اسلام نے14سو سال پہلے غلامی کا تصور ختم کیا تھا
جنوری 7, 2024
اسلام نے14سو سال پہلے غلامی کا تصور ختم کیا تھا
جو فقر ہوا تلخئی دوراں کا گلہ مند اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
عربی میں غلام کو عبد کہتے ہیں اللہ کے علاوہ عبدیت جائز نہیں
اسلام کا سب سے بڑا مشن انسانوں کی انسانوں سے آزادی
عربوں نے رومی و ایرانی عورتوں کو دیکھ کر لونڈی کو جواز بخش دیا
قرآن وسنت میں لونڈی بناناجائز ہے؟۔ ایک طرف داعش نے نکاح بالجہادکا تصور پیش کیا اور دوسری طرف خواتین کو لونڈیاں بناکر بیچ دیا تو گوانتا ناموبے جیسے عقوبت خانوں، افغانستان وپاکستان میں دہشتگردی کے نام پر قتل وغارتگری، عراق ولیبیاکی تباہی کے بعد اسرائیل کے فلسطینیوں کو تباہ کرنے کا جواز فراہم ہورہاہے اور پھر افغان طالبان پر ایٹمی ہتھیار خریدنے کے الزام کی بازگشت معروف صحافی کامران یوسف کی زبانی سنائی دے رہی ہے۔
جنگ کی ہولناکی دیکھنے والے قیامت کا منظر دیکھ چکے ہیں۔ ٹریفک کا نظام بھی دشمنی ، جنگ اور انقلابی جدوجہد میں مارے جانے کے خطرہ سے کم نہیں مگر کچھ حقائق عوام ، علماء کرام اور طلباء عظام کو سمجھنے ہوں گے۔ تاکہ اسلام کی سمجھ دنیا میں بھی عام ہوجائے اور مسلمانوں اور کفار میں اسلام کا احترام بھی آجائے۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا: الدین النصیحہ ” دین خیر خواہی ہے”۔ کیا کسی بھی قوم کی عورت کو لونڈی بنانا خیر خواہی ہوسکتی ہے؟۔ کوئی یہ خیر خواہی نہیں قرار دے سکتا۔ پھر کیا اسلام نے عورتوں کو لونڈی بنانے کی اجازت دی ہے؟۔ نبی کریم ۖ نے فرمایا: ” جنگ میں عورت پر ہاتھ نہ اُٹھاؤ” ۔جب ہاتھ اُٹھانے کی اجازت نہیں تو کیالونڈی بنانے کی اجازت ہوگی؟۔ ہرگز ہرگز بھی نہیں۔ شاہ ولی اللہ نے لکھا ہے کہ نبیۖ نے خیرالقرون کے جن تین ادوار کا ذکر کیا ہے تو ان میں پہلا دور نبی ۖ کا تھا۔ دوسرا ابوبکروعمر اور تیسرا حضرت عثمان کا دور تھا۔ حضرت علی کا دور ان میں شامل نہیں تھا اسلئے کہ اس میںفتنے برپا ہوچکے تھے۔
مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا کہ ” میرے نزدیک پہلا دور نبی ۖ وابوبکر کا تھا اسلئے کہ ابوبکر کے دور میں ذرا سی بھی تبدیلی نہیں ہوئی۔ دوسرا دور عمر اور تیسرا دور عثمان کا تھا”۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ” ابوبکر کے دور میں یمن فتح ہوا تو کسی کو بھی لونڈی نہیں بنایا گیا”۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ”بدعت کی حقیقت” میں لکھا کہ ” صحابہ،تابعین اور تبع تابعین کے تین ادوار خیرالقرون میں جو اعمال مرتب ہوئے درست تھے اور تقلید چوتھی صدی ہجری کی بدعت ہے”۔ مولانا سیدمحمد یوسف بنوری نے اس پر تقریظ لکھی لیکن شاہ ولی اللہ کے خاندان کی شاگردی کے دعویدار کچھ بھی نہیں جانتے ہیں۔
حنفی ومالکی سمجھتے ہیں کہ” 3طلاق بدعت، گناہ اور ناجائز ہیں”۔ کیا نبیۖ کے دور میں یہ بدعت ایجاد ہوئی تھی؟۔ تراویح حضرت عمر کے دور کی بدعت حسنہ کہلاتی ہے۔ ایک ساتھ حج وعمرے کے احرام پر حضرت عمر نے پابندی لگادی تو عبداللہ بن عمر نے کہا کہ ”میرا اپنے باپ پر نہیں نبیۖ پر ایمان ہے”۔ عثمان اور علی میں حج وعمرے کا احرام اکٹھا باندھنے پر جھگڑا ہوا۔ (صحیح بخاری) جب عبداللہ بن عباس سے کہا گیا کہ یہ عمل عمر نے شروع کیا ہے تو ابن عباس نے کہا کہ ”میں نبی ۖ کی بات کرتا ہوں تو تم ابوبکر وعمر کی بات کرتے ہو۔مجھے تعجب ہے کہ تم پر آسمان سے پتھر کیوں نہیں برستے؟”۔ ابوبکر نے جبری زکوٰة وصول کی مگراہل سنت کے چارامام نے مانعین زکوٰة کے خلاف قتال کو جائز نہیں قرار دیا البتہ بے نمازی کو سزا دینے پرعقل کے پروانوں کا کچھ نہ کچھ اتفاق تھا۔ یہی تو وہ اسلام تھا جس کے عنقریب اجنبی بن جانے کی خبر نبیۖ نے دی تھی۔ حضرت عمر کے دور میں شہنشاہ فارس کی صاحبزادیوں کو لونڈیوں کی طرح بیچنے کا حکم ہوا۔ پھر حضرت علی کے مشورے پر ایک عبداللہ بن عمر ، دوسری حسین بن علیاور تیسری محمد بن ابی بکر کے نکاح میں دی گئیں۔ ان کی اولاد آپس میں خالہ زاد تھے۔
ہزار سال سے زیادہ ہواکہ شام کے مشہور عالم ابوالعلاء معریٰ نے لکھا کہ ”اسلام نے لونڈی بنانے کا جواز ختم کیا۔ عربوں نے فارس وروم کی سرخ وسفید عورتوں کو دیکھ کر لونڈی کو جواز بخش دیا”۔ جیسے آج مفتیان اعظم نے سودی نظام کو جواز بخش دیا ہے اور متعہ کو ناجائز کہنے والے حلالہ کا لطف اٹھارہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ قرآن نے شادی شدہ عورت کو پانچویں پارہ کے آغاز پر محرمات کی فہرست میں داخل کیامگر لونڈی بنانا جائز قرار دیا؟۔ والمحصنٰت من النساء الا ما ملکت ایمانکم”اور بیگمات مگر جن سے تمہارا معاہدہ ہوجائے”۔ اس سوال کا جواب دینے کے لئے قرآن کے ان دونوں الفاظ اور جملوں کو قرآن وسنت کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہی قرآن کہتا ہے کہ والمحصنٰت من المؤمنات والمحصنٰت من الذین اوتوا الکتٰب من قبلکم اذا اتیتموھن اجورھن محصنین غیرمسافحین ولامتخذی الاخدان ومن یکفر بالایمان فقد حبط عملہ وھو فی الاٰخرة من الخاسرینO(سورہ مائدہ : آیت5)
جب سورہ مائدہ میں اللہ نے محصنات کیساتھ نکاح کو جائز قرار دے دیا تو پھر سورہ النساء میں کیسے محرمات کی فہرست میں داخل کیا ہے؟۔ محصنات کی تین اقسام ہیں۔نمبر1:پاکدامن بمقابلہ آلودہ ۔نمبر2:شادی شدہ بمقابلہ غیرشادی شدہ۔ نمبر3:محترمہ بیگمات بمقابلہ بے سہارا بیوائیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی بیگم نصرت بھٹو70کلفٹن کی مالک تھی اور شوہر کی وفات کے بعد بھی اپنے شوہر کیساتھ زبردست رشتہ تھا۔ اگر کوئی جیالا یا بھٹو کا دشمن اس کو رشتہ بھیج دیتا تو کتنی زیادہ بری بات ہوتی؟۔محرمات میں باپ کی منکوحہ اور ماں، بیٹی ، بہن سے لیکر دو بہنوں کا جمع کرنا اور پھرمحترمہ بیگمات کی حرمت بیان کرکے بہت کمال کردیاہے لیکن افسوس مسلمان قرآن سے غافل ہیں۔
اگر قرآن کی طرف توجہ دی جائے تونہ صرف مسلمان بلکہ انسان کی عزت ہوگی۔ حضرت عائشہ سے کسی نے نبیۖ کی سیرت کا پوچھا تو فرمایا کہ ”نبی ۖ کی سیرت قرآن ہے”۔ قرآن میں ازواج اور لونڈیوں کے بارے میں کیا احکام ہیں؟۔اس کا صحیح تجزیہ قرآن وسنت کی روشنی میںکب کسی نے کیا ہے؟۔
علامہ غلام رسول سعیدی نے حنفی علامہ بدرالدین عینی کے حوالے سے رسول اللہ ۖ کی28ازواج کا ذکر کیا ۔ جن میں حضرت علی کی ہمشیرہ حضرت ام ہانی اور حضرت امیر حمزہ کی بیٹی بھی شامل ہیں۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے قرآن کی تفسیر اور صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی شرح کئی جلدوںمیں لکھ دی ۔ لندن تک ان کی کتابیں پہنچ چکی ہیں اور دنیا استفادہ کررہی ہے۔
نبی ۖ نے فرمایا کہ ” حمزہ میرے رضائی بھائی تھے اور ان کی صاحبزادی میرے لئے جائز نہیں، وہ میری بھتیجی ہے”۔ تو پھر کس طرح نبی ۖ کی ازواج میں شامل کرلیا؟۔ علامہ بدر الدین عینی نے غلط کیا لیکن علامہ غلام رسول سعیدی نے کیوں نقل کیا ہے؟۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے بڑا کمال کیا تھا کہ ”سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز پر مخالفت میں اپنی رائے دی تھی” اور مفتی تقی عثمانی نے بھی اچھا کیا کہ اپنی کتابوں سے سورہ فاتحہ کا جواز نکالنے کا اخبار میں اعلان کردیاتھا۔ اب مفتی منیب الرحمن نے اپنا فرض ادا کرنا ہے ۔ جاہل پیروں سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہے لیکن اس سے زیادہ نقصان علماء کے غلط علمی معلومات لکھنے سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ ام المؤمنین ام حبیبہ سے نبی ۖ نے فرمایا کہ مجھ پر اپنی بیٹیاں پیش نہ کرو۔ نبی ۖ کی وہ سوتیلی بیٹیاں تھیں۔ جو آپ پر حرام تھیں۔ اگرنبی ۖ کوامیر حمزہ کی بیٹی کی پیشکش ہوئی اور نبی ۖ نے منع فرمایا کہ میری بھتیجی ہے تو پھر اس کو ازواج کی فہرست میں لکھنا کتنا گھناؤنا جرم ہے؟۔
بخاری کا دوسرا مشہور شارح علامہ ابن حجر عسقلانی شافعی ہے۔صحیح بخاری میں ہے کہ نبی ۖ کے پاس لڑکی ابنت الجون باغ میں لائی گئی ۔ کمرے میں نبی ۖ نے کہا کہ خود کو مجھے ہبہ کردو۔ اس نے کہا کہ کیا ملکہ خودکو بازارو کے حوالے کرسکتی ہے؟ نبیۖ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو اس نے کہا کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ نبیۖ نے فرمایا قد عذت بمعاذ جس کی پناہ مانگی جاتی ہے اس کی پناہ مانگ لی ہے اور اس کو دوکپڑے دئیے اورکسی سے کہا کہ اس کو اپنے گھر پہنچادو۔
علامہ ابن حجر عسقلانی نے لکھ دیا کہ ” سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب نبی ۖ سے نکاح نہیں ہوا تھا تو اپنے پاس خلوت میں کیسے بلایا۔ نکاح کے بغیر تو وہ اجنبی تھی ؟ اسکا جواب یہ ہے کہ جب نبی ۖ نے انکو اپنے پاس طلب کرلیا تو یہ نکاح کیلئے کافی تھا، چاہے وہ لڑکی راضی نہ ہو اور اس کا باپ یا ولی بھی اس نکاح کیلئے راضی نہ ہو”۔ علامہ عسقلانی کا سوال و جواب صدر وفاق المدارس پاکستان مفتی تقی عثمانی کے استاذ مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی بخاری کی شرح ”کشف الباری” اور صدر تنظیم المدارس مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کے استاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی بخاری کی شرح ”نعم الباری ” میں بھی نقل کیا۔ نبیۖ کے خاکے بنانے کا اصل سبب یہ علماء ومفتیان ہیں جن کی وجہ سے دنیا نبیۖ سے بدظن ہوگئی ہے کہ صحیح بخاری کی مستند شرح میں کیا آئینہ پیش کیا گیا ہے؟۔
اسرائیل حماس حملے سے عسقلان پر قبضہ سے خائف نہیں بلکہ وہ عسقلانی سے منسوب نبیۖ کی سیرت سے خوفزدہ ہے جس پر اگر مجاہدین کا بس چل جائے تو زبردستی سے لڑکیوں کو ان کی مرضی اور انکے باپ کی مرضی کے بغیر نکاح پر مجبور کرنے کو سنت اور اپنا حق سمجھ لیں۔ مولانا سلیم اللہ خان نے کشف الباری میں مزید تڑکا لگانے کیلئے لکھ دیا کہ ”ایک جاہل عرب نے اپنے اشعار میں کہا کہ عورت کیساتھ ناجائز جبری زیادتی میں جتنا مزہ ہے اتنا رضا سے کرنے میں نہیں ۔میں نے بہت ساری لڑکیوں کو اس حال میں حاملہ بنادیا ہے کہ جب وہ انکار کررہی تھیں اور میں نے زبردستی ان کیساتھ کرلیا”۔
حالانکہ قرآن میں احسن القصص کہانی حضرت یوسف علیہ السلام کی ہے جب زلیخا نے کوشش کی لیکن آپ کو اللہ نے بچایا تھا۔ رسول اللہ ۖ کی سیرت کا یہ قصہ اس سے بھی زیادہ بہترین تھا۔ ابنت الجون کے نومسلم والد نے نبیۖ کو پیشکش کی کہ عرب کی خوبصورت ترین لڑکی نکاح میں دوں؟۔ نبیۖ نے حامی بھری۔ حق مہر طے ہوا۔ ازواج مطہرات نے ابنت الجون سے سوکناہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا میک اپ کیا اور آداب سمجھائے کہ جب نبیۖ یہ کہیں تو یہ کہنا اور پھر اللہ کی پناہ مانگ لینا۔ ہدایات پر عمل کا نتیجہ تھاکہ نبیۖ نے سمجھا کہ وہ خوش نہیں ہے اور باپ نے اپنی مرضی مسلط کرکے بھیج دیا۔ نبیۖ نے یہ معمول رکھا تھا کہ رخصتی کے تمام مراحل سے گزرنے کے باوجود بھی پہلی دفعہ میں مکمل جانچ پڑتال کرتے اور اس معمول کا ازواج مطہرات کو ادراک تھا۔ اگر درست پہلو دنیا کے سامنے لایا جائے تو نبیۖ کے خلاف توہین آمیز کارٹونوں کا سلسلہ بھی یقینی طور پربند ہوجائے گا۔
مولانا فتح خان ٹانک اور پختونخواہ اور جمعیت علماء اسلام کی معتبر شخصیت نے کہا تھا کہ ”مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ جمعیت علماء اسلام میں شمولیت اختیار کرکے اپنے مشن کو تشہیر کریںجو عہدہ چاہیے وہ بھی دیں گے”۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مولانا فضل الرحمن ، جماعت اسلامی، تحریک لبیک اور دوسری مذہبی وسیاسی جماعتیں اسلام کی درست تعبیر اپنے پلیٹ فارم سے خود بیان کرنا شروع کردیں تو عوام میں ان کی گرتی ہوئی ساکھ کو بہت بڑا سہارا ملے گا اور پاکستان سے اسلامی انقلاب کا پوری دنیا میں ذریعہ بھی بن جائے گا۔ مسلم لیگ ن ،پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے علاوہ آزاد ارکان بھی اسلامی تعلیمات کو سمجھ کر عوام سے بڑے پیمانے پر ووٹ لے سکتے ہیں۔ مولانا فتح خان کی مسجد میں مولانا فضل الرحمن نے جمعہ کی تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”لوگ اسلام کو سخت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اسلام تو بہت تحفظ دیتا ہے۔ اگر کسی مرد اور عورت کو بدکاری کی حالت میں ایک شخص دیکھ لے تو اگروہ گواہی دے گا تو اس کو سزا ملے گی اور دوشخص دیکھ لیں اور گواہی دیں تو بھی دونوں کو سزا ملے گی اور تین افراد دیکھ لیں اور گواہی دیں تو تینوں گواہوں کو بھی سزا مل جائے گی اور بدکاروں کو تحفظ ملے گا۔ اس سے زیادہ نرمی اور کیا ہوسکتی ہے ؟۔ اسلئے عوام اسلام کیلئے علماء کو ووٹ دیں”۔
اگر مولانا صاحب یہ وضاحت بھی کردیتے تھے کہ قرآن کا حکم ہے کہ اپنی بیگم کو بھی غیرت کے نام پر قتل نہیں کرسکتے ۔ اگر عورت اپنے شوہر کو جھوٹا کہہ دے تو عورت کو سزا نہیں ہوگی اور اللہ نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ بدکار مرد اور عورت دونوں کوایک سزا100،100کوڑے مارو۔ کچھ لوگوں کو اس پر گواہ بھی بنالو۔ اور اللہ نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ بدکار عورت کا نکاح بدکار مرد یا مشرک سے کرادو۔ اگر زانیوں کو قتل کی سزا دینے کے بجائے ان کی ایک دوسرے سے شادی کرادی جاتی تو مرد غیرت کے نام پر قتل کیلئے مجبور نہ ہوتا اور عورت جس کیساتھ لائن لڑاتی ،اس کی شادی بھی اسی سے کرادی جاتی۔ افغانستان کے طالبان کی بھی مولوی کی جعلی شریعت سے بالکل جان چھوٹ جاتی اور ان کو پوری دنیا میں پذیرائی بھی مل جاتی۔
قرآن اور عربی میں غلام کیلئے عبد اور لونڈی کیلئے ” امة” کا لفظ ہے۔ مشرکوں اور مشرکات کے مقابلے میں مؤمن عبد اور مؤمنہ امة کو قرآن نے بہتر قرار دیا۔ اسی طرح طلاق شدہ و بیوہ خواتین اور غلاموں اور لونڈیوں کا نکاح کرانے کی ترغیب دی ہے۔ کنواری لڑکیوں کو بھی بدکاری یا بغاوت پر مجبوری کی حد تک پہنچانے کے بجائے ان کی مرضی سے نکاح کا حکم دیا ہے۔ لیکن ان آیات کا غلط ترجمہ اور تفسیر کرنے سے قرآنی حکم کا بیڑہ غرق کیا گیاہے۔ شیعہ حسن الہ یاری نے سوشل میڈیا پر بتایا کہ حضرت ابوبکر کے والد چکلہ کے ملازم تھے اور جسم فروشی کے دھندے زمانہ جاہلیت میں رائج تھے۔ حالانکہ جس آیت میں لونڈی کا ترجمہ کیا گیا ہے تو وہاں لونڈی مراد نہیں ہے کہ زبردستی سے بدکاری پر مجبور مت کرو۔ آیات کی جعلی تفاسیر کرنے کیلئے جعلی روایات گھڑی گئیں ہیں۔ جس طرح شیعہ لڑکی دعا زہرہ نے بھاگ کر شادی کی تو اس تعلق کو قرآن اور حنفی مسلک بہت واضح کرسکتا ہے کہ یہ غلط تھا مگر حرامکاری نہیں تھی اور اگر اس کا باپ مجبور کرکے کسی اور سے جبری نکاح کرائے تو یہ بھی غلط ہوگا لیکن اس کو حرام کاری نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس میں دعازہرہ کی مجبوری ہوگی۔ کاش ! ایک ایسا عمل ریاست کی طرف سے ہی ہوجائے کہ پاکستان کے علماء کرام اورطلباء عظام کے سامنے ان چیزوں کی وضاحت ہوجائے۔ نہ صرف ہماری فرقہ وارانہ منافرت ختم ہو بلکہ دنیا میں بھی انسانی حقوق کے حوالے سے اسلام کا بول بالا ہو۔ علماء سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی دکانیں ختم اور مدارس کو ویران کرنے کے درپے ہیں حالانکہ ہماری وجہ سے پھر ان کی عزتوں میں بھی اضافہ اور مدارس بھی آباد ہوں گے۔
قرآن میں ماملکت ایمانکم کا ذکر جہاں ہے وہاں اس کا مفہوم سیاق وسباق سے واضح ہے۔ اس سے کہیں لونڈی وغلام مراد ہیں اور کہیں پر متعہ ومسیار مراد ہے۔
سورہ مائدہ آیت5میں اللہ نے واضح کیا ہے کہ مؤمنات اور اہل کتاب کی محصنات سے نکاح کرناجائز ہے۔سورہ النساء میں جہاں محرمات کی فہرست چوتھے پارہ کے آخر اور پانچویں پارہ کے شروع تک بیان کی گئی ہے تو اس فہرست کے آخر میں دو بہنوں کا اکٹھا کرنا اور پھر محصنات کا بالکل آخرمیں ذکر ہے اور اس سے حرمت میں نرمی کی طرف رہنمائی ہے۔ مولانا مودودی نے ان دو جڑواں بہنوں کو ایک ساتھ جمع کرنے کا فتویٰ دیا تھا جن کے جسم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔
والمحصنٰت من النساء الا ما مالکت ایمانکم کی تفسیر میں اختلاف شروع سے رہاہے۔ بخاری کی شرح میں مولانا سلیم اللہ خان نے اس کا تفصیل سے ذکر کیاہے۔ ایک صحابی نے کہا کہ ” اس سے مراد ایسی عورت ہے جو کسی کے نکاح میں ہو اور وہ اپنے مالک کی لونڈی بھی ہو”۔ لیکن جمہور کا قول یہ ہے کہ” کفار کی عورتیں مراد ہیں جو جنگ میں قید کی جائیں”۔
مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا ہے کہ ” لونڈیوں سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اپنی قوم کی نہ ہوں ۔ اپنی قوم کی4اوردوسری قوم کی لاتعدادعورتوں سے نکاح جائز ہے۔عرب میں عجمی عورتوں کی حیثیت لونڈیوں کی تھی اور ہمارے ہاں دوسری اقوام کی”۔
غرض علماء لونڈیوں کی تعریف اور سورہ النساء کی آیت کے ترجمہ وتفسیر میں تذبذب مذاہب میں گرفتار ہیں۔ قرآن میں ایسے احکام بھی ہیں جن کا تعلق بعد کے ادوار سے ہوسکتا ہے۔
محصنات عربی میں تین معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ایک شادی شدہ جس میں بیوہ اور طلاق شدہ بھی شامل ہے۔ دوسری پاکدامن اور تیسری شادی شدہ۔ کیا شادی شدہ مراد لینے سے اس بات میں عزت نہیں ہے کہ وہ بیگمات مراد لی جائیں جن کی اپنی ایک مسلمہ حیثیت ہو اور وہ اپنی حیثیت برقرار رکھنا چاہتی ہوں؟۔ جیسے نشانِ حیدر کے شہداء کی بیگمات ہیں۔ اس طرح کی دوسری ایسی خواتین ہیں جو اپنا ایک سٹیٹس شوہر کی وجہ سے رکھتی ہیں اور وہ اپنا اسٹیٹس کھونا نہیں چاہتی ہیں؟۔ پھر ان کے ساتھ نکاح کی جگہ ایگریمنٹ کا معاملہ زیادہ مناسب ہوگا جس کی وجہ سے وہ حکومتی مراعات شوہر کی پینشن وغیرہ کو بھی برقرار رکھ سکتی ہیں۔ قرآن میں کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ہے کہ لوگوں کو غلام یا لونڈی بناؤ۔ نبی ۖ نے بھی کسی کو لونڈی اور غلام نہیں بنایا ہے۔ البتہ پہلے ایک ایسا ماحول تھا جہاں لونڈیوں اور غلاموں کی اتنی کثرت تھی جتنی آج فارمی مرغیوں کی ہے۔ اسلئے اسلام نے ان ذرائع کو ختم کردیا جن کی بنیاد پرغلام اور لونڈیاں بنائی جاتی تھیں۔ جنگوں میں تربیت یافتہ لونڈی و غلام کہاں مل سکتے تھے؟۔ البتہ جو لوگ پہلے سے غلام یا لونڈی ہوں تو جنگوں میں ان کو اپنی تحویل میں لینا ممکن تھا۔ کوئی بیوقوف ہی ہوگا جو یہ سوچتا ہوگا کہ نبی ۖ نے بڑا احسان کیا کہ ابوسفیان کو غلام اور اس کی بیگم حضرت ہندکو لونڈی نہیں بنایا تھا۔ یہ ممکن بھی نہیں تھا۔ ایسا غلام اور لونڈی گھر میں کون پال سکتا تھا؟ اور اس سے زیادہ خطرناک بات کیا ہوسکتی تھی؟۔ بدری قیدیوں کو قید رکھا گیا تھا اور ان کو غلام بنانا کہاں ممکن تھا؟۔
مال غنیمت میں جس طرح سے اموال ملتے تھے اس طرح لونڈی اور غلام بھی ملتے تھے۔ البتہ عورتوں، بچوں اور بچیوں کی مجبوری اور تربیت پھر بھی ممکن ہوتی تھی۔ جب صلح حدیبیہ کے بعد کچھ خواتین مکہ سے بھاگ کر مدینہ آئیں اور نبیۖ نے ان کو لوٹانے کے بجائے رکھنے کا فیصلہ کیا تو اللہ نے حکم دیا کہ ان کے حق مہر اور خرچہ وغیرہ ان کے شوہروں کو جاہلیت کے دستور کے مطابق ان کو لوٹادو اور تم بھی کافر عورتوں کو اپنے پاس رکھنے کے بجائے واپس بھیج دو۔ ان کو چمٹائے مت رکھو۔ اگر وہ حق مہر واپس نہ کریں تو بھی در گزر سے کام لو۔ سورہ ممتحنہ کی ان آیات کا ترجمہ بھی درست نہیں سمجھا گیا جس کی وجہ سے غلط تفسیر لکھ دی گئی۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ جانچ پڑتال کے بعد ان خواتین کو واپس مت بھیجو۔ وہ اپنے ان شوہر کیلئے حلال نہیں اور نہ یہ ان کیلئے حلال ہیں۔ جن خواتین نے ہجرت نہیں کی تھی توان کیلئے یہ سوال ہی نہیں تھا۔ حضرت ام ہانی حضرت علی کی بہن نے بھی ہجرت نہیں کی تھی اور وہ مسلمان تھی اور شوہر مشرک تھا۔ حضرت علی نے اسوجہ سے فتح مکہ کے موقع پر اپنے بہنوئی کو قتل کرنا چاہاتھا لیکن پھر ام ہانی کے کہنے پر نبی ۖ نے پناہ دی تھی۔ نبی ۖ نہ ہوتے تو مسئلہ حضرت علی سے بھی بگڑجاتا اور اللہ نہ ہوتا تو سورہ مجادلہ بھی نازل نہ ہوتی۔ جس میں جاہلیت کا مذہبی فتویٰ باطل کردیا گیا۔ اللہ نے نبی ۖ سے فرمایا کہ ان چچا کی بیٹیوں کو تیرے لئے حلال کیا ہے جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ ام ہانی توامہات المؤمنین میں شامل نہیں ہوسکتی تھی پھر علامہ بدرالدین عینی اور غلام رسول سعیدی نے کیوں شامل کیا ؟۔ اللہ نے یہ بھی واضح کیا کہ جو لونڈیاں آپ کو غنیمت میں ملی ہیں وہ بھی حلال ہیں تاکہ ابہام نہ رہے لیکن پھر نبی ۖ کو کسی بھی عورت سے نکاح کرنے کا اللہ نے منع کیا اور پھر الاماملکت یمینک کی اجازت دیدی ۔ ام ہانی کے تعلق کو لونڈی اور نکاح دونوں والا قرار نہیں دیا جاسکتا ہے لیکن ایگریمنٹ ، متعہ اور مسیار ہوسکتا تھا۔ ام ہانی ان محصنات میں شامل تھی جن سے ملکت ایمانکم کی بنیاد پر تعلق ہوسکتا تھا۔
ہمارے ہاں بڑھتے ہوئے معاشرتی مسائل اور فحاشی کے معاملات کو روکنے کیلئے قرآن وسنت کا درست نظام لانا ہوگا۔ اکابر علماء ومفتیان اور دینی ومذہبی جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں سے ان معاملات پر بات کرنے کے ہم خواہاں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں میں جرأت ہو تو ان کو بھی تفصیل کیساتھ بالمشافہہ معاملہ سمجھا سکتے ہیں اور مقتدر طبقے کو بھی سمجھنانے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ قرآن وسنت، اسلام اور مسلمانوں کی ایسی خدمت ہے کہ جس سے ماحول بدلے گا۔ دنیا کو قرآن سمجھنے کی دیر ہے پھر انقلاب ایک دن کا کام ہے۔
ہم نے سن 2018میں جبPTMبن گئی تھی تو تجویز پیش کی تھی کہ پشتون تحفظ موومنٹ کی جگہ مظلوم تحفظ موومنٹ بنایا جائے ۔ آجPTMاور بلوچ ایک ساتھ کھڑے ہیں تو اچھا ہے لیکن یہ سلسلہ مظلوم قومی اتحاد تک پہنچ رہاہے۔ جس کی قیادت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کررہی ہیں۔ بلوچ خاتون نے یہ واضح کیا ہے کہ ہم گلہ شکوہ کرنے نہیں آئے ہیں بلکہ حق مانگتے ہیں اور یہ بالکل درست فیصلہ ہے اسلئے کہ بھیک مانگنے سے کچھ ملتا تو پاکستان پوری دنیا میں خلافت کا نظام قائم کرچکا ہوتا۔
جو فقر ہوا تلخیٔ دوراں کا گلہ مند اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
ہم نے بھی بہت مشکلات دیکھی ہیں۔ فوج نہیں علماء کرام اور تبلیغی جماعت جیسی نرم جماعت کی زیادتیوں کو بھی دیکھا ہے اور فوج و مجاہدین کی تو تربیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ مار دھاڑ پر گزارہ کرتے ہیں۔ ان میں بھی اسلام کی عظیم تعلیمات کی وجہ سے بہت بڑی تبدیلی آسکتی ہے اور مار دھاڑ ختم ہوسکتی ہے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ