پوسٹ تلاش کریں

ڈیرہ بگٹی، چولستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں پینے کا پانی نہیں شرم کا مقام ہے کہ رات کا وقت آتا ہے تو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف جلسے کرتی ہیں۔ عوامی ورکرز پارٹی کے ہردلعزیز رہنما کامریڈ عاصم سجاد اختر

ڈیرہ بگٹی، چولستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں پینے کا پانی نہیں شرم کا مقام ہے کہ رات کا وقت آتا ہے تو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف جلسے کرتی ہیں۔ عوامی ورکرز پارٹی کے ہردلعزیز رہنما کامریڈ عاصم سجاد اختر اخبار: نوشتہ دیوار

ڈیرہ بگٹی، چولستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں پینے کا پانی نہیں شرم کا مقام ہے کہ رات کا وقت آتا ہے تو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف جلسے کرتی ہیں۔ عوامی ورکرز پارٹی کے ہردلعزیز رہنما کامریڈ عاصم سجاد اختر

ابھی گرمیوں میں پانی نہیں تو سردیوں میں کیا عالم ہوگا؟ جہاں جنگل ہوتا تھا وہاں پہاڑ بالکل ننگا نظر آئیگا۔ یہ کیوں ہے دوستو! یہ قدرتی آفات نہیں ہیں، یہ انسانوں کا بنایا ہوا نظام ہے۔

اسکے پیچھے ہوس ، منافع خوری ، طاقت ہے، تمام تر آنے والی نسلوں کا بھی حق اور روزگار مارنے کا یہ نظام ہے۔کبھیPTIکی ڈگڈگی کے پیچھے چل پڑتے ہیں …

عوامی ورکرز پارٹی کے ہردلعزیز رہنماکامریڈ عاصم سجاد اخترنے اسلام آباد پریس کلب میں ایک مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نعرہ:جبFWOاورNLCقبضے کرتے ہیں (جواب: دھرتی کا دم گھٹتا ہے۔ )۔ نعرہ: جب لوٹ مار کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ (جواب: دھرتی کا دم گھٹتا ہے )۔ یہاں پر ایک عجیب منظر ہے میں نے کبھی اتوار کے روز دیکھا نہیں ہے۔ایک طرف آپ کو سامراجی جنگ کا شکار عوام یہاں پر تقریباً پچھلے30دن سے پڑے ہوئے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔دوسری طرف ہمارے مذہبی لوگ بھی ہیں لیکن بہرحال وہ بھی ایک سامراجی جنگ کا حوالہ دے کر فلسطین کے عوام کے حوالے سے مظاہرہ کررہے تھے۔ چلو اچھی بات ہے وہ تھوڑا سا دور چلے گئے ہیں اب ہمیں ایک دوسرے کو سننے کا موقع ملے گا۔ لیکن کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ساری چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ ہمارے حلقوں میں بھی کئی لوگ ایسے ہوں گے جن کو لگتا ہوگا کہ یہ جو ماحول کی بات ہورہی ہے یہ بس ایک درخت لگانے کی بات ہے تھوڑا سا پلاسٹک استعمال نہ کرنے کی بات ہے۔ یا پانی کی قلت کی بات ہے۔ یہ ساری سیاسی اور معاشی باتیں ہیں۔ اور یہ سارے اس عالمی نظام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جس کے ساتھ ہم جکڑے ہوئے ہیں۔ جسکو آپ سامراج کا نام بھی دے سکتے ہیں، بقیہ صفحہ 2نمبر1پر

  بقیہ نمبر1… کامریڈ عاصم سجاد اختر

سرمایہ داری کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ یہاں پر فوجی قبضے کا نام دے سکتے ہیں۔ اس میں کئی کئی شاخیں ہیں اس کی کئی کئی قسمیں ہیں۔ کئی کئی اس کی علامتیں ہیں۔ کسی نے کہا کہ قیامت یا جہنم یہاں پر کھڑے کھڑے آسمان پر آپ دیکھیں کہ کوئی دھوپ نظر نہیں آرہی لیکن40ڈگری یہاں پر موسم ہے اور آندھی چل رہی ہے۔ اور پچھلے مہینے سے آپ چولستان جائیں ، آپ ڈیرہ بگٹی جائیں، آپ سندھ کے ساحلی علاقوں میں جائیں ، لوگوں کے پاس پینے کا صاف پانی تک نہیں ہے۔ یعنی کہ جدید ریاست ہے ہمارے حکمران ایک دوسرے کیخلاف شرم کا مقام ہے کہ رات کا وقت آتا ہے تو جلسے کرتے ہیں ایک دوسرے کے خلاف۔ کوئی لندن جاکر ہدایت لے کر آرہا ہوتا ہے لیکن کسی کو اس چیز سے غرض نہیں ہے کہ آپ ڈیرہ بگٹی جائیں وہاں پینے کا پانی میسر نہیں ہوتا ہے… آپ ساحلی علاقوں میں جائیں ہزاروں سال سے ماہی گیر جو ہیں جن کا تاریخی روز گار ہے وہاں پر ہم بڑے بیرونی ٹرالروں کو ٹھیکے ضرور دے سکتے ہیں لیکن وہاں پر مقامی ماہی گیروں کے روزگار کی ہمیں تھوڑی سی بھی پرواہ نہیں ہے۔یہاں پر گوادر پورٹ کی بڑی خوبصورت تصویروں کے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلتے ہیں لیکن وہاں پر مقامی لوگوں کی حالت کسی کو پتہ ہو تو ان کی طبیعت صاف ہو کہ یہ کونسی ترقی ہے؟۔ روڈ کٹتے ہیں پہاڑ کاٹے جاتے ہیں سونے پر سہاگہ گلگت بلتستان میں ہمیں ہر روز کبھی عمران خان کہتا ہے تو کبھی شہباز شریف کہتا ہے کہ وہاں پر جاکر ٹور ازم کریں۔ کیا ٹورازم کریں؟ وہاں پر آئے روز سیلاب آتا ہے پل کے پل گرجاتے ہیں ، گلیشئر دربدر پگھلتے چلے جارہے ہیں اور پھر بھی مائننگ کے کانٹریکٹرز اور منافع خور جن کے سب سے زیادہ خاکی والے ان کی بس ہی نہیں ہوتی کہ پہاڑ کاٹتے چلے جاتے ہیں کان بناتے چلے جاتے ہیں اور گلیشئر پگھل رہے ہیں۔ اور آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ یہاں پر یہ جو بچے ہیں کہ اس ملک کا تمام پانی ، پانچ کے پانچ دریا کا جو پانی ہے اور اوپر سے لے کر کراچی تک دریائے سندھ کے خاتمے تک پانی آتا ہے وہ تمام کا تمام گلگت ، بلتستان اور کشمیر کی پہاڑیوں سے نیچے اتر کر آتا ہے۔ اور وہ پانی گلیشئر پگھلنے کی نتیجے میں جب یہاں سردیوں میں پانی کا سیزن نہیں ہوتا تو وہی پانی ہمیں پینے کیلئے بھی سہولت فراہم کرتا ہے اور زراعت میں بھی۔ لیکن آپ دیکھیں کہ اس گرمیوں کے موسم میں گلیشئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ابھی گرمیوں میں پانی نہیں ہے تو سردیوں میں کیا عالم ہوگا؟۔ اس کی مثالیں ان گنت ہیں۔ کئی مثالیں تو میں آپ کو دے بھی نہیں سکتا۔ آپ میرے خطے میں جائیں ہزارہ میں، سوات میں جائیں پورے پورے پہاڑ ننگے ہوگئے ہیں۔ جہاں پر جنگل ہوتا تھا وہاں پر پہاڑ آپ کو بالکل ننگا نظر آئے گا۔ یہ کیوں ہے دوستو!۔ جسے کہتے ہیں نا کہ قدرتی آفات۔ یہ قدرتی آفات نہیں ہیں، یہ انسانوں کا بنایا ہوا نظام ہے۔ اس نظام کے پیچھے ہوس ہے، منافع خوری ہے ، طاقت ہے، اگر میں طاقتور ہوں تو میں غریب کا حق مار کر اس کا روزگار مار کر تمام تر آنے والی نسلوں کا بھی حق اور روزگار مارنے کا یہ نظام ہے۔ تو اس پر آپ غور کریں اس پر آپ سوچیں کہ کبھی ہمPTIکی ڈگڈگی کے پیچھے چل پڑتے ہیں تو کبھی کسی اور کی۔ مہینہ پہلے ایسا لگا تھا کہ یہاں پر جمہوریت کے دودھ اور شہد کی نہریں نکل آئی ہیں۔ کہ یہاں پر ایک نئی حکومت حالانکہ نئی کونسی وہ بھی پرانی حکومت ہے ۔ کبھی کوئی نیا آتا ہے جو کہتا ہے کہ میں پرانے کو گرانے کیلئے آیا ہوں اور نیا چلاجاتا ہے تو وہ پرانا آجاتا ہے۔ اور نیا پھر ڈگڈگی بجاتا ہے۔ وہ ہمیں سامراج کی باتیں بیچتا ہے چورن ، لیکن وہ یہ نام نہیں لیتا کہ یہ قبضے کون کرتا ہے زمینوں پر، کارخانوں پر، جنگلات پر، پانی پر، یہ سارا کچھ ادھر ہی ہورہا ہے اور یہ سارا کچھ آنے والے وقت میں ایک بہت بڑے عذاب کی شکل اختیار کرے گا۔15کروڑ نوجوان ہیں اس ملک میں جن کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اگر اس طرح کی سیاست کے اندر ہم جکڑے رہے تو کوئی ہمارا پرسان حال نہیں ہوگا۔ تمام دوستوں سے گزارش ہے ان ساتھیوں سے بھی گزارش ہے اس طرف والے بھی اور اُس طرف والے بھی جب آپ نہیں ہوتے تو ہم ہی ان سڑکوں پر آپ کی باتیں کررہے ہوتے ہیں۔ جب اسرائیل کے خلاف نعرہ لگانے والا کوئی اور نہیں ہوتا تو ہم ہی نعرے لگارہے ہوتے ہیں۔ اور وہ چیزیں جو کوئی بھی نہیں کہتاوہ ہم ہی کہتے ہیں۔ یہاں پر ایک حکومت آتی ہے اور جاتی ہے مگر ملک ریاض کے خلاف کوئی چوں نہیں کرتا۔ ایک حکومت آتی ہے اور جاتی ہے لیکنFWOاورNLCکے ٹھیکے ختم نہیں ہوتے۔ یہاں پر ایک حکومت آتی ہے اور جاتی ہے لیکن کبھی کوئی واشنگٹن سے جاکرIMFسے بھیک مانگ رہا ہوتا ہے ، کبھی ریاض جاکر سستے تیل کی بھیک مانگ رہا ہوتا ہے۔ تو کبھی چین سے سستے قرضے مانگ رہے ہوتے ہیں۔ ملک قرضوں پر چلتا ہے ،قرضے عوام برداشت کرتے ہیں، اور آنے والے کل کے بعد جب ماحولیاتی تباہی اس نہج تک پہنچ جائے گی تو پھر یہ قرضوں والا نظام بھی نہیں چل سکے گا۔ تو اپنے جیسے نوجوانوں کو سمجھائیں کہ ہوش کے ناخن لیں نعروں کے پیچھے نہ جائیں۔ عقل اور شعور والی سیاست کا ساتھ دیں۔ کیونکہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا سیاسی حل ہے۔ اور ہم فخر سے کہتے ہیں کہ ہم ایک سیاسی جماعت ہیں۔ ہم ایک طلبہ تنظیم ہیں ہم ایک عورتوں کی تنظیم ہیں، ہم اس نظام کے خلاف اور اس نظام کی تبدیلی کیلئے سیاست کرتے ہیں۔ ہم کچھ چھوٹے موٹے مفادات کیلئے نہیں کرتے۔ تو سب اپنے دوستوں کو یہ نعرہ بتائیں ، ہاتھوں میں لے کر ہاتھ چلو، آؤ ہمارے ساتھ چلو۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ خصوصی شمارہ مئی 2022

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز