پوسٹ تلاش کریں

خطبہ حجة الوداع میں نبی رحمت ۖ نے عورت کے حقوق کا خاص خیال رکھنے کاواضح حکم فرمایا تھا قرآنی آیات میں عورت کے ٹھوس اختیارات پر مذہبی طبقے نے بالکل سیدھی واردات ڈالی ہے؟

خطبہ حجة الوداع میں نبی رحمت ۖ نے عورت کے حقوق کا خاص خیال رکھنے کاواضح حکم فرمایا تھا قرآنی آیات میں عورت کے ٹھوس اختیارات پر مذہبی طبقے نے بالکل سیدھی واردات ڈالی ہے؟ اخبار: نوشتہ دیوار

خطبہ حجة الوداع میں نبی رحمت ۖ نے عورت کے حقوق کا خاص خیال رکھنے کاواضح حکم فرمایا تھا قرآنی آیات میں عورت کے ٹھوس اختیارات پر مذہبی طبقے نے بالکل سیدھی واردات ڈالی ہے؟

عورت کو خلع کا حق اللہ نے دیا، مولوی اسکے منکر ہیں؟

اللہ جل شانہ نے فرمایا: اے ایمان والو!تمہارے لئے حلال نہیں کہ عورتوں کے زبردستی سے مالک بن بیٹھواور ان کو اسلئے مت روکو کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے کہ ان میں سے بعض ان سے واپس لے لومگر جب وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہوجائیں اور ان سے اچھا برتاؤ کرواور اگر تمہیں وہ ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو اور اللہ اس میں تمہارے لئے بہت سارا خیر بنادے ۔(النساء : 19)
اس آیت میں زبردست وضاحتیں ہیں جن پر تدبر کرکے اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
1: مسلمانوں کو مخاطب کرکے واضح کردیا ہے کہ ” عورتوں کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو!”۔
سوال یہ ہے کہ ”ان عورتوں سے کون سی عورتیں مراد ہیں؟”۔ جواب واضح ہے کہ ” عورتوں سے بیویاں مراد ہیں ”۔ اسلئے کہ آیت کے اگلے جملہ میں واضح ہے کہ ” اور ان کو اسلئے جانے سے مت روکو کہ جو تم نے ان کو دیا ہے اس میں بعض واپس لے لو مگر جب وہ فحاشی کا ارتکاب کریں”۔ ظاہر ہے کہ اپنی بیویوں کو ہی چیزیں دینے کی بات ہے ، دوسروں کی بیویوں کو تو کوئی چیزیں نہیں دی جاتی ہیں۔ اور فحاشی کے ارتکاب کی صورت میں اپنی بیویوں کو ہی بعض دی ہوئی چیزوں سے محروم کیا جاسکتا ہے۔
اگرچہ زمانہ جاہلیت میں سوتیلی ماؤں اور بھابیوں پر باپ اور بھائی کے فوت ہونے کے بعد قبضہ کیا جاتا تھا اور ان کو نکاح پر مجبور کیا جاتا تھالیکن یہاں وہ مراد نہیں ہوسکتی ہیں بلکہ اپنی بیویاں ہی مراد ہیں۔
2: جس طرح مرد کو طلاق کا حق حاصل ہے ،اسی طرح بیوی کو بھی خلع کا حق حاصل ہے ۔ جب بھی عورت شوہر کو چھوڑنا چاہتی ہو توشوہر زبردستی سے اس کا مالک نہیں بن سکتا۔ جو چیزیں شوہر نے اس کو دی ہیں تو ان میں سے بعض وہ چیزیں بھی واپس نہیں لے سکتا جو لے جانے والی ہیں۔ مثلاً کپڑے، گاڑی ، زیورات، نقدی وغیرہ جن کو منقولہ جائیداد کہا جاتا ہے ۔ البتہ غیرمنقولہ جائیداد مثلاً گھر، باغ، زمین ، پلاٹ ، دکان اور فیکٹری وغیرہ سے خلع کی صورت میں عورت کو دستبردار ہونا پڑے گا۔
3: خلع پرشوہر کو اللہ نے اچھے برتاؤ کا حکم دیا کہ اگر وہ بری لگتی ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں بری لگتی ہو اور اللہ اس میں تمہارے لئے بہت سارا خیربنادے۔ عورت کو زبردستی سے رہنے پر مجبور کیا جائے تو وہ خود بھی زہر کھاسکتی ہے بچوں اور گھروالوں کو بھی کھلاسکتی ہے۔ گھر کا ماحول سکون کی جگہ جہنم رہے گا اور بندے کی عزت بھی خراب ہوسکتی ہے اسلئے بہت سارا خیررکھنے میں شک نہیں ہونا چاہیے۔

بدقسمت عرب اور پشتون بیوی کو قیمتاً خریدتے ہیں

آج پٹھانوں میں جاہلانہ دستور ہے۔ بیوہ وارث کی ملکیت ہے۔ قلعہ سیف اللہ بلوچستان کی جمعیت مولانا فضل الرحمن کے عالم دین نے شرعی مسئلہ مجھ سے پوچھا کہ ایک شخص نے اپنی بیٹی کے بدلے میں بیوی خریدلی اور اس کی رخصتی بھی ہوگئی لیکن وہ بیمار تھا اور عورت کیساتھ جماع کرنے کے قابل نہیں تھا اور اس کا انتقال ہوگیا۔ اب باپ کی بیوہ سے اس کا بیٹا شادی کرسکتا ہے؟۔
عرب جاہلیت میں بیوہ خاوند کے وارثوں کی ملکیت تھی۔ بیٹا باپ کی بیوی سے نکاح بھی کرلیتا تھا جس پر قرآن نے منع کیا کہ لاتنکحوا ما نکح آبائکم من النساء الا ما قد سلف ”نکاح مت کرو،جن عورتوں سے تمہارے آباء نے نکاح کیا مگر جو پہلے گزر چکاہے”۔ جمعیت علماء اسلام کی بلوچستان میں قومی وصوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی ہوتی ہے لیکن وہ جاہلیت کے خلاف قرآن وسنت کے مطابق آئین سازی کی بات اس وقت کرسکتے ہیں جب معاشرتی بنیاد پر علماء ومفتیان نے منبر ومحراب سے علم بلند کررکھا ہو۔ جب وہ اس جاہلیت میں ملوث ہوں تو پھر قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ میں شریعت کے مطابق قانون سازی کی بات کیسے کرسکتے ہیں؟۔
عرب اور پشتون قوم کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ بیگمات کو بہت بھاری قیمت سے خرید تے ہیں اور پھر بکاؤ مال کی طرح اپنی بیگمات کے مالک بھی بن جاتے ہیں۔ عرب امیر ہیں اور بیوہ عورتوں کو یرغمال رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں لیکن پشتون قوم غریب ہے اور بیوہ عورتوں کو بھی ملکیت بنالیتے ہیں۔ جب20،20لاکھ سے غریب لوگ بیویاں خرید لیتے ہوں تو ان کو خلع کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے؟۔ گزشتہ مہینوں میں افغان طالبان حکومت نے بہت سارے غریب افراد کی مدد کرکے عورتوں کی قیمت ادا کرنے میں اپنا زبردست کردار ادا کیا تھا۔ پنجاب اور ہندوستان کی عورتیں جہیز بھی دیتی ہیں لیکن پھر بھی عورت کو خلع کا حق نہیں ملتا ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ مذہبی طبقے نے اس کا حق شرعی بنیاد پر غصب کیا ہے۔ آئین پاکستان نے عائلی قوانین میں عورت کو خلع کا حق دیا ہے لیکن مذہبی طبقہ اس کو نہیں مانتا ہے۔ محترمہ مریم نواز مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی سے بات کرکے1973کے آئین کے مطابق پنجاب اسمبلی سے خلع پر قانون سازی کا آغاز کریں۔ جس پر منبر ومحراب اور مدارس کے فتوؤں سے بھی عوام کے اندر زبردست ذہن سازی کی جائے۔

مدارس کے نصاب تعلیم میں خلع کے حوالہ سے غلطیاں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اگرتم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا چاہتے ہو اور ایک کوان میں سے بہت سارا مال دے چکے ہو تو پس اس میں سے کچھ بھی واپس مت لو۔کیا تم بہتان لگاکر اور صریح گناہ کرکے کچھ واپس لوگے؟۔اور تم کیسے اس سے لے سکتے ہو؟۔جبکہ تم نے ایک دوسرے سے خاص معاملہ کیا ہے۔اور وہ عورتیں تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں۔ (سورہ النساء آیت20،21)
خلع میں صرف ان دی ہوئی چیزوں کو واپس نہیں لیا جاسکتا، جو لے جانے والی ہیں، منقولہ اشیائ۔ اس کی وضاحت سورہ النساء آیت19میں بھی ہے اور ایک صحابیہ نے نبی ۖ سے عرض کیا کہ مجھے اپنے شوہر کے دین اور اخلاقیات سے کوئی شکوہ شکایت نہیں ہے لیکن خلع چاہتی ہوں۔ نبی ۖ نے پوچھا : وہ دیا ہوا باغ واپس کرسکتی ہو؟۔ صحابیہ نے کہا : اور بھی بہت کچھ! نبی ۖ نے فرمایا : اور کچھ نہیں۔
طلاق کی صورت میں تمام دی ہوئی چیزیں واپس نہیں لے سکتے۔ منقولہ وغیرمنقولہ اشیائ۔ گھربار، باغ، زمین، پلاٹ ، فیکٹری اور اگرچہ بہت بڑے خزانے بھی دئیے ہوں کچھ بھی واپس نہیں لیا جاسکتا ۔
عیسائیوں کے ہاں مذہبی بنیاد پر طلاق کا کوئی تصور نہیں تھا لیکن اسلام نے خلع اور طلاق کی شرعی اور قانونی حیثیت بالکل واضح کردی تھی۔ عورت صنف نازک کو صرف نمائش کی تتلیاں اسلئے سمجھاجاتا ہے کہ اس کے تمام حقوق غصب کرلئے گئے ہیں۔ قرآن نے حق مہر کی صورت میں عورت کو انشورنس دی ہے۔ اگر ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی جائے تو بھی آدھا حق مہر عورت کا حق قرار دیا ہے اور حق مہر بھی شوہر پر اس کی وسعت کے مطابق رکھا ہے۔ عورت کی رخصتی کے بعد اگر عورت خوش نہ ہو تو خلع ہے اور خلع میں پورے حق مہر کے علاوہ شوہر کی طرف سے دی ہوئی ان چیزوں کو بھی واپس نہیں لیا جاسکتا ہے جو لے جانے والی ہیں۔طلاق میں منقولہ وغیر منقولہ کوئی چیز بھی واپس لیناغیر شرعی اور غیر قانونی ہے۔
قرآن کی یہ وضاحتیں آنکھ کے اندھے کو سمجھ آسکتی ہیں لیکن دل کے اندھے کو سمجھ نہیں آسکتی ہیں ۔ اللہ نے فرمایا:”اور بستیوں میں سے ہم نے کتنی برباد کردیں اور وہ ظالم تھیں، پس وہ اپنی چھتوں کے بل گری ہوئی تھیں اور کتنے کنویں ویران تھے اور محل اجڑ ے تھے ۔کیا انہوں نے زمین میں سیر نہیں کی ؟ تو ان کیلئے دل بن جاتے جس سے وہ سمجھتے ہیں اور کانوں سے سنتے ہیں۔پس بیشک آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں”۔ (سورہ الحج آیت :45،46)

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ 2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز