جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں وہ بدلے میں مسکین کو کھانا کھلائیں روزہ نہ رکھیں۔ ہاہاہا
اپریل 12, 2023
جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں وہ بدلے میں مسکین کو کھانا کھلائیں روزہ نہ رکھیں۔ ہاہاہا
تفسیر عثمانی آیت184البقرہ کے ترجمہ اور تفسیر میں بدترین تحریف۔ اگر مزدور طبقے کو بھی پتہ چل جائے اور عوام کو بھی تو کوئی بھی طاقت رکھنے کے باوجود روزہ نہیں رکھے گااگر فرض نہ ہو تو!
پشاور سے کراچی جانے والی پرواز فلائی جناح کے بہت سارے مسافروں نے کافی دیر تک یکم رمضان کے چاند کا مظاہرہ دیکھا اور اسکی اطلاع بھی دی تھی۔ یہ طریقہ قابل عمل ہوسکتا ہے۔
29شعبان کو مغرب کے وقت پشاور سے فلائی جناح ایئر لائن کراچی کیلئے روانہ ہوئی تو راستے میں مسافروں کی ایک بڑی تعداد نے کافی دیر تک رمضان کا چاند دیکھ لیا۔ چیئر مین ہلال کمیٹی مولانا عبد الخبیر آزاد کے بھائی مولانا عبد المعبود آزاد کو اس کی اطلاع بھی دی گئی اور انہوں نے چیئر مین صاحب کو بات پہنچائی بھی۔ پہلے ایک مرتبہ شاہین ایئر لائن کے مسافروں کی گواہی پر چیئر مین ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمن نے عید کا اعلان کیا تھا۔ یہ بھی مولانا صاحب کو بتادیا۔
اگر ہلال کمیٹی کے چیئر مین یا ارکان چاند دیکھنے کیلئے جہاز کے مسافر وں سے رابطے میں رہیں یا پھر مسافروں کو رابطہ کرنے کا پابند بنایا جائے تو چاند کے مسئلے میں پاکستان کے مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام و مفتیان عظام اوراپنا اپنا ذوق رکھنے والے اختلافات کا شکار نہیں ہوں گے۔ ہم نے پہلے بھی اس مسئلے پر مختلف شماروں میں کچھ معلومات قارئین سے برسوں پہلے شیئر کی تھیں۔
دنیا میں چاند کی پیدائش ایک دن میں ہوتی ہے۔ امریکہ اور پاکستان کا بڑا فاصلہ ہے۔10گھنٹے کا فرق ہے۔ پھر بھی ایک ہی دن میںرمضان ، عید الفطر اور عید الاضحی کے چاند نظر آجاتے ہیں۔ اگر پوری دنیا میں طرز نبوت کی خلافت قائم ہوجائے تو ایک ہی دن میں رمضان ، عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ قمری مہینوں کی تاریخ بھی ایک ہی ہوگی۔ اگرکچھ افراد افغانستان و پاکستان یا ایران و پاکستان کے سرحدی علاقے میں رہتے ہیں ۔ایک طرف والوں کو چاند نظر آجاتا ہے اور دوسری طرف والوں کو نہیں آتا ہے تو کیا شرعی روزہ بدل جائے گا؟۔ نہیں بلکہ رمضان اور عید کا تعلق کسی ملک سے نہیں بلکہ چاند دیکھنے سے ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ماہ صیام رمضان کے بارے میں دو آیات کے اندر بڑی حکمت عملی کے ساتھ اُمت مسلمہ کو روزے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ پہلے یہ فرمایا کہ یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (183)اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّة مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہ فِدْیَة طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَہُوَ خَیْر لَّہ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْر لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (184)
”تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر روزے فرض کئے گئے تھے ہوسکتا ہے کہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ گنتی کے دن پس تم میں سے اگر کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو اس کی گنتی ہے دیگر دنوں میں۔ اور جن لوگوں کو اس کی طاقت ہے تو فدیہ دیں کھانا مسکین کا اور جو اس سے زیادہ نیکی (خیرات) کرے تو اس کیلئے بہتر ہے اور اگر تم روزہ رکھو تو تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے”۔
اس آیت میں اس مریض اور مسافر کیلئے حکم ہے ایک مسکین کو ایک روزے کے بدلے کھانا کھلانے کا جس میں کھلانے کی طاقت ہو۔ اگر اس سے زیادہ بھی دے تو اور بہتر ہے۔ کیونکہ سفراور مرض کے بعد ضروری نہیں کہ زندگی ساتھ دے اور مرض و سفر میں روزے کو آئندہ کیلئے ملتوی کرنے کی سہولت کا یہ کفارہ کسی پر بھی مشکل نہیں ہے۔ البتہ اگر اس کے پاس استطاعت نہیں ہے تو وہ فدیہ دینے کے بجائے فدیہ لینے کا مستحق ہوگا۔ اگر زیادہ دے سکتا ہے تو اللہ نے اس کو دینے والے کیلئے بہتر قرار دیا ہے۔ اس آیت میں ان لوگوں کو تنبیہ ہے جو مرض یا سفر کا بہانہ کرکے روزہ چھوڑ دیں، اسلئے فرمایا کہ ”اگر تم روزہ رکھ لو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو”۔ جس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ روزہ چھوڑنے کی سہولت کا ناجائز فائدہ مت اُٹھاؤ۔ اللہ نے کاہلوں کو تنبیہ فرمائی ہے اور روزہ چھوڑنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اسلئے کہ مجبوری میں چھوڑے جائیں تو پھر ان کی قضاء کا بھی اللہ نے بہت واضح الفاظ میں حکم دیا ہے۔
کمال اور عجیب تماشہ ہے کہ تفسیر عثمانی میں اس کا ترجمہ یوں ہے کہ
” اور جن کو طاقت ہے روزہ کی ان کے ذمہ بدلہ ہے ایک فقیر کا کھانا”۔
یعنی جو نہ سفر میں ہیں اور نہ مریض اور نہ کمزور بلکہ بالکل صحت مند اور ہٹے کٹے ہیں جو روزے کی مکمل طاقت رکھتے ہیں وہ روزے کے بدلے میں ایک فقیر کو کھانا کھلائیں! ۔اگر اعلان کیا جائے تو کون روزہ رکھے گا؟
اس کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ”مطلب یہ ہے کہ جو لوگ روزہ رکھنے کی تو طاقت رکھتے ہیں مگر ابتدا ء میں چونکہ روزہ کی بالکل عادت نہ تھی اسلئے ایک ماہ کامل پے در پے روزے رکھنا ان کو نہایت شاق تھا۔ تو اس کیلئے یہ سہولت فرمادی گئی تھی کہ اگر چہ تم کو کوئی عذر مثل مرض یا سفر کے پیش نہ ہو مگر صرف عادت نہ ہونے کے سبب روزہ تم کو دشوار ہو تو اب تم کو اختیار ہے چاہو روزہ رکھو ، چاہو روزے کا بدلہ دو۔ ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلاؤ۔ کیونکہ جب اس نے ایک دن کا کھانا دوسرے کو دے دیا تو گویا اپنے نفس کو ایک روزہ کے کھانے سے روک لیا۔ اور فی الجملہ روزے کی مشابہت ہوگئی۔ پھر جب وہ لوگ روزے کے عادی ہوگئے تو یہ اجازت باقی نہ رہی۔ جس کا بیان اس سے اگلی آیت میں آتا ہے۔ اور بعض اکابر نے طعام مسکین سے صدقة الفطر بھی مراد لیا ہے۔ معنیٰ یہ ہوں گے کہ جو لوگ فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں وہ ایک مسکین کے کھانے کی مقدار اس کو دے دیں جس کی مقدار شرع میں گیہوں کا آدھا صاع اور جو کا پورا صاع ہے۔ تو اب یہ آیت منسوخ نہ ہوگی۔ اور جو لوگ اب بھی یہ کہتے ہیں کہ جس کا جی چاہے روزہ رمضان میں رکھ لے اور جس کا جی چاہے فدئے پر قناعت کرے خاص روزہ ہی ضررو رکھے یہ حکم نہیں وہ جاہل ہیں یا بے دین”۔ (تفسیر عثمانی: البقرہ : آیت184)
حالانکہ یہ سراسر بکواس ہے اس لئے کہ آئندہ کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس سے زیادہ واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ” اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر مشکل نہیں چاہتا ہے”۔ دونوں آیات میں قضائی روزے کا حکم ہے اور گنتی کے دنوں کو پورا کرنے کا حکم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے۔
جب ہندوستان کی اشرافیہ مغل بادشاہ ، راجے اور مہاراجے ، رانیاں اور مہا رانیوں کے ہاں روزے کا تصور نہیں تھا۔ علامہ وحید الدین خان کے بڑے بھائی علامہ وحید الزماں خان نے صحاح ستہ کی احادیث کی کتابوں کا ترجمہ کیا تھا بدأ الاسلام غریباً فسیعود غریبا ًفطوبیٰ للغرباء ”اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا تھا ، یہ پھر اجنبیت کی طرف لوٹے گا ، خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے”۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ لکھ دیا تھا کہ اسلام غریبوں سے شروع ہوا تھا اور یہ پھر غریبوں کی طرف لوٹ جائے گا۔ پس خوشخبری ہے غریبوں کیلئے۔ اس کی تشریح میں لکھا ہے کہ پہلے زمانے میں بھی غریبوں نے اسلام قبول کیا تھا اور اب بھی غریبوں میں اسلام باقی رہ گیا ہے۔ امیر روزہ نماز اور پردہ وغیرہ کا کوئی تصور نہیں رکھتے ہیں۔ اسلئے حدیث میں آخری دور کے اندر بھی غریبوں کیلئے خوشخبری ہے۔ (دیکھئے علامہ وحید الزمان کی کتابوں کا ترجمہ اور تشریح)۔
علامہ اقبال نے بھی اسی وجہ سے جواب شکوہ میں اشعار کہے تھے کہ روزہ رکھتا ہے تو غریب، پردہ کرتا ہے تو غریب، نماز پڑھتا ہے تو غریب۔ (جواب شکوہ)
جب قرآن کا ترجمہ و تفسیر کیا گیا تو ہندوستان میں اشرافیہ کے ہاں اسلام پر عمل کا کوئی تصور نہیں تھا اسلئے تفسیر عثمانی میں ان چندہ دینے والے مہربان اشرافیہ کیلئے قرآنی آیات کے ترجمے اور تفسیر میں بہت بڑی تحریف کی گئی۔ علامہ اقبال نے علماء و مفتیان کی ان حرکتوں کو دیکھ کر بہت صحیح کہا تھا کہ
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجے فقیہان حرم بے توفیق
قومی اسمبلی میں پیر پگارا کی پارٹی سے تعلق رکھنے والی خاتون سائرہ بانو کو اگر پتہ چلے تو اسمبلی میں باقاعدہ قرآن کی ان آیات کا یہ ترجمہ اور تفسیر بھی پیش کردے گی۔ جس سے تمام لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ قرآن صرف اشرافیہ کیلئے نہیں ہے بلکہ مزدوروں، نوکر پیشہ، مزارعین، صحافیوں اور تمام طبقات کیلئے یہ سہولت موجود ہے کہ روزہ چھوڑ کر ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔ ایک دہاڑی دار مزدور بھی خوشی خوشی سے روزہ چھوڑ کر ایک مولوی مسکین کو کھانا کھلادے گا۔ اور اس کو اوور ٹائم ملے یا نہ ملے لیکن یہ سہولت بھی بہت کافی ہے کہ وہ طاقت رکھنے کے باوجود بھی روزہ چھوڑ دے۔ مولویوں نے یہ مسائل اپنے چندہ دینے والے امیر طبقات کیلئے چھپا کر رکھے ہیں۔ صحابہ کرام کے اندر کوئی ایسا اشرافیہ نہیں تھا جن میں طاقت کے باوجود روزہ نہ رکھنے کا تصور بیٹھا ہو۔ یہ تکلف بھی غلط ہے کہ شروع میں عادت نہیں تھی۔ کیونکہ عادت نہ ہونے سے طاقت نہ رکھنے کا تصور بھی ابھر سکتا ہے۔ جبکہ قرآن میں واضح الفاظ کے اندر طاقت رکھنے والوں کیلئے یہ سہولت دی گئی ہے۔ اگر طاقت رکھنے والوں کو یہ سہولت ہے تو پھر مریضوں اور مسافروں کو قضائی روزے رکھنے کی اذیت کیوں دی گئی ہے۔
یہ تو شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور علامہ شبیر احمد عثمانی کا حال ہے موجودہ دور کے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی تو اس سے بھی بہت گئے گزرے ہیں۔
تکاد السمٰوٰت یتفطرن من فوقھن والملٰئکة یسبحون بحمد ربھم ویستغفرون لمن فی الارض الا ان اللہ ھوالغفور الرحیمO”قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے انکے اوپر سے اور ملائکہ پاکی بیان کرتے ہیں اپنے رب کی تعریف کیساتھ۔ اورجو زمین میں ہیں،ان کیلئے استغفار کرتے ہیں۔خبردار! کہ بیشک اللہ مغفرت والا رحم والا ہے”۔ (الشوریٰ:5)
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے لکھ دیا ہے کہ”قریب ہے کہ فرشتوں کے بوجھ سے آسمان پھٹ پڑے”۔(آسان ترجمہ قرآن کا حاشیہ)۔حالانکہ اللہ فرماتا ہے کہ”مغفرت کی طرف دوڑ پڑو، جو جنت عطاء کریگا جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کی چوڑائی کے برابر ہے”۔
سورہ بقرہ کی آیت184میں بھی فرض روزوں کا حکم ہے اور اس میں مریض اور مسافر کو روزہ چھوڑ کر آئندہ دنوں میں رکھنے کی سہولت ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا ہے کہ روزہ رکھنے میں تمہارے لئے زیادہ بہتری ہے۔
اگلی آیت میں ان صوفی مزاج لوگوں کو اعتدال میں لانے کی طرف اشارہ ہے جو یہ سمجھ کر کہ مرض یا سفر کی حالت میں روزہ معاف ہے لیکن بہتر روزہ رکھنا ہے تو ان کو واضح کیا گیا ہے کہ خود کو مشکلات میں مت ڈالو۔
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّة مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَوَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (185)
ترجمہ: ” رمضان کا مہینہ جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔ لوگوں کیلئے ہدایت ہے اور دلائل ہیںہدایت کے اور صحیح و غلط میں تفریق کے۔ پس جو تم میں یہ ماہ پالے تو اس میں روزہ رکھے۔ اور جو کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں اس کی قضاء پوری کرلے ۔اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر مشکل نہیں چاہتا ہے۔ تاکہ تم گنتی کے دن پورے کرلو اور اللہ کی بڑائی بیان کرو اس بات پر کہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے اور ہوسکتا ہے کہ تم شکر گزار بن جاؤ”۔
اللہ کو پتہ تھا کہ گدھوں نے اس کا دین بگاڑنا ہے جس طرح سے یہود اور نصاریٰ نے دین میں تحریف کی تھی اور بہت واضح الفاظ میں اس بات کی تکرار کی ہے کہ مرض اور سفر میں روزہ نہ رکھنے کی سہولت اور آئندہ دنوں میں اس کی قضاء بھی تمہارے لئے آسانی ہے اور مشکل نہیں ہے۔ لیکن طاقت کے باوجود روزہ نہ رکھنے کا کوئی تصور اللہ تعالیٰ نے نہیں دیا ہے۔ علماء کھل کر وضاحت کریں۔
علماء کرام و مفتیان عظام اور قارئین قرآن کے عربی الفاظ اور ان کے معانی کو غور سے دیکھیں اور اس میں معنوی تحریف کرنے والوں کے خلاف کھل کر بولیں۔ اگر غلطیوں کو ٹھیک نہیں کیا گیا تو اس سے آئندہ کی نسلیں بگڑیں گی۔
قرآن کریم کا سب سے پہلے ترجمہ حضرت شاہ ولی اللہ نے فارسی میں کیا تھا۔ پھر ان کے صاحبزادگان نے حضرت شاہ عبد القادر نے قرآن کا با محاورہ اور شاہ رفیع الدین نے لفظی ترجمہ کیا۔ تفسیر عثمانی میں شاہ عبد القادر کا ترجمہ ہے۔ اور اردو کے جتنے تراجم ہوئے ہیں وہ سب کے سب اسی سے چوری ہوئے ہیں لیکن الفاظ اور مفہوم میں اور اسلوب میں تھوڑا تھوڑا فرق رکھا گیا ہے۔
عربی اور اردو کے تکلیف میں فرق ہے۔ اردو میں تکلیف کا معنی اذیت ہے۔ جبکہ عربی میں تکلیف کا معنی اختیار کا ہے۔ اگر کسی کے پیٹ میں درد ہو تو وہ اردو میں کہہ سکتا ہے کہ میرے پیٹ میں تکلیف ہے لیکن عربی میں اس کو تکلیف نہیں کہہ سکتے ہیں۔ اگر چھٹی کا دن ہو اور کوئی نوکر پیشہ اپنی مرضی سے ڈیوٹی کرنا چاہتا ہو یا پھر نہیں کرنا چاہتا ہو تو اس کو عربی میں تکلیف کہتے ہیں۔ یعنی اس کا اختیار ہے کہ ڈیوٹی کرے یا نہ کرے۔
انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مکلف ہے اور یہ مکلف اسی تکلیف سے ہے۔ اگر انسان کو اچھا اور برا کام کرنے کا اختیار حاصل ہو تو اس کو مکلف کہتے ہیں یہ مکلف اسی تکلیف سے ہے۔ غرض عربی کی تکلیف الگ چیز ہے ۔
سورہ بقرہ کی آخری آیت میں اللہ نے فرمایا:
لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِہ وَاعْفُ عَنَّا، وَاغْفِرْ لَنَا، وَارْحَمْنَا ، اَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ (286)
ترجمہ: ” اللہ کسی نفس کو مکلف نہیں بناتا ہے مگر اس کی وسعت کے مطابق۔ اس کیلئے ہے جو اس نے کمایا اور اس پر پڑے گا جو اس نے کمایا۔ اے ہمارے رب! ہمارا مواخذہ نہ فرما اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کر بیٹھیں ۔ اے ہمارے رب! ہم پر نہ لاد بوجھ جیسا کہ ہم سے پہلے لوگوںپر آپ نے لادا۔ اور ہم پر نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو اور ہم سے درگزر فرما اور ہماری مغفرت فرمااور ہم پر رحم فرما۔ آپ ہمارے مولا ہیں پس ہماری مدد فرما کافر قوم کے خلاف ”۔
جس کی جتنی بڑی ذمہ داری ہوگی اس سے اسی کے مطابق پوچھا جائے گا۔ کوئی چیف جسٹس ہے یا وزیر اعظم ہے یا آرمی چیف ہے یا مفتی اعظم ہے یا پھر ایک چوکیدار اور چپڑاسی ہے۔ ہر ایک جان اپنی اپنی وسعت کے مطابق ذمہ دار ہے۔ جس نے کوئی اچھے کام کئے تو بھی اپنے لئے کئے اور جس نے کوئی برے کام کئے تو ان کی بھی اس سے پوچھ گچھ ہوگی۔
علماء نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ اللہ گنجائش سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ اور کسی نے یہ کیا ہے کہ طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ حالانکہ اگلے جملوں میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر اس کی نفی کردی ہے اور فرمایا ہے کہ پہلے لوگوں کو بھی ان کی بد اعمالیوں کے سبب ان کو زیادہ بوجھ کا سامنا کرنا پڑا۔ جس سے تم پناہ مانگو۔ اور یہ دعا سکھائی کہ طاقت سے زیادہ بوجھ ہم پر نہ لاد۔
قرآن میں اتنا بڑا تضاد کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف اللہ کہے کہ طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اور دوسری طرف دعا سکھائے کہ طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالنا۔ کچھ تو عقل سے بھی کام لینا چاہیے۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ