھی اتحاد کیلئے ضرور کوشاں ہیں لیکن جس جرأت و ہمت کی ضرورت ہے اس سے محروم ہیں۔
میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
سید عتیق الرحمن گیلانی اپنی مصروفیات چھوڑ کر کانفرنس میں دور دراز سے شرکت کرنے آئے مگر ان کو پروگرام کے باقاعدہ آغاز سے پہلے تقریر کی دعوت دی گئی۔ منتظمین کا مقصد یہی تھا کہ دلہنوں کی طرح مایوں میںبٹھائے ہوئے علماء کی آمد سے پہلے گیلانی کا خطاب ختم ہو۔ یہ اسلام کے اعلیٰ اقدار ، پشتو ن روایت اور شیعیت کی روح کے بھی منافی تھا کہ جس نے کانفرنس اور اس کے شرکاء میں مقصدیت کی روح پھونکی اس کو وقت دینا بھی وبال جان لگ رہا تھا۔ یہ رویہ انتظامیہ کیلئے قطعی طور پر بھی مناسب نہیں تھا۔
عتیق گیلانی نے سب سے پہلے قرآن پر متفق ومتحد ہونے کیلئے زور دیا تھا۔ اس بار بھی اس کی وضاحت کردی۔ دوسرا یہ کہ شیعہ سنی کا عقیدہ امامت میں فرق اور اس پر اتحاد ہوسکتا ہے۔ تیسرا یہ کہ جب شیعہ امام کی موجودگی میں خلفاء ثلاثہ پر اتحاد تھا تو مہدی غائب کے ظہور سے قبل سلسلہ امامت و خلافت پر اتفاق ہوسکتا ہے۔ مولوی حضرات فرقہ واریت کو ختم کرنے کیلئے کوئی قدم اٹھانے کے بجائے صرف روزی روٹی کمانے کے چکر میں ہی لگے رہتے ہیں۔
مسلمانوں کیلئے سب سے بڑا اثاثہ قرآن کریم ہے۔ قرآن کے بغیر شیعہ کا تصور ہوسکتا ہے اور نہ سنی کا۔ ایک دوسرے پر قرآن سے انکار کا فتویٰ لگاتے ہیں لیکن جب ان کو قرآن پر متحد ہونے کیلئے افہام و تفہیم کی دعوت دی جاتی ہے تو پھر ان کو کھجلی شروع ہوجاتی ہے، ان لوگوں کو آخرت کی نہیں اپنی دنیا کی فکر ہے۔
جب قرآن کے حوالے سے سنی اور شیعہ کتابوں میں خرافات موجود ہیںتو ان کے خلاف متفق ہونے کیلئے سنجیدہ کیوں نہیں ہورہے ہیں؟۔ عتیق گیلانی نے خاص طور پر شیعہ پر حد سے زیادہ الزام تراشی کرنے والے سنیوں کو نہ صرف اس طرف متوجہ کیا ہے کہ قرآن کے حوالے سے اپنے گریبان میں بھی جھانکو بلکہ یہ سب کے مفاد میں بھی ہے۔ تفصیل سے ویڈیو ضرب حق یو ٹیوب کے چینل(ZARBEHAQ-TV)پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ شیعہ سنی کا دوسرا مسئلہ امامت پر اختلاف ہے۔ یہ بھی عتیق گیلانی نے اپنے اس خطاب میں اچھی طرح سے حل کردیا ہے۔ تیسرا مسئلہ امام مہدی اور بارہ خلفاء یا ائمہ پر اختلاف کا ہے۔ اس پر بھی سید عتیق الرحمن گیلانی نے شیعہ سنی کتابوں سے حوالہ جات دیکر ایک نئی جہت کی طرف متوجہ کیا ہے۔ شیعہ سنی اس خطاب کو بڑے پیمانے پر پھیلائیں۔ جامعہ الشہید پشاور کی انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ نہ صرف اس خطاب کو بلکہ پچھلے سال کے خطاب کو بھی اپنی ویب سائٹ پر دیں۔ اس مرتبہ باقیوں کی تقریر بھی نہیں دی۔
جماعت اسلامی کے نائب صوبائی امیر مولانا اسماعیل نے اپنے خطاب میں ایران کی تعریف کی اور کہا کہ شاید مجھ پر اس محفل والے بعد میں فتویٰ بھی لگائیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اُمت کا زوال چار اماموں سے شروع ہوا ہے ۔ ان کا اختلاف اولیٰ اور غیر اولیٰ پر تھا۔ سب ایک دوسرے کے شاگرد تھے لیکن بعد والوں نے ان کو مسالک اور مذاہب کی شکل دے دی۔ جماعت اسلامی کے ایک تربیت یافتہ طالب علم نے اپنا تعارف کرتے ہوئے سوالوں کے جواب میں لکھا تھا کہ میرا دین اسلام ہے، میرا مذہب بھی اسلام ہے اور میرا کسی فرقے سے تعلق نہیں ہے۔ اُستاذ نے کہا کہ پرچے میں فیل ہوجاؤ گے اسلئے کہ تعارف میں مذہب اور فرقے کا نام بتانا بھی ضروری ہے۔ طالب علم نے کہا کہ مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ میرا کسی فرقے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مولانا اسماعیل صاحب شاید اس بات کو نہیں جانتے کہ جماعت اسلامی نے بذات خود ایک فرقے کی شکل اختیار کرلی ہے۔ جس کا امام مودودی ہے۔ جس کی اپنی تعلیم میٹرک تھی اور دار العلوم دیوبند کے ماہنامہ سے مذہبی فہم حاصل کرکے اپنی جماعت تشکیل دی۔ میاں طفیل محمد ، قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سراج الحق تک جتنے بھی جماعت اسلامی کے مرکزی امیر بنے ان میں کوئی عالم دین نہیں تھا۔ سید منور حسن کو جس بھونڈے انداز میں جماعت اسلامی سے ہٹایا گیا تھا وہ بھی سب کو معلوم ہے۔ چار فقہاء کیساتھ اگر فقہ جعفری کا نام لیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ ان میں اولیٰ و غیر اولیٰ کا اختلاف نہیں ہے بلکہ حلال حرام ، فرض اور غیر فرض سے لیکر قرآن کریم کی اضافی آیات اور احادیث صحیحہ تک اختلافات اور تضادات کی انتہاء ہے۔ اے جاہلوں کے جاہل ! جاہل ہیں علماء تمہارے۔
تفہیم القرآن میں یہ تیر مارا گیا ہے کہ قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہامان کا ذکر کیسے ہے؟۔ جبکہ ہامان تو کسی اور دور کا تھا۔ پھر جواب یہ دیا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں کوئی اور ہامان ہوگا۔اس طرح کی بھونڈی حرکت پر جماعت اسلامی کے لوگوں کو احتجاج کی توفیق بھی نہیں ملتی۔ اسلئے کہ ان کا امام مودودی ہے اور وہ شیعوں سے زیادہ اپنے اس امام کو معصوم سمجھ رہے ہیں۔ شرعی احکام میں جو بنیادی غلطیاں فقہاء نے اپنے اختلافات سے کی تھیں ان کو مولانا مودودی نے مزید وضاحت کیساتھ پیش کرکے گمراہی اُمت پر مسلط کردی ہے۔ بریلوی دیوبندی علماء میں غلطیوں کی نشاندہی پر لچک موجود ہے مگر جماعت اسلامی کے تنخواہ دار ، وظیفہ خوار اور مراعات یافتہ علماء مجبور ہیں۔
دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے اُستاذ نے اپنی تقریر میں ایک طرف مخالفت کی کہ مذہبی عناصر میں تشدد کی روح پھونکی گئی اور دوسری طرف اس تفریق کو غلط قرار دیا کہ افغانستان کے پختونوں کیلئے سرحد کے اس پار جو نظام پسند کیا گیا اس کو اپنے لئے کیوں پسند نہیں کیا جارہا ہے؟۔ بریلوی مکتب کے مولانا محمود الحسن نے بہت پرجوش جاہلانہ انداز میں کہا کہ انبیاء کو اللہ نے مبعوث کیا ہے تو امام کو بھی اللہ مبعوث کرے گا۔ وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر تھا کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں جو اختلاف انصار اور قریش میں ہوا تھا اور پھر اہل بیت اور صحابہ کے اختلاف کی کیا نوعیت ہے؟۔ جب نبی ۖ نے فرمایا کہ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن اور دوسرے میرے اہل بیت۔ (صحیح مسلم)۔ لیکن صحابہ کے دورمیں حضرت علی ، حضرت حسن ، حضرت حسیننظر انداز کئے گئے۔ جنت کے جوانوں کے سرداروں حسن و حسین پر یزید کو ترجیح دی گئی تو موجودہ دور میں کیا کسی حدیث پر عمل کرکے اپنی ترجیحات بدلی جاسکتی ہیں؟۔ شیعہ بیچارے ہمارا ساتھ دینے میں ہچکچاتے ہیں تو مہدی غائب نکلنے کی کیا جرأت کریں گے؟۔
سوشل میڈیا پر سید عتیق الرحمن گیلانی کے اس خطاب کو بہت پسند کیا جارہا ہے جس میں تمام مکاتب فکر کے معتدل اور شدت پسند سبھی شامل ہیں۔ شیعہ سنی اللہ کو بھی مولا کہتے ہیں اور اپنے علماء کو بھی مولانا یعنی ہمارے مولا۔ حضرت علی کو بھی مولا کہنے سے فرق نہیں پڑتا بلکہ نبی ۖ نے فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں علی اس کا مولا ہے۔ مجبوریوں میں اور اپنے مفادات کیلئے ایک دوسرے سے اتحاد کرنا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر قرآنی آیات کی بنیاد پر اتحاد و اتفاق اور وحدت کے رستے پر چلا جائے تو اللہ نے فرمایا ہے کہ وجاہدوا فی اللہ حق جہادہ ھواجتبٰکم ”اور اللہ (کے احکام) میں جدوجہد کا حق ادا کرو اس نے تمہیں منتخب کرلیا ہے”۔ اگر اس آیت پر شیعہ سنی عمل کریں تو نہ صرف خلافت و امامت کے حوالے سے ان کے اختلافات ختم ہوسکتے ہیں بلکہ دنیا میں وہ اپنی امامت کے ذریعے سے اپنا ڈنکہ بھی بجاسکتے ہیں۔ عتیق گیلانی نے ان کو اس طرف توجہ دلائی ہے۔ دار العلوم دیوبند نے فتویٰ دیا ہے کہ ہندوستان میں گائے کی قربانی جائز نہیںہے۔ تاکہ ہندو بھائیوں کی دل آزاری نہ ہو۔ گیلانی نے کہا کہ ہم اتحاد کیلئے پاکستان میں گائے کے ذبح پر پابندی لگادیں گے۔ اگر وہ کسی غیر اللہ کو اپنا بھگوان مانتے ہیں تو قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ آدم کو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہیں کیا۔ اس سے بڑا مولا اور بھگوان کیا ہوسکتا ہے؟۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو بھی سجدے کئے گئے۔
جامعة الرشید میں ایران کے شیعوں کا وفد آیا تو مفتی عبد الرحیم نے اس کا شاندار استقبال کیا۔ جس پر کا لعد م سپاہ صحابہ کے رہنماؤں نے سوشل میڈیا پر ان کی بینڈ بجادی اور کہا کہ کتا مسجد میں آنے سے پاک نہیں ہوجاتا بلکہ نجس ہی رہتا ہے۔ شیعہ شدت پسند بھی اکابر صحابہ کو سوشل میڈیا پر نجس کہنے سے نہیں کتراتے ہیں۔ شدت پسندی کا طوفان روکنے کیلئے حقیقت پسندی سے کام لینا ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کالعدم سپاہ صحابہ کے قائدین، رہنماؤں اور کارکنوں نے صحابہ کرام کی ناموس کیلئے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ لیکن وہ خود بھی ہمیشہ تضاد کا شکار رہے ہیں۔ مولانا حق نواز جھنگوی جمعیت علماء اسلام پنجاب کے صوبائی نائب امیر تھے اور جمعیت کے اسٹیج پر مولانا فضل الرحمن کے سامنے کافر کافر شیعہ کافر کا نعرہ نہیں لگاتے تھے۔ جھنگ سے جمعیت علماء اسلام (ف) کی ٹکٹ پر الیکشن لڑا لیکن مولانا حق نواز جھنگوی نے کہا تھا کہ کوئی شیعہ مجھے ووٹ نہ دے۔ اگر مجھے قتل کیا گیا تو قاتل بیگم عابدہ حسین ہوگی۔ دونوں سیٹوں پر عابدہ حسین نے الیکشن جیت لیا تو اس سیٹ کو برقرار رکھا جس پر مولانا حق نواز جھنگوی شہید کو شکست دی تھی۔ مولانا حق نواز جھنگوی کی شہادت کے بعد مولانا حق نواز جھنگوی کے قائدمولانا فضل الرحمن کیخلاف سپاہ صحابہ نے اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے شیعوں سے اتحاد کیا۔ مولانا ایثار الحق قاسمی اور بیگم عابدہ حسین ایک انتخابی نشان سائیکل پر جھنگ کے دونوں حلقوں سے الیکشن جیت گئے تھے۔ سپاہ صحابہ کے فتوؤں کا رُخ مولانا فضل الرحمن کی طرف ہوگیا تھا کہ کافر کافر شیعہ کافر جو نہ بولے وہ بھی کافر۔ سعودی عرب حکومت کی طرف سے حرم کے حدود میں کافروں کا داخلہ ممنوع ہے مگر شیعہ کو اجازت ہے۔ سپاہ صحابہ کے قائدین مولانا فضل الرحمن کوکافر کہتے تھے کہ شیعہ کو کافر نہیں کہتا لیکن سعودی حکمرانوں کو کافر نہیں کہتے تھے۔ اگر اسلام اور دین کیلئے کوئی قربانی دیتا ہے تو اس میں عقائد کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہوتی۔ سعودی عرب اور مولانا فضل الرحمن میں تفریق عقائد کی بنیاد پر نہیں ذاتی مفادات کیلئے تھی۔ کالعدم سپاہ صحابہ نے اپنوں کو بھی قربان کیا اور دوسروں کے بھی بچے رلائے۔ مفتی عبد الرحیم کا مرشد مفتی رشیداحمد لدھیانوی شیعوں کو کافر کہنے میں اور اپنے اخبار ضرب مؤمن کے ذریعے سے شدت پسندی کو رواج دینے میں پیش پیش تھا۔ جس کے نام پر جامعة الرشید رکھا ہے اس کے کردار پر مفتی عبد الرحیم ایک نشست میں بھی بات کرسکتا تھا۔ جب ایرانی لٹریچر کی وجہ سے صحابہ کرام کے خلاف منظم پروپیگنڈہ کیا جارہا تھا تو سارے علماء کرام کی طرف سے مذمت اور مزاحمت ہورہی تھی۔
کالعدم سپاہ صحابہ سے لشکر جھنگوی نے اور تحریک جعفریہ سے سپاہ محمد نے کوئی بغاوت کی یا نہیں لیکن دہشت گردی کو بہت فروغ دیا تھا۔ لشکر جھنگوی کے ملک اسحاق سے اس وقت ہمارا سابقہ پڑا تھا جب ہم حاجی محمد عثمان کی طرف سے اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے تھے۔ اور ملک اسحاق کو مفتی رشید کی طرف سے تھانہ میں بند کیا گیا تھا۔ مفتی عبد الرحیم کی طرف سے ہمارے ساتھیوں کو نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ جب اعجاز صدیقی وغیرہ نے فریاد کرتے ہوئے اللہ کا نام لیا تو اس پر گٹر کا پانی پلانے کی دھمکی دی گئی۔ میرے اور اعجاز ملتانی کی بھی آنکھوں پر پٹی باندھ کر ساری رات تشدد کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ مولانا اعظم طارق کے سوتیلے والد مولانا زکریا کی پٹائی مولانا سلیم اللہ خان نے سواد اعظم کی تحریک میں لگائی تھی تو اس کا بدلہ لینے کیلئے پہلے مولانا اعظم طارق حاجی عثمان کی حمایت میں مفتی رشید احمد لدھیانوی کے پاس گیا لیکن وہاں سے پتہ نہیں کیا چمتکار یا دلت کار نظر آیا کہ ہمارے خلاف بیان داغ دیا۔ متحدہ مجلس عمل سے لیکر اتحاد تنظیمات المدارس میں شمولیت تک سنی شیعہ اتحاد کوئی پرانی بات نہیں ہے۔ ملی یکجہتی کونسل میں سپاہ صحابہ اور اہل تشیع نے ایک دوسرے پر کفر کا فتویٰ نہ لگانے کے دستخط بھی کئے تھے۔ جب ڈیرہ اسماعیل خان میں ہم سے لڑائی ہوئی تھی تو ہمارا اصل گناہ یہ تھا کہ ٹانک کے اکابر علماء کرام نے ہماری تائید کیوں کی ہے؟۔ قرآن کے مسئلے پر بھی سپاہ صحابہ والے ہم سے بات کرنے کے بجائے چھپ گئے تھے۔ جس کی ایک لمبی تاریخ ہے اور انہیں یاد ہو کہ نہ ہو لیکن ہمیں ایک ایک لمحہ اس کا یاد ہے۔
ہمیں شیعہ اور سپاہ صحابہ سے کوئی مسئلہ نہیں۔ شیعہ نے اپنی اس کانفرنس میں حدیث لکھی کہ ” جس نے اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانا تو وہ جاہلیت کی موت مرا” ۔(حدیث) جب اتنی گنجائش ہو کہ امام پیدا ہوچکے ہیں یا نہیں تو پھر بھی اہل تشیع کے عقیدے پر زد پڑتی ہے۔ لیکن یہ زد نہیں پڑنی چاہیے اسلئے کہ جو امام غیبت کی حالت میں ہوں تو عوام بیچاروں کو بھی قصوروار ٹھہرانا غلط ہوگا۔
جب شیعہ کے نزدیک بھی امام مہدی مسئلے کا حل ہوں اور مفتی محمد رفیع عثمانی کے نزدیک بھی امام مہدی کے ذریعے سے حلال وحرام ، فرض ونافرض اور سب مسائل کا حال معلوم ہوگا تو دونوں کی گمراہی میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ پھر تو نماز میں صراط مستقیم کی ہدایت کی جگہ امام مہدی کے ظہور یا خروج کی دعا کرنی چاہیے۔ جس قرآن کے ذریعے صحابہ واہل بیت نے ہدایت پائی وہ آج ہم نے چھوڑ دیا ہے اسلئے گمراہی میں بھٹک رہے ہیں۔ کسی فرقے میں ذاتی طور پر نیک افراد بہت ہوسکتے ہیں لیکن جب تک قرآن کی طرف رجوع نہیں کریںگے تو یہ گمراہی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ طالبان کے پاس بھی حکومت ہے لیکن وہ ایسا نظام تشکیل نہیں دے رہے ہیں جس سے خلیفہ مقرر کرنے کا فرض ادا ہوجائے ۔ ایران میں شیعہ بھی امام مہدی کیلئے راستہ ہموار نہیں کرتے۔ اختلافات کو چھوڑ کر متحد ہوناپڑے گا۔ جس طرح ولی کی دوقسم ہیں ایک مادر زاد اور دوسرا کسبی یعنی محنت کرکے ولایت تک پہنچتا ہے۔ اسی طرح امام بھی دو نوں طرح کے ہوسکتے ہیں۔ جب تک مادر زاد امام مہدی غائب جو شیعہ کے ہاں ہے نہیں نکلے تو کسی پر اعتماد کرکے دنیا میں اسلام کا سچا پیغام پہنچانا ہوگا۔ اسلام دین فطرت ہے اور اس پر انسانیت کو متحد کرنے میں بھی دیر نہیں لگے گی۔ پاکستان اپنے دور کے خطرناک موڑ سے گزر رہاہے۔ اس میں آرپار کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ مذہبی طبقات مساجد سے عوام کو اسلام کا درست پیغام دینا شروع کردیں تو انقلاب میں دیر نہیں لگے گی۔ سکول ، کالج ، یونیورسٹی اور مدارس کے علاوہ دکانداروں ، ملازمین ، فوجیوں ، پولیس والوں ، سول انتظامیہ ، میڈیا اور سبھی کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیااور سب جگہ سے اسلام سے امید کی کرن نظر آئی۔ شیعہ اور سنی سامعین دل سے مطمئن تھے۔ نوروز میں سب کی آنکھوں میں امید کی چمک پیدا ہوئی۔ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے لیکن جب افہام وتفہیم کی فضاء بنے گی تو اسلام جیت جائیگااور فرقہ واریت کی موت واقع ہوگی۔ صحابہ کرام اور اہل بیت عظام بڑے لوگ تھے اور اپنے کردار سے ان کی عظمت کو نکھار سکتے ہیں۔ اگر قرآن میں انبیاء کرام کے پیچھے پڑجائیں تو گمراہی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئیگا۔ غلطیوں کی جگہ بڑے کردار سے رہنمائی حاصل کرنی ہوگی۔ حضرت آدم کی غلطی سبق سیکھنے کیلئے قرآن میں ہے لیکن پوجنے کیلئے بھی نہیں۔ ہمیں خلافت اور عبدیت کا حق ادا کرنیوالوں کا ساتھ دینے پر بیعت کرنی ہے۔ ہمیں طبقاتی جنگ کو چھوڑ کر ملک وقوم اور ملت و انسانیت کو ایک ونیک بنانا ہوگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز