پوسٹ تلاش کریں

خدا سے زیادہ فوج سے ڈر لگتاہے: رئیسانی

خدا سے زیادہ فوج سے ڈر لگتاہے: رئیسانی اخبار: نوشتہ دیوار

خدا سے زیادہ فوج سے ڈر لگتاہے: رئیسانی

کوئٹہ میں نیشنل ڈائیلاگ اور جناح سینٹر اسلام آبادمیںباچا خان اور ولی خان کے نام پرجو کانفرنسیں ہوئی ہیں۔ ان میں سب نے اپنی اپنی جگہ پر بہت عمدہ تقاریر کی ہیں۔ اسلم رئیسانی نے کہا کہ کشمیری مجاہدین کے ذریعے بلوچوں کو مروایا جارہاہے۔ ریاست ماں ہوتی ہے لیکن یہ سوتیلی ماں ہے ،اگر بس چلے تو زہر دے کر اس کو ماردیں۔ مجھے خدا سے کم ڈرلگتا ہے کیونکہ وہ غفور ورحیم ہے اور فوج سے زیادہ ڈر لگتا ہے کیونکہ وہ غفور اور رحیم نہیں ہے۔ ہمارے بچوں کو کالج اور یونیورسٹیوں میں اسلئے ہماری مائیں نہیں بھیجتی ہیں کہ انکو مسنگ پرسن بنالیا جاتا ہے۔ پہلے ہم پر الزام لگتا تھا کہ کافر ہیں اور روس کے ایجنٹ ہیں اور اب روس ختم ہوگیا تو ہندوستان کا ایجنٹ بنادیا۔ ہم کسی کے ایجنٹ نہیں اپنی بلوچ قوم کے ایجنٹ ہیں۔ میرا بھائی سراج رئیسانی فوج کا آدمی تھا لیکن اس کو بھی مار دیا۔ پہلے میرے والد کو شہید کیا تھا اور پھر ہمارے گھر گرائے گئے تو بتایا گیا کہ جنرل قادر اور گورنر مینگل تمہارا اپنا بلوچ ہے۔ میں نے کہا تھا کہ ڈگری ڈگری ہے چاہے جعلی ہو یا اصلی ۔ فوجی فوجی ہوتا ہے چاہے وہ بلوچ ہو یا پنجابی، یہاں ڈھائی گھنٹے میں باپ پارٹی بنتی ہے اور ہم پر مسلط ہو جاتی ہے۔ اب باپ کے کچھ لوگ ادھر ادھر پارٹیوں میں گئے اور کچھ رکشہ میں نکلنے کی تلاش میں ہے لیکن باپ کو زندہ رکھا ہے۔
زمرک خان اچکزئی، ڈاکٹر عطاء الرحمن ، شاہد خاقان عباسی اور بہت سے خطیبوں نے اچھے اچھے خطاب کئے۔ اس طرح باچا خان اور ولی خان کانفرنس میں بھی مولانا فضل الرحمن ، سلیم صافی، منظور پشتین ، حامد میر، خوشحال خان کاکڑ،اعزاز سید اور بہت سارے مقررین نے عمدہ تقریریںکیں۔ مگر نتیجہ تقریر جمع تقریر ہی تھا۔ اعزاز سید نے کہا کہ پنجاب میں باچا خان اور ولی خان کی غلط تصویر پیش کی گئی تھی اور جب ہمیں شعور آگیا پھر پتہ چلا کہ قائداعظم محمد علی جناح واقعی بڑے سیاسی لیڈر تھے لیکن باچا خان ان سے بھی بہت زیادہ بڑے لیڈر تھے۔ باچا خان کا انگریزی ، ہندی اور دوسری زبانوں میں منشور عام ہوا تھا لیکن یہاں اسلام آباد تک پہنچنے میں اس کو بہت وقت لگا اور شاید پنجاب تک پہنچنے میں ابھی وقت لگے۔ پنجاب میں کوئی ایسا لیڈر پیدا نہیں ہوا اور ہمارے پنجاب کی قسمت میں علامہ خادم حسین رضوی جیسے لوگ لکھے ہوئے ہیں۔ اعزاز سید نے کہا کہ یہ بہت بڑا المیہ تھا کہ نہرو کو باپا خان نے بلایا تھا اور وہاں کے لوگوں نے ان کو پتھر مارے تھے اور دوسرا المیہ یہ تھا کہ ڈاکٹر خان کی حکومت کو ختم کردیا گیا اسلئے جمہوریت یہاں کے لوگوں کے نصیب میں اب تک نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ولی خان میرے باپ اور استاذ کی جگہ پر تھے اور ان سے میں نے سیکھا تھا اور جب ولی خان جلاوطن تھے تو مفتی محمود نے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے تورخم باڈر پر ان کی آمد کا استقبال کیا تھا اور اس طرح ان کو سیاسی خدمات کا دوبارہ موقع ملا۔ میں نے سنا تھا کہ غفار خان ایک کپ سے زیادہ چائے مہان کو بھی نہیں پینے دیتے۔ لیکن مجھے زیادہ چائے پلائی اور مٹھائی بھی سامنے رکھوادی۔ سلیم صافی نے کہا کہ باچا خان امام برحق تھے۔ خود مشکلات برداشت کیں مگر قوم کو مشکلات میں نہیں ڈالا۔ یہاں لیڈر بنی گالہ میں بیٹھ جاتے ہیں اور لندن بھاگ جاتے ہیں ۔ کارکنوں اور رہنماؤں سے قربانی مانگتے ہیں۔ ڈاکٹر گلالئی نے کہا تھا کہ ولی خان سیاستدان اور غفار خان مصلح تھے۔ اس مختصر جملے نے مجھے دونوں کا فرق واضح کیا۔ غفار خان کو مصلح اسلئے کہا جاسکتا تھا کہ ایک بڑے خان کے بیٹے تھے مگر ملنگ کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ پشتونوں کو عدم تشدد کی راہ پر ڈال دیا اور خود اخلاق وکردار کے پیکر تھے۔ بڑے جابروں کے سامنے زبان نہیںلڑکڑاتی تھی لیکن غریبوں کیساتھ نرم لہجے میں بات کرتے تھے۔ آج کل ایک غریب آدمی ہوتا ہے جب سیاست میں آتا ہے تو اس کے پاس گاڑیاں آتی ہیں ،ا وقات بدل جاتے ہیں، لہجے میں تکبر آجاتا ہے۔ دوسر ے لیڈروں نے بھی عمدہ عمدہ تقاریر کی ہیں لیکن ہمارے پاس جگہ کی گنجائش نہیں اورشکرہے کہ ہمیں کوئی بلاتا بھی نہیں ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 5)
عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 4)
عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 3)