پوسٹ تلاش کریں

مروجہ نظام زمینداری اور اسلام

مروجہ نظام زمینداری اور اسلام اخبار: نوشتہ دیوار

مروجہ نظام زمینداری اور اسلام
مولانا محمدطا سین: داماد علامہ حضرت سید محمد یوسف بنوری
ترتیب وپیشکش اور ایک جاندار تبصرہ نوشتہ دیوار: عبدالکریم شیروش
پیش لفظ میں میرا مقصد واضح کرنا ہے کہ یہ مضمون جسکا عنوان ہے ”مروجہ زمینداری اور اسلام” جس نے کتاب کی شکل اختیار کرلی کیوں لکھا، وہ کیا مصلحت اور ضرورت تھی جو میرے لئے اسکے لکھنے کا محرک اور باعث بنی”۔
یہ معاشیات کا دور ہے، اقتصادی شعبے کی یہ اہمیت پہلے نہ تھی۔ آج انسانی ذہن پر سب سے قوی رحجان معاشی ہے۔ معاشی پہلو کی درستگی پر زندگی کی درستگی کا دار و مدار ہے۔ آج نظام حیات کے اچھے برے، قابل قبول یا قابل رد ہونے کا معیار اسکا معاشی ضابطہ ہے، جسکا معاشی ضابطہ اور اقتصادی لائحہ عمل اچھا اطمینان بخش ہے وہ نظام اچھا وقابل قبول ہے خواہ دوسرے پہلوں سے اسکے اندر کتنی خامیاںاور خرابیاں کیوں نہ ہوں۔ اسکے برعکس وہ نظام برا ہے جسکا معاشی ضابطہ اطمینان بخش نہ ہو۔ معاشی ضابطے کا معروضی معیار اور پیمانہ یہ ہے کہ جس سے سو فیصد افراد کو معاشی خوشحالی اور ترقی کے مواقع میسر آسکتے ہوں۔ اسکے بعد پھر جس سے جتنے زیادہ افراد کو معاشی خوشحالی کے مواقع ملتے ہوں اتنا ہی اضافی طور پر اچھا و اطمینان بخش ہے اور جتنے کم افراد کو معاشی خوشحالی اور ترقی کے مواقع ملتے ہوں اتنا اضافی طور پر برا اور غیر اطمینان بخش ہے۔
آج انسانیت دو مخالف اور متحارب دھڑوں میں منقسم ہے اسکا سبب دو مختلف معاشی نظام ہیں۔ ایک کیپٹل ازم یعنی سرمایہ داری اور دوسرا سوشلزم یعنی اشتراکیت ہے۔ اسلام کا مستقل معاشی نظام اشتراکی و سرمایہ دارانہ دونوں معاشی نظاموں سے بنیادی طور پر مختلف اور بہتر ہے لیکن افسوس کہ اب تک ہم عملی ثبوت پیش کرسکے اور نہ علمی اور نظری۔ اسلامی ممالک میںایسا معاشی نظام عملی شکل میں موجود نہیں جو سرمایہ دارانہ ہو اور نہ اشتراکی ۔
اسلامی نظام کے ایک حصے کا تعلق زراعت و کاشت کاری کے شعبہ سے ہے جو پاکستان جیسے زرعی ملک کیلئے خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ اس شعبہ کے مسائل میں سے ایک مسئلہ مزارعت و بٹائی کا مسئلہ ہے جو اپنے عملی اثرات و نتائج کے لحاظ سے بڑا اہم مسئلہ ہے لیکن بدقسمتی سے اس کے شرعی جواز و عدم جواز کے متعلق فقہا اسلام کے مابین قدیم سے شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض فقہا اس کو بنیادی طور پر جائز اور بعض اس کو بنیادی طور پر ناجائز قرار دیتے رہے ، اوروں کا تو ذکر کیا خود امام ابو حنیفہ اور ان کے دو شاگردوں امام محمد شیبانی اور قاضی ابو یوسف کے مابین اس مسئلہ سے متعلق اختلاف فقہ حنفی کی تمام کتابوں میں مذکور ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ نے معاملہ مزارعت کی ہر شکل کو باطل و فاسد اور ان کے مذکورہ دو شاگردوں نے اس کو بنیادی طور پر جائز و صحیح ٹھہرایا۔
مفسرین حضرات میں علامہ ابن کثیر نے سورہ بقرہ والی تحریم ربو کی آیات کی تفسیر میں مخابرہ سے متعلق حضرت جابر کی مذکورہ بالا حدیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ :
انما حرمت المخابر وھی المزارع ببعض ما یخرج من الارض، و المزابن وھی اشترا الرطب فی روس النحل بالتمر علی وج الارض ، و المحاقل وھی اشترا الحب فی سنبلہ فی الحقل بالحب علی وجہ الارض، انما حرمت ھذہ الاشیا و ماشا کلھا حسمالماد الربو
”سوائے اسکے نہیں کہ حرام ٹھہرایا گیا مخابرہ جو پیداوار زمین کے ایک حصہ پر مزارعت کا نام ہے اور مزانب جو نام ہے درخت پر لگی تازہ کھجوروں کو زمین پر پڑے خشک چھوہاروں کے عوض خریدنا اور محاقلہ جو خوشوں میں محفوظ غلہ کو جو کھڑی کھیتی میں ہو، خشک غلے کے بدلے خریدنا۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے معاشی معاملات صرف اسلئے حرام ٹھہرائے گئے ہیں کہ ربو کا کلی طور پر خاتمہ ہوجائے۔”
علامہ ابن کثیر نے مخابرہ، مزابنہ اور محاقلہ اور ان سے ملتے جلتے دیگر معاشی معاملات کے حرام ہونے کی وجہ اور علت یہ بتلائی ہے کہ یہ سب ربوی معاملات ہیں اور یہ کہ ان کو حرام قرار دینے کا مقصد ربو (سود) کا پوری طرح قلع قمع کرنا اور اس کو جڑ سے اکھاڑنا ہے، اس عبارت میں یہ بھی وضاحت ہے کہ مخابرہ عین مزارعت ہے۔
دوسرے عظیم مفسر علامہ القرطبی اپنی جلیل القدر تفسیر الجامع لاحکام القرآن میں تحریم ربو کی آیت میں سے اس آیت : فان لم تفعلوا فاذنو ا بحرب من اللہ و رسولہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ھذا الوعیدالذی وعداللہ بہ فی الربو من المحارب قدورد عن النبی ۖ مثلہ فی المخابر عن جابر بن عبد اللہ قال سمعت رسول اللہ ۖ یقول: من لم یذر المخابر فلیوذن بحرب من اللہ و رسولہ، و ھذا دلیل علی منع المخابر وھی اخذ الارض بنصف ادثلث او ربع ویسمی المزارع، و اجمع اصحاب مالک کلھم و الشافعی و ابو حنیف و اتباعھم و داود علی انہ لایجوز دفع الارض علی الثلث و الربع و لا علی جز دما یخرج من الارض۔
”اللہ اور اس کے رسول ۖ سے جنگ کی یہ وعید و دھمکی جو ربو کو نہ چھوڑنے والوں کیلئے اللہ نے اس آیت میں فرمائی ہے۔ ٹھیک اسی طرح کی وعید رسول اللہ ۖ نے مخابرہ کو نہ چھوڑنے والوں کیلئے بھی فرمائی ہے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ راوی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ۖ سے سنا آپ ۖ نے فرمایا جو مخابرہ کو نہ چھوڑے اس کیلئے اللہ اور اسکے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔ حدیث مخابرہ کے ممنوع ہونے کی دلیل ہے۔ مخابرہ زمین کو کاشت کیلئے نصف، تہائی یا چوتھائی پیداوار پر لینا دینا اسی کا دوسرا نام مزارعت ہے۔ تمام مالکی علمائ، امام شافعی ، امام ابو حنیفہ اور انکے کچھ متبعین ،داد ظاہری کا اس پر اجماع ہے کہ زمین کو پیداوار کے تہائی ، چوتھائی اور کسی حصہ پر دینا جائز نہیں۔” (ص ، 367، ج3، مروجہ نظام زمینداری اور اسلام۔ ص 80-79: مولانا محمد طاسین )
مزارعت اور مرفوع احادیث
احادیث حضرت جابر 1: عن عطائعن جابر قال کانوا یزرعونھا بالثلث و الربع و النصف فقال النبی ۖ من کانت لہ ارض فلیزرعھا اولیمنحھا فان لم یفعل فلیمسک ارضہ۔
” عطا سے روایت ہے کہ جابر نے فرمایا کہ لوگ تہائی، چوتھائی اور نصف پیداوار پر زمین کاشت کرتے کراتے۔ نبی ۖ نے فرمایا جس کی زمین ہو وہ اسے خود کاشت کرے یا دوسرے کو کاشت کیلئے مفت بلامعاوضہ دے دے اور اگر نہیں کرتا تو اپنی زمین کو یونہی اپنے پاس روک رکھے”۔ (ص 315، ج1، بخاری)
4:عن سعید بن مینا قال سمعت جابر بن عبد اللہ ان رسول اللہ ۖ قال: من کان لہ فضل ارض فلیزرعھا او لیزرعھا اخاہ، ولا تبیعوھا فقلت لسعید ما قولہ لا تبیعوھا یعنی الکرا قال نعم۔
” سعید بن مینا نے کہا: میں نے جابر بن عبد اللہ سے سنا کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : جسکے پاس فاضل زمین ہو وہ اسے خود کاشت کرے یا اپنے بھائی کو کاشت کیلئے دیدے، اور اسے بیچو نہیں، میں نے حضرت سعید سے پوچھا کہ لا تبیعوھا سے مراد کرائے پر دینا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ”ہاں” (ص11، ج 2،مسلم) 2:(ص 355، ج 1بخاری۔ ص 11، ج 2، مسلم) 3: (ص 11، ج 2،مسلم)5: (ص 286 ، ج2، مستدرک للحاکم)6: (ص 11، ج 2مسلم)7: (ص 11، ج 2 ، مسلم)8: (ص 12، ج2،مسلم)9: (ص 11، ج2، مسلم)10: (ص 12، ج2،مسلم)11: (ص 349، سنن دارمی)
احادیث زید بن ثابت1: عن زید بن ثابت قال نہی رسول اللہ ۖ عن المخابر، قلت ما المخابر ؟ قال ان تاخذ الارض بنصف او ثلث او ربع۔” زید بن ثابت نے کہا کہ رسول اللہ ۖ نے مخابرہ سے منع فرمایا ، میں نے پوچھا مخابرہ کیا ہے؟ تو زید نے جواب دیا تیرا زمین کو کاشت کیلئے نصف یا تہای یا چوتھائی پیداوار پر لینا۔ (ص127، ج 2، ابی داد)۔ 2: ابن عمر عن زید بن ثابت قال نہی رسول اللہ ۖ عن المحاقل و المزابن” عبد اللہ بن عمر نے زید بن ثابت سے روایت کیا یہ کہ رسول اللہ ۖ نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا۔ (ص 260، ج2، شرح معانی الآثار للطحاوی)3: (ص 125 ، ج2 ، سنن ابی داد۔ ص 148، ج 2، سنن نسائی)۔
احادیث حضرت ابی ہریرہ
1: عن ابی سلم عن ابی ھریر قال قال رسول اللہ ۖ : من کانت لہ ارض فلیزرعھا اولیمنحھا اخاہ فان ابی فلیمسک ارضہ ۔
”ابو سلمہ نے ابو ہریر سے روایت کی کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : جس کی زمین ہو وہ اسے خود کاشت کرے یا پھر اپنے بھائی کو مفت کاشت کیلئے دے اور اگر ایسا نہیں کرتا تو اپنی زمین کو روک رکھے۔ (ص 315، ج 1،بخاری)۔
2: عن ابی صالح عن ابی ھریر قال نھی رسول اللہ ۖ عن المحاقل و المزابن۔
” ابو صالح سے ابو ہریر نے بیان کیا کہ رسول اللہ نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا۔ (ص 11، ج 2 مسلم)
ابو سعید الخدری کی حدیث:عن داد بن الحصین ان ابا سفیان اخبرہ انہ سمع ابا سعید الخدری یقول: نہی رسول اللہ ۖ عن المزابن و المحاقل، و قال: المزابن اشترا الثمر فی روس النخل، و المحاقل کرا الارض۔
” داد بن الحصین سے روایت ہے کہ ابو سفیان نے ابو سعید خدری سے یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ ۖ نے مزابن اور محاقلہ سے منع فرمایا ہے۔ مزابنہ نام ہے درخت پر لگے پھل کو خریدنا یعنی خشک پھل کے عوض اور محاقلہ کا مطلب ہے کرا الارض۔ (ص 12، ج 2، مسلم)
حدیث حضرت انس:عن انس بن مالک قال نہی النبی ۖ عن المحاقل و المخاضیر و الملامس و المنابذ و المزابن” انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی ۖ نے محاقلہ، مخاضرہ، ملامسہ، منابذہ ،مزابن سے منع فرمایا۔ (ص 293، ج 1،بخاری)
حضرت ثابت بن الضحاک کی حدیث:عن عبد اللہ بن السائب قال سالت عبد اللہ بن معقل عن المزارع فقال اخبرنی ثابت بن الضحاک ان رسول اللہ ۖ نھی عن المزارع۔
” عبد اللہ بن سائب نے کہا کہ میں نے عبد اللہ بن معقل سے مزارعت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجھے ثابت بن ضحاک نے خبردی کہ رسول اللہ ۖ نے مزارعت سے منع فرمایا۔ (ص 11، ج 2،مسلم)۔
حضرت عائشہ صدیقہ کی احادیث
1: عن عبد اللہ بن عمر عن عائشہ ان النبی ۖ خرج فی مسیرلہ فاذا ھوا بزرع تھتز فقال لمن ھذا الزرع؟ قالوا لرافع بن خدیج فارسل الیہ وکان قد اخذ الارض بالنصف او بالثلث، فقال انظر نفقتک فی ھذہ الارض فخذ ھا من صاحب الارض و ادفع الیہ ارضہ وزرعہ” عبد اللہ بن عمرنے حضرت عائشہ سے روایت کیا کہ نبی ۖ اپنے ایک راستے سے گزرے کہ اچانک آپ ۖ کی نگاہ ایک لہلہاتی کھیتی پر پڑی۔ آپ ۖ نے پوچھا یہ کھیتی کس کی ہے؟ صحابہ نے بتلایا کہ رافع بن خدیج کی۔ آپ ۖ نے انہیں بلوایا ان کے بتلانے پر معلوم ہوا کہ انہوں نے وہ زمین نصف یا تہائی پر لی ہے تو آپ ۖ نے فرمایا دیکھو تمہارا جو خرچہ اس زمین میں ہوا ہے مالک زمین سے لے لو اور زمین بمعہ کھیتی کے اس کے حوالے کردو۔ (ص 304، ج 2، دار قطنی)۔
2:عن عائشہ قالت کان اصحاب رسول اللہ ۖ قوما عمال انفسھم کانو یعالجون اراضیھم بایدیھم ۔
حضرت عائشہ نے روایت کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ ۖ کے صحابہ کرام خود کام کرنے والے لوگ تھے۔ وہ اپنی زمینوں میں خود اپنے ہاتھوں سے کام کرتے یعنی ان کو خود کاشت کرتے تھے۔ دوسروں سے نہیں کراتے تھے۔ (ص 127، ج6،السنن الکبری)۔
حضرت علی کی حدیث
عن علی ابن طالب ان رسول اللہ ۖ نھی عن قبال الارض بالثلث و الربع و قال اذا کان احدکم الارض فلیزرعھا او لیمنحھا اخاہ۔
”حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے منع فرمایا زمین کو تہائی اور چوتھائی پر دینے کی ضمانت و ذمہ داری سے اور فرمایا جب تم میں سے کسی کی زمین ہو تو وہ اسے خود کاشت کرے یا پھر اپنے بھائی کو مفت کاشت کیلئے دے دے۔ (ص 283، المسند لزید)۔
حضرت سعد بن ابی وقاص کی احادیث
1: عن سعد بن ابی وقاص قال کان الناس یکرون المزارع بما یکون علی الساقی ربما یسقی بالما مما حول البر، فنہی رسول اللہ ۖ عن ذلک و قال اکروھا بالذھب و الورق۔
”حضرت سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے کہ لوگ اپنے کھیت اس پیداوار کے عوض دوسروں کو دیتے تھے جو نالیوں کے کنارے اور کنوئیں کے ارد گرد پانی بہنے کی جگہ اگتی تھی۔ پس منع فرمایا رسول اللہ ۖ نے اس سے، اور فرمایا سونے چاندی کے عوض کرائے پر دو۔ (ص 259، ج 2، شرح معانی الآثار)۔
2: عن سعید بن المسیب عن سعد بن ابی وقاص قال کان اصحاب المزارع یکرون فی زمان رسول اللہ ۖ مزارعھم بما یکون علی الساقی من الزرع فجا وا رسول اللہ ۖ فاختصموا فی بعض ذلک، فنھاھم رسول اللہ ۖ ان یکروا بذلک و قال اکرو بالذھب و الفض۔
”حضرت سعید بن المسیب سے مروی ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص نے ان سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ۖ کے زمانے میں کھیتوں والے اپنے کھیت کرائے پر دیتے تھے بعوض اس کھیتی کے جو پانی کی نالیوں کے کنارے پر اگتی تھی۔ پس وہ رسول اللہ ۖ کی خدمت میں حاضر ہوئے بوجہ اس جھگڑے کے جو ان کے درمیان اس معاملے میں ہوا تھا۔ سننے کے بعد رسول اللہ ۖ نے ان کو اس معاملے سے روک دیا اور فرمایا کہ سونے چاندی کے عوض کرائے پر دو۔ (ص 144، ج 2، سنن النسائی)۔
3:(ص 125 ،ج2، سنن ابی داد)۔
حضرت مسور بن مخرمہ کی حدیث
عن المسوربن مخرم قال مر رسول اللہ ۖ بارض بعبد الرحمن بن عوف فیھا زرع فقال یا عبد الرحمن لا تاکل الربو و لا تطعمہ، ولا تزرع الا فی ارض ترثھا او تورثھا او تمنحھا۔
”حضرت مسور بن مخرمہ نے روایت کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ۖ ایک زمین کے پاس سے گزرے جس میں عبد الرحمن بن عوف کی کھیتی تھی آپ ۖ نے ان کو مخاطب ہوکر فرمایا اے عبد الرحمن نہ خود سود کھا اور نہ دوسرے کو کھلا اور کاشت نہ کرو مگر ایسی زمین میں جس کے تم وارث بنے یا فرمایا بنادئیے گئے ہو یعنی مالک ہو یا وہ زمین تجھے منحہ کے طور پر با معاوضہ کاشت کے لئے دی گئی ہو۔ ” (ص 120، ج 4، مجمع الزوائد بحوالہ طبرانی)۔
عبد اللہ بن عمر کی احادیث:عن عمرو بن دینارعن ابن عمر و جابر قالا نھی رسول اللہ ۖ عن بیع التمر حتی یبد و صلاحہ و نہی عن المخابر کرا الارض بالثلث و الربع۔” عمر و بن دینار نے روایت کیا کہ ابن عمر اور جابر نے کہا کہ رسول اللہ ۖ نے منع فرمایا پھلوں کی خرید و فروخت سے یہانتک کہ ان میں کھانے کی صلاحیت پیدا ہو اور منع فرمایا مخابرہ سے یعنی زمین کو تہائی او رچوتھائی پیداوار پر لینے دینے سے ” (ص 147، ج2 نسائی)۔2: (ص 12، ج2 مسلم)3: عن نافع ان ابن عمر کان یکری مزارعہ علی عہد النبی ۖ وفی امار ابی بکر و عمر و عثمان و صدر امن خلاف معاوی حتی بلغہ فی آخر خلاف معاویہ ان رافع بن خدیج یحدث فیھا ینھی عن النبی ۖ فدخل علیہ وانا معہ فسالہ فقال کان رسول رسول اللہ ۖ ینھی عن کرا المزرع فترکھا ابن عمر بعد فکان اذاسئل عنھا بعد قال زعم ابن خدیج ان رسول اللہ ۖ نھی عنھا۔
”نافع نے روایت کیا کہ عبد اللہ بن عمر اپنے کھیت کرائے یعنی مزارعت پر دیتے تھے نبی ۖ کے زمانہ میں اور حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان کے زمانہ امارت اور حضرت معاویہ کے شروع کے عہد خلافت میں یہانتک کہ حضرت معاویہ کے عہد خلافت کے آخر میں ان کو معلوم ہوا کہ حضرت رافع بن خدیج اس کی ممانعت سے متعلق رسول اللہ ۖ کی حدیث بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ انکے پاس گئے جب کہ میں انکے ساتھ تھا، ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا رسول اللہ ۖ کرا المزارع سے منع فرماتے رہے لہذا ابن عمر نے اسکے بعد اس کو چھوڑ دیا، پھر بعد میں جب بھی ان سے اسکے متعلق پوچھا جاتا تو جواب دیتے کہ رافع بن خدیج نے کہا کہ رسول اللہ ۖ نے اس سے منع فرمایا۔” (ص 13، ج 2، صحیح المسلم)۔
4: ص 313، ج 1، صحیح البخاری)۔
احادیث عبد اللہ بن عباس: عن ابن عباس اذا اراد احدکم ان یعطی اخاہ ارضا فلیمنحھا ایاہ ولا یعطہ بالثلث و الربع۔”عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو زمین دینا چاہے تو مفت دے تہائی چوتھائی پر نہ دے۔ (ص 72، ج 8، کنز العمال، طبرانی)۔2: (ص 313، ج 1،بخاری) 3: (ص 166، ج1، ترمذی)۔ 4: (ص 72،ج 8، کنزالعمال طبرانی)۔ 5:(ص 260 ، ج 2، طحاوی)
اسید بن ظہیر کی حدیث1: عن رافع بن اسید عن ابیہ اسید بن ظھیر انہ خرج الی قومہ الی بنی حارث فقال یا بنی حارث لقد دخلت علیکم مصیب، قالوا ماھی؟ قال نھی رسول اللہ ۖ عن کرا الارض، قلنا یا رسول اللہ اذا نکریھا بشی من الحب قال لا، قال وکنا نکریھا بالتبن فقال لا، و کنا نکریھا بھا علی الربیع الساقی قال لا، ازرعھا اوا منحہا اخاک۔
”رافع نے اپنے باپ اسید بن ظہیر سے روایت کیا کہ وہ اپنی قوم بنی حارثہ میں پہنچے او ران سے کہا کہ تم پر ایک مصیبت آگئی ہے انہوں نے پوچھا وہ کیا مصیبت ہے؟ کہا کہ رسول اللہ ۖ نے کرا الارض سے منع فرمادیا ہے، ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہۖ! تو پھر کیا ہم غلے کی کچھ مقدار کے عوض زمین دے سکتے ہیں؟ جواب میں آپ ۖ نے فرمایا نہیں، ہم نے عرض کیا کہ ہم بھوسے کے بدلے دیا کرتے تھے، فرمایا یہ بھی جائز نہیں، عرض کیا ہم نالیوں کے کنارے کی پیداوار کے عوض دیا کرتے تھے، فرمایا نہیں، خود کاشت کرو یا اپنے بھائی کو یونہی کاشت کیلئے دے دو ۔ (ص 141، ج 2، سنن النسائی)۔
2: عن مجاہد عن اسید بن ظہیر قال اتی علینا رافع بن خدیج فقال ان رسول اللہ ۖ نھاکم عن امر کان ینفعکم وطاع رسول اللہ ۖ خیرلکم مما ینفعکم نھاکم رسول اللہ ۖ عن الحقل و الحقل المزارع بالثلث و الربع فمن کان لہ ارض فاستغنی عنھا فلیمنحھا اخاہ ولیدع۔
” مجاہد نے روایت کیا اسید بن ظہیر نے کہا کہ رافع بن خدیج ہمارے یہاں آئے اور کہا کہ رسول اللہ ۖ نے تمہیں ایک ایسے معاملے سے روک دیا جو تمہارے لئے نفع مند تھا لیکن رسول اللہ ۖ کی اطاعت تمہارے لئے تمام منافع سے بہتر ہے۔ رسول اللہ ۖ نے حقل سے منع فرمایا ہے ار حقل تہائی و چوتھائی پر مزارعت کا نام ہے۔ پس جس کے پاس زمین ہو اور اسے اس کی ضرورت نہ ہو تو وہ اپنے بھائی کو یونہی مفت کاشت کیلئے دے دے یا پھر بے کار چھوڑدے۔ (ص 141، ج 2، النسائی)۔
احادیث رافع بن خدیج 1: (ص 141، ج 2، نسائی) 2: (ص 315، ج 1،بخاری)۔3 : عن ابی النجاشی مولی رافع بن خدیج قال قلت لرافع ان لی ارضا اکریھا فنھانی رافع وا راہ قال لی ان رسول اللہ ۖ نھی عن کرا الارض و قال اذا کانت لاحدکم ارض فلیزرعھا او لیزرعھا اخاہ فان لم یفعل فلیدعھا وکا یکریھابشیی فقلت ارات ان ترکتھا و لم ازرعھا ولم اکرھا بشیی فزرعھا فوھبوالی من نباتھا شیئا اخذہ قال لا۔”ابو النجاشی مولی رافع بن خدیج نے روایت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے حضرت رافع سے عرض کیا کہ میری ایک زمین ہے میں اسے کرائے پر دے سکتا ہوں تو انہوں نے اس سے منع کیا اور مجھ سے کہا کہ رسول اللہ ۖ نے کرا الارض سے منع فرمایا ہے اور فرمایا جب تم میں سے کسی کی زمین ہو تو وہ اسے خود کاشت کرے یا اپنے بھائی کو کاشت کیلئے دے دے اور اگر ایسا نہیں کرتا تو اسے یونہی چھوڑ دے اور اس کو کسی شے کے بدلے کرائے پر نہ دے، اس پر میں نے پوچھا کہ یہ بتلائیے کہ اگر میں اس زمین کو چھوڑ دوں نہ خود کاشت کروں اور نہ کرائے پر دوں اور کچھ لوگ آکر اسے کاشت کرلیں اور پھر وہ مجھے بطور ہبہ اس کی پیداوار میں سے کچھ دیں تو کیا میں لے سکتا ہوں؟۔ حضرت رافع نے جواب دیا کہ نہیں۔ 4: (ص 256 ، ج 2، طحاوی)۔ 5: (ص 13، ج 2،مسلم)۔6: (ص 313،ج1، بخاری)7: (ص 315 ج1 بخاری (ص 145، ج 2، نسائی) 8: (ص 145، ج 2، نسائی) 9: (ص 145، ج 2،نسائی) 10: (ص 115، ج 10 ، فتح الربانی، مسند احمد)۔ 11: عن مجاھد قال حدث رافع بن خدیج خرج الینا رسول اللہ ۖ ننھانا عن امر کان لنا نافعا، فقال من کان لہ ارض فلیزرعھا او یمنحھا او یذرھا ۔”مجاہد نے کہا کہ حضرت رافع بن خدیج نے فرمایا کہ رسول اللہ ۖ ہماری طرف نکلے او رہم کو ایک ایسے معاملے سے روکا جو ہمارے لئے مفید تھا اور فرمایا جس کی زمین ہو وہ اسے خود بوئے یا کسی کو بلا معاوضہ دے دے یا پھر اسے چھوڑ دے۔ ” نسائی (ص 142، ج2 ) 12: (ص 144، ج 2) 13: (ص 143، ج 2)14: (ص 143، ج 2) 15: عن عیسی بن سھل بن رافع بن خدیج قال انی یتیم فی حجر جدی رافع بن خدیج و بلغت رجلا و حججت معہ فجا اخی عمران بن سھل بن رافع، فقال یا ابناہ! انہ قد اکترینا ارضنا فلان بمائتی درھم، فقال یا بنی دع ذاک فان اللہ عزوجل سیجعل لکم رزقا غیرہ ان رسول اللہ ۖ قد نھی عن کرا الارض۔
” رافع بن خدیج کے پوتے عیسی بن سہل نے کہا کہ میں یتیم تھا دادا رافع بن خدیج کی گود میں پل بڑھ کر جوان ہوا اور انکے ساتھ حج کیا، ایک موقع پر میرا بھائی عمران بن سہل آیا اور دادا کو بتلایا کہ ہم نے اپنی فلاں زمین دو سو درہم کے عوض کرائے پر دی ۔ دادا نے فرمایا بیٹے اس کو چھوڑ دو اللہ تمہیں دوسرے طریقہ سے رزق دیگا کیونکہ رسول اللہ ۖ نے کرا الارض سے روکا اور منع فرمایا۔ ” (ص 147، ج 2،نسائی)۔ 16: عن ابن ابی نعم قل حدثنی رافع بن خدیج انہ زرع ارضا فمریہ النبی ۖ وھوا یسقیھا فسئا لہ لمن الزرع ولمن الارض فقال زرعی بیذری و عملی لی الشطر و لبنی فلان الشطر، فقال اربیت، فرد الارض علی اھلھا و خذ نفقتک۔ ”ابن ابی نعم نے کہاکہ رافع بن خدیج نے بیان کیا کہ اس نے ایک زمین کاشت کی تھی۔ ایک دن وہاں سے نبی ۖ کا گزر ہوا جبکہ وہ اس کو پانی دے رہا تھا، حضور ۖ نے پوچھا کھیتی کس کی ہے اور زمین کس کی؟ میں نے عرض کیا کھیتی میری ہے جو میرے بیج اور عمل کا نتیجہ ہے۔ نصف پیداوار میرے لئے ہوگی او رنصف بنی فلاں کیلئے۔ اس پر آپ ۖ نے فرمایا تم ربو میں پڑے، زمین اس کے مالکوں کو دیدو اور ان سے اپنا خرچہ لے لو ۔ ” (ص 127، ج 2، سنن ابی داد)، (ص 256، ج 2، طحاوی)۔ 17: عن نافع ان ابن عمر کان یاجر الارض قال فنبئی حدیثا عن رافع بن خدیج قال فانطلق بی معہ الیہ قال فذکر عن بعض عمومتہ ذکر فیہ عن النبی ۖ انہ نھی عن کرا الارض قال فترکہ ابن عمر فلم یاجرہ ۔”حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر کرائے پر زمین دیا کرتے تھے پھر ان کو رافع بن خدیج کی حدیث کی خبر ملی، مجھے ساتھ لے کر ان کے پاس گئے انہوں نے اپنے بعض چچاں کے حوالے سے حدیث بیان کی اور اس میں نبی ۖ کی طرف سے کرا الارض کی نہی کا ذکر کیا۔ چنانچہ حدیث سننے کے بعد ابن عمر نے کرا الارض کو ترک کردیا اور پھر کبھی زمین اجارے پر نہ دی۔ ” (ص 13، ج 2، صحیح المسلم)۔
18ان رسول اللہ ۖ اتی بنی حارث فرائی زرعا فی ارض ظھیر فقال ما احسن زرع ظھیر، قالوا لیس ظھیر، قال الیس ارض ظھیر قالوا بلی و لکنہ زرع فلان، قال فخذوا زرعکم و ردوا علیہ النفق ۔ ”رافع نے روایت کیا کہ رسول اللہ ۖ محلہ بنی حارثہ تشریف لائے اور ظہیر کی زمین میں لہلہاتی کھیتی دیکھ کر فرمایا کیا ہی عمدہ کھیتی ہے ظہیر کی، لوگوں نے عرض کیا یہ ظہیر کی کھیتی نہیں، آپ ۖ نے فرمایا کیا یہ زمین ظہیر کی نہیں۔ لوگوں نے بتلایا کہ زمین تو ظہیر کی ہے مگر اسے کاشت فلاں شخص نے کیا ہے آپ ۖ نے فرمایا اپنی کھیتی لے لو۔ اور مزارع کو اس کا خرچہ دے دو۔ ” (ص 126، ج2، ابوداد)۔ (ص 144، ج 2، نسائی)۔
(مروجہ زمینداری اور اسلام: مولانا محمدطاسین: داماد علامہ سید محمدیوسف بنوری۔نیٹ پر القرآن اکیڈمی لاہور)
تبصرہ نوشتہ دیوار:شیروش
علامہ طاسین نے قرآن ، فقہ ، اصول فقہ سے اپنامقف درست ثابت کرنے کی کوشش کی ہے مگر آپ گوشہ گمنامی کی نذر ہوگئے ۔ ڈھیر ساری احادیث میں کوئی خال خال بات بھی جو نظر آتی ہے، اس پر بھی تحقیق کرکے معاملہ صاف کیا گیاہے۔اللہ کرے کہ بندہ مزدور کے تلخ اوقات بن جائیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، کاشتکار وں نے جو محنت کی ہے ان کو اشتہاروں سے خوش کرنا ممکن نہیں ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ” جو مرد کمائیں وہ انکا حصہ ہے اور جو خواتین کمائیں وہ انکا حصہ ہے”۔ زمین کی کاشت میں خاندان کے خاندان محنت کرتے ہیں اور ان کی محنت پر جاگیردار بھی نہیں پلتے ہیں بلکہ منڈیوں والے ساری کمائی سمیٹ لیتے ہیں۔ اگر احادیث کے مطابق ہم اپنی زراعت کو سود سے پاک کردیں تو پاکستانی قوم اپنے پاں پر کھڑی ہوجائے گی۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے اردگرد جتنی بنجر زمین پڑی ہے اگر یہ آباد کرنے کیلئے محنت کشوں کو مفت میں دی جائے توپختونخواہ اور بلوچستان کی سبزیوں اور اناج کیلئے یہ بھی بہت ہے۔ سولر کے ذریعے اس کو آباد کرنا مشکل بھی نہیں ہے۔جب لوگوں کو مفت میں زمینیں ملنے لگیں گی تو جاگیردار بھی زمینیں یا تو خود کاشت کرینگے یا پھر کاشتکاروں کو مفت میں دینا شروع کردینگے۔ اگر علما امام ابوحنیفہ کے مسلک پر عمل کرنے کے بجائے حیلہ ساز شاگردوں کے حیلوں پر عمل پیرا ہوں تو ان کو حنفی کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔جب کاشتکاروں کو مفت میں زمینیں مل جائیں گی تو ان کے عشروزکو سے مولوی بھی بھیک کی خاطر زیادہ چکر نہیں لگائیںگے۔ خواتین اور نوجوانوں اور انقلابیوں کیلئے حقوق کی جدوجہد کا آسان راستہ یہ ہے کہ کالج ، یونیورسٹیوں اور میڈیا پر احادیث صحیحہ کے ذخیرے کو عام کریں۔ کاشتکاروں کو بھی تعلیم ، انسانی حقوق ، اچھی زندگی کا حق ہے، انکے بھی خواتین، نوجوان اور بچے ہیں۔ اشتراکیت روس اور چین میں بھی ناکام ہوچکی ہے اسلامی جمعیت طلبہ والے احادیث کی بنیاد پر غریبوں اور جوانوں کو بہتر معیشت اور بہتر مستقبل کا راستہ دکھائیں۔ بدمعاشی اور غنڈہ گردی کا راستہ روکنے کیلئے ضروری ہے کہ لال لال لہرانے اور سبز سبز لہلہانے والوں اس آسان ہدف کو اپنے مشترکہ لائحہ عمل کیلئے بنیاد بنائیں۔نوجوانوں کا جذبہ اچھا ہے کہ کچھ کیا جائے لیکن جب کرنے کیلئے کچھ نہیں ملتاہے تو ایکدوسرے کے سر پھوڑنے شروع کردیتے ہیں۔
علما کرام اور مفتیانِ عظام کو اگر طلاق اور دوسرے مسائل سمجھ میں نہ آتے ہوں تو تھوڑا سا غور کرکے سب کچھ سمجھ سکتے ہیں۔ اسلام کی درست تعبیر سے لوگ اسلامی انقلاب پر آمادہ ہونگے۔فرقہ واریت اور منافرت کا خاتمہ ہوگا اور مساجد ومدارس میں اسلام کی روشنی سے تروتازگی آئے گی اور مذہبی طبقات کی قدر ومنزلت بڑھے گی۔
وہ وقت بہت قریب لگتا ہے کہ جب دنیا میں اسلام کا ڈنکا بجے گا۔ جو نوجوان اور خواتین اپنے حقوق کی جنگ لڑنے پر آمادہ ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔جبر وستم کے نظام کو درست کرنے میں باہمت نوجوانوں اور خواتین کا کردار بہت بڑی غنیمت ہے۔ اصحاب حل وعقد ڈھیٹ پن کا شکار ہیں۔ یہ لوگ خواب غفلت سے بیدار ہیں۔ ہم ان کی جرات وعظمت، دردِ دل اور دور اندیشی کو سلام پیش کرتے ہیں جو بڑا حقیر سانذرانہ ہے۔ عبد الکریم شیروش
ماہنامہ نوشتہ دیوار کراچی ، خصوصی شمارہ دسمبر 2019

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز