پوسٹ تلاش کریں

اسلام نے 1400 سال پہلے ایک عورت کو بے دردی سے قتل ہونے سے بچایا اور زنا کے الزام میں چار گواہوں کو بلایا۔

اسلام نے 1400 سال پہلے ایک عورت کو بے دردی سے قتل ہونے سے بچایا اور زنا کے الزام میں چار گواہوں کو بلایا۔ اخبار: نوشتہ دیوار

اسلام کے خلاف سازشوں کے تانے بانے تلاش کرکے قرآن وسنت کی صاف ستھری تعلیم سے دنیا بھرکے مسلمانوں اور انسانوں کو آگاہ کرناہوگا اور اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو پاکستان پر بڑی مصیبت نازل ہونے کا وقت زیادہ دور نہیں لگتا اور مصیبت کا سامنا سب طبقات ہی کو کرنا پڑتا ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورۂ نور کی ابتدائی آیات میں اس سورة کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ سورة ہے جس کو ہم نے نازل کیا ، اسکو فرض کیا ہے اور اس میں بہت کھلی کھلی آیات ہیں۔ صحیح بخاری میں ایک باخبر صحابی سے دوسرے نئے مسلمان نے پوچھا کہ سورۂ نور میں زنا کی حد نازل ہونے کے بعد کسی کو سنگسار کیا گیا؟۔اس باخبر صحابی نے جواب دیا کہ میرے علم میں نہیں ہے۔ جس طرح پہلے بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھی جاتی تھی ،اسی طرح جب تک اللہ کی طرف سے وحی نازل نہیں ہوتی تھی تو مختلف معاملات میںفیصلہ اہل کتاب کے مطابق کیا جاتا تھا۔بوڑھے اور بوڑھی کے زنا پر سنگساری کا حکم بھی توراة میں تھا۔ لیکن الفاظ ومعانی کی تحریفات نے توراة کو بالکل بے حال کردیا تھا جبکہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا ہے اسلئے کہ قیامت تک وحی اور نبوت کاکوئی دوسرا سلسلہ باقی نہیں ہے۔
البتہ زنا بالجبر اور عورت کو جنسی ہراساں کرنے کی سزا قرآن نے قتل بتائی ہے اور نبیۖ نے اس پر عمل بھی کروایا ہے۔ سورۂ نور سے چند احکام ملتے ہیں۔
(1):زنا کی سزا مرد اور عورت کیلئے100،100کوڑے ہیں۔ اگر قرآن کی اس واضح سزا کو جاری رکھا جاتا تو فحاشی پھیلنے اور پھیلانے کی شیطانی سازش ناکام رہتی۔ اگر سزا معقول ہو تو اس پر عمل درآمد بھی آسان رہتا ہے۔ افغانستان میں اس وقت طالبان برسراقتدار ہیں اور ان کو سورۂ نور کی آیات سے زبردست رہنمائی کی سخت ضرورت ہے۔ قرآن میں سخت یا نرم کوڑے مارنے کی وضاحت نہیں ہے اور حالات وواقعات کی مناسبت سے کوئی ایسی سزا دی جاسکتی ہے کہ جس سے جرائم کی روک تھام بھی ہوجائے اور100کوڑوں کی سزا بھی پوری دی جائے۔ افغانستان کے معاشرے میں مرد اور عورت دونوں کو اس جرم پر یکساں سزا سے مساوات کے تأثرات قائم ہوں گے۔ معاشرے میں مرد شادی شدہ ہو یا کنوارا لیکن اس کو زنا پر کوئی سزا نہیں ملتی ہے لیکن عورت شادی شدہ ہو یا کنواری قتل کردی جاتی ہے۔
مولانا مناظر احسن گیلانی نے ”تدوین قرآن” کتاب لکھی ہے جس کو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے شائع کیا ہے۔ جس میں واضح کیا گیا ہے کہ الفاظ اور معانی کے لحاظ سے الشیخ والشیخة والشیخوخة اذا زنیا فرجموھما کی بات کسی طرح بھی اللہ کا کلام نہیں ہے۔ الفاظ بھی بے ڈھنگے ہیں اورمعانی بھی بے مقصد ہیں۔ جوان شادی شدہ بھی اس کی زد میں نہیں آتے ہیں اور بوڑھے کنوارے بھی اس کی زد میں آتے ہیں۔ ابن ماجہ کی روایت ہے کہ جب نبیۖ کا وصال ہوا تو رجم اور بڑے کی رضاعت کی دس آیات بکری کے کھا جانے سے ضائع ہوگئیں۔
جب ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ پر نبیۖ کی حیات میں بہتان کے واقعہ کی زد میں مخلص مسلمان بھی ملوث ہوسکتے ہیں تو بعد میں روایات گھڑنے سے حفاظت کیسے ممکن ہوسکتی ہے؟ حنفی مسلک کے اہل حق نے من گھڑت حدیث کا سلسلہ روکنے میں بہت بنیادی کردار ادا کیا ہے لیکن بعد والے تقلید کی بیماری میں بدحال ہوکر فقد ضل ضلالًا بعیدًاکے راستے پر چل نکلے ہیں۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے امت مسلمہ کو فقہی اقوال اور روایات کو جبڑوں میں پکڑنے کی عادت سے باز رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا لیکن بعد میں دیوبندی بریلوی اُلجھاؤ کے سبب معاملات سلجھانے کی طرف علماء کرام اور مفتیانِ عظام نہیں جاسکے تھے۔
(2):اگر کسی مرد پر بہتان لگایا جائے تو اس کو اتنا فرق نہیں پڑتا لیکن اگرکسی کی عورت پر بہتان لگایا جائے تو اس سے شوہر اور اس کی بیوی کے علاوہ سارے اقرباء متأثر ہوتے ہیںاسلئے کسی عورت پر بہتان کی سزا بھی80کوڑے مقرر کئے گئے جو زنا کے جرم پر سزا100کوڑے کے قریب قریب ہیں۔ اگر دنیا کے سامنے قرآن کے ان احکام کو اجاگر کیا جائے تو پوری دنیا اس سے بہت متأثر ہوجائے گی۔
(3):اگر شوہر اپنی عورت کے خلاف کھلم کھلا فحاشی کی گواہی دے اور عورت اس کا انکار کرے تو عورت پر جرم کی سزا نافذ نہیں کی جائے گی۔ اسلام نے چودہ سوسال پہلے عورت کو کس طرح بے دردی کیساتھ قتل ہونے سے بچایا تھا اور اس کی گواہی بھی جرم کے ثبوت میں اس کے شوہر سے زیادہ مؤثر قرار دی تھی لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ لعان کے اس حکم پرعمل کے حوالے سے صحابہ کرام کے ایک دوہی واقعات ہیں اور پھر ان پر تاریخ میں کوئی عمل نہیں ہوسکا ہے۔ کیا صحابہ کرام سے زیادہ ہمارے دور کے لوگ غیرتمند ہوسکتے ہیں؟۔ نہیں نہیں، ہرگز نہیں۔ حلالہ کی لعنت کیلئے مدارس کی دارالافتاؤں میں لائن لگانے والے لوگ کیسے غیرتمند ہوسکتے ہیں؟۔
جب طلاق کے حوالے سے بار بار رجوع کی وضاحتوں کے باوجود بھی عوام کو حلالہ کی لعنت کا شکار بنایا گیا اور طلاق کے حوالے سے واہیات قسم کے مسائل گھڑ لئے گئے تھے تو باقی معاملات کو کیسے سمجھا جاسکتا تھا؟۔ قرآن میں اصل معاملہ حقوق کا ہے۔ جب عورت خلع لیتی ہے تو بھی اس میں فحاشی اور پاکدامنی کے حوالے سے حقوق کا نمایاں فرق ہے ۔ جب شوہر طلاق دے تو بھی اس میں فحاشی اور پاکدامنی کے لحاظ سے حقوق کا نمایاں فرق ہے۔ سورۂ النساء آیات19،20اور21میں خلع اور طلاق میں حقوق کا بنیادی فرق بھی ہے اور فحاشی کے حوالے سے بھی فرق ہے۔
جب مسلمانوں کو قرآن میں خلع اور طلاق کے بنیادی حقوق میں فرق کا بھی پتہ نہیں ہوگا تو باقی باریکیاں کون اور کیسے کوئی سمجھائے گا؟۔ ہم نے اپنی ناقص عقل اور ہکلاتی ہوئی زبان سے مسائل سمجھانے کی بہت کوشش کی ہے اور اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں بلکہ اللہ کے کلام میں فصاحت اور بلاغت کا ہی بہت بڑا معجزہ ہے مگر بڑے علماء ، دانشور اور حکومت وریاست کے کارندے بات سمجھ کر بھی ہمارا ساتھ دینا نہیں چاہتے ہیں اور ہماری طرف سے بھی کوئی طاقت اور زبردستی نہیں ہے۔
جب خلع وطلاق کے حوالے سے مسلمانوں میں کوئی عمل درآمد تو بہت دورکی بات اس کو سمجھنے کی کوشش بھی نہ کی جائے اور بھوکے گدھے اور خچر کے سامنے تیار خوراک رکھی جائے تو بھی اس میں دلچسپی نہ لیتے ہوں تو کیا کیا جاسکتا ہے؟۔ جب امریکہ و مغرب میں مجرموں اوربے گناہوں کے درمیان مساوی حقوق کے قوانین بنائے گئے تو انکے سارے معاشرتی اقداربھی بہت تیزی سے زوال کیطرف گئے۔ اب یہ قانون بھی بن گیا کہ شوہر اپنی گرل فرینڈ اور بیوی اپنے بوائے فرینڈ کو گھر میں اپنے ساتھ بھی رکھ سکتے ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ مجرم وبے گناہ کے یکساں حقوق ہیں۔
قرآن میں عورت کو خلع کی صورت میں تمام منقولہ اشیاء ساتھ لے جانے کا حق ہے لیکن غیرمنقولہ جائیداد سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ فحاشی کی صورت میں بعض لے جانے والی اشیاء سے بھی عورت کو اس کا شوہر محروم کرسکتا ہے۔ طلاق کی صورت میں تمام منقولہ وغیرمنقولہ دی ہوئی اشیاء میں کوئی چیز بھی مرد نہیں لے سکتا۔ کیا سورۂ النساء کی ان تین آیات پر مسلمانوں نے کبھی عمل کیا ہے؟۔ اگر کوئی نام نہاد فتوے کے ذریعے سے حلالہ کی لعنت اور بے غیرتی تک جاسکتا ہے تو عورت کو اس کا حق خلع اور طلاق کی صورت میں کیوں نہیں دے سکتا ہے؟۔ لیکن دینے کا رواج بھی نہیں ہے اور آگاہی بھی نہیں ہے اور قانون بھی نہیں بنایا گیا ہے۔ جبکہ مغرب کی طرف سے خلع اور طلاق کا فرق مٹاکر یکساں قوانین بنائے گئے اور فحاشی وغیر فحاشی میں بھی کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے اور قرآن کے یہ قوانین دنیا سے پوشیدہ ہیں۔
لعان کی صورت میں ایک طرف عورت کو سزا سے بچت ہوگی، دوسری طرف وہ بعض مالی حقوق سے محروم ہوگی۔مالی فوائد کیلئے اپنی بیگم پر بہتان کی جسارت سے شوہر کا بھی سارا کردار تباہ ہوگا۔ قرآن میں اتنا فطری توازن ہے کہ اگر ساری دنیا کو بھی قوانین بنانے کیلئے بٹھادیا جائے تو اس سے بہتر قوانین نہیں بنائے جاسکتے ہیں اور جمعیت علماء اسلام اور تحریک لبیک پاکستان کے قائدین اور رہنماؤں سمیت ہر ایک سے ہماری یہ استدعا ہے کہ آئندہ کا الیکشن قرآن میں دئیے گئے قوانین و حقوق کو اپنے اپنے منشور کا حصہ بناکر عوام کے سامنے پیش کیا جائے تو عوام زیادہ ووٹ دیں گے۔ طاقت کے حصول کیلئے مداری کی طرح کردار نہیںاداکرنا چاہیے۔
(4):بہتان لگانے کے حوالے سے چار گواہ کی بات الگ ہے اور زنا کے ثبوت کیلئے چار گواہ کی بات الگ ہے ۔ حضرت اماں عائشہ صدیقہ پر بہتان کے جوکردار تھے ،وہ بالکل الگ تھے اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف تین اور چار گواہوں کی بات بالکل دوسری تھی۔ افسوس کہ کم عقل مفسرین اور علماء ومفتیان نے ان دونوں واقعات کو ایک ہی جگہ نقل کرکے بہت سخت غلطی کی ہے۔صحیح بخاری وغیرہ میں بھی حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے واقعے کا ذکر ہے لیکن اس کا پسِ منظر بالکل مختلف تھا۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور کی آیات میں یہ واضح کردیا کہ کوئی غیور شخص اپنے نکاح میں کسی بدکار عورت کو رکھنے کا کوئی تصور نہیں کرسکتا ہے۔ ایمان اور اسلام کا دائرہ اس معاملہ میں بہت واضح ہے کہ خبیث عورتیں خبیث مردوں کیلئے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کیلئے ہیں۔طیب مرد طیب عورتوں کیلئے ہیں اور طیب عورتیں طیب مردوں کیلئے ہیں۔ زانی مردنکاح نہیں کرے گا مگرزانیہ عورت یا مشرکہ سے اور زانیہ کا نکاح نہیں کرایا جاتا مگر زانی مرد یا مشرک سے اور یہ مؤمنوں پر حرام کیا گیا ہے۔
ایام جاہلیت میں بھی کوئی عورت کسی دوسرے مرد کیساتھ پکڑی جاتی توان کا آپس میں نکاح کرادیا جاتا تھا۔100کوڑوں کی سزا کے بعد انکا آپس میں نکاح کرایا جائے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ عورت ذات میں اللہ تعالیٰ نے شوہر کی غیرموجودگی میں بھی اپنی عزت کی حفاظت کا زبردست مادہ رکھا ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ایک عورت بھی بگڑ جائے تو معاشرے کو بگاڑنے میںاپنا کردار ادا کرتی ہے اسلئے اللہ نے یہ حکم بھی جاری کیا ہے کہ اگر چار افراد اس کی کھلی ہوئی فحاشی میں مبتلاء ہونے کی خبر دیں تو اس کو اس وقت تک گھر میں رکھا جائے جب تک اللہ اس کیلئے کوئی راستہ نہ نکال دے۔ راستہ یہی ہوسکتا ہے کہ جس سے غلط تعلقات رکھے تھے وہ اس سے نکاح کرنے پر آمادہ ہوجائے۔ یا100کوڑوں سے اس کو جرم سے باز رکھنے میں مدد دی جائے ۔ علماء کرام اوردانشوروں کی ایک ٹیم کو آیت کی تشریح کیلئے غور وتدبر اور مشاورت سے کام لینا ہوگا۔ میرا کام صرف توجہ دلانے تک ہے۔
(5):مستقل ڈھٹائی کے ساتھ بدکاری کے دھندے اور کبھی وقتی طور پر بدکاری کے ارتکاب میں بھی فرق ہے۔ الذین یجتنبون کبائر من الاثم و الفواحش الا المم ” اور جو لوگ اجتناب کرتے ہیں ، بڑے گناہوں اور فواحش سے مگر کچھ دیر کیلئے (ان سے بڑے گناہ اور فواحش کا ارتکاب بھی سرزد ہوجاتا ہے)”۔ حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے حوالے سے تین افراد نے جس طرح کی گواہی دی تھی اور چوتھے نے جن الفاظ میں ذکر کیا تھا، اس سے بڑے گناہ اور فحاشی کا تصور نہیں ہوسکتا تھا مگر یہ ایک مستقل دھندہ نہیں تھا بلکہ کچھ ہی دیر کا معاملہ تھا البتہ اس پرقانون سازی میں مختلف فقہی مذاہب نے بہت بڑی غلطی کی ہے اور احناف پھر بھی دوسروں سے حق کے کچھ قریب ہیں لیکن صرف اس حد تک کہ حضرت عمرپر قرآن کو ترجیح دی ہے۔
جب حضرت عمر کے سامنے چار افراد حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف گواہی دینے پہنچے تو حضرت عمر نے پہلے کی گواہی سن کر منہ بنایا۔ دوسرے کی گواہی سن کر مزید پریشان ہوگئے اور تیسرے کی گواہی سن کر پریشانی کی انتہاء نہیں رہی۔ چوتھے گواہ کے آتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ اللہ اس صحابی کو اس کے ذریعے سے ذلت سے بچائے گا اور جونہی وہ چوتھا گواہ اپنی گواہی دینے لگا تو حضرت عمر نے بہت زور سے چیخ اور دھاڑ مارکر کہا کہ بتاؤ ! تیرے پاس کیا ہے؟۔راوی نے کہا کہ وہ اس قدر زور کی دھاڑ تھی کہ قریب تھا کہ میں بیہوش ہوجاتا۔ پھر چوتھے گواہ زیاد نے کہا کہ میں نے اور کچھ نہیں دیکھا، اس کی سرین (چوتڑ) دیکھی اور یہ دیکھا کہ عورت کے پاؤں اسکے کندھے پر گدھے کے کانوں کی طرح پڑے ہوئے تھے۔ وہ ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیںلے رہا تھا اور عورت کو لپٹایا ہوا تھا۔ یہ سن کر حضرت عمر نے فرمایا کہ بس گواہی ادھوری ہوگئی اور باقی تین گواہوں کو جھوٹی گواہی پر80،80کوڑے لگا دئیے۔ پھر حضرت عمر نے پیشکش کردی کہ اگر تینوں نے کہہ دیا کہ ہم نے جھوٹی گواہی دی تھی تو آئندہ ان کی گواہی قبول کی جائے گی ۔ ان میں ایک صحابی حضرت ابوبکرہ تھے جس نے یہ پیشکش مسترد کردی اور دوسرے دو گواہ صحابی نہیں تھے دونوں نے اس پیشکش کو قبول کرلیا۔ امام ابوحنیفہ کے مسلک والوں نے اپنے زریں اصول کے تحت حضرت عمر کی پیشکش کو غلط قرار دیا اسلئے کہ قرآن میں جھوٹی گواہی دینے والوں کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ ان کی گواہی کبھی قبول نہیں کی جائے گی۔ جبکہ توبہ کو قبول کرنے کا تعلق آخرت کیساتھ ہے۔ اور باقی تین مسالک کے پیروکاروں نے حضرت عمر کی پیشکش کو درست قرار دیا اور ان کے نزدیک دائمی گواہی قبول نہیں کرنے کا تعلق توبہ نہ کرنے کی صورت سے ہے۔
یہ واقعہ اسلئے پیش آیا تھا کہ انسان بہت کمزور ہے اور بصرہ کے گورنر سے ایک غلطی ہوگئی۔ اگر حضرت عمر اشدھم فی امر اللہ عمر کے مصداق رہتے یا غلو سے بچنے کیلئے وحی کا سلسلہ ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ حضرت عمر نے اپنے کنوارے بیٹے کو بھی زنا کی سزا میں آدمی بدل بدل کر ایسے کوڑے مروائے تھے کہ وہ فوت ہوگئے اور پھر لاش پر بقیہ کوڑے پورے کئے گئے۔ سورۂ نور کی آیات نازل ہونے سے پہلے سنگساری کے حکم پر عمل کرتے ہوئے نبیۖ کو دیکھا تھا اسلئے یہی اصرار تھا کہ شادی شدہ کو زنا پر سنگسار کیا جائے گا لیکن جب مغیرہ ابن شعبہ کا معاملہ آیا تو پیروں سے زمین نکل گئی۔ اس واقعہ سے ایک نقصان یہ ہوا کہ زنا کی حد پر عمل کا تصور ختم ہوگیا لیکن فائدہ یہ ہوا کہ سنگساری پر عمل کرنے کی بات بھی ختم ہوگئی۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر نبیۖ سے فرمایا ہے کہ توراة میں یہود نے تحریف کی ہے اور جو آپ کے پاس قرآن ہے یہ تحریف سے محفوظ ہے۔ اور یہ کہ ” اگر وہ اپنا فیصلہ قرآن سے کروانا چاہیں تو ٹھیک ورنہ ان کی کتاب سے بھی ان کا فیصلہ نہیں کرنا ہے اسلئے کہ اس کے ذریعے سے جو آپ کے پاس ہے اس سے بھی فتنہ میں ڈال دیں گے”۔ حضرت علی کی طرف یہ منسوب ہے کہ وہ کہتے تھے کہ اگر مجھے مستحکم حکومت مل گئی تو اہل کتاب کے فیصلے ان کی کتابوں کے مطابق کروں گا” ۔ اگر حضرت علی ایک مستحکم اقتدار کے مالک بن جاتے تو پھر سنگساری کا وحشیانہ حکم بھی کم ازکم اہل کتاب پر تو نافذ رہتا لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ بھی منظور نہیں تھا۔ آج یہود اور نصاریٰ کیلئے قرآن کی آیات کے احکام قابلِ قبول ہیں لیکن توراة کے نہیں ہیں۔
آج سورۂ نور کے مطابق شرعی حدود، مساوات، شرعی پردے اور عورت کے حقوق و آزادی کے درست تصورات سے ہماری دنیا بدل سکتی ہے لیکن کاش بدلیں!

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

جب سُود کی حرمت پر آیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سُود قرار دے دیا تھا
اللہ نے اہل کتاب کے کھانوں اور خواتین کو حلال قرار دیا، جس نے ایمان کیساتھ کفر کیا تو اس کا عمل ضائع ہوگیا
یہ کون لوگ ہیں حق کا علم اٹھائے ہوئے