پوسٹ تلاش کریں

سعودی عرب، ایران اور طالبان کے مذہبی اقتدارکا راز یہ تھا کہ لونڈی اور اس کا لباس ختم برطانیہ، فرانس اور امریکہ مغربی دنیا نے بڑااچھاکھیلا

سعودی عرب، ایران اور طالبان کے مذہبی اقتدارکا راز یہ تھا کہ لونڈی اور اس کا لباس ختم  برطانیہ، فرانس اور امریکہ مغربی دنیا نے بڑااچھاکھیلا اخبار: نوشتہ دیوار

سعودی عرب، ایران اور طالبان کے مذہبی اقتدارکا راز یہ تھا کہ لونڈی اور اس کا لباس ختم
برطانیہ، فرانس اور امریکہ مغربی دنیا نے بڑااچھاکھیلا

سعودی عرب، ایران اور افغانستان کی خواتین کے مقامی اور اسلامی لباس کو قربان کیا گیا؟

خطے میں جنگ ہے اور فریقین ایک دوسرے پر ایجنٹ کا الزام لگاتے ہیں ۔ اگر دشمنوں کا خوف نکل جائے گا تو وہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے پر مجبور کرنے کیلئے اپنی فنڈنگ چھوڑ دیں گے

عثمانی خلیفہ کی4500لونڈیوں میں ہر رنگ ونسل ، زبان وکلچر، مذہب ودین اور علاقہ وملک کی خواتین کو شامل کرنے کی کوشش ہوئی۔اس وقت فرانس اور برطانیہ کا اقتدار سمٹ رہا تھا؟

دشمن کو خطرہ ہے کہ اگر پھر خلافت قائم ہوئی تو مسلمان ان کی خواتین کونیم برہنہ لباس کی لونڈیاں بنائیں گے ایرانی بادشاہ یزد گرد کی تین بیٹیوں کو ابوبکر، عمر اور علی کے بیٹوںکی لونڈیاں بنایا گیا

لونڈیوں کا تصور اور مسلمانوں کا کردار

اسلام سے پہلے دنیا میں لونڈی اور غلام کا تصور تھا۔ لونڈی سے نکاح کی ضرورت نہیں تھی ۔غلام نوکر ہوتا تھا۔ بعض نسلی غلام تھے۔ بردہ فروشی ، جنگ اور ڈکیتی بھی غلام بنانے کا طریقہ تھا اور غلامی کا بنیادی ادارہ جاگیردارانہ نظام تھا جو مزارعین کے بچوں اور خواتین کو لونڈیا ںوغلام بناتا تھا۔ عورت معاشرے کی ایسی جنس تھی جس کو بیوی، بیٹی اور بہن کی حیثیت سے بیچنا مردوں کا اپنا حق تھا۔
جانور کی طرح انسان کی ملکیت کا حق تھا۔ عورت معاشرے میں جنس مملوکہ تھی ۔آج بھی عرب، پشتون ، پنجاب اور دنیا میں اس جنس کی خرید وفروخت کا دھندہ ہے اور میڈیا میں بھی رپورٹنگ ہوتی ہے۔ حال ہی میں امریکہ کی عدالت نے ایک پاکستانی فیملی کو لاکھوں ڈالر اسلئے جرمانہ کیا کہ وہ بہو پر جبری تشدد کے ذریعہ گھر کے کام کاج لیتے تھے اور اس کو بلیک میل کرکے رکھا تھا جس کی وجہ سے اس خاندان پر انسانی اسمگلنگ کا کیس بن گیا اور سزائیں بھی دے دیں۔
محمد شاہ رنگیلا بادشاہ بالا خانے کی سیڑھیوں پر ننگی لڑکیوں کے سینوں کو پکڑ کر چڑھتا تھا۔سعداللہ جان برق کی کتاب” دختر کائنات”میں حقائق ہیں۔ خواتین کی حالت آج بھی دنیا میں ہوشربا طور پر قابلِ رحم ہے لیکن ان کی مظلومیت کا انداز ظالم اور طاقتور مردوں کیلئے قابلِ رحم نہیں۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹوں کو ملتان اور لاہور سے اغواء کرکے طالبان نے برسوں افغانستان میں رکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا تھا تو ان پر بہت زیادہ ترس آتا تھا مگرملتان اور لاہور میں بکنے والی خواتین کی آہوں کا شاید یہ نتیجہ تھا۔
مذہبی اعتبار سے یاد رکھنے والا عبرتناک واقعہ کربلا ہے۔عشرہ محر م شہادت حسین کے طور پر شیعہ اور کچھ ہندو و سکھ تک بھی غم کے طور پر مناتے ہیں اور واقعی تاریخی ظلم ہوا تھا۔ انگریز پاکستان میں شیعہ ماتم کو کبھی لاعلمی میں دیکھتے تھے تو کہتے تھے کہ کیا نبیۖ کا نواسہ ابھی شہید ہوا ہے؟۔ کربلا کی داستان عاشور کی رات شام غریباں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اس کے بعد مزید سخت انداز میں شروع ہوتی ہے۔ حسین کے سرکو لیکر خواتین ، بچوں اور بیمار زین العابدین کیساتھ قافلہ یزید کے دربار میں پہنچادیا جاتا ہے۔ قافلے میں حسین کی بیگم حضرت شہر بانو ، بہن حضرت زینب اور بیٹی سکینہ بھی ہوتی ہیں۔ ایک شامی یزید سے کہتا ہے کہ ”یہ ایک جواں سال بچی بہت خوبصورت ہے۔ مجھے لونڈی کے طور پر دیدو”۔
بی بی زینب جواب دیتی ہیں کہ ”نہ تمہاری یہ اوقات ہے کہ اس کو لونڈی بناؤ اور نہ یزید کو اختیار ہے کہ اس کو لونڈی بنائے”۔ یزید نے کہا کہ ” اگر میں چاہوں تو لونڈی بناسکتا ہوں”۔ حضرت زینب نے بہت دردناک خطبہ دیا ۔ قرآن کی آیات پڑھیں کہ” بعض لوگوں کو ہم آزمانے کیلئے اختیار دیتے ہیں تاکہ ظلم کرنے والے ذلت آمیز انجام کی طرف پہنچ جائیں”۔ اور کہا کہ ” مسلمانوں کی عورتوں سے کافروں کی طرح سلوک نہیں کیا جاسکتا ہے مگر تم سے یہ بعید نہیں ہے اسلئے کہ تمہارے وجود میں ہمارے خاندان کا خون شامل ہے۔ ( یزید کی دادی حضرت ہندہ رضی اللہ عنہانے جو سیدالشہداء امیر حمزہ کے کلیجے کو چبا کر خون کو نوش فرمایا تھا۔ اس طرف حضرت زینب کا اشارہ تھا)سوشل میڈیا پر مولانا اسحاق کے بیان سے پورے واقعہ اور خطبے کو سن سکتے ہیں۔
امام حسین کی بیگم شہربانو اس موقع پر کیوں خاموش تھیں؟۔ یہ اس نے پہلا واقعہ نہیں دیکھا تھا بلکہ جب وہ سپر طاقت فارس کی شہزادی تھی اور حضرت عمر کے دور میں حضرت سعد بن وقاص کی قیادت میں مسلمانوں نے فتح کرکے اس کے باپ کی بادشاہی کو تہس نہس کردیا تھا۔ وہ اور اس کی دو بہنیں بھی لونڈی کے طور پر مال غنیمت میں لائی گئی تھیں۔ حضرت عمر نے کہا کہ ” مال غنیمت میں ان تینوں کو نیلام کردو”۔ حضرت علی نے کہا کہ ” شہزادیوں سے عام لوگوں جیسا سلوک نہ ہونا چاہیے۔ایک عبداللہ بن عمر ، دوسری حسین بن علی اور تیسری ابوبکر کے بیٹے محمد کو دیدیتے ہیں”۔ حضرت عمر نے اتفاق کیا۔ حضرت شہربانو پر اس وقت کیا گزر رہی ہوگی کہ جب اس کو عربی زباں بھی نہیں آتی تھی، اس کی بہنیں اور وہ سرِ عام نیلام ہونے کیلئے پیش کی جارہی تھیں؟ ۔ذراسوچئے۔حضرت شہر بانو اور اس کی بہنوں کا کیا گناہ تھا کہ تینوں بہنیں لونڈیاں بنائی گئیں؟۔ بس ایک سپر طاقت بادشاہ کی شہزادیاں ہونا ان کا گناہ ٹھہر گیا تھا؟۔ کیا باپ کے گناہ کی سزا بیٹیوں کو اسلام میں دینے کی گنجائش ہے؟۔ حضرت شہربانو کی نصیحت اکلوتے بیٹے امام زین العابدینسے کیا ہوسکتی تھی؟۔کیا چُپ کا روزہ رکھا ہوا تھا؟۔ کوئی قول اور بول کسی نے نقل کیا ہے؟۔کھلے حقائق کو سمجھنا ضروری ہے۔قوم پرست اور ملحد خوامخواہ میں مذہب یا اسلام سے دشمنی نہیں رکھتے۔ آئے روز مغرب میں قرآن، نبیۖ اور اسلام سے اظہارِ نفرت کے محرکات تلاش کریں!۔

اہل تشیع کے ائمہ اہل بیت مہدی غائب

امام زین العابدین میں اپنی ماںشہربانو اور بابا حضرت حسین کا خون تھا۔ میڈیکل سائنس میں ماں باپ کے سپرمXYاور قرآن میں نطفۂ امشاج ہے۔ امام حسین کا ایک بیٹا زید اپنے باپ حسین پر زیادہ گیا تھا اور اس نے بنوامیہ کے خلاف40ہزار افراد لیکر قیام کیا لیکن ساتھیوں سمیت شہید کردئیے گئے۔ بڑے بیٹے امام باقر پر اپنی ماں شہر بانو کا زیادہ اثرتھا اسلئے بنوامیہ کے خلاف قیام نہیں کیا۔ امام باقر، امام جعفر سے امام حسن عسکری اور امام مہدی غائب تک اہل تشیع کے سلسلہ امامت نے شہربانو کے اثر سے قیام کرنا گوارا نہیں فرمایا تھا۔
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت مہدی غائب قیام کریں گے تو پوری دنیا ان پر متفق ہوگی۔ بڑے دجال اور عیسیٰ علیہ السلام کے وقت کچھ بھی ہوگا تو سارے مسلمان متفق ہوں گے۔ اور یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ شیعہ عقیدے کے مطابق امام مہدی غائب آئیںگے یا پھر سنی عقیدے کے مطابق امام مہدی آئیںگے؟۔ شیعوں کی کتابوں میں امام کا قول موجود ہے کہ ” مہدی سے پہلے جو قیام کرے گا وہ ایسے طائر کا بچہ ہوگا جو غیر کے ہاتھوں میں پلا ہوگا”۔
شیعہ کے نزدیک اقتدار امام معصوم کا حق ہے۔ علی سے لیکر حسن عسکری تک کسی نے ظلم وفسق نہیں کیا۔ سنیوں کے نزدیک یزید، ظالم ، فاسق بھی امام ہوسکتا تھا۔ ایرانی اقتدار کوشیعہ مانتے ہیںیا ڈھونگ سمجھتے ہیں؟۔اکابردیوبند نے اپنی متفقہ کتاب ” المھند علی المفندعقائد علماء دیوبند” میں وہابیوں کی مخالفت کی تھی۔
حضرت ابراہیم کی زوجہ سارہ آپ کے خاندان سے ،دوسری حاجرہ لونڈی تھی جو ظالم بادشاہ نے سارہ کو تحفے میں دی ،وہ دوسرے بادشاہ کی بیٹی شہزادی تھی۔ ظالم بادشاہ خواتین کو لونڈیاں بناتے تھے۔ بہن ، بیٹی اور ماں کی اکثر عزت رکھتے لیکن مردوں کو ذلت تک پہنچانے کیلئے بیگم سے جبری زیادتی کرتے تاکہ وہ آنکھ اُٹھاکر کبھی بات نہ کرسکے۔ علماء نے بھی حلالہ کے ذریعے بادشاہوں اور شرفاء کی بیگمات کیلئے ایسا سیاسی گر استعمال کیا کہ وہ آنکھ نہیں اٹھاسکتے تھے۔
حضرت ابراہیم کی زوجہ سارہ سے بہت انبیاء حضرت اسحاق ،یعقوب اور یوسف آئے، داؤد ، سلیمان کو بادشاہت بھی مل گئی۔ حضرت عیسیٰ تک بڑی تعداد میں انبیاء اور ملوک حضرت سارہ کی نسل سے آئے لیکن حضرت حاجرہ کی نسل میں حضرت اسماعیل کے بعد آخری پیغمبر حضرت محمد ۖ تک درمیان میں کوئی نبی اور بادشاہ نہیں آیا۔اللہ نے فرمایا: ”اے بنی اسرائیل ! یاد کرو میری اس نعمت کو کہ میں نے جہاںوالوں پر تمہیں فضلیت دی”۔ بنی اسرائیل کو برے عذاب کا سامنا کرنا پڑا تھا جب آل فرعون انکے بیٹوں کو قتل اور ان کی عورتوں کی حیاء لوٹتے (یعنی لونڈیاں بناتے )تھے۔ (القرآن)۔ نبیۖ نے لونڈی و غلامی ختم کرنے کا مشن اٹھایا ۔ ایران اور روم فتح ہوئے تو یورپی و ایرانی لونڈیاں بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ حقیقت ہے کہحب الشہوٰت من النساء (عورتوں سے شہوانی محبت کا جذبہ )مردوں کی بہت بڑی فطری کمزوری ہے۔ آدم خلیفہ بنانے کیلئے زمین پر بھیجے جارہے تھے تو پہلاحکم یہ دیا کہ ” اس شجرہ کے قریب مت جاؤ”۔ وہ شجرۂ نسب تھا اسلئے کہ ہمیشہ رہنے والا اور ایسی ملک جو ختم نہ ہو،نسل ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ عصی اٰدم فغویٰ” آدم نے نافرمانی اور سرکشی کردی”۔نافرمانی اور سرکشی کی نسبت اللہ نے حضرت حواء کی طرف نہیں کی لیکن پھر بھی ایک کمزورعورت حواء پر سارا مدعا ڈالا گیا ہے۔اگر ہم نے قرآن کی طرف رجوع نہیں کیا تو تذلیل کی آخری حد کو اللہ نے ہمیں پہنچادینا ہے۔

لونڈی انسانی ماتھے پر بہت بڑا داغ


مولانا غلام رسول سعیدی نے لکھ دیا کہ ” دنیا میں غلام بنانے کی رسم تھی تو اسلام نے جزاء سیئة بالسیئة برائی کے بدلے برائی کا جواز دیا لیکن دنیا نے پابندی لگادی تو اسلام بھی اس پابندی کو قبول کرتا ہے”۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا کہ ” اپنی قوم سے تعلق رکھنے والی آزاد عورتیں ہیںاور ان میں 4سے ایک بھی زیادہ سے نکاح کی گنجائش نہیں ہے۔ دوسری قوم سے تعلق رکھنے والی عورتیں لونڈیاں ہیں اورجن میں تعداد کی کوئی پابندی نہیں ، جتنی چاہیں رکھ سکتے ہیں”۔
مولانا عبیداللہ سندھی اور مولانا غلام رسول سعیدی نے کوشش کی کہ اسلام کے ماتھے سے لونڈیوں کا داغ مٹ جائے ۔ان کا تعلق دیوبندی بریلوی حنفی مسلک سے تھا۔ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے حنفی علماء کسی بات پر متفق ہوجائیں تو دنیا پر بڑے اثر ات مرتب ہوںگے۔ ہندوستان اور پاکستان کو منصوبہ بندی کے تحت تقسیم رکھا گیا۔ اگر صلح حدیبیہ کا معاہدہ اور اسلام کی درست تعبیر ہوتو دنیا میں اسلام کا راستہ کوئی نہیں روک سکے گا۔آزادی سے پہلے مسلمانوں اور ہندؤوں نے خلافت کی بحالی کیلئے مشترکہ تحریک چلائی تھی ،جس میں مولانا محمد علی جوہر کیساتھ نامی گرامی ہندو لیڈر بھی شریک تھے۔
مولانا محمد علی جوہر’کامریڈ’مولانا ظفر علی خان’زمیندار’ اخبار نکالتے تھے۔ مولانا حسرت موہانی کمیونسٹ تھے ۔علامہ اقبال نے کہا : ” جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہوروزی اس کھیت کے ہرخوشہ گندم کو جلادو”۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کو خطرہ تھا کہ برصغیر کی سیاسی قیادت، عثمانی خلافت ، روس و جرمنی آپس میں مل کر سپر طاقت نہ بن جائیں۔ جرمنی میں دیوار برلن کھڑی کی گئی۔ پاک وہند کو تقسیم اور خلافت عثمانیہ کے ٹکڑے کئے گئے۔ حجازکا شریف مکہ برطانیہ کا ایجنٹ تھا۔ شیخ الہند چھپ کر حجاز پہنچے تو شریفِ مکہ نے برطانیہ کے حوالے کردیا۔ دارالعلوم دیوبند کے اندر سے مخبری ہوئی ۔ مولانا حسین احمد مدنی حرم کے مدرس اورغیر سیاسی شخصیت تھے لیکن اپنے استاذ کیساتھ مالٹا جیل جانا پسند کیا تھا۔
برطانیہ نے سعودی عرب سے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا تو عربی کلچر اور اسلام کے برعکس خود ساختہ شرعی پردہ مسلط کردیا۔ جس نے مسلمانوں کے ذہن سے لونڈی اور اسکے لباس کا تصور ختم کردیا۔ برطانیہ، فرانس سپرطاقت تھے پھر امریکہ بن گیا۔خلافت عثمانیہ کو مل بانٹ کر توڑا ۔روس کے خلاف متحد ہوگئے پھر فرانس سے امام خمینی نے ایرانی انقلاب برپا کیا۔ ایرانی کلچر اور اسلام کے برعکس پردہ نافذ ہوا۔50سالوں سے ایران میں عورتوں پر پردے کی جو پابندی ہے اس کی وجہ سے لونڈی کے لباس کا تصور ختم کردیا گیا۔ وہابی اور شیعہ اسلامی پردے کے نام پر جو کھلواڑ ہوا ،اسکے اثرات قدامت پسند نہیں ڈھیٹ مذہبی طبقہ نے قبول کئے۔ امریکہ نے بینظیر بھٹو اور نصیراللہ بابر کے ذریعے طالبان کو لاؤنچ کیا۔ سعودیہ، ایران اورطالبان میںکونسا اسلام ہے ؟۔ سب جائیں بھاڑ میں مگر عالمی طاقتوں نے دنیا سے لونڈیوں اور انکے لباس کا خاتمہ کرکے اچھا کیا۔ امریکہ نے مولانا سیدابولاعلیٰ مودودی سے کمیونزم، جہاد اور پردے کے نام پر کتابیں لکھوائی۔ اسلامی جمعیت طلبہ وطالبات نے کبھی خود اس پردے پر عمل نہیں کیا۔ جہاد کیلئے اپنے بیٹے فاروق مودودی اورجماعت اسلامی کے رفقاء کو نہیں بھیجا لیکن جذباتی لوگوں کو میجر مست گل کی بڑی زلفوں کا اسیر بنانے کا ڈرامہ ضرور کیا۔
آج چوہدری نثار اپنے پسندیدہ سیاستدانوں میں پہلے نمبر پر ولی خان اور دوسرے نمبر پر ذوالفقار علی بھٹو کو رکھتے ہیں۔ ولی خان نے بینظیر بھٹو سے کہا تھا کہ ” آپ خود بھی ایک خاتون ہیں اور افغانستان میں عرب مجاہدین پختونوں کی خواتین کو لونڈیاں بنانے کی باتیں کررہے ہیں”۔ عمران خان کہتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو سے اختلاف بھی ہے لیکن وہ پہلے نمبر کے لیڈر تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اداکارہ ممتاز کیساتھ جو کیا تھا وہ حبیب جالب کے اشعار میں موجود ہے۔
لاڑکانہ چلو نہیں تو تھانہ چلو

خلافت کا قیام اور دنیا کو خطرات کا سامنا


احادیث صحیحہ میں خلافت علی منہاج النبوہ کی پیش گوئی ہے۔ مولانا آزاد، مولانا سیدمودودی ، شیخ عبداللہ ناصح علوان ، ڈاکٹر اسرار احمد ، علامہ اقبال اور کئی مذہبی اسکالرز اور سیاسی رہنماؤں کے دل ودماغ میں روشن مستقبل کا نقشہ دکھائی دیتا ہے۔ عالمی قوتوں کو بجا طور پربہت خوف آرہاہے اور افغان طالبان کیساتھ عمران خان کی ہمدرد ی کو بیان کرتے ہوئے رؤف کلاسرا نے کہا کہ پانچ عالمی طاقتور ممالک نے سفارت کاری کے ذریعے پیغام دیا کہ ” اگر آئندہ عمران خا ن اقتدار میں آیا تو پاکستان کیساتھ کام نہیں کریں گے۔ پاکستان امریکہ، برطانیہ، چین اوریورپی ممالک کے بغیر نہیں چل سکتا ،انہوں نے بہت ساری رعایتیں دے رکھی ہیں”۔پھر رؤف کلاسرا نے عمران خان کو بینظیر بھٹو کے طرز پر قتل کی سازش کا ذکر کیا ۔ بعض کے طرزِ عمل سے لگتاہے کہ صحافی اور چوہدریوں میں بھی میراثی کا کردار ادا کرنے والے ہوسکتے ہیں۔ عمران خان کچھ بھی نہیں مگر قسمت اس پر مہربان ہے۔ نظام نہیںانقلابی اقدامات سے ملک بچانا پڑیگا۔کچھ صحافی گدھے کا دودھ پینے اور گدھی کے ٹٹے مالش کرنے کی مہم جوئی کرتے ہیں۔
عالمی قوتوںکو پاکستان سے خلافت کے قیام میں اپنی خواتین لونڈیاں بنتی دکھائی دیتی ہیں۔ پہلے یہود ونصاریٰ نبیۖ سے اسلئے راضی نہیں تھے کہ ” مذہبی معاملات میں احبار ورھبان نے دین میں تحریفات کی تھیں اور ان کی چاہت تھی کہ نبیۖ بھی اصلی دین کی جگہ ہماری تحریفات پر ہمارے تابع بن جائیں”۔ لن ترضیٰ عنک الیہود ولن النصاریٰ حتی تطبع ملتھم ”آپ سے کبھی یہود اور نصاریٰ راضی نہیں ہوں گے یہاں تک کہ آپ ان کی ملت کے تابع بن جائیں”۔ دین کا معاشرتی اور معاشی نظام یہودونصاریٰ بگاڑ چکے تھے۔ اللہ نے فرمایا کہ ” انہوں نے اپنے احبار ورہبان کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا”۔ حاتم طائی کے فرزند عدی بن حاتم نے اسلام قبول کیا تھا اور اس آیت پر نبیۖ سے سوال اٹھایا کہ ”ہم نے تو علماء ومشائخ کو اپنا رب نہیں بنایا تھا”۔نبیۖ نے فرمایا کہ ” کیا تم ان کے حلال کردہ حرام کو حلال اور حرام کردہ حلال کو حرام نہ سمجھتے تھے؟” ۔ عدی نے عرض کیا کہ ” یہ تو ہم سمجھتے تھے” ۔نبیۖ نے فرمایا کہ ” یہی تو رب بنانا ہے کہ ان کے کہنے پر حرام کو حلال اور حلال کو حرام سمجھتے تھے”۔
قرآن نے عورت کے حقوق کی زبردست وضاحت فرمائی مگر مذہبی طبقات نے کھلے حقائق کو بہت بھونڈے انداز میں مسخ کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے اور ایک ایک بات کو انسان دیکھے تو یہودونصاریٰ کے کردار کو سمجھے گا کہ نبیۖ کی ذات سے کیوں راضی نہیں ہوسکتے تھے؟۔ اوروہ ہے عورت کابدترین استحصال ۔
جب جنگ بدر میں مسلمانوں نے70افراد کو قیدی بنالیا تھا تو کسی ایک کو بھی غلام نہیں بنایا تھا۔ اگر خواتین ہوتیں تو شاید آپس میں بانٹ دی جاتیں؟۔ اسلئے کہ لونڈیاں رکھنا دورِ جاہلیت اور انسانوں کا محبوب مشغلہ تھا۔ مگر یہ سب مرد تھے اور جنگ کے شہسواروں کو غلام بنانا اور ان سے گھر کی خدمت لینا ممکن نہیں۔ ابھی نندن اور کلبھوشن یادیو کو پکڑلیا تو کون گھر کی خدمت لیتا؟۔ درا صل یہ نظریہ غلط ہے کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنانا ممکن ہے۔ جنگی قیدیوں کوقتل کیا جاسکتا ہے، غلام نہیں بنایا جاسکتا اسلئے قرآن نے حکم دیا ہے کہ ” ان کو فدیہ لیکر چھوڑ دو یا پھر احسان کرکے چھوڑ دو”۔ (القرآن)۔ جس سے جنگی قیدی کو قتل نہ کرنے کا کریڈٹ قرآن کے کھاتے میں جاتا۔ افسوس کہ ہم نے قرآن کو اتنے بڑے کریڈٹ سے محروم کیا ۔ورنہ عافیہ صدیقی بھی امریکہ کی قید میں نہ ہوتی اور اقوام متحدہ میں قرآن اور اسلام کے نام پر جنگی قیدیوں کیلئے عظیم قوانین بھی بنتے۔

قرآن اور لونڈی کے تصور کا خاتمہ


لونڈی کو امة اور غلام کو عبدکہتے تھے، قرآن میں ان کو آزاد کرنے اورنکاح کرانے کا حکم ہے۔اللہ نے قیدیوں کا فرمایا کہ” فدیہ یا احسان سے چھوڑدو”۔ لونڈی بنانے کا تصور بڑی غلطی ہے۔ کوئی آیت نہیں کہ جس سے لونڈیاں بنانے کا حکم اخذ ہو۔ بنی اسرائیل کولونڈی سے بچانے کیلئے اللہ نے آل فرعون سے مزاحمت کیلئے انبیاء بھیجے تویہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ نے آل فرعون کی کمی اسلام سے پوری کرکے بنی اسرائیل اوردیگر انسانوں کو لونڈی بنانے کا مشن دیا ہو؟۔
اللہ نے فرمایا: پس تم نکاح کرو عورتوں میں سے جن کو تم چا ہو2،2اور3،3اور4،4سے اور اگر تمہیں خوف ہو کہ تم عدل نہیں کرسکتے تو پھر ایک یا جن کے مالک تمہارے معاہدے ہیں”(سورۂ النسائ) کیااللہ نے لونڈیوں کی تعداد نہیں بتائی تھی ۔اسلئے رنگین مزاج بادشاہوں نے ہزاروں لونڈیاں رکھی تھیں؟۔
جس طرح جنت میں حوروں کی بڑی تعداد کا ذکر عام ہے مگر قرآن اور صحیح حدیث میں اس کا دور دور تک نشان نہیں۔ اسی طرح زیادہ تعداد میں لونڈیوں کا تصور انتہائی احمقانہ اور نفسانی خواہشات کا عکاس ہے جو اسلام کے منافی ہے۔ کوئی منصف مزاج انسان ہوتا تو آیت سے زیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ نکالتا کہ پہلی صورت یہ ہے کہ دو چار عورتوں سے نکاح کرسکتے ہو ۔اگرنا انصافی کا خوف ہو تو پھر ایک سے نکاح کرو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ”یا جن سے تم معاہدہ کرلو”۔ اگر آدمی ایک عورت سے بھی نکاح کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اس کیلئے معاہدے کی بھی گنجائش ہے۔ عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ ابوہریرہ نے نبی ۖ سے پوچھا کہ کیا ہم اپنے آپ کو خصی بنائیں؟ ۔ نبیۖ نے فرمایا کہ نہیں۔ تم کسی سے متعہ کرلو ایک یا دوچادر کے بدلے۔ اس چیز کو اپنے اوپر حرام مت کرو جس چیز کو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ، الآےة(صحیح بخاری )بخاری کی حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جس کے پاس ایک عورت سے بھی نکاح کی صلاحیت نہیں تو وہ متعہ کرسکتا ہے اور آیت میں معاہدے سے مراد لونڈیاں نہیںبلکہ (متعہ اورمسیار)ہے۔
نکاح کیلئے جو لوازمات ہیں وہ معاہدے کیلئے نہیں ہیں۔ حضرت عثمان نے حضرت ابن مسعود سے کہا تھا کہ اگر آپ کہیں تو میں کسی لڑکی سے نکاح کروادیتا ہوں مگر ابن مسعود نے پیشکش قبول نہیں کی۔ ابن مسعود نے مصحف کی تفسیر میں لکھا کہ ” ایک مخصوص وقت تک متعہ کرسکتے ہیں” ۔علماء کہتے ہیں کہ ابن مسعود نے قرآنی آیت قرار دیا تھا مگر وہ قرآن کے لفظ کی حدیث کے مطابق تفسیر تھی۔ علی کی بہن ام ہانی نے ہجرت نہیں کی اور اللہ نے نبی ۖ سے فرمایا کہ” ہم نے آپ کیلئے ان چچاکی بیٹیوں کو حلال کیا ہے جنہوں نے آپ کیساتھ ہجرت کی ہے”۔نبیۖ ان سے نکاح کرسکتے تھے ،نہ لونڈی بناسکتے تھے۔ علامہ بدرالدین عینی نے ام ہانی کو ازواج النبی ۖ میں شامل کیا ۔ حالانکہ ان کو ام المؤمنین کا شرف حاصل نہیں ہوا۔پھر اللہ نے نبیۖ پر کسی سے بھی نکاح کی پابندی لگائی تھی مگر ایگریمنٹ کی اجازت دی اور ام ہانی سے ایگریمنٹ ہوسکتا تھا لیکن علامہ عینی نے28خواتین کو ازواج میں شمار کیا ہے۔نبیۖ نے فتح خیبر کے موقع پر صفیہ سے صحبت کی تو دعوت ولیمہ میں صحابہ نے کہا کہ ”اگر پردہ کروایا تو نکاح ہے اور نہیں کروایا تو ایگریمنٹ ہے”۔ ( صحیح بخاری)۔ ایگریمنٹ آزاد عورت اور لونڈی دونوں سے ہوسکتا ہے اور ایگریمنٹ کا تعلق کاروباری معاملے سے بھی قرآن میں انہی الفاظ کیساتھ آیا ہے۔ قرآن نے عبدیت کو ناجائز قرار دیا ہے اسلئے کہ عبدیت صرف اللہ کی ہوسکتی ہے ۔دورِ جاہلیت میں لونڈی اور غلام مملوک ہوتے تھے ۔ مملوک کے جانور کی طرح انسانی حقوق نہیں تھے ۔ اسلام نے انسانی حقوق بحال کرکے ان کو گروی کا درجہ دے دیا۔ اسلئے ان پر ملکت ایمانکم کا اطلاق کیا ۔قرآن میں ہر مقام پر اس کا مختلف چیزوں کیلئے معنی واضح ہے۔ ہم نے جب قرآن کی طرف دھیان نہیں دیا تھا تو اسی گمراہی کے شکار تھے اور گمراہی کی اس دلدل سے نکلنے کیلئے پاکستان کی پارلیمنٹ کو بروئے کار لانا ہوگا۔

قرآن میں جدید دور کے مسائل کاحل


شیخ العرب والعجم مولانا ابوالحسن علی ندوی نے لکھا ہے کہ ” قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ ومن یشتری لھو الحدیث ” اورجو خریدتا ہے لغو بات کو”۔ اس جدید دور میں بات ریکارڈ ہوسکتی ہے ۔ اسلئے کہ لغو بات کے لغو خریدنے کا تصور قدیم دور میں نہیں ہوسکتا تھا۔ نبیۖ نے صحابہ کرام سے فرمایا ہے کہ” قرآن میں تمہارے بعد پیش آنے والی خبروں کا بھی ذکر ہے”۔ قرآن کی یہ تفسیر بالکل حدیث کے بھی مطابق ہے اور اس کو جھٹلانے کی عقلی گنجائش بھی نہیں ہے۔
محرمات کی فہرست چوتھے پارے کے آخرمیں اللہ تعالیٰ نے بیان کرتے ہوئے ماں، بیٹی ، بہن اور مختلف رشتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دو بہنو ں کو جمع مت کرو۔ پھر پانچویں پارے کے شروع میں فرمایا : والمحصنٰت من النساء الا ماملکت ایمانکم ”اور عورتوں میں سے جو بیگمات ہیں مگر جن سے تمہارا معاہدہ ہوجائے”۔ اس آیت کی تفسیرمیں بڑے تضادات ہیں۔ ایک صحابی کی طرف منسوب ہے کہ ” اگر کسی کی لونڈی نے دوسرے شخص سے نکاح کیا ہو تو وہ پھر بھی اس کی لونڈی ہے اور واپس لیکر اس کیلئے حلال ہے”۔ جمہور نے کہا کہ جنگ میں پکڑی جانے والی عورتیں جن کا پہلے سے خاوند ہو اور وہ لونڈی بن جائیں تو وہ حلال ہیں۔ کسی ایک تفسیر پر اتفاق رائے نہیں ہے ۔ لیکن کیوں؟۔
اللہ نے قرآن کو بہت واضح بیان کیا ہے تو اس کی تفسیر کس وقت مشکل ہوتی ہے؟۔ سورۂ جمعہ میں اللہ نے واٰخرین منھم لما یلحقوبھم ” اور ان میں سے آخرین جو ابھی تک ان پہلوں سے نہیں ملے ” ۔ کا تعلق آئندہ زمانے سے تھا اسلئے صحابہ نے پوچھا کہ ان سے کون مراد ہیں۔ نبیۖ نے سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کرفرمایا کہ اسکی قوم کا ایک شخص یا چندا فراد اگر دین ثریا پر پہنچ جائے تو بھی اس کو پالیںگے، بعض روایات میں علم اور ایمان کا بھی ذکر ہے۔
صحابی نے اشکال اٹھایا ہے کہ محرمات کی فہرست میں سب سے آخر میں جو طبقہ بیان ہوا ہے آخر سے ان سے کونسی خواتین مراد ہوسکتی ہیں جن کو بہت ہلکے درجے کے محرمات میں شمار کیا گیا ہے اور پھر اس میں استثناء کا بھی ذکرہے؟۔
عربی میں محصنات صرف ان کو نہیں کہتے ہیں جن کے شوہر زندہ ہیں۔ بلکہ جن کے شوہر فوت ہوچکے ہیں ان کو بھی محصنات یعنی بیگمات کہتے ہیں۔بیگمات کی یہ قسم چونکہ پہلے ادوار میں نہیں تھی اسلئے تفسیر بھی مشکل ہوگئی۔ موجودہ دور میں جن فوجی جوانوں کو نشان حیدر یا دوسری ایسی بیگمات جن کی مراعات سابقہ شوہر سے نکاح کے بندھن کیساتھ وابستہ ہوں۔ جب وہ نکاح کریں تو ان مراعات سے ہاتھ دھونا پڑجائیں۔ اگر ان کو جھانسہ دیکر نکاح کرلیا اور وہ مراعات سے بھی محروم ہوگئیں اور پھر کسی وجہ سے طلاق یا خلع کا معاملہ ہوگیا تو کتنا برا ہوگا؟۔ اس وجہ سے ایسی خواتین سے مستقل نکاح کی جگہ پر ایگریمنٹ کے جواز کا مسئلہ اللہ نے واضح کردیا۔ ایک تو اس عورت کو مراعات ملتی رہیں گی اور دوسرا جنسی خواہش کیلئے بھی کسی معین شخص سے تعلق معیوب ، غیراخلاقی اور غیرقانونی نہیں رہے گا۔
پاکستان سمیت دنیا بھر کی خواتین کیلئے یہ بہت بڑی خوشخبری اور مشکلات سے نکلنے کا اہم ذریعہ ہے۔ اگر پاکستان میں ایسا ماحول نہ ہوتا کہ پینشن سے بھی جان چھڑانے کے منصوبے بن رہے ہیں تو سب سے پہلے ہماری اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی اپنے پیٹی بند بھائیوں اور معاشرے کے عظیم مفاد میں پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی بھی کرواتے۔ قرآن نے ایک ایک معاشرتی مسئلہ حل کیا ہے لیکن ہمارے مدارس میں قرآن کے ترجمے بھی رٹے رٹائے کئے جاتے ہیں اور قرآن کے ذریعے مسائل حل کرنے کی طرف کوئی توجہ تک نہیں دیتے ہیں۔

 حورکا تصور اور قرآن وحدیث اورعربی


قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ انہ ظن ان لن یحور ”بیشک اس کا گمان تھا کہ وہ دوبارہ پیدا نہیں ہوگا”۔ جن عجمیوں کو عربی نہیں آتی ہو تو ہوسکتا ہے کہ ایسی روایت بھی گھڑ دی ہو کہ جنت ، جہنم، توحید، رسالت، کتابوں، ملائکہ کی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اسکا ایمان حور پر بھی ہو اور جس کا ایمان حور پر نہیں ہوگا تو اس کو حور بدمعاش بن کر خود مارے اور پیٹے گی کہ تمہارامجھ پر یقین کیوں نہیں تھا؟۔ جیسے امامھم کو امہاتھم سمجھ کر روایت گھڑ دی کہ آخرت میں ماؤں کے نام سے سب کو پکارا جائیگا ،ایک عمر کو باپ کے نام سے پکارا جائے گا اسلئے کہ غیرتمند تھا۔
حور کا اصل معنی تو جدت کیساتھ نئے انداز میں پیدا ہونا ہے۔ آخرت میں یہ انسانی وجود جب دوبارہ پیدا ہوگا تو یہ حور ہے۔ حور مردو عورت دونوں کو کہا جاتا ہے۔ حور عین کیساتھ شادی ضرور ہوگی لیکن مرد اور عورت دونوں اپنی اپنی جگہ پر حور بھی ہوں گے اسلئے کہ نیا وجود ہوگا اور عین کا معنی دنیا کی حقیقت بھی وہی ہوگی یعنی اس کو شخصیت بعینہ ہوگی وہی مگر اس میں جدت اور نیا پن ہوگا۔ یہ قرآن کی طرف سے اس سوال کا جواب ہے کہ مرد کو حور ملے گی تو عورت کو کیا ملے گا؟۔ یہی نا کہ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کیلئے حور یعنی جدت والا وجود ہوں گے۔
سورۂ رحمان میں اللہ نے فرمایا: فیھا الفاکھة والنخل والرمان ” اس میں پھل ہوں گے، کھجور اور انار”۔ فیھن خیرات حسان ” جنت یعنی باغ میں مزیدار(پھل) خوشنما ” ۔ یہ باغ کے پھلوں کی صفات ہیں۔ عورتیں مراد نہیں ہوسکتیں کیونکہ پھر خیِرات کا لفظ ہوتا۔حور مقصورات فی الخیام
لگتا ہے کہ علماء کے نزدیک جنت میں بھی سندھ کے سیلاب زدگان کے خیمے ہیں ۔ حور یعنی جدید پھل ۔ مقصورة پردہ نشین عورت ، مکان اور کوئی بھی چیز جو ڈھکی ہوئی ہو۔ موجودہ دور میں ہائی بریڈپھلوں کے پودے خیموں میں ہوتے ہیں۔ جو درجہ حرارت کو کنٹرل کرنے کیلئے ہوتے ہیں جو ہر موسم میں پھل دیتے ہیں۔ اس سے جدید ترقی یافتہ باغات کا نقشہ سامنے آتا ہے۔ پہلے کسی نے اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ قرآن کی تفسیر زمانہ کرتاہے، ابن عباس۔ لم یطمسھن انس ولا جان ”ان کو انسانوں اور جنات نے چھوا نہیں ہوگا”۔ یہ بھی پھلوں کی صفت ہے کہ وہ بالکل محفوظ اور ایسے ہوںگے کہ کسی نے ہاتھ نہیں لگایا ہوگا۔
اس طرح دوسرے مقامات پر بھی پھلوں کے درختوںکی شاخوں کا بیان ہے کہ قاصرات الطرف، عرباًاتراباً ”جن کی شاخیں اطراف میںجھکی ہوئی ہوں گی اور دل کو لبھانے والی اور ہاتھوں کی ان تک رسائی ہوگی”۔اس طرح کواعبا اترابا ” ابھری ہوئی لٹکی ہوئی قد کے برابر”۔ یہ بھی باغات کی صفات ہیں۔ ہمارے ہاں کہاوت ہے کہ کوچوں کا افغان ڈاگ چاند کو دیکھ کر چھلانگیں لگاتا ہے کہ شاید بڑی افغانی روٹی ہے۔ درباری علماء بادشاہوں کی طرح عیاشی کے مزے نہیں اڑاسکتے تھے اسلئے قرآن میں باغات کی صفات کو بھی کچھ اور سمجھ کر اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق اس کی تفسیر کر ڈالی۔ حالانکہ نبیۖ نے ایسی تفسیر کی سخت مذمت فرمائی تھی جو اپنی رائے اور خواہش سے کی جائے۔
بہت سارے لوگوں نے قرآن کی حقانیت پر یقین کرنا اسلئے چھوڑ دیا کہ ان کے نزدیک بس سیکس اور عورت ہی ترجیحات کا مطمع نظر لگتا تھا۔ اس میں قرآن کا کوئی قصور نہیں تھا کہ درخت اور پھلوں کی صفات میں بھی ان کو کچھ اور دکھائی دیتا تھا۔ جب ہم جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پڑھتے تھے تو مولانا طارق جمیل کبھی بیان کرنے آجاتے تھے۔ قبراور حوروں کے احوال سے ایسے مناظر اور کہانیوں کی عکاسی کرتے تھے کہ بعض طلبہ بہت فحش قسم کے الفاظ استعما ل کرتے تھے۔
عورت بیچاریوں کیلئے دنیا الگ سے عذاب بنائی تھی تو جنت کی بھی ایسی عکاسی کردی تھی کہ کرین سے زنجیروں میں باندھ کر ان کو زبردستی سے جنت میں ڈالنا پڑتا۔ جب نیک وپارسا خواتین کو حقائق کا پتہ چلے گا تو وہ ساری دنیا میں ایسی تبلیغ کرنا شروع کریں گی کہ اسلام دنیا میں بہت جلد از جلد پھیل جائے گا۔

 پاکستانی علماء کا کیا کردار ہونا چاہیے؟


اہلحدیث اور جماعت اسلامی ہندوستان کے علماء کی پیداوار ہیں اسلئے ان کی ذہنیت درباری علماء سے زیادہ مختلف نہیں۔ قرآن کی طرف رجوع کیلئے شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مالٹا سے رہائی کے بعد عمر کے آخری حصہ میں آواز اٹھائی مگر امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی کے سوا کسی نے ان کی بات پر کان نہیں دھرے۔ دارالعلوم دیوبند کے مولانا انور شاہ کشمیری نے عمر کے آخر میں مولانا عبیداللہ سندھی سے معافی مانگ لی تھی بلکہ یہ بھی فرمایا تھا کہ” میں نے ساری عمر قرآن وحدیث کی خدمت کرنے کے بجائے فقہ کی وکالت میں ضائع کردی”۔
علماء ومفتیان کیلئے درسِ نظامی وہ کمبل ہے جس سے علماء حق نے ہمیشہ جان چھڑانے کی کوشش کی لیکن کمبل ان کی جان کو نہیں چھوڑ رہاہے۔ ایک شخص کو دریا میں کمبل نظر آیاتو چھلانگ لگائی کہ کمبل کو پکڑلے ۔ ساتھی سمجھ گیا کہ کمبل نکالنا اس کے بس میں نہیں اور آواز لگائی کہ کمبل کو چھوڑ دو۔ کمبل سے کشمکش والے نے کہا کہ میں کمبل کو چھوڑ رہاہوں، کمبل نہیں چھوڑ رہاہے کیونکہ وہ کمبل نہیں ریچھ تھا۔ مولانا یوسف بنوری کی خواہش تھی کہ ایسا مدرسہ قائم کرے کہ مولانا سیدانور شاہ کشمیری کی خواہش کے مطابق طلبہ اور اساتذہ کی زندگیاں ضائع نہیں ہوں بلکہ قرآن و حدیث کی تعلیم سے دنیا میں انقلاب آئے لیکن کمبل میں پھنس گئے۔
عیاش مسلم حکمرانوں نے دنیا کو شکست دیکر یہ مذہبی تصور قائم کیا کہ عمر نے پابندی لگائی کہ ” لونڈیاں اپنے لباس سے زاید جسم کو نہیں ڈھانک سکتی ہیں”۔ لونڈیوں کے ستر میں سر، گردن، کندھے، بازو ، پیٹ اور ٹانگیں شامل نہیں تھیں۔ قیمت لگنے کیلئے جسم نیم برہنہ ہوتا تھا۔ انگریز کالوں کو غلام سمجھتے تھے اور مسلمانوں نے گوروں کو لونڈی بنانا شروع کردیا۔ رسول اللہ ۖ کی لونڈی ماریہ قبطیہ کے حوالہ سے کون سوچ اور سمجھ سکتا ہے کہ لباس کو ادھورا رکھنے پر مجبور کیا گیا ہوگا؟۔
افغانستان کو امیر امان اللہ خان نے ترقی دی تو انگریز نے سازش کی۔50،60اور70کی دہائی میںکابل پاکستانی اشرافیہ کا منظر پیش کررہاتھا۔ قائد اعظم، قائدملت ، جنرلوں، بیوروکریٹ، سیاستدانوں کی بیٹیوں و بیگمات کاجو ماحول تھا وہ عام افغانی خواتین کا تھا۔رتن بائی، رعنا لیاقت، بیگم بھٹو، بے نظیربھٹو، کلثوم سیف اللہ، بیگم نسیم ولی، عابدہ حسین، تہمینہ دولتانہ، ریحام خان اورمریم نوازتک کا جو پردہ اور مخلوط نظام سے واسطہ ہے اور جرنلوں ، بیوروکریٹ کی بیٹیاں جیسے آج مغرب اور مخلوط تعلیمی ومعاشرتی نظام کا حصہ ہیں بالکل اسی طرح افغانستان کی خواتین ترقی وعروج کی منزل پر گامزن تھیں۔ ہمارے اشرافیہ نے ملاؤں کو استعمال کرکے مغربی سازش کے کھیل میں جس طرح افغانستان کو دھکیل دیا، اس کی ایک ہلکی سی جھلک شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے تازہ بیان میں موجود ہے۔
مفتی تقی کے اَبا نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت اسلام کے نام پر کی ؟۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی بھی قائداعظم اور قائدملت لیاقت علی خان اور مرزاغلام احمد قادیانی کے پیروکار سرظفر اللہ سے کم نہ تھے لیکن طالبان کا امریکہ سے معاہدہ ہوا تو پھر افغانستان کے نظام کا سارا ڈھانچہ تباہ کرکے طالبان آگئے اور مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے وفد کے ہمراہ ان کو مبارکباد دیدی۔ طالبان کو چاہیے کہ مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمن اور تمام مذہبی پیروں اور علماء کرام کو اپنے ہاں بال بچوں سمیت کچھ عرصہ تک تعلیم وتربیت کیلئے اپنے پاس رکھیں تاکہ یہ لوگ اسلام کی فضاؤں میں سانس لے سکیں اور انکے بچے بھی فیض یاب ہوں۔ اپنے مدارس اور گھر تحریک طالبان پاکستان کے رہنماؤں اور کارکنوں کے حوالہ کردیں اور وہ یہاں اسلام کی وہی خدمات انجام دیں جو یہاں علماء دیتے ہیں۔

اسلامی معاشی معاشرتی نظام مسخ کیا گیا


ائمہ اربعہ سے پہلے مدینہ کے سات فقہاء تھے ایک حضرت ابوبکر کے پوتے قاسم اور دوسرے نواسے عروہ تھے۔ تیسرے حضرت سعید بن مسیب تھے۔ ابن مسیب نے فرمایا کہ” درباری چورعلماء کی نبیۖ نے سخت مذمت کی ہے”۔ مزارعت کے بارے میں صحیح اور مرفوع احادیث کے مقابلے میں صحیح بخاری کے اندر آثار نقل ہیں کہ آل ابوبکر، آل عمر اور آل علی مزارعت پر زمین دیتے تھے۔ رسول ۖ کی احادیث کے مقابلے میں درباری آل واولاد کی کیا حیثیت تھی، جنہوں نے مزارعت کی کمائی کو جائز قرار دے دیا یا اسے ناجائز سمجھ کر بھی کھانے سے دریغ نہیں کیا؟۔ حضرت علامہ سیدمحمد یوسف بنوری کے داماد مولانا طاسین نے اس پر اپنی کتاب میں بھرپور وضاحتیں لکھیںمگر درباری علماء و مفتیان نے مولانا طاسین کے علمی حقائق کو مدارس اور عوام کے سامنے نہیں آنے دیا تھا۔
مولانا فضل الرحمن قائد جمعیت علماء اسلام نے بھی مولانا طاسین کے مشن کی تحریری تائید بھی کی ہے۔ اگر اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل ہوجاتا تو پاکستان کو ان معاشی اور معاشرتی مشکلات اور مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ آج بھی علماء اور مذہبی جماعتیں قرآن وسنت کی طرف متوجہ ہوجائیں تو پاکستانی ان کو سروں کے تاج بنانے کیلئے تیار ہیں ورنہ تاریخ میں ایسی نفرت کبھی مذہبی لبادوں سے نہیں ہوئی ہے جونفرت آج بہت سارے لوگوں کے دل ودماغ میں گردش کرتی ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک شیعہ ذاکر مسلم لیگی خاتون حنا پرویز بٹ پر بہت لعن طعن اسلئے کر رہاہے کہ اس نے مریم نواز کے لاہور ائیرپورٹ آنے پر کسی شیعہ کے مرثیہ کا کوئی شعر لکھ دیا تھا اور اس نے شہباز گل کو بھی کربلا کے میدان میں عمران خان کو کھڑا ہونے کی تشبیہ دینے پر خوب سنائی ہیں۔ اہل تشیع کی حساسیت نے ہی سنیوں میں بھی اپنے مقدسات کی زیادہ حساسیت پیدا کردی ہے۔
پاکستان میں سیاسی اور مذہبی کشیدگی جس حد تک پہنچائی جارہی ہے اس کے بہت خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ جب جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے قومی اسمبلی میں تحفظ صحابہ بل پیش کیا تو میڈیا حرکت میں آئی اور یہ نشر کرنا شروع کردیا کہ” اسامہ بن لادن چترال میں چھپا تھا۔ جس کیلئے امریکی اہلکاروں نے چترال میں کرائے پر گھر لیا۔ مولانا عبدالاکبر چترالی کے مظاہرے کی وجہ سے امریکہ نے وہاں پڑاؤ نہیں ڈالا۔ چترال سے اسامہ کی ویڈیو نے اطلاع دی تھی کہ وہ چترال میں ہوسکتے ہیں۔ افغان حکومت نے ایک شخص کوپکڑا تھا جس نے بتایا تھا کہ وہ اسامہ کو چترال سے افغانستان کے راستے پشاور لائے تھے اور اس کاISIسے تعلق نہیں ہے بلکہISIکیلئے کام کرنے والی ایک تنظیم سے تعلق ہے”۔ عوام کو یہ پتہ نہیں کہ اسامہ کو قتل کیا گیا یا زندہ لے گئے؟ لیکن امریکہ نے جتنا کھیل یہاں کھیلنا چاہا تھا اور ایک ایٹمی پاکستان اور غیرتمند طالبان کو کہاں سے کہاں پہنچایا۔ جس کے بعد عراق اور لیبیا کے تیل پر بھی قبضہ کیا تھا۔ حالانکہ امریکہ بلیک واٹر کے ذریعے بھی اسامہ کو ٹارگٹ کرسکتا تھا۔
پاکستان میں عمران خان اورPDM، شیعہ اور سنی، قوم پرست اور ریاست کے نام سے ایک نیا کھیل شروع ہوا ہے اور اس کا فیصلہ امریکہ نے ہی کرنا ہے۔ قومی ایکشن پلان کے تحت فوجی عدالتیں قائم ہوئیں لیکن سوات کے مسلم خان، محمود خان اور دوسروں کو صدر مملکت عارف علوی نے چھوڑ دیا۔ پھانسیاں کیا بے گناہوں کو دی گئی تھیں؟۔ پنجاب میںISIکے ایوارڈ یافتہ افسروں کو کس نے مار دیا؟۔ جو طالبان تھا اورCTDپولیس کو مطلوب تھا اور اس کے ذریعے پنجاب میں بہت سارے دہشت گردوں کے نیٹ ورک پکڑے تھے۔
ہمیں زیادہ گہرائیوں میں جانے اور شکوک وشبہات میں پڑنے سے گریز کا دامن تھامنا چاہیے اور ذمہ دار لوگوں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے دیں اور اسلام کے عظیم مشن کو سامنے لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ سازشوں کو ناکام بنائیں اوراپنے معاشرے اور ملک کو زیادہ مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز