پوسٹ تلاش کریں

مدارس کے نصاب کی درستگی پر بہادر قیادت توجہ دے

مدارس کے نصاب کی درستگی پر بہادر قیادت توجہ دے اخبار: نوشتہ دیوار

مدارس کے نصاب کی اصلاح وقت کی اہم ضرورت ہے۔ قرآن وسنت میں کوئی ابہام نہیں مگر قرآن کریم کی آیات کا حلیہ بگاڑنے کو علوم میں مہارت کانام دیا گیا۔ اگرہم نے ہوش کے ناخن نہ لئے توبرا ہوگا اللہ تعالیٰ نے میں فرمایا کہ لاتقربوا الصلوٰۃ وانتم سکریٰ حتی تعلموا ماتقولون ولا جنبا الاعابری السبیل حتی تغتسلوا ’’نماز کے قریب نہ جاؤجب تم نشے کی حالت میں ہو، یہاں تک کہ تم سمجھو ،جوتم کہہ رہے ہو اور نہ جنابت کی حالت میں مگر یہ کہ کوئی مسافر ہو،یہاں تک کہ تم نہالو‘‘۔ قرآن کی آیت کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ نشہ کی حالت میں نماز نہیں پڑھ سکتے ، یہاں تک کہ نشہ اتر جائے اور جو کچھ نماز میں پڑھا جائے اس کو سمجھا بھی جائے۔ دوسرا یہ کہ جنابت کی حالت میں بھی نماز پڑھنا جائز نہیں مگر مسافر پڑھ سکتا ہے ،یہاں تک کہ تم نہالو۔ یعنی مسافر کیلئے نہائے بغیر تیمم سے بھی نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ یہ آیت عام لوگوں کو سمجھا دی جاتی جس سے عوام اپنے بچوں کو نماز کا مفہوم سمجھانے کو فرض قرار دیتے۔ اسلئے کہ نشہ کی حالت کے بغیر نشہ میں ہونے کی طرح نماز سمجھے بغیر پڑھنے کو بہت معیوب قرار دیا جاتا۔ دورانِ سفر جہاز یا پانی کی قلت وغیرہ کی وجہ سے کوئی نماز پڑھنا چاہتا تو اس کو بھی نماز پڑھنے میں مشکل نہ ہوتی اور کوئی نماز نہ پڑھنا چاھتا تو بھی اسکے لئے یہ مشکل نہ ہوتی کہ ہرحالت میں نماز پڑھنا ضروری ہے۔ سفر میں جنابت ہوجائے تو تیمم سے نماز پڑھ بھی سکتے ہیں اور نہ پڑھنا چاہیں تو پڑھنے کا حکم نہیں بلکہ آیت میں محض اجازت ہے ۔
آیت کی وضاحت میں بخاری شریف کی روایت نقل کردی جاتی کہ حضرت عمرؓ نے سفر کی حالت میں جنابت کی وجہ سے تیمم سے نماز نہ پڑھی اور حضرت عمارؓ نے پڑھ لی۔اور نبی کریم ﷺ نے دونوں کی توثیق کردی۔ بعض لوگ عبادت کی طرف زیادہ رحجان رکھتے ہیں تو ان کو تیمم سے غسل کئے بغیر بھی اللہ نے نماز سے روکا نہیں ہے اور بعض صفائی پسندطبع کے ہوتے ہیں اور وہ جنابت کی حالت میں نماز پڑھنے کو سفر میں تیمم سے نہیں پڑھنا چاہتے تو ان کو مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے بھی دونوں کی توثیق فرمائی ہے۔
علماء ومفسرین کا فرض بنتا تھا کہ عوام کو قرآن وسنت کا مفہوم سمجھاکر اپنے فرضِ منصبی کا حق ادا کرلیتے مگر یہ حضرات دوسروں کی کیا رہنمائی کرتے، خود بھی منطق کی شراب پی کر وہ ہچکولے کھارہے ہیں کہ الحفیظ والامان۔ ایک طرف کہیں سے روایت نکال کر لائے ہیں کہ حضرت علیؓ شراب کے نشہ میں دھت تھے، جس کی وجہ سے نماز پڑھاتے ہوئے آیات غلط سلط اور خلط ملط ہوگئیں، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ پھرخودساختہ و عقل باختہ منطق نے ان کو للکارا کہ ’’ جنابت کی حالت میں غسل کے بغیر نماز کے قریب نہ جانے اور مسافر کو اجازت دینے کا بھلا کیا معنیٰ ہوسکتاہے؟،اس کیلئے سوچ وبچار کے گھوڑے دوڑائے اور جواب دیا کہ لامحالہ صلوٰۃ سے مراد نماز نہیں بلکہ مسجد ہے‘‘۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟جبکہ آیت میں صلوٰۃ کا ذکر تو ایک ہی مرتبہ کیا گیا ہے کہ مرضی ہو تونماز مراد لی جائے اور مرضی ہو تو پھر اس سے مسجد مراد لی جائے؟۔ اس مشکل کا حل یہ نکالا کہ ایک دوسری روایت تلاش کرکے دم لیا، چنانچہ حضرت علیؓ کے متعلق لکھا کہ یہ آپؓ کے بارے میں ہے کہ جنابت کی حالت میں مسجد میں آنے کی اجازت دی گئی‘‘۔ اہل تشیع نے پہلی روایت پر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کو بھی کافر ومرتد قرار دیا اور دوسری روایت کو خصوصی اعجاز سمجھ کر حضرت علیؓ کے بارے میں عام قانون وقواعد سے بالاتر عقیدے کی تبلیغ شروع کردی۔
برصغیر پاک وہند کے مشہور عالم حضرت شاہ ولی اللہؒ نے حضرت عمرؓ اور حضرت عمارؓ کا واقعہ نقل کرتے ہوئے بڑے تعجب کا اظہار کیا ہے کہ حضرت عمرؓ نے جب حضرت عمارؓ کے بارے میں سنا تو اپنا مؤقف بدلا کیوں نہیں؟۔ اور اس سے بڑا تعجب یہ کیا کہ نبیﷺ نے حضرت عمرؓ کے سامنے وضاحت کیوں نہ فرمائی؟۔ پھر اپنے خیال کا اظہار کیاکہ نبیﷺ یہ چاہتے تھے کہ قرآن کی تفسیر کو مقید کرنے کی بجائے زمانہ پر چھوڑ دیا جائے تاکہ مفہوم محدود نہ ہوجائے۔ علامہ مناظر احسن گیلانیؒ نے بھی تدوین فقہ، تدوین حدیث اور تدوین قرآن کتابیں لکھ کر حضرت شاہ ولی اللہؒ کے اس حوالہ کو آخری حل کے طور پر پیش کیا ہے۔ میرے اساتذۂ کرام میں حضرت مولانا بدیع الزمانؒ استاذ تفسیروحدیث واصول فقہ والنحو وغیرہ اگر آج حیات ہوتے تو یقیناًمجھے بڑی تھپکی دیتے کیونکہ ہمارے مرشد حاجی عثمانؒ پر فتویٰ کے دفاع میں بھی میری جدوجہد کو انہوں سراہا تھا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ان سے اکثر اساتذہ اور طلبہ بہت عقیدت ومحبت رکھتے تھے۔ وہ طلبہ سے یہ تلقین ضرور کرتے کہ روزانہ ایک ایک رکوع کا ترجمہ پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کریں، مولانا بدیع الزمانؒ نے ہی اصول فقہ کی کتابیں ہمیں پڑھائی تھیں، تفسیرکی ابتداء بھی انہی سے کی تھی۔ جب ان سے مجھے آج بھی عقیدت ومحبت ہے، ان سے علم و فیضِ صحبت کو تبرک سمجھتا ہوں تو تاریخ کے ادوار کا بھی شکر گزار ہوں مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ حق وباطل میں تمیز کا واضح راستہ بھی نظر انداز کردوں،ابوطالب ، علیؓ ، حسنؓ ، حسینؓ ، زیدؒ کے خانوادے سے تعلق کا حق ادا کرناہے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!
رسول ۖ کی عظمت کا بڑ اعتراف
جامعہ بنوری ٹاؤن کے بانی کا بہت مثالی تقویٰ