پوسٹ تلاش کریں

میزان کے بارے میں مفتی زر ولی ، مولانا سلیم اللہ خان اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے علاوہ ملک بھر سے …..

میزان  کے بارے میں مفتی زر ولی ، مولانا سلیم اللہ خان اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے علاوہ ملک بھر سے ….. اخبار: نوشتہ دیوار

کراچی (عبد العلیم) مفتی علی زمان کشمیری نائب صدر جمعیت اتحاد العلماء کراچی و خطیب جامع مسجد توحیدیہ مصطفی آباد نارتھ ناظم آباد کراچی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ الحمد للہ حضرت شاہ صاحب نے حق کا جو قلم اٹھایا ہوا ہے اللہ تعالیٰ اس کو قبول کرے اور حضرت شاہ صاحب کی زندگی میں برکت عطا فرمائے۔ جس طرح حضرت شاہ صاحب نے طلاق کے مسئلے کوحل کیا ہے اور اس انداز میں بیان کیا ہے آج تک کوئی بیان نہیں کرسکا اور اب عوام کو بھی پتہ چل گیا ہے کہ طلاق کا مسئلہ کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے۔ اس طرح آج کل بینک والوں نے دعویٰ کیا ہوا ہے کہ ہمارا کاروبار سُود سے پاک ہے۔ خاص کر میزان بینک کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ سُود سے پاک ہے جبکہ مضاربت اس کے اندر بھی نہیں ہے۔ نفع موجود ہے اور نقصان نہیں ہے۔ یعنی مضاربت نہیں ہے اور ساتھ ساتھ فتویٰ کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ میری گزارش شاہ صاحب سے ہے کہ آپ ضرور اپنی تحریر میں وضاحت فرمائیں کہ واقعی پاکستان کے اندر کوئی بینک ایسا موجود ہے کہ جس کے اندر مضاربت کا معاملہ ہو اور سُود سے پاک ہو۔ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے آپ عوام کو آگاہ کریں کیونکہ میزان بینک عوام کو دھوکہ دے رہا ہے۔

محترم مفتی علی زمان کشمیری ! نائب صدر اتحاد العلماء کراچی

السلام علیکم و رحمۃ اللہ : انتہائی مؤدبانہ گزارش ہے کہ میزان و دیگر نام نہاد اسلامی بینکوں کے بارے میں مفتی زر ولی ، مولانا سلیم اللہ خان اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے علاوہ ملک بھر سے بہت سے علماء و مفتیان اور ارباب مدارس نے کھل کر اس کے غیر اسلامی ہونے کی وضاحت فرمائی ہے۔ بینک سے زکوٰۃ کے مسئلے پر حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے بھی مفتی تقی عثمانی سے کھل کر اختلاف کیا تھا مگر جو بڑی بڑی ریش والے اور اسلامی لبادے والے پہلے چھوٹے کاروباری مراکز میں حیلے کرتے تھے اب ان کو بڑا فتویٰ اور حیلہ مل گیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے بیانات اور قرآن کی تفاسیر تک میں لکھ دیا ہے کہ شادی بیاہ میں لفافوں کی لین دین سُود اور ستر گناہوں میں سے کم از کم ماں سے حرامکاری کے برابر گناہ کے مترادف ہے۔ جو لوگ سُودی بنیاد پر بینک چلاتے ہیں اور بعض لوگ انکا فتویٰ دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں تو وہی لوگ پھر شادی بیاہ کے مسئلے میں ان علماء و مفتیان کا فتویٰ نہیں مانتے۔ ایک طرف تصویر کو سیاسی علماء بھی ناجائز قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف جواز کا فائدہ اٹھانے کی بات بھی کرتے ہیں۔ اب تو یہ ہے کہ آوے کا آوا بگڑ چکا ہے۔ عوام اسلئے اپنے دین سے دور نہیں کہ وہ جہالت کی وجہ سے مار کھا رہے ہیں بلکہ سب کچھ جانتے بوجھتے عمل نہیں کرنا چاہتے۔ ہم نے طلاق کے مسئلے کو اسی لئے خاص طور پربار بار علماء و مفتیان کے سامنے پیش کیا کہ اس گناہ بے لذت کیخلاف آگاہی سے لوگ اسلام کے قریب آئیں گے۔ سب جانتے ہیں کہ رشوت اور چوری گناہ ہیں لیکن کتنے لوگ اس سے بچتے ہیں؟۔ یقین جانئے کہ اگر صرف طلاق کے مسئلے کو علماء کرام اور مفتیان عظام اپنی مساجد میں عوام کے سامنے کھل کر بیان کریں تو پوری اُمت قرآنی تعلیمات کی طرف متوجہ ہوگی اور اس کے بہترین نتائج سامنے آئیں گے۔
رسول اللہ ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں ہی سُود کو باقاعدہ نظام کی حیثیت سے ختم کرنے کا اعلان فرمایا تھا، جب تک معاملات پر دسترس نہ ہو تو اسلامی و غیر اسلامی بینک سب ایک ہیں۔ ہر وہ قرض جس پر نفع لیا جائے وہ سُود ہے۔ اب عام بینکوں نے بھی نام نہاد اسلامی طریقے سے سُود کا کام شروع کردیا ہے، بعض مذہبی جماعتیں نام نہاد اسلامی بینکوں سے پیسے لیکر سُود کیخلاف مہم چلا رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ جیسے لوگوں کی برکت سے اسلامی نظام لائے۔ عتیق گیلانی

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

  • M. Feroze Chhipa

    Excellent News Paper

  • Bilal

    اس کتاب سے بہت سے لوگوں کے گھر جڑیں گے

  • Mustafa

    میں آپ کی رائے سے متفق ہوں۔

  • Mustafa

    بہت اچھا آرٹیکل ہے، حکومت، عدلیہ او ر ریاست کو اس پر توجہ دینی چاہئے۔

  • شباب اکرام

    حقیقت یہی ہے کہ اغیار ہمیشہ امت مسلمہ سے ہی گبھراتی ہے۔۔۔تب ہی تو سب سے امت کا مرتبہ چھین کر صرف اور صرف عوام کے درجے تک گرا دیا۔۔۔ طویل مباحثہ وقت پانے پر پیش کرونگا مگر اس بے بس عوام کیلئے صرف ایک شعر آپکی خدمت میں ان کی فطری عکاسی کیلئے عرض کونگا۔۔ خدا کو بھول گئے لوگ فکرےروزی میں غالب۔۔ تلاش رزق کی ہے رازق کا خیال تک نہیں۔۔۔۔ بہت شکریہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

ذوالفقار علی بھٹو کے اسلامی سوشلزم سے مفتی تقی عثمانی کے اسلامی بینکاری کیپٹل ازم تک
مفتی تقی عثمانی کا اسلامی معاشی نظام پر خودکش حملہ
کیا پاکستان، ایران اور افغانستان میں اسلامی نظام سے استحکام آئے گا؟