مرد مرد عورت عورت کا نکاح سچ مچ؟ - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

مرد مرد عورت عورت کا نکاح سچ مچ؟

مرد مرد عورت عورت کا نکاح سچ مچ؟ اخبار: نوشتہ دیوار

مرد مرد عورت عورت کا نکاح سچ مچ؟

کیا28500میں صرف 17خواجہ سرااور باقی مردوں عورتوں نے اپنی اپنی جنس بدل لی؟

پیپلزپارٹی،ن،ق لیگ،PTI،MQMاور بالخصوص مولانا فضل الرحمن تنقیدکا بڑانشانہ

سینیٹر مشتاق کی جماعت اسلامی احتجاج کرتی تو پہلے لوگ آگاہ ہوجاتے مگر کیوں نہیں کیا؟

سینیٹر مشتاق احمد خان مفتی طارق مسعود کیساتھ
سینیٹر کیلئے 15ووٹ تھے ، جماعت اسلامی کا ANPسے اتحاد تھا، 12 بنے ۔ مشتاق کو پتہ تھا کہ 12سے منتخب ہوجائیگا۔ صادق سنجرانی بھی کم ووٹ پرچیئر مین منتخب ہوا ۔ ہمیشہ استعمال ہونے والی جماعت اسلامی بھی اقتدار کے خواب دیکھتی ہے۔ ٹرانس جینڈر محض بہانہ ہے اور یہودی بینکاری کو اسلامی بنانا اصل نشانہ ہے اور سب کو بدنام کرکے اقتدار تک پہنچنے کیلئے بلیک میلنگ کا زبردست حربہ ہے؟۔

خواجہ سراؤں کے پاس شناختی کارڈ نہیں تھے تو انہوں نے عدالتوں میں اپنا کیس لڑا۔ 2009میں سپریم کورٹ نے خواجہ سراؤں کے شناختی کارڈ اور حقوق کیلئے قانون سازی کا حکم دیا۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس بل کا تعلق صرف خواجہ سرا کے ساتھ ہے جس کوXکارڈ جاری کیا جاتا ہے تو وہ شادی نہیں کرسکتا۔ باقی تمام انسانی حقوق اس کو حاصل ہیں۔ ابھی تک کوئی ایسی جدید ٹیکنالوجی کی مشینیں بھی نہیں ہیں کہ جس سے پتہ چلے کہ 50%سے زیادہ مرد ہے یا عورت؟۔ اسلئے خواجہ سرا کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ جس طرح محسوس کرے تو وہ اپنے آپ کو مردوں یا عورتوں کے خانے میں ایک خواجہ سرا کی حیثیت سے ڈال سکتا ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں 50،50فیصد والے کو مشکل خنسا کہتے ہیں۔ اسکی ایک مثال بڑی معزز شخصیت ابوالاسود دویلی کی تھی جس کی بیوی تھی اور بیوی سے بچے بھی تھے۔ اور اسکا شوہر بھی تھا اس سے بھی بچے تھے۔ قرآن و عربی زبان پر نقاط اور اعراب بھی اس کی ایجاد ہے۔ مشہور دیوبندی خطیب سید عبد المجید ندیم شاہ کی پہلی شادی خواجہ سرا سے ہوئی تھی ۔کبھی خواجہ سرا کی جنس مکمل بدل جاتی ہے ۔
علماء میت کے غسل ، نمازِ جنازہ ، نکاح اور طلاق کے مسائل کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے۔ فقہی مسئلہ:” ہجڑہ 50%سے زیادہ مرد ہو تو مردوں والا جنازہ اور عورت ہو تو عورتوں والا جنازہ پڑھا جائیگا۔ مگر خنسا مشکل کا کیسے ہوگا؟”۔جب ابو الاسود دویلی کا جنازہ ہوا۔ الھم اغفر لحینا ومیتنا ” اے اللہ ! مغفرت فرما ہمارے زندوں اور ہماری میت کی”۔آج تک نماز جنازہ کی یہی روایت پڑ گئی کہ دعا میں میت کا لفظ ہے جو مرد ، عورت ، ہجڑہ کیلئے مشترک ہے۔ ہجڑہ نیوٹرل عزت دار ہوتا تھا۔ آج نیوٹرل کا لفظ بھی بدنام ہوگیا ہے۔ نبی ۖ کے روضہ اور بادشاہوں کے گھروں پر ان کی ڈیوٹی ہوتی تھی۔ انگریز آیا تو ہجڑہ بے روزگار ، بے توقیر اور حقوق سے محروم ہوا۔ علماء نے جنازہ پڑھنا چھوڑ دیا۔ مشکل سے حق ملنا شروع ہوا توبل کیخلاف بالکل ناجائز اور جھوٹا پروپیگنڈہ شروع کردیا گیا۔
جب تک عمران خان کیXاور نیوٹرل سے بنی رہی تو اس بل کیخلاف کوئی آواز بلند نہیں کی گئی۔ اگر یہ جھوٹا پروپیگنڈہ سچا ہوتا تو سب سے پہلے اوریا مقبول جان اور سراج الحق کا منہ کالا کرکے گدھے پر گھمانا چاہیے تھا کہ اتنے خطرناک سازش کے ہوتے ہوئے عمران خان کے دور میں کیوں نہیں بولے؟۔ اب کس نے تمہاری دُم اٹھا کر شور مچانے کیلئے انگل دیا ہے؟۔ جماعت اسلامی کمزور طبقے پر زور آزمائی کرکے جمعیت علماء اسلام سمیت ساری سیاسی جماعتوں کو بدنام کرنا چاہتی ہے۔ اصل معاملات سامنے آئے تو مذہبی ہجڑے شکل نہ دکھا سکیں گے۔ کیا کسی مشکل خنسا کا شوہر غامدی تو نہیں تھا جس سے جاوید احمد غامدی پیدا ہوا۔ اور اس مشکل خنسا کی بیگم سے جماعت اسلامی والے تو پیدا نہیں ہوئے ہیں؟۔
بانی جماعت اسلامی سیدمودودی نے روس کے مقابلے میں امریکہ کا سودی نظام اسلام کے قریب اور کم برائی قرار دیا تھا۔ روس میں ماں کے ساتھ زنا کا کوئی تصور نہیں تھا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ سود کا گناہ اپنی ماں سے 36مرتبہ زنا کے گناہ کے برابر ہے۔ مولانا مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد اور سید منور حسن نے یہ حدیث کیوں عوام کو نہیں سنائی ؟۔ سراج الحق نے بھی اتنے عرصہ تک یہ حدیث نہیں سنائی ؟۔ 75سالوں سے ملک پر سودکے نظام کو مسلط کیا گیا ہے ۔ امیرالمؤمنین جنرل ضیاء الحق دور میں جماعت اسلامی ریاست کا سب سے بڑا چمچہ تھی، اس وقت جماعت اسلامی میں کچھ تو باکرداراور اچھے لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی۔ پھر کیوں یہ حدیث نہیں سنائی؟۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے نوازشریف اور جماعت اسلامی کے چولی دامن کا ساتھ تھا مگر اس دور میں بھی یہ حدیث یاد نہیں آئی؟۔ مولانا سمیع الحق شہید کو سود کے خلاف آواز اٹھانے پر میڈم طاہرہ سکینڈل کا شکار کیا گیا ۔ حالانکہ طاہرہ سید کا سکینڈل بھی تھا۔ چلو ہم نے مان لیا کہ جھوٹ یا سچ ملک میں غلط قانون سازی ہوئی ؟۔
پھر اگر سود کو قانونی جواز ملتا ہے تو کیا یہ زیادہ برا نہیں ہے؟۔ اس سے بھی زیادہ شرمناک بات یہ ہوگی کہ سود کو شرعی حیلے سے جائز قرار دیا جائے ۔ پھر اس سے بھی انتہائی شرمناک بات یہ ہے کہ سود کو قانونی جواز بھی فراہم کیا جائے اور اس کو شرعی جواز بھی دیا جائے۔ شریعت کورٹ کے ذریعے جماعت اسلامی اس سازش میں لگی ہوئی ہے کہ ملک وقوم میں سود ی نظام کا نام اسلامی رکھ دیا جائے تو پھر جماعت اسلامی اقتدار کی سیڑھی تک پہنچ سکے گی۔ پاکستان کی عوام نے کوئی گھاس نہیں کھائی ہے کہ جماعت اسلامی کے فریب کا شکار ہوجائے۔ کل بھی یہ امریکہ اور مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کے جعلی اسلام اور جہاد سے اپنی دنیاآباد کررہی تھی اور اب بھی اسی دھندے پر گامزن نظر آرہی ہے۔ اس نے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہمیشہ جہاں تک بس چلتا تھا کرائے کے بدمعاشوں سے بھی کام چلایا ہے لیکن اب خواجہ سراؤں کا مقابلہ کرنے کی سکت بھی ان میں نہیں ہے۔ کراچی میں جو تین خواجہ سرا قتل ہوئے ہیں ان کا مقدمہ سینٹر مشتاق، اسداللہ بھٹو، اوریا مقبول جان اور سراج الحق پر چلانا چاہیے ۔
رسول ۖ اور بنی ہاشم کی عظمت تھی مگرعوام کو مافوق الفطرت کاانتظار تھا۔ ومالھذا رسول یأکل طعام و یمشی فی الاسواق ” اور اس رسول کو کیا ہوا ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں گھومتا ہے”۔ آج یہی تصور امام مہدی کا بن گیا۔ سید مودودی نے اپنی کتاب ”تجدیدو احیائے دین ” میںلکھا کہ ” غلط ہے کہ مہدی روحانی قوتوں کا بڑامالک ہوگا۔جس کی شناخت پرانے طرز کی پگڑی ، لباس اور دیگر علامات کو تاڑ کر کی جائے گی ۔ علماء اورصوفی بیٹھ کر فیصلہ کرینگے۔ وہ جدیدوں سے بڑھ کر جدید اپنی صلاحیت سے اپنی قیادت منوائے گا اور پہلے پہل علماء اورصوفی صاحبان اسکے خلاف شورش برپا کرینگے”۔ سیدمودودی کیخلاف لکھ دیاکہ ” مودودی کہتا ہے کہ مہدی پینٹ شرٹ پہنے گا”۔ ابن عربی نے لکھا کہ ” مہدی اصل اسلام کو ظاہر کرے گا تو علماء مخالفت کرینگے۔ دین خالص باقی اور باطل ادیان کا خاتمہ ہوگا۔وہ علماء کا عالم ہوگا مگر معروف علماء اور مدرسین میں شمار نہ ہوگا بلکہ عام آدمی کی طرح رہے گا۔ صوفی ہوگا مگر اس کا سلوک دوسروں سے مختلف ہوگا اوروہ یورپی لباس پہنے گاتو لوگوں کو بڑی حیرت ہوگی، جب وہ میری یہ پیش گوئی سنے گا تو خوش ہو گا”۔ عربی میڈیا پر مواد ہے۔
علماء لکھتے ہیں ” قرآن سورہ فاتحہ میں ہے۔ الفاتحہ بسم اللہ میں ہے اور بسم اللہ میں ب سے مراد حضرت محمدۖ کی ذات اور اسکا نقطہ توحید ہے اور شیعہ اس نقطے سے علی مراد لیتے ہیں”۔ گویا پورا دین اس نقطے میں ہے جو بعدمیں لگا اور پھر کہتے ہیں کہ بسم اللہ کا قرآن میں شامل ہونا صحیح ہونے کے باوجود مشکوک ہے اسلئے وہ جہری نمازوں میں بسم اللہ کو جہر سے نہیں پڑھتے۔ اور سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا فقہ کی معتبر شخصیات قاضی خان، شامی ، صاحبِ ہدایہ وغیرہ نے جائز قرار دیا ہے۔مفتی تقی عثمانی کی توبہ کے بعدمفتی سعیدخان نے بھی اپنی کتاب ”ریزہ الماس” اور مولانا الیاس گھمن نے ویڈیو پر یہی کہا ہے۔
دیوبندی مکتب کے مولانا خضر حیات بھکروی ویڈیو سے تبلیغ کرنا وہ جائز سمجھتا ہے یا نہیں؟۔ اگر عقیدے کی تبلیغ حرام سے جائز ہو تو سیاسی تبلیغ میں حلال وحرام پر بحث کیوں ؟ سیاست میںاولی الامر سے اختلاف کی گنجائش ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے MRD میں بینظیر بھٹو کیساتھ ضیائی مارشل لاء کیخلاف سیاسی جدوجہد کی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کا مریم نواز سے پردہ نہیں تو بینظیر بھٹو سے بھی نہ تھا۔ علامہ شبیراحمد عثمانی کا فاطمہ جناح و بیگم راعنا لیاقت علی سے کونسا پردہ تھا ۔ طالبان قطر میں عورت کیساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ علماء دیوبندنے اندرا گاندھی سے پردہ کیا؟۔ رسول اللہ ۖ نے فتح مکہ پر سب کو معاف فرمایا تو ابوسفیانکی بیگم ہند نے امیر حمزہ کے کلیجے کو چبایا تھا اسلئے نبیۖ نے سامنے آنے سے منع کیا ،ورنہ منع نہ فرماتے۔ حضرت فاطمہ سے ابوسفیان نے اسلام قبول کرنے سے پہلے یہ استدعا کی تھی کہ نبی ۖ سے سفارش کریں کہ ” صلح حدیبیہ کا معاہدہ برقرار رکھا جائے ”۔اور لونڈی بھی عورت ہوتی ہے جس کا لباس وستر مختصر ہے۔
مولانا مودودی نے اپنی کتاب ” پردہ ” میں عورت کی آواز کو پردہ قرار دیا۔ پرویزمشرف دور میں خواتین کی مخصوص نشستوں کا قانون بنا تو قاضی حسین احمد کی بیٹی سمیحہ راحیل قاضی اور سیدمنور حسن کی بیگم عائشہ منور رکن اسمبلی بن گئیں ۔ جب ان کی آواز شرعی پردہ ہے تو خطرہ ہوا کہ جماعتی خواتین نئے قانون سے فائدہ اٹھاکر جنس مردوں میں لکھوا سکتی ہیں؟۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اسلئے سینٹ میں ترمیمی بل پیش کردیا ،تاکہ عورت خود کو مرد اور مرد خود کو عورت نہ بناسکے اور اپنوں کیلئے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا مطالبہ کردیا۔
شیرین مزاری نے سینیٹر مشتاق کی بات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ”اس میڈیکل رپورٹ کی وجہ سے کرپشن کا دروازہ کھل جائیگا”۔ ہائی پروفائل کیس نواز شریف کا تھا، میڈیکل بورڈ نے قیدی کو فرار کروادیا۔ سینیٹر مشتاق مَیںکا لفظ استعمال کرکے طوفان کا کریڈٹ لینا چاہتا ہے۔ حالانکہ وہ جمعیت علماء اسلام اور دیگر کو ساتھ ملا کر مؤثر بل پیش کرکے ترمیم کرانے میں مدد لے سکتا تھا ۔شریعت کورٹ نے جمعیت علماء اسلام کے وکیل کامران مرتضیٰ پر سوال اٹھادیاتھا۔
مذہب کوجماعت اسلامی سیاسی قوت حاصل کرنے کیلئے استعمال کرتی ہے لیکن عملی میدان میں اپنی جان بچاتی ہے۔ جس کی مثال 1948ء کا جہاد کشمیر تھا اوریہ فتویٰ تھا کہ جہاد کرنا ریاست کا کام ہے اور پھر ساری زندگی جہاد کے نام پر چندہ کھایا اور میجرمست گل خان کے ڈرامے رچائے۔ جہادِ افغانستان سے طالبان اور فیض آباد دھرنے تک کی مثالیں ہیں۔ سلمان تاثیر کے قتل اور ممتاز قادری کے بعد آسیہ بی بی کا ایشو انہوں نے کھڑاکیا۔ وقت آیا تو مولانا سمیع الحق کو قربانی کا بکرا بنایا اور علامہ خادم حسین رضوی کا جیل میں سوفٹ وئیر اپ ڈیٹ ہوا تھا۔ جماعت اسلامی اصحاب کہف کے غار میں چھپ گئی تھی۔ اگر 2018ء سے مردوں کا مردوں اور عورتوں کا عورتوں سے جنس پرستی اور شادی کا قانون تھا تو جماعت اسلامی سڑکوں پرکیوں نہ نکلی ؟ اوریا مقبول جان نے عمران خان سے کیوں نہ کہا کہ ریاست مدینہ کا یہ قانون ختم کرو؟۔ افغان طالبان کو لانے کیلئے مرد کا مرد سے نکاح کا ڈرامہ رچایا گیا تھا اور اب اسی طرز پر کٹھ پتلی جماعتوں کے تسلط کی راہ ہموار کی جارہی ہے، حقیقی اسلام اور جمہوریت کو بلیک میل کرنیکی سازش سے ملک وقوم کو جو نقصان پہنچے گا وہ ہینڈلرز کے تصور میں نہیں آسکتا۔
اگر یہ قانون نافذ ہوتا توپھر جمعیت علماء اسلام اور وفاق المدارس کے مفتی عزیز الرحمن کی ویڈیو نشر ہونے پرنادرا میں جنس تبدیل کردیتا کہ ” وہ عورت ہے اورصابرشاہ کو گود میں بٹھانے کا مقدمہ خارج ہوجاتا ”۔ قومِ لوط پر عذاب غلط کاری کی وجہ سے آیا اور ہمیں ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کہ جہاں جہاں کوئی غلط کام ہورہاہے تو اس کا تدارک اور علاج ہونا چاہیے۔
ٹرانس جینڈر کا قانون خواجہ سراؤں کو حقوق دینے کیلئے ہے اور اس کیلئے پہلی آواز قومی اسمبلی میں جمعیت علماء اسلام کے حافظ حمدا للہ نے اٹھائی تھی۔ اگر اس میں کوئی قانونی سقم یا قانون کے غلط استعمال کا خوف ہے تو دیانتداری کیساتھ حقائق بیان کرتے ہوئے ترمیم کرنا چاہیے لیکن اس کو ایسی سازش کا نام دینا کہ پاکستان کی ریاست، پارلیمنٹ اور تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں بدنام ہوں انتہائی بڑی اور گھناؤنی سازش ہے۔ مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے علاوہ جمعیت علماء اسلام سب اس کا حصہ ہیں اور اگر وہ اپنے خلاف گھناؤنی سازش کا مقابلہ حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھ کربھی نہیں کرسکتے تو ان کو سیاست کرنے کے بجائے گھروں میں بیٹھ جانا چاہیے۔ یہ انقلاب خوش آئند ہے۔
معاشرے میں قوم لوط کا عمل ہے۔ قانونی شکل زیادہ سنگین ہے۔ سود قانونی شکل میں ہے اور حیلہ سے اس کواسلامی قرار دینااورپھر قانونی شکل دینا بہت ہی زیادہ سنگین ہے۔ جس پرجماعت اسلامی لگی ہوئی ہے۔سراج الحق سودکو اپنی ماں کیساتھ 36مرتبہ زنا کے برابر کہتا ہے۔ اس سودکواسلامی اور قانون بنارہا ہے۔ جائز وناجائز اور حلال وحرام کا دارومدار قرآن وسنت پر ہے اور دین کی حفاظت علماء کرام کی ذمہ داری ہے۔ نبی کریم ۖ نے فرمایا: ”علماء دین کے محافظ ہیں جب تک وہ دنیامیں گھس نہ جائیں اورحکمرانوں سے گٹھ جوڑ نہ کرلیںلیکن جب وہ دنیا میں گھس گئے اور حکمرانوں سے گٹھ جوڑ کرلیا تو پھر ……………”۔
علماء نے زکوٰة سے تجارت شروع کی اور دنیا میں گھس گئے ،سودکو زکوٰة قرار دیکر حکمرانوں سے گٹھ جوڑ کرلیا۔ مفتی تقی عثمانی نے شادی بیاہ میں لفافے کے لین دین کو سود قرار دیا تھا ،پھر سودی نظام کو حیلہ سے جائز قرار دیا۔ جماعت اسلامی سودی نظام کو جواز فراہم کرنے کیلئے کسی خفیہ اشارے پر میدان میں اتری ہے۔ سوشل میڈیا میں خالد محمود عباسی نے بھی نشاندہی کی ہے جس کا شمار تنظیم اسلامی اور جماعت اسلامی کے خاص اور باخبر لوگوں میں ہوتا ہے۔
جماعت اسلامی کریڈٹ لے گی کہ مرد کا مرد، عورت کا عورت سے نکاح کی سازش کو ناکام بنادیا ۔ پھر کریڈٹ لے گی کہ سودی نظام کا خاتمہ کرکے غیر سودی اور اسلامی معاشی نظام اس نے نافذ کردیا تو ریاست کیساتھ مل کر اقتدار کے مزے اڑائے گی۔ نوازشریف اور عمران خان کی طرح جماعت اسلامی ہمیشہ ریاست کی چہیتی رہی ہے۔جماعت اسلامی کے صاحبزادہ ہارون الرشید نے کہاتھا کہ ” امریکہ نے حملہ کیا اور 88 حفاظ شہید کردئیے تو پاک فوج نے کہا کہ یہ حملہ ہم نے کیا۔ میں نے کہا کہ پاک فوج سفاک نہیں اسلئے امریکہ نے حملہ کیا ہے۔ طالبان نے بدلہ لیا اور اعلان کیا تو میں نے کہا کہ یہ دشمن کا کام ہے طالبان کا نہیں”۔ جماعت اسلامی طالبان اور فوج کے کردار پر پردہ ڈالنے کیلئے استعمال ہوتی رہی جس میں قوم کو بڑی تباہی وبربادی کاسامنا کرنا پڑا۔ اگر پاک فوج کے ترجمان نے غلط اقدام کا اعتراف جرم کیا اور اس سے بڑھ کر امریکہ کو بچانے کی کوشش کی تو اس کو ڈبل مجرم کہنا چاہیے تھا۔ دلالی کی کیا ضرورت تھی؟۔ اور جب طالبان حملہ کرکے بے گناہ لوگوں کو مارنے کا اعتراف جرم کررہے تھے تو طالبان کو بچانے کیلئے اس دلالی کا کیا فائدہ تھا کہ طالبان نہیں دشمنوں نے یہ کام کیا ؟۔ جماعت اسلامی کی منافقت نے پاکستان، پشتون قوم اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ ایک مودودی سو نہیں ہزار یہودی اس منافقانہ کردار پر کوئی کہتا تو جائز تھا۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ” امریکہ کا ساتھ دینے پر افغان حکومت کیخلاف جہاد ہے اورامریکہ کا ساتھ دینے پر پاک فوج کے خلاف جہاد جائز نہیں” تو طالبا ن لیڈر حکیم اللہ محسود نے کہا کہ ” قاضی حسین احمدتم منافق ہو۔ تم مسلمان نہیں قوم پرست ہو۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ افغان حکومت جرم کرے تو اس کے خلاف جہاد جائز ہے اور پاکستان کی فوج کرے تو ناجائز ہے۔ تم نے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے تمہارا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ”۔ سلیم صافی نے سید منور حسن امیر جماعت اسلامی سے سوال پوچھا کہ پاک فوج جو امریکہ کے اتحادی ہیں، وہ شہید ہیں یا نہیں؟۔ منورحسن نے پہلوتہی کی ناکام کوشش کے بعد کہا کہ جب امریکی فوجی شہید نہیں تو ظاہر ہے کہ اسکے اتحادی پاک فوج بھی شہید نہیں ہوسکتے!۔اس فتوے کے بعد جماعت اسلامی کی امارت سے سید منورحسن کو ہٹادیا گیا۔اگر علماء بعد میں یہ فتویٰ دیتے کہ صرف امریکیوں کو مارو۔ افغانی حکومت اور پاکستانی حکومت کے مسلمانوں کو مت مارو تو آج یہ سب سرخرو ہوتے۔ افغان طالبان بھی افغان بھائی کا خون بہانے پر شرمندہ اور اپنے افغانیوں کی طرف سے انتہائی نفرت اور غلیظ گالیاں کھار ہے ہیں۔
سینیٹر مشتاق نے کہا کہ ”ہم علماء کے سپاہی ہیں” لیکن جماعت اسلامی نے کبھی کسی عالم کو اپنا امیر نہیں بنایا۔ جب سینیٹروں کی تعریف کی تو کسی عالم کا نام نہیں لیا بلکہ سینیٹرمشاہداللہ خان اور سینیٹر رضا ربانی کا نام لیا جوٹرانس جینڈر بل کے حامی ہیں۔ساری زندگی علماء حق کے اسلئے مخالف تھے کہ مولانا مودوی کو نہیں مانتے لیکن مولانا مودودی کو ماننا شروع کردیا تو ان کا باطل بھی حق بن گیا۔
مولانا فضل الرحمن نے کبھی روس کیخلاف لوگوں کو جہاد کی ترغیب نہ دی بلکہ یہ بیان اخبار کی زینت بناتھا کہ ” افغان جہاد پاکستان کیلئے سونے کی چڑیاہے”۔ ساری زندگی مفاد جماعت اسلامی نے اٹھایا ۔ طالبان کی حکومت بینظیر بھٹو اور نصیراللہ بابر قائم کررہے تھے تو مولانا فضل الرحمن حکومتی اتحادی تھے لیکن غیرملکی دورے پر گئے۔ ہفت روزہ تکبیر کراچی نے لکھا تھا کہ جب ریاست کو مولانا فضل الرحمن کی ضرورت پڑی تو بیرون ملک گیا۔ ملاعمر سے مولانا نے صدر نجیب اللہ کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا تھاجس کا ملاعمر نے یہ جواب دیا تھا کہ ”میں بیرونی ایجنسی کے ہاتھ میں بے بس تھا”۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ”یہ جواب سن کر مجھے اس بے بسی پر شرمندگی ہوئی”۔ امریکی عزائم پر مولانا فضل الرحمن نے قوم کو بیدار کیا تو جماعت اسلامی پیچھے کھڑی ہوگئی ۔ شیعہ کے لٹریچر میں صحابہ سے نفرت کا سلسلہ شروع ہوا تو مولانا فضل الرحمن نے مولانا جھنگوی کا ساتھ دیا۔ سپاہ صحابہ نے دہشتگردی شروع کی تو مولانا نے کہا کہ یہ دہشتگرد بن چکی ہے۔ طالبان دہشتگرد بن گئے تو مولانا فضل الرحمن نے خراسان کے دجال کا لشکر قرار دیا۔ عمران خان نے ریاست کو تھریٹ دی تو مولانافضل الرحمن نے ڈنڈا بردارانصار اسلام کی بنفس نفیس قیادت کرکے ریاست کی حفاظت کی۔ جب تک اسلامی احکام کے حقائق سامنے نہیں لائے جائیں تو ڈرامہ بازی چلتی رہے گی۔ مولانا فضل الرحمن کھل کر حقائق بیان کرکے علماء کو بھی ان کی جہالت پر متنبہ کریں ورنہ آنے والی کل کوئی بھی مشکلات پر قابو پانے کے پھر قابل نہیں رہے گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز