حقیقی اسلام کے بغیر مسلمان کبھی ہدایت نہیں پاسکتے! اداریہ شمارہ جنوری 2019
جنوری 8, 2019
سعودی عرب ، ایران اور افغانستان میں اسلامی قوانین کے نام پر حکومتوں کا سلسلہ رہا ہے۔ مسلمان یورپ و امریکہ اور برطانیہ و آسٹریلیا میں جس قدر انسانی حقوق رکھتا ہے اس کاتصور بھی سعودیہ و ایران اور طالبان کی اسلامی حکومتوں میں نہیں کرسکتا تھا۔ اسلام کے نام پر بننے والی ریاستوں اور حکومتوں میں اسلام کا جو خول نظر آتا ہے وہ اسلام کی حقیقی تصویر کو پیش کرتا ہے یا نہیں ؟ یہ قابل غور ہے۔
دنیا میں انسانی حقوق کا سب سے پہلا اور آخری علمبردار صرف اور صرف اپنا اسلام ہی تو ہے۔ وہ اسلام جس نے حجاز کے خطے سے نمودار ہوکر دنیا کی دو بڑی سپر طاقتوں قیصرروم اور کسریٰ ایران کی حکومتوں کو شکست فاش دی۔ یہ کارنامہ تو انسانی حقوق کی بحالی کی وجہ سے ہی انجام پایا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کا خاتمہ ہوا تو روئے زمین پر کسی نے ان سپر طاقتوں کی احیاء کیلئے ذرا نام تک نہیں لیا لیکن جب سقوط بغداد سے بنو عباس کی خلافت کا دھڑن تختہ ہوا تو فاتح ترک قوم نے اسلام قبول کرکے دوبارہ خلافت عثمانیہ قائم کردی۔
آخر کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کی خلافت سمٹتے سمٹتے دنیا سے ملیا میٹ ہوگئی اور تاج برطانیہ کے اقتدار نے دنیا کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پھر خطہ زمین پر روس و امریکہ دو سپر طاقت بن کر ابھرے اور مسلم ریاستیں اور حکومتیں آج سرنگوں ہیں ؟، کیا سعودی اور عرب بادشاہتوں میں محنت مزدوری کرنیوالے لوگ اپنے حقوق کو محفوظ سمجھتے ہیں؟۔ کیا مسلمان گھروں کی زینت ، شوہروں کا سکون ، مائیں جن کے قدموں کے نیچے جنت ہے ان کمزور خواتین اور بے بس رعایا کو ہم نے حقوق دے رکھے ہیں؟۔ اللہ کی ذلت اور پھٹکار اسلئے مسلمانوں پر برس رہی ہے کہ وہ خواتین کو انکے حقوق سے محروم کرنے میں دنیا کی سب سے بڑی لعنتی قوم ہے۔ پہلے مشرکین مکہ تھے جن کا قصہ تاریخ کے اوراق تک رہ گیا ہے۔ پھر ہندوستان کی ہندو برادری تھی جو ہمیشہ فاتحین کے قدموں میں روندے گئے اور اب مسلم اُمہ ہے جو دنیا میں آخری حد تک اپنی ذلت و پھٹکار دیکھنے کے باوجود ہوش کے ناخن نہیں لیتی۔ آخر کب تک مسلمان اپنے عروج کی طرف واپس لوٹیں گے؟۔
مسلم سلاطین نے 8 سو برس تک ہندوستان پر حکومت کی مگریتیم بچوں کی ممتا کو زندہ جلانے سے بچانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ جس برصغیر پاک و ہند میں یتیم بچوں کی ماں کو ’’ستی‘‘ کی رسم میں زندہ جلادیا جاتا ہو ، اس میں آزادی کی لہر دوڑانے کیلئے کوئی عظیم سپوت کہاں سے پیدا ہوتا؟۔ جہاں حنفی مسلک نے اپنا ڈیرہ ڈال رکھا تھا اور جب کسی خاتون کا شوہر گم ہوجاتا تو اس کیلئے 80سال تک انتظار کی آگ میں جلتے رہنے کا حکم تھا۔ مولوی طاقتور کے سامنے لیٹ کر بھیگی بلی بن جاتا ہے اور کمزور پر اپنی طاقت خوب جماتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی بیگم جمائما خان نے اسلام قبول کرکے پھر یہودی کلچر اپنالیا مگر کسی مولوی میں اس کے خلاف مرتد اور واجب القتل بننے کے فتوے کی جرأت نہیں ہوئی۔ کسی غریب کی عورت اسلام قبول کرکے مرتد بن جاتی تو اس کا جینا دوبھر کردیا جاتا۔ برطانیہ کا اقتدار تھا تو ایک مسلمان عورت کا شوہر گم ہوگیا تھا، علماء و مفتیان کا فتویٰ تھا کہ وہ حنفی مسلک کے مطابق 80سال تک انتظار کرے گی ۔ اس عور ت نے عیسائیت قبول کرکے اسلام کو چھوڑ دیا ۔ مولوی میں فتویٰ لگانے کی جرأت نہیں تھی تو فتوے کو بدل ڈالا ۔ حنفی مسلک کے بجائے مالکی مسلک پر 4سال تک انتظار کا حکم دیا ۔
فقہی مسالک میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں اختلافات اور تضادات کی بنیادی وجہ قرآن و سنت کے فطری احکامات سے انحراف ہے۔ اسلام نے شوہر کو طلاق کا حق دیا ہے تو پہلے عورت کو خلع کا حق دیا ہے۔ فقہاء نے قرآنی آیت سے مغالطہ کھایا اور بیدہ عقدۃ النکاح ’’جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے‘‘سے مراد یہ لے لیا کہ طلاق کا گرہ صرف شوہر کا حق ہے۔ حالانکہ قرآن نے اس سے زیادہ واضح الفاظ میں نکاح کی نسبت خواتین کی طرف بھی کی ہے و اخذن منکم میثاقاً غلیظاً ’’اور انہوں نے تم سے پکا عہد و پیمان لے لیا ہے‘‘۔ سورہ النساء آیت 19میں پہلے عورت کو شوہر کی جبری ملکیت سے باہر قرار دیکر خلع کا حق دیا گیا ہے اور پھر آیت 20اور 21النساء میں شوہر کو طلاق کا حق دیا گیا ہے۔
شوہر کی گمشدگی کا مسئلہ آیا تو قرآن کی طرف رجوع کرنا تھا۔ عورت کو ایلاء یا ناراضگی پر 4ماہ کا انتظار ہے(سورۂ بقرہ آیت226)اگر پہلے سے طلاق کا عزم تھا تو اللہ کی پکڑبھی ہے جو آیت225 ، 227البقرہ میں واضح ہے، اسلئے کہ عزمِ طلاق کا اظہار کیا تو 4ماہ نہیں3 طہروحیض یا3 ماہ کا انتظار ہے۔جس کی وضاحت آیت 228 البقرہ میں ہے۔ ایک ماہ کا اضافہ اللہ نے جرم قرار دیا تو 80سال اور 4سال کے انتظار کا اجہتاد کونسے باغ کی مولی ہے؟۔جبکہ عدتِ وفات 4ماہ 10دن ہے۔ قرآن نے خاص عمر کے بعد عورت کو کپڑے اتارنے کی اجازت دی کہ جب نکاح کی رغبت نہ ہو۔ پھر زینت کی جگہوں کو چھپانے کا حکم دیا تاکہ کوئی فائدہ اٹھاکر زینت کی نمائش نہ کرتی پھرے۔ ماں کے پیٹ میں نکاح ہو اور شوہر گم ہو تب بھی 80سال بعدعورت نکاح کے قابل نہیں رہتی ہے۔
آج بھارت کی سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ نے طلاق ثلاثہ اور حلالہ کی بنیاد پر مسلم خواتین کے انسانی حقوق کا معاملہ اٹھایا ہے ۔ تطلیقات ثلاثہ کے موضوع پر 4،5، 6نومبر 1973کو اسلاملک ریسرچ سینٹر احمد آباد کی طرف سے ایک سیمینار مولانا مفتی عتیق الرحمن صدر آل انڈیا مجلس مشاورت کی صدارت میں ہوا، جس میں مولانا سعید احمد اکبر آبادی ایڈیٹر ماہنامہ برہان دہلی ، مولانا سید احمد عروج قادری ایڈیٹر ماہنامہ زندگی رامپور، مولانا مختار احمد ندوی صدر جمعیت اہل حدیث بمبئی، مولانا سید حامد علی سیکریٹری جماعت اسلامی ہند، مولانا محفوظ الرحمن قاسمی اُستاذ مدرسہ بیت العلوم مالیگاؤں، مولانا عبد الرحمن مبارکپوری ، مولانا شمس پیرزادہ امیر جماعت اسلامی مہاراشٹرنے شرکت کی۔ یہ کتابی شکل میں ’’ایک مجلس کی تین طلاق‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے ۔ مولانا سید احمد عروج قادری نے ایک ساتھ تین طلاق منعقد ہونے پر زور دیا اور باقی علماء کرام و مفتیان عظام کی رائے ایک ساتھ تین طلاق منعقد ہونے کے بالکل منافی تھی۔ اس سیمینار کو بہت جرأتمندانہ اقدام قرار دیا گیا۔ اسکے بعد ہندوستان کے معاشرے میں ایک تبدیلی کا آغاز ہوا ، اگر اس وقت دوسرے مدعو علماء و مفتیان بھی شرکت کرنے کی جرأت کرتے اور ایک متفقہ قرار داد کے ذریعے سے اس مشکل کا حل نکالا جاتا تو آج ہندوستان کے مسلمانوں کو اتنی ذلت و رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
ہم نے بار بار بہت واضح انداز میں تین طلاق اور حلالہ کے بغیر رجوع کا یہ بہت بڑا اور بنیادی مسئلہ حل کیا ہے اور بڑی تعداد میں علماء کرام ، مفتیان عظام و دانشور حضرات اور عوام الناس کو اچھی طرح سے سمجھ میں آیا ہے لیکن اسکے باوجود بھی بڑے علماء و مفتیان اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے اور مسلمانوں کیساتھ ساتھ اپنے اوپر رحم کھانا چاہیے۔ ہمارا یہ کوئی ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ بہت بڑے رسک پر ہم نے اللہ کے فضل سے مسئلہ اٹھایا۔
لوگوں کی راۓ