پوسٹ تلاش کریں

کیا سورہ النساء میں دو دو، تین تین ، چار چار عورتوں سے نکاح اور لا تعداد لونڈیاں جائز ہیں ؟

کیا سورہ النساء میں دو دو، تین تین ، چار چار عورتوں سے نکاح اور لا تعداد لونڈیاں جائز ہیں ؟ اخبار: نوشتہ دیوار

کیا سورہ النساء میں دو دو، تین تین ، چار چار عورتوں سے نکاح اور لا تعداد لونڈیاں جائز ہیں ؟

ایک طویل عرصے تک خلافت راشدہ کے بعد بنو اُمیہ ، بنو عباس کے بعد دنیا پر خلافت عثمانیہ کی حکمرانی قائم رہی ہے جس کا خاتمہ1924کو ہوا اور اب غیر مسلم اس کی احیاء سے خوفزدہ ہیں

جب ہم نے1991میں خلافت علیٰ منہاج النبوة کے قیام کیلئے آواز اٹھائی تھی تو اس وقت دنیا میں مذہبی طبقات کے اندر خلافت کا کوئی تصور نہیں تھاایران اور سعودی مذہبی حکومتیں تھیں۔

خلافت عثمانیہ کا عیاش اور باریش حکمران سلطان عبد الحمید اول جس کی ساڑھے4ہزار لونڈیا ں تھیںاور اس میں ہر رنگ اور ہر نسل کی لڑکیاں شامل تھیں کیا یہ قرآن میں جائز ہوسکتا تھا؟۔

اللہ نے مردوں اور عورتوں کو اپنی نگاہیں نیچے رکھنے کا حکم دیا ہے تو کیا زبردستی سے مردوں کو نگاہ نیچے رکھنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے؟۔ عورت کو پردے کا حکم ہے مگر اس کو مجبور کرنے کا حکم نہیں ہے

سعد اللہ جان برق نے اپنی کتاب ”دختر کائنات” میں بہت سے حقائق لکھے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی ”پارلیمنٹ سے بازار حسن تک” کی کتابیں مارکیٹ میں آچکی ہیں۔ سعد اللہ جان برق نے محمد شاہ رنگیلا کی عیاشیوں پر بہت کچھ لکھا ہے اور سلطان عبد الحمید کی بھی ساڑھے 4ہزار لونڈیوں کا ذکر کیا ہے۔ حکمران جو کچھ کرتے رہے ہیں اس کے ذمہ دار وہ خود اور اس دور کے حالات ہیں۔ جب سلطان عبد الحمید اول اتنا عیاش تھا تو اس کی سرپرستی میں محمد شاہ رنگیلا نے بھی عیاشی کے علاوہ کیا کرنا تھا؟۔ آج دنیا میں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے منصوبے ہیں۔ سعودی عرب کا جس دن فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کیلئے قدم اٹھا تو شاید مغربی دنیا حرمین شریفین مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو بھی ایٹم بموں اور ہائیڈروجن بموں کی مدد سے صفحہ ہستی سے مٹادے۔ جس کیلئے مسلمانوں کو بہت اکسایا جارہا ہے۔ مسلمانوں نے افغانستان، عراق، لیبیا اور شام میں بھی کوئی موثر کردار ادا نہیں کیا تو فلسطین کے دکھ درد پر بھی محض اپنا دل دکھانے کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔ فلسطینیوں کی بربادی کو دیکھ کر مسلمان اور کچھ نہیں تو اپنا غم بھی بھول جائیں پھر بھی بہت قابل رشک ہوسکتے تھے۔ لیکن یہ المیہ ہے کہ فلسطینیوں کو بھول کر ہم سیاست اور قوم پرستی و فرقہ پرستی میں الجھے ہوئے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار پورا مغرب اور ترقی یافتہ دنیا مسلمانوں کی ایسی دشمن کیوں بنی ہوئی ہے؟۔ اس کا جواب یہی ہے کہ سب سے زیادہ فحش پروگرام دیکھنے کا ریکارڈ مسلمانوں کے حصے میں آرہا ہے اور اگر ان کو بڑی مقدار میں لونڈیوں کی عیاشیاں میسر آئیں تو انہوں نے دہشتگردوںکی مدد سے پوری دنیا کے کفار کی ماؤں ، بہنوں، بیٹیوں اور بیگمات کو لونڈیاں بنانا ہے۔ اس خوف سے کہ ان جنگلیوں کے ہاتھوں میں اگر ان کی خواتین آگئیں تو اس سے بہتر ہے کہ مسلمانوں کا مرکز کعبہ اور مدینہ نہیں رہیں۔ عیسائی اس بات پر حیران ہیں کہ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بہت برا اعتقاد رکھتے ہیں لیکن عیسائی طاقتور ہونے کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیت المقدس پر اتنا جوش نہیں کھاتے ہیں جتنا وہ مسلمان کھارہے ہیں جنہوں نے اس سے اپنا رُخ پھیر لیا تھا۔ جب ان کا قبلہ بیت المقدس تھا تو ان کا بیت المقدس پر قبضہ نہیں تھا۔ اور جب بیت المقدس سے اپنا رُخ پھیر لیا تو پھر بیت المقدس پر قبضہ کرنا ایسا تھا جیسے یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے قبلے پر اور مراکز پر اپنا قبضہ زبردستی سے جمائیں۔ ان کے نزدیک مسلمان ایک جنونی مخلوق ہیں اور ان کو اخلاق و اقدار کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ دوسروں کیلئے اخلاقیات کے الگ پیمانے ہیں اور اپنے لئے الگ ہیں۔ جب وہ لونڈیوں کے لباس کا شرعی حکم بیان کرتے ہیں تو وہ اتنا مختصر اور گندہ لباس ہوتا ہے کہ مغرب کی عورتیں بھی بہت مشکل سے اپنے ماحول میں اس طرح کا لباس پہن کر شرمندگی سے دوچار ہوتی ہیں۔
ان کے ذہن میں یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جب بھی تمہاری خلافت قائم ہو تو ان کو ذلیل کرکے غلام اور لونڈیاں بناؤ جو غیر مسلم ہیں۔ مسلمانوں کی شدید خواہش بھی یہی ہے کہ جس طرح جنت میں ہزاروں حوریں ان کے مقدر میں ہوں گی اسی طرح سے کافر کی عورتوں کو بھی ہزارں کی تعداد میں لونڈیاں بناکر رکھنا ان کا اہم فریضہ ہے، بس چلنے کی بات ہے۔
عورت مارچ والی خواتین سوچتی ہیں کہ اگر مسلمانوں کی خلافت قائم ہوگئی اور ہمیں گھروں میں بند کرکے بازاروں کو اغیار کی لونڈیوں سے سجایا گیا تو دنیا ہمارے لئے جہنم بن جائے گی۔ جب تک قرآن کے ٹھوس دلائل سے مسلمان عوام الناس ، شدت پسندوں، حکمرانوں، سیاستدانوں اور مذہبی طبقات کو مطمئن نہ کیا جائے تو سب ایک ایسی مایوسی کا شکار رہیں گے جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔
اللہ نے فرمایا : اور اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کرسکو گے تو پھر تم نکاح کرو جن عورتوں کو تم چاہو دودو، تین تین، چار چار ۔ پھر اگر ڈرو کہ تم انصاف نہ کرسکو گے تو ایک ہی سے نکاح کرو۔ یا پھر جن سے تمہارا معاہدہ ہو۔ یہ اسلئے ہے تاکہ تم کسی ایک طرف نہ جھکو۔ (سورہ النسائ:3)
اس آیت اور اس قسم کی دوسری آیات سے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ آزاد عورتیں زیادہ سے زیادہ چار ہوسکتی ہیں جن سے نکاح کیا جائے۔ اور لونڈیوں کی کوئی تعداد نہیں ہے چاہے ہزاروں میں ہوں یا لاکھوں میں۔ لونڈیوں کو اپنی خواہشات کیلئے استعمال میں رکھ سکتے ہیں۔ سلطان عبد الحمید اور دیگر کی طرف سے عیاشی کے بازار اسلئے سجائے گئے تھے کہ ان کو قرآن نے اجازت دی تھی اور علماء و مفتیان نے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا تھا۔ جب قرآن کا فتویٰ سامنے آجائے تو پھر کون غلط کہہ سکتا ہے؟۔
آیت شروع ہوئی ہے یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کرنے کی وجہ سے اور پھر دو دو، تین تین، چار چار کی اجازت کے بعد انصاف نہ کرسکنے کی صورت میں ایک کی اجازت دی ہے یا پھر جن سے معاہدہ ہو۔ اب اس کی تشریح و تفسیر کا جاننا ضروری ہے کہ جن سے معاہدہ ہو ان سے کیا مراد ہے؟۔ ما ملکت ایمانکم ”جن کے مالک تمہارے معاہدے ہوں”۔ ما موصولہ ملکت فعل ایمان مضاف کم مضاف الیہ ۔ مضاف مضاف الیہ سے مل کر فاعل ۔ فعل اور فاعل مل کر صلہ۔ یہ عربی کی ترکیب ہے۔ جس سے ترجمہ بالکل درست سمجھ میں آئے گا۔ یعنی وہ عورتیں جن کے مالک تمہارے معاہدے ہیں۔ عام طور پر ملکت کا لفظ دیکھ کر یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ اس سے مراد لونڈی ہے۔ حالانکہ جس طرح اس سے لونڈی مراد ہوسکتی ہے اسی طرح سے اس سے غلام بھی مراد ہوتا ہے۔ یہاں پر نہ تو لونڈی مراد ہے اور نہ غلام۔ بلکہ جس عورت کے ساتھ بھی معاہدہ ہوجائے وہی مراد ہے۔
سنی شیعہ احادیث ، تفسیر اور فقہ کی کتابوں میں متعہ کے حلال و حرام ہونے میں بڑی بحثیں ہیں۔ عام لوگوں کو جب تک تفصیلات کا علم نہ ہو تو وہ حقائق سمجھنے میں بہت مغالطہ کھاتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ قرآن میں جس طرح آزاد مرد اور آزاد عورت کے ساتھ نکاح کی کھلے الفاظ میں اجازت ہے اسی طرح سے لونڈی اور غلام کے ساتھ بھی نکاح کی اجازت ہے۔ بلکہ اللہ نے فرمایا ہے: اور نکاح کراؤ جو تم میں سے ایامیٰ (طلاق شدہ و بیوہ) عورتیں ہیں اور اپنے صالح غلاموں کا اور لونڈیوں کا۔ اگر وہ فقراء ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا۔ اللہ وسعت والا جاننے والا ہے۔ اور وہ لوگ عفت میں رہیں جو نکاح تک نہ پہنچ پائیں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو مستغنی (نکاح کی دولت سے )کردے۔ اور جو تمہارے غلاموں میں سے معاہدہ کرنا چاہتے ہوں تو ان کے ساتھ لکھنے کا معاملہ کرو۔ اگر تم ان میں خیر سمجھتے ہو۔ اور ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے اور اپنی ان لڑکیوں کو بغاوت (یابدکاری) پر مجبور مت کرو جو نکاح کے ذریعے اپنا تحفظ چاہتی ہوں تاکہ اس کی وجہ سے تم دنیاوی وجاہت حاصل کرو اور ان میں سے جن کو مجبور کیا تو اللہ انکے جبر کے بعد غفور رحیم ہے۔ (النور:32،33)
ان آیات میں ایک طرف بیوہ طلاق شدہ ، غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کا ذکر ہے اور دوسری طرف یہ وضاحت بھی ہے کہ اگر یہ فقیر ہیں تو اللہ ان کو امیر بنادے گا۔ پھر یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اگر کوئی نکاح نہیں کرسکتا تو وہ پاکدامنی اختیار کرے یہاں تک کہ اللہ اس کو مستغنی بنادے۔ طلاق شدہ ، بیوہ اور لونڈی سے نکاح کرنا تو سب کو سمجھ میں آتا ہے لیکن غلام کے ساتھ نکاح کا کیا مطلب ہے؟۔ اس کو سمجھنا تھوڑا درکار ہے۔ جب ایک غلام کسی آزاد عورت سے کوئی نکاح کرے گا تو اس کی صورتحال کیا ہوگی؟۔ اس کی ایک ہی صورت ہوسکتی ہے کہ آزاد عورت اس غلام کے ساتھ کوئی لکھت پڑھت کرے۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر تمہیں ان میں خیر نظر آئے تو یہ لکھت ضرور کرو۔ اور ان پر اپنا مال بھی خرچ کرو۔ یہ ہے غلام سے نکاح کی حقیقت۔ جبکہ کچھ لوگوں نے بلکہ اکثر ترجمہ و تفسیر کرنے والوں نے اس سے مراد مکاتبت لیا ہے۔ مکاتب سے مراد کسی غلام کو آزاد کرنے کیلئے کوئی معاہدہ کرنا ہے۔ حالانکہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ اپنے کلام میں غلام کی آزادی کیلئے بھی لوگوں سے کہے کہ اگر تمہیں خیر نظر آئے تو پھر ان سے مکاتبت کرو۔ یہ رب جلیل سے کیسے ممکن ہے؟۔ حالانکہ غلام کا آزاد کرنا بھی بہت بڑی نیکی ہے۔ اور مکاتبت کے ذریعے سے اس کو آزاد کرنا اور مشقت میں ڈالنا اللہ کی رحمت سے جوڑ نہیں کھاتا۔ اور پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس میں بھی اللہ کہے کہ اگر خیر نظر آئے تو پھر مکاتبت کرو؟۔ یہ دراصل نکاح کا موضوع ہے اور نکاح کیلئے کوئی آزاد عورت غلام سے تیار ہوجائے تو بڑا مشکل تھا۔ لیکن اس کی وجہ سے قرآن کے ترجمے اور تفسیر کو بدلنا بھی درست نہیں ہے۔ یہ ثابت ہوگیا کہ لونڈی و غلام سے اللہ نے نکاح کا حکم دیا ہے تو پھر نکاح کے بغیر لونڈی رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔ آیات کے آخری حصے میں لونڈیوں کا ذکر نہیں بلکہ جوان لڑکیوں کا ذکر ہے کیونکہ لونڈیوں کا ذکر تو پہلے ہوچکا ہے۔ اس میں افسوسناک بات یہ ہے کہ اللہ نے جوان لڑکیوں کی ضد پر نکاح کی اجازت دی ہے کہ تم اپنے خاندانی وجاہت کی وجہ سے ان کو مجبور مت کرو کہ وہ کھل کر یا چھپ کر بغاوت کریں۔ بلکہ ان کو جہاں چاہیں نکاح کرنے دیں۔ اور اگر تم نے ان کو مجبور کیا تو پھر ان پر کوئی گناہ نہیں لیکن اس کا یہ مقصد لینا انتہائی غلط ہے کہ لونڈیوں کو اگر زبردستی سے بدکاری پر مجبور کیا گیا تو پھر لونڈیاں گناہگار نہیں ہوں گی۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک نکاح ہے اور دوسرا ایگریمنٹ نکاح میں قانونی ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور ایگریمنٹ میں باہمی رضامندی کا معاملہ ہوتا ہے۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز