پوسٹ تلاش کریں

مرد وں کاعورتوں پر درجے کا مطلب؟

مرد وں کاعورتوں پر درجے کا مطلب؟ اخبار: نوشتہ دیوار

مرد وں کاعورتوں پر درجے کا مطلب؟

بنیادی بات یہ ہے کہ قانون کا مقصد کمزور کو تحفظ دینا ہوتا ہے۔ طاقتور اپنا حق کمزور سے زبردستی حاصل کرسکتا ہے۔ انسانی تہذیب وتمدن کی ترقی وعروج میں کمزوروں کو پورا انصاف ملے گا۔ نوازشریف اور عمران خان دونوں کا تعلق پنجابی اسٹیبلیشمنٹ سے ہے۔ نواز شریف اشتہاری مفرور مجرم ہونے کے باوجود لندن میں ڈپلومیٹک پاسپورٹ حاصل کرچکا ہے اور عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے لیکن اپنی مرضی کیFIRدرج نہ ہونے کی شکایت کررہاہے۔ اس کو پختون، بلوچ ،سندھی اور مہاجر پنجاب کا پنجۂ استبداد سمجھ رہے ہیں۔
اسلام میں طاقتور نہیں کمزور کو تحفظ ملتاہے ۔ ملت ابراہیمی کو یہ بتایا ہے کہ جب نمرود نے حضرت ابراہیم کو آگ میں پھینک دیا تو اللہ نے آگ سے کہا : یا نار کونی بردًا وسلامًا علی ابراہیم ” اے آگ ہوجاؤ ٹھندی اور سلامتی والی ابراہیم پر”۔ وزیرستان کی نامورشخصیت ڈاکٹر سیدعالم محسود نے پشتومیں تفصیل سے بات کی کہ ”پاکستان سودی گردی قرضوں میں پھنسا ہوا ہے اور اس سے نکلنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اسلام اور پختونوں کو بیچ کر دوبارہ امریکہ کی جنگ مسلط ہو۔ افغانستان میں اصل اقتدار پنجابی طالبان، لشکر طیبہ، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ اور آئی ایس آئی کی پیداوار کا ہے۔ ایک منصوبے کے تحتTTPکو اسلحہ سمیت پختونخواہ میں لایا گیا۔ ان کیساتھ جنرل فیض نے وعدہ کیا کہ اسلحہ تمہارے پاس ہوگااور قبائلی علاقہ تمہارے سپرد ہوگا۔ سوات سے چمن تک پشتون قوم کو متحد ہوکر ایک بات کرنی ہوگی کہ ہمیں امن چاہیے۔ باقی یہ ایک دوسرے کو ماریںتو یہ جانے اور ان کا کام جانے۔ اور امریکہ ، پنجاب کی اسٹیبلیشمنٹ اور انکے پروردہ ہمیں آگ میں پھر دھکیل رہے ہیں”۔پاکستان میں مدارس اور مساجد میں90فیصد پختون اور10فیصد دوسری قوم کے ہیں۔
سلیم صافی سے مولانا فضل الرحمن نے کہا :”میں بندوق اٹھانے کے حق میں نہیںلیکن جب سن1973سے جمہوری بنیاد پر اسلام کا راستہ روکا جائے گا تو لوگ بندوق اٹھانے پر مجبور اور حق بجانب ہوں گے”۔
سب سے زیادہ اسلام کے علمبردار پختون اور سب سے زیادہ محکوم اور مظلوم بھی پختون خواتین ہیں۔ بلاشبہ اللہ نے قرآن میں فرمایا : الرجال قواموں علی النساء ”مردوں کو عورتوں پر محافظ بنایا گیا ہے”۔ پاکستان کی محافظ پاک فوج ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ قوم کے محافظ کا مطلب یہ ہے کہ سیاست، عدالت، معاشرت، معیشت، عبادت اور ہر چیز میں اس کو قانون سے بھی بالادستی حاصل ہے یا پھر اس کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں؟۔ اسلام نے طاقتور کے فرائض زیادہ رکھے ہیں لیکن حقوق میں برابری رکھی ہے بلکہ طاقتور کے مقابلے میں کمزور کو زیادہ حقوق دئیے ہیں۔ پاکستان میں پروفیسر احمد رفیق اختر اسٹیبلیشمنٹ کے بھی استاد اور پیر ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں خواتین ورکر کی تعداد بہت ہی کم ہے، جب تک وہ گھریلو ذمہ داریوں کو ادا کرے گی اور مرد حضرات کمائی کا فرض ادا کریںگے تو ان کی یہی محکوم حیثیت رہے گی اور جب عورتوں کی اس حوالے سے تعداد بڑھ جائے گی تو پھر برابری حاصل ہوگی ۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ ہندوستان سے پاکستان نے جس بنیاد پر علیحدگی اختیار کی تھی کہ اکثریت میں حقوق نہیں مل سکیںگے تو60فیصد پنجاب کے مقابلے میں باقی تین صوبوں کو بھی اقلیت میں کبھی حقوق نہیں ملیںگے۔ پھر تو قوم پرستی اور جہادیوں کیلئے اس ظلم واستبداد کے خلاف کھڑے ہوئے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں بنتا ہے؟۔
جب تک اسلام کی درست تصویر نہیں پیش کی جائے گی تو پاکستان کو جنگ وفساد، ناانصافی اور ظلم وجبر کے نظام سے نکالنا کسی پروفیسر، پیرطریقت، مولوی، سیاستدان، حکمران اور دانشور کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام طاقتور کو نہیں کمزور کو تحفظ دیتا ہے اور ظالم کی نہیں مظلوم کی حمایت کرتا ہے۔ عورت دورِ جاہلیت میں بھی کمزور اور مظلوم تھی اور آج بھی کمزور اور مظلوم ہے۔ ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ بات سنتا نہیں ہے، سنی جائے تو سمجھنے کی کوشش نہیں ہوتی اور سمجھ لی جائے تو اس پر عمل کی ہمت نہیں ہوتی ہے۔ نبیۖ نے جو انقلاب برپا کیا تھا ،اس کیلئے صحابہ کرام کی ایسی جماعت پیدا کرلی کہ وہ سنتے بھی تھے، سمجھتے بھی تھے اور عمل بھی کرتے تھے۔ قرآن کی آیات تلاوت ہوتی تھیں تو ان کو ترجمہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں تھی وہ کھلی ہوئی اپنی مادری عربی زبان کوخوب سمجھتے تھے۔ نبی کریم ۖ ان کا تزکیہ فرماتے تھے۔ ان کو کتاب کے احکام کی تعلیم دیتے تھے اور انہیں سیاست کی حکمتِ عملی بھی سکھاتے تھے۔ سورۂ جمعہ میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے کہ جو اس عمل کے ذریعے سے پہلوں سے مل جائیںگے۔سورۂ واقعہ اور سورۂ محمد میں بھی ان کا ذکر ہے کہ صحابہ کرام کے مقابلے میں وہ بہت قلیل ہوں گے اور عرب کے بجائے وہ بالکل عجم ہوں گے۔
پختون عالم نے کہا کہ ”پٹھانوں میں خارش ہے، پنجابی آرام سے بیٹھے ہیں اُدھر دھماکے نہیں ہوتے”۔ مفتی نور ولی محسود نے کہا کہ ”جن علماء اور دانشوروں کا مؤقف تھا کہ جہاد ٹھیک تھا دلائل سے سمجھائیں کہ کس طرح بندوق رکھیں؟”۔
1: اسلام کے معاشرتی حقوق اور نظام کو پہلے نافذ کرنا ہوگا۔
2: خود محفوظ جگہ پر بیٹھ کر مخلص لوگوں کو مروانا اسلام نہیں۔
3: امریکہ وپاکستان اور افغانستان میں تمہاری وجہ سے ہی جنگ ہوگی۔

نوٹ: اس آرٹیکل کو مکمل پڑھنے کیلئے متصل عنوانات والے آرٹیکل
” معاشرے میں گرد آلودہ مذہبی فضائیں!” اور
”عورت کے حقوق کا بہترین قرآنی چارٹر” ضرور پڑھیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز