پوسٹ تلاش کریں

اسلامی معاشی نظام ۔ محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری کے قلم سے

اسلامی معاشی نظام ۔ محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری کے قلم سے اخبار: نوشتہ دیوار

اسلامی معاشی نظام ۔ محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری کے قلم سے

سرمایہ دارانہ واشتراکیت میں اسلام کا معاشی نظام میزان عدل ؟
سرمایہ داری یا عیش پرستانہ وہ معاشی نظام ہے جو امریکہ و یورپ اور اسلامی ممالک میں ہے

جس کا مقصد وحید یہی ہے کہ ساری دنیا کی دولت کو اپنے خزانوں میں سمیٹ لیں اور عیش و نشاط کے سارے وسائل اور اللہ کی دی ہوئی نعمت پر چند تاجروں اور بینک کے حصہ داروں کا قبضہ ہو

بیشک یہ صحیح ہے کہ اشتراکی نظام عام انسانوں کے پیٹ بھرنے کیلئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن اس کی یہ تفریط ہے کہ انسانوں کو صرف پیٹ سمجھا اور اسی مسئلے کو دنیا کا اہم ترین مسئلہ بنادیا ہے۔

دنیا کے دماغوں پر اشتراکیت کا مسلط ہونا اس کا حسن و جمال یا اس کا کمال نہیں ہے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی وہ نفرت انگیز قباحت ہے جس نے اشتراکیت اور اشتمالیت میں کمال پیدا کیا۔

اسلام کا معاشی نظام:: محدث العصر حضرت علامہ سیدمحمد یوسف بنوری
اسلام کے مدمقابل اس وقت دونظام مملکت یا نظام معیشت ہیں، جو ساری دنیا کو دو حصوں میں بانٹ چکے ہیں۔ نظام اسلام یا دین اسلام وہ قدیم نظام ہے ،جس کا سرچشمہ غارِ حرا سے نکل کر آگے سمندر بن گیا اور اب تک دنیا کو اپنے فیض سے سیراب کررہا ہے۔ اسلام صرف مادی نظام نہیں ،بلکہ وہ ایک مکمل ترین پیغام الٰہی ہے ،جو قرآن کی شکل میں نمودار ہوا اور نبی کریم محمد مصطفیۖ کی صورت میں جلوہ گر ہوا۔ عقلائے عالم کا دلوں سے، زبانوں سے ،کتابوں سے اور اخبارات سے اس کا اعتراف ہے کہ قرآن کریم جیسا مکمل نظامِ حیات اور ذاتِ مصطفی محمد رسول اللہ جیسا کامل ترین رہنمائے انسانیت پیدا نہیں ہوا۔اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ حق تعالیٰ کا آخری پیغام نجات ہے۔ ہردور، ہر ملک اور ہرقوم کے لئے اس میں ہدایت و فلاح ہے اور سعادت دارین کا بھی سرچشمہ ہے۔ مادی وروحانی، شخصی واجتماعی، اقتصادی ومعاشی ، سیاسی وملکی ضرورتوں کا کفیل ہے۔ اور اس کا دامن ایسے بیش بہا جواہرات سے پُر ہے کہ ساری دنیا کی تہی دامنی کے افلاس کا علاج اس کے خزانۂ عامرہ سے ہوسکتا ہے۔ ایک ایسا صالح نظام جو بنی آدم میں عدل وانصاف ، سکون وراحت اور معاشی خوشحالی پیدا کرتا ہے۔ اس کو ایسا ہادی برحق ۖ لایا جس نے اس پر خود عمل کیا اور کروایا اور ایسے چند جانشین چھوڑے جوانکے صحیح نمونہ تھے۔اور تاریخ عالم ان مبارک عہدوں کو عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے نام سے یاد کرتی ہے۔
اسلام نے جس سرزمین میں آنکھیں کھولیں ،وہاں اخلاقی پستی اور مذہبی تزلزل کیساتھ معاشی پستی انتہاء درجے کی تھی۔ سیاسی اعتبار سے انارکزم وطوائف المکوتی کا دور دورہ تھا۔ دائیں بائیں دوسرمایہ دارانہ نظام مملکت تھے۔ ایک بیزنطی روما کی حکومت ، دوسری ایرانی کسروی مملکت ، ان میں عیش ونشاط وترفہ وتنعم ، مال ودولت کی فراوانی کا چرچا تھا۔ان دونوں نظاموں کے اندر صرف اسلام نے ایک نقطۂ اعتدال پیدا کیا ۔ جس طرح اسلام کا نظام حکومت ڈکٹیٹر شپ اور ڈیموکریسی کی درمیانی حد اوسط ہے۔ ٹھیک اسی طرح نظام معیشت میں ایک صراط مستقیم رکھتا ہے، جو افراط وتفریط دونوں سے پاک ہے۔اشتراکیت یاسوشلزم کارل مارکس ولینن وغیرہ کے نظام معیشت ہیں، جن میںاب تک محو واثبات کا عمل جاری ہے۔ ماسکو اس کا مرکز ہے اور دنیا پر چھارہاہے اور دنیا میں شاید کوئی ایسا ملک نہ ہوگاجہاں اس کے ہم نوا نہ ہوں۔ سرمایہ داری یا عیش پرستانہ حکومت وہ معاشی نظام ہے جو امریکہ ویورپ کے اکثر ممالک میں جاری ہے اور موجودہ اسلامی ممالک میں بھی یہی نظام ہے۔ جس کا مقصد وحید یہی ہے کہ ساری دنیا کی دولت کو اپنے خزانوں میں سمیٹ لیںاور عیش ونشاط کے سارے وسائل واسباب پر قبضہ کرلیںاور اللہ کی دی ہوئی نعمت کو صرف چند تاجروں، زمین کے مالکوں، بینک کے حصہ دار وں اور فیکٹریوں کے مالکو ں میں محدود کرکے انہیں کے پیٹ کو بھریں، ان کی بلا سے عام خدا کی مخلوق کسی حالت میں ہو۔ در حقیقت اس سرمایہ دارانہ ذہنیت نے سوشلزم کوپھولنے اور پھلنے کا موقع دیا۔ دنیا کے دماغوں پراشتراکیت کا مسلط ہونا اس کاحسن وجمال یا اس کا کمال نہیں ہے، بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی وہ نفرت انگیز قباحت ہے، جس نے اشتراکیت اور اشتمالیت میں کمال پیدا کیا۔
بیشک یہ صحیح ہے کہ اشتراکی نظام عام انسانوں کے پیٹ بھرنے کیلئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن اس کی یہ تفریط ہے کہ انسانوں کو صرف پیٹ سمجھااور اسی مسئلے کو دنیا کا اہم ترین مسئلہ بنایااور اس کو اس قدر اہمیت دی کہ مذہب واخلاق، تمدن وتہذیب ، صلح وجنگ،دنیا کے سارے وقائع وحوادث کی بنیاد اسی پیٹ پر رکھی گئی۔ بلاشبہ ہم مانتے ہیں : ”ان الانسان لیطغٰی ان راٰ ہ استغنٰی ”یقینا انسان جب مالدار بنتا ہے تو سرکش بنتا ہے۔دولت کی طغیانی سے نبی کریمۖ نے پناہ مانگی ہے اور ایک موقع پر نبی کریمۖ نے فرمایا” خدا کی قسم مجھے تمہارے فقروافلاس کا اندیشہ نہیں لیکن یہ خطرہ ضرورہے کہ مال ودولت کی فراوانی تمہارے لئے ایسی ہوگی جیسے تم سے پہلے لوگوں میں ہوئی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس میں تم بھی منہمک ہوجاؤگے، جیسے وہ ہوئے وہ تمہیں بھی تباہ وبرباد کرے گی جیسے وہ تباہ وبرباد ہوگئے۔ (بخاری،کتاب الجہاد)مال کی فراوانی بہت سی گمراہیوں کی جڑ ہے لیکن اسلام نے مال حلال کو اللہ تعالیٰ کا فضل بتایا، صحیح ذرائع سے حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے۔ عین حج بیت اللہ کے موقع پر بھی تجارت پر پابندی نہیں لگائی کیونکہ سعی وکسب کے بغیر کوئی مسلمان زندہ ہی نہیں رہ سکتا ، لیکن اسلام اور قرآن کی رو سے جو شخص جتنا زیادہ کمائے گا ، اتنا ہی زیادہ انفاق پر بھی مأمور ہوگا،اسلئے افراد کی کمائی جتنی بڑھتی جائے گی ، اتنی ہی زیادہ جماعت کی اجتماعی خوشحالی ہوتی جائے گی۔ بہرحال اسلامی قانون سے جتنا زیادہ مالدار ہوگا ،اتنے اس پر زیادہ حقوق ہوں گے، اتنی ہی اس کی مشغولیت بڑھ جائے گی۔
اسلام کا معاشی نظام :
برادرانِ اسلام! جہاں تک اسلام کے معاشی نظام کا تعلق ہے ،اس مختصر خطبہ میں اس کی گنجائش نہیں۔ اس وقت صرف اسلامی نظام معاش کی بنیادی پالیسی کو پیش کیا جاسکتا ہے ، جس کے پیش نظر اسلام کے معاشی نظام کی تفصیلات ہیں اور توقع ہے کہ اس کی وضاحت سے بڑی حد تک اسلام کا پورا معاشی نظام روشنی میں آجائے گا۔
اسلام کی معاشی پالیسی:
اسلام کی معاشی بنیادی پالیسی یہ ہے کہ سوسائٹی کا کوئی فرد اس معاشی سرو سامان اور ضروریات زندگی سے محروم نہ رہے، جسکے بغیر عام طور پر انسان کا زندہ رہنا مشکل ہواور جو حقوق وفرائض اس پر واجب ہوتے ہیں،اُن سے عہدہ برا ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو، نیز عدل کی بنیاد پر ہر شخص کیلئے معاشی لحاظ سے ترقی کے تمام راستے کھلے ہوئے ہوں ۔اسلام کے نزدیک یہ چیز بالکل باطل ہے کہ سوسائٹی کے بعض افراد کے پاس توسامان معیشت ضرورت سے کہیں زیادہ ہو لیکن دوسروں کے پاس اتنا بھی نہ ہو جو جسم وروح کے تعلق کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے، ایک طرف دولت کی فراوانی وبہتات ہو ، عیش ونشاط کی محفلیں قائم ہوں۔ ساز وسرود ، جنگ ورباب سے فرصت نہ ہو۔ دوسری طرف افراد نان شبینہ کیلئے محتاج ہوں۔ نہ بدن ڈھانکنے کیلئے پارچہ موجود ہو ، نہ سر چھپانے کیلئے چھپر ہو،یہ طبقاتی آسمان وزمین کا تفاوت اسلام پسند نہیں کرتا، اسلام ہرگز نہیں چاہتا کہ دولت کی گردش صرف قوم کے چند اغنیاء کے قبضہ میں محدود ہوکر رہ جائے، باقی سب محروم ہوں، بلکہ اس کا منشاء تویہ ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں ایک صحیح توازن سے ہو۔ تاکہ تمام افراد نفع حاصل کرسکیں۔ : ”کیلا یکون دُولة بین الاغنیاء منکم ”میں اس طرف اشارہ بلکہ تصریح ہے۔ایسا نہ ہو کہ اغنیاء تو مزیں لوٹیں اور فقراء ومساکین فاقوں سے مریں۔
اسلام یہ جائز نہیں رکھتا کہ ملک کے تمام ذرائع آمدنی اور مواقع کار صرف چندافراد کی اجارہ داری میں ہوںاور وہ جس طرح چاہیں ان سے فائدہ اٹھائیں اور دوسرے افراد یکسر ان سے محروم ہوں۔ اسلام کے نظریہ کے مطابق سوسائٹی کے ہر فرد کو اس کی صلاحیت اور فطری قابلیت کے مواقع فراہم ہوںکہ اپنی محنت یا خدمت سے ایسا معاوضہ حاصل کرسکے، جس سے اس کی ضروریات زندگی سادے طریقے سے پوری ہوسکتی ہوں اور جیسے جتنا جس کاکام ہو اس کے مطابق اس کو اس کامعاوضہ ملے۔اسلام اس مساوات کا قائل نہیں کہ دنیا کا اعلیٰ ترین دماغ اپنی خداداد دماغی کاوشوں اور فطری صلاحیتوں سے جو چیز حاصل کرسکے، ایک دیوانہ بے وقوف بھی اسی درجہ کا اس میں شریک ہو۔ قدرت نے اپنی تکوینی حکمت ربانیہ کے مطابق جس طبعی تفاوت اور تفاضل رزق کو باقی وبرقرار رکھا ہے درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری ہوگی۔ اس لئے فرمایا:” اللہ فضل بعضکم علی بعض فی الرزق فما الذین فضلوا برآء دی رزقھم علی ما ملکت ایمانھم فھم فیہ سوآء افبنعمة اللہ یجحدون ”۔ ترجمہ :” اللہ تعالیٰ نے بعض افراد کو بعض پر روزی میں بڑائی دی، پس جن کو بڑائی دی وہ نہیں لوٹاتے اپنی روزی ان کو جن کے یہ مالک ہیں( اپنے غلاموں اور باندیوں کو ) کہ وہ سب اس میں برابر ہوجائیں، کیا اللہ کی نعمت کے منکر ہیں”۔
جو افراد محنت و کمانے سے معذور ہیں، بچے ہیں، بوڑھے ہیں، مریض ہیں اور ان کے پاس ضروریات زندگی کیلئے مال موجود نہیں، ان کا انتظام وکفالت حکومت کے بیت المال سے کیا جائے ۔ الغرض اسلام کا منشاء یہ ہے کہ معاشرہ کے ہر فرد کو تمام مادی چیزیں بقدر ضرورت میسر آئیں ،جن کے بغیر اس کی زندگی مشکل ہویا فرائض و حقوق کی ادائیگی سے عاجز ہو۔ اس مقصد کے اسلام نے جو معاشی اصول مقرر کئے ہیں،اگر ان کو مکمل طور پر عملی شکل دی جائے تو نہایت معتدل ومتوازن معاشی نظام وجود میں آتا ہے جس میں مذکورہ بالا تمام اوصاف پائے جاتے ہیں۔ یہاں پر مناسب ہوگا کہ ان میں چند ایک نہایت اہم بنیادی اصول پیش کئے جائیں، جن سے اندازہ لگ سکے گا کہ ان پر عمل کرنے سے معاشی مشکلات کیسے حل ہوسکتی ہیں۔
الف…….قدرت نے کائنات کے اس نظام میں جو منافع رکھے ہیں، وہ انسان کوان سے برابر منتفع ہونے کا برابر حق دیتے ہیں، کسی انسان کو ان سے محروم نہیں کیا جاسکتا ۔ قرآن کی متعددآیات سے یہ مفہوم واضح ہوتا ہے۔
ب……. کوئی شخص اگر ان قدرتی منافع کو اپنے تصرفات میں لائے اور اس کے ساتھ اپنی محنت وکسب کے اثرات قائم کرے تووہ اس کا مالک بن جائے گا۔ اس کی اجازت یا رضامندی کے بغیر دوسرے کو صرف کا حق نہ ہوگا۔ جب انسان کسی چیز کا مالک بن جاتا ہے تو اس سے یہ حق حاصل ہے کہ عطیہ، ہبہ، تبادلہ وغیرہ کا دوسرے کو مالک بنائے۔ بہرحال اسلام ملکیت وانتقال ملکیت کے اصول کو مانتا ہے۔ جس طرح انسان ان قدرتی چیزوں میں تصرف کرکے مالک بن جاتا ہے اسی طرح وہ زمین ، فیکٹری وغیرہ کا بھی مالک ہو سکتا ہے۔
ج ….کوئی شخص کسی کاروبار میں محض سرمایہ کی بنا پر جبکہ اس کیساتھ کوئی دماغی و جسمانی محنت نہ کرتا ہو اور اسکا وہ سرمایہ ہر قسم کے نقصان سے محفوظ ہو، اس سرمایہ سے انتفاع کا مستحق نہیں ہوسکتا اوراس قسم کا انتفاع اسلام کی نظر میں سود ہوگا اور اسلامی نظام میںسود قطعاً حرام ہے۔ سرمایہ عام ہے کہ وہ چاندی وسونے وسکہ کی شکل میں ہو یا بلڈنگوں، مشینوں اور زمینوں کی شکل میں ہو ۔ ہاں ! اگر اس میں ضرر کا خطرہ ہے یا نقصان وتغیر یقینی ہے اور استعمال سے وہ حیثیت نہیں رہے گی تو اس پر انتفاع جائز ہوگا۔ کرایہ داری، اجارہ وغیرہ بہت سے تجارتی اور آمدنی کے وسائل میں انتفاع اس اصول کے پیش نظر جائزہوگا۔ الغرض صرف ”سرمایہ ” دولت حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بن سکتا ہے ۔ اسلام کا یہ ایک بنیادی اصول ہے، جہاں اسلام اور موجودہ سرمایہ داری نظام کے ڈانڈے الگ ہوجاتے ہیں۔ سرمایہ داری نظام کے پیش نظر سرمایہ دولت کمانے کا ذریعہ ہے ، جس طرح چاہے وہ دولت حاصل کرسکتا ہے۔اسی بنیاد پر ”سود” کی حرمت اور ممنوع ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا، زیادہ سے زیادہ سود کی شرح زیر بحث آسکتی ہے ۔ اس نظام کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک شخص بیٹھے بٹھائے کروڑوں کا مالک بن سکتا ہے جہاں دوسرے کوڑی کیلئے محتاج نظر آتے ہیں۔ بلاشبہ افراد کیلئے یہ پابندی اشتراکیت بھی لگاتی ہے ، لیکن حکومت اور اسٹیٹ سرمایہ کو بغیر محنت وکسب دولت، مالا مال کا ذریعہ بنائے تو بناسکتا ہے۔ یہیں سے اشتراکیت اور اسلام کے راستے الگ ہوجاتے ہیں۔اسلام کے نزدیک افراد اور حکومت کیلئے ایک ہی قسم کا اصول ہے لیکن اشتراکی یہاں اکثر افراد و حکومت میں فرق کرکے سرمایہ داری نظام سے متفق ہوجاتا ہے۔در اصل مشکلات اسلامی نظام کے فقدان نے پیدا کردی ہیں۔ ان مختصر اشاروں سے یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ معاشی مشکلات کا صحیح حل اگر ہے تو صرف اسلامی نظام میں ہے۔اشتراکی نظام میں معاشی حل ہے لیکن ناتمام پیٹ کا مسئلہ بھی اسلام اشتراکیت سے زیادہ بہتر طریقہ پر حل کرتا ہے۔ اگر مسلمان حکومتیں اسلامی نظام ہی پر عمل نہ کریں یا نہ سمجھیں تو یہ قصور حکمرانوں کا ہے، نظام اسلام کا نہیں ۔ رہا توحید ورسالت و آخرت کایقین ، مابعد الطبیاتی زندگی و حقائق پر ایمان لانا، اخلاق وعبادات کا وسیع تر نظام،مخلوق کا خالق سے رشتہ جوڑنا، روحانی نعمتوں کا کیف حاصل کرنا، فرشتہ سیرت انسان بننا، خدا کی مخلوق کیلئے اخلاقی ومعاشرتی لحاظ سے خدا کی رحمت بننا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصب خلافت کا حق ادا کرنا،ان حقائق سے اشتراکیت کا دامن خالی ہے۔ اشتراکیت یہاں آکر بالکل مفلس ہے۔ اس کے پاس ان حقائق کے حصول کیلئے کوئی وسیلہ نہیں ، خود حیران وپریشان ہے، چوراہے پر کھڑا منزل مقصود کے صحیح راستہ کا کوئی علم اس کے پاس نہیں ۔
برادرانِ ملت وعزیزان محترم ! یہ ہے اسلام اور یہ ہیںغیر اسلامی نظام۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسلمان بنایا ہے۔اسلام کی نعمت سے سرفراز فرمایا اور ایک اعلیٰ ترین نظام حیات عطا فرمایا ہے اور ہر قسم کے خزانے عطا فرمائے ہیں۔ ان نعمتوں کو ٹھکراکراعداء اسلام ودشمنان دین کے دروازوں پر جاکردریوزہ گری کرنا کہاں کی غیرت ہے؟کہاں کا انصاف ہے؟کیا عقل سلیم کا یہی تقاضا ہے۔ آؤ ! ہم تم آج سے عہد کرلیںکہ صحیح اسلام کیلئے جان توڑ کوشش کریں،جو نظام فلاح دارین کا صحیح ذریعہ ہے وہ حاصل کریں۔
ماہنامہ بینات کراچی اشاعت خاص بیاد حضرت مولانا عطاء الرحمن شہید
رجب المرجب ١٤٣٣ ہجری ، جون2012عیسوی
جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ سید محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی
اسلام کا اجنبیت کے سفرکی بڑی داستان
حضرت ابوطالب کی وفات ہجرت سے پہلے ہوئی تھی۔ حضرت عباس بدر کی جنگ میں دشمنان اسلام کے ساتھ قیدی بن گئے تھے۔ غزوہ بدر میں مشرکین مکہ کی طرف سے حضرت ہندہ کے بھائی ، باپ اور چچا نے مسلمانوں کو سب سے پہلے چیلنج کیا تھا۔ جن کے مقابلے میں نبی ۖ نے اپنے دو چچا امیر حمزہ ، حارث اور علی کو میدان میں اتارا۔ تینوں مشرک مسلمانوں کے ہاتھوں جہنم واصل ہوئے اور پھر مشرکوں کی ہمت ٹوٹ گئی،70مارے گئے اور70پکڑے گئے۔حضرت ہندہ نے اسلئے غزوہ اُحد میں حضرت امیر حمزہ کے کلیجے کو چباڈالا تھا۔ فتح مکہ کے وقت نبی ۖ نے حضرت ابو سفیان کو عزت بخشی تو ہندہ نے نبی ۖ سے عرض کیا کہ پہلے دنیا میں سب سے زیادہ برا آپ کا چہرہ لگتا تھا اور اب مجھے سب سے زیادہ محبوب آپ کا چہرہ ٔ انور لگتا ہے۔ حضرت امیر حمزہ کو شہید کرنے والے وحشی بھی سچے پکے مسلمان ہوگئے۔ اگر خلافت راشدہ کے بعد بنو اُمیہ کی امارت میں واقعہ کربلا کا سانحہ پیش نہ آتا تو حضرت وحشی کی طرح یزید کو بھی بھول جاتے۔
نبی ۖ نے امیر معاویہ کو ہادی اور مہدی بننے کی دعا دی تھی۔ قبول ہوئی تھی یا نہیں ؟ ۔ مگر حضرت امیر معاویہ کے دور کو خلفاء راشدین مہدیین کے دور میں شمار نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ حضرت عمر بن عبد العزیز بعد میں آئے لیکن ان کو مہدی اور ان کے دور کو خلافت راشدہ کے مطابق رشد و ہدایت کا دور کہا جاتا ہے۔
نبی ۖ نے حضرت ابن عباس کو بھی قرآن کی تاویل سمجھنے کی دعا دی تھی اور حضرت ابن عباس نے فرمایا تھا کہ ”قرآن کی تفسیر زمانہ کرے گا”۔ سورہ حج کی آیت ”اور ہم نے نہیں بھیجا کسی رسول اور نبی کو مگر جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے اس کی تمنا میں اپنی بات ڈال دی۔ پھر اللہ تعالیٰ شیطان کے ڈالے ہوئے کو مٹادیتا ہے اور اپنی کتاب کے احکام کو استحکام بخش دیتا ہے” ۔ابن عباس نے اس کی تفسیر میں لکھا کہ ”سورہ نجم نازل ہوئی تو شیطان نے نبی ۖ سے آیات میں لات منات اور عزیٰ کی توقیر اور شفاعت کے قابل ہونے کی بات کہلوائی”۔یہ حدیث مستند سمجھ کر بہت سارے معتبر مفسرین نے نقل کی ہے اور جنہوںنے اس کا انکار کیا ہے انہوں نے اس آیت کی کوئی قابل فہم تفسیر نہیں لکھی۔ ابن عباس کی یہ تفسیر مشرکین مکہ کے جھوٹے پروپیگنڈے کا نتیجہ تھا۔ جب سورہ نجم میں پہلی بار سجدے کی آیت نازل ہوئی اور اچانک نبی ۖ نے سجدہ کیا تو مشرکین نے بھی سجدہ کیا۔ بعد میں شیطانی آیات کا اپنی خفت مٹانے کیلئے جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جو مشرکین کے دل و دماغ میں سچ سمجھ کر بیٹھ گیا۔ فتح مکہ کے بعد جو لوگ مسلمان ہوئے انہوں نے سچ سمجھ کر ابن عباس کے دل و دماغ میں ڈال دیا۔ جب سورہ مجادلہ نازل ہوئی تو نبی ۖ کے دل و دماغ میں تمنا تھی کہ حلالہ کی لعنت سے بھی عوام کی جان چھوٹ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ اور سورہ طلاق میں حلالہ کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ جب اسلام اجنبی بن گیا تو شیطان نے نبی ۖ کی تمنا کا خون کرکے اپنی بات فقہاء کے دل و دماغ میں ڈال دی۔ سورہ حج کی آیت کی یہی تفسیر ہے۔ پہلے جب کسی نبی و رسول کی تعلیم کو تحریف کا نشانہ بنایا جاتا تو اللہ نئے کلام کے ذریعے سے شیطانی القاء کو مٹادیتے تھے۔نبی ۖ کی تمنا میں تو شیطان نے رخنہ اندازی کی ہے لیکن اللہ نے اپنے کلام کی حفاظت کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے اسلئے قرآن کے احکام بھی بالکل محفوظ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ۖ کی بعثت سے دین حق کو تمام ادیان پر غلبہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ وعدہ نبی کریم ۖ کے بعد خلافت ، امارت اوربادشاہت کی صورت میں1924تک ایک سپر طاقت کی طرح موجود تھا لیکن افسوس کہ اس کا فائدہ اٹھا کر قرآنی احکام کے مطابق مسلمانوں نے تسخیر کائنات کا فلسفہ نہیں اپنایا۔ حالانکہ ان کے پاس دنیا کے سب سے بڑے اور عظیم سائنسدان تھے۔ یہ لالے سلطنت عثمانیہ کے خلفاء ساڑھے چار ہزار لونڈیاں رکھنے کے ریکارڈ قائم کررہے تھے۔ اور مغل بادشاہ اپنی بیگم کی یاد میں تاج محل بنارہے تھے۔ دنیا نے تسخیر کائنات کیلئے جدید ترین یونیورسٹیاں قائم کیں اور اپنے اقتدار کے ذریعے نہ صرف وسائل پر قبضہ کیا بلکہ جاپان پر ایٹم بم تک گرادئیے۔ اب جب مسلمان کھانے کو ترس رہے ہیں اور جو بھی ان کو خود کش کیلئے بھرتی کردے تو دلوں میں پوری دنیا کو فتح کرنے کا سودا سمایا ہوا ہے۔ عرب پہلے بھی فارسیوں اور رومیوں سے طاقتور نہیں تھے لیکن ان کا معاشرتی ، معاشی اور سیاسی نظام سب سے بہترین تھا۔ اسلئے قیصر و کسریٰ کی سپر طاقتوں کو تہبند پہننے والے عربوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ اگر صرف آج دنیا میں عورت کے حقوق اور اسلام کے معاشرتی مسائل کو شیطانی تمناؤں سے پاک کرکے دنیاکے سامنے پیش کیا جائے تو بعید نہیں ہے کہ جمہوری بنیادوں پر پھر ووٹ کے ذریعے سے اسلامی خلافت قائم ہوجائے۔ عورت صنف نازک کو اسلام نے برابری کے حقوق نہیں دئیے بلکہ ان کو بہت زیادہ اضافی حقوق دئیے ہیں لیکن شیطان نے مذہب کا روپ دھار کر اسلام کے نام پر عورت کے ساتھ وہ سلوک کیا ہے جو دورِ جاہلیت میں بھی نہ تھا۔
اسلام نے مزارعت کو سُود قرار دے کر نہ صرف جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی بیخ کنی کی ہے بلکہ مادر پدر آزاد سوشلزم کا راستہ بھی روکا ہے۔ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نے جس معاشی نظام کا نقشہ پیش کیا ہے آج ان کے اپنے مدرسے سمیت سب سرمایہ داری نظام کے آگے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ اگر سُود کو علماء و مفتیان کے فتوؤں کے مطابق شریعت کی بنیاد پر جائز قرار دیا تو کیا یہ اُمت کی تقدیر بدلنے کا باعث ہوگا؟۔ اگر اسلام کے معاشرتی نظام کو قرآن اور احادیث صحیحہ سے پیش کیا جائے تو فرقوں ، مسالک، گروہوں اور جماعت بندی کے سارے حربے ملیامیٹ ہوجائیں گے۔ ہم نے اس کیلئے مجبوری میں ایک منظم جماعت بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اُمید ہے کہ ہمارے ساتھ ملکر تمام مکاتب کے علماء و مفتیان اور عوام الناس بہت بنیادی کردار ادا کریں گے۔32سالوں سے ہمارے مخلص ساتھی اپنی مدد آپ کے تحت جس تحریک کا بوجھ اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ ہماری تائید کرنے والے اپنے کردار سے عوام میں اس عظیم مشن کو پھیلانے میں شانہ بشانہ شریک ہوں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 5)
عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 4)
عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 3)