پوسٹ تلاش کریں

مذہبی جماعتوں نے کبھی پاکستان میں ایک مرتبہ بھی قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی نہیں کی!

مذہبی جماعتوں نے کبھی پاکستان میں ایک مرتبہ بھی قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی نہیں کی! اخبار: نوشتہ دیوار

مذہبی جماعتوںنے کبھی پاکستان میں ایک مرتبہ بھی قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی نہیں کی!

اس الیکشن میں جو کوئی بھی برسراقتدار آئے تو پہلے سے یہ طے کرلے کہ قرآن کے مطابق پارلیمنٹ میں قانون سازی کرنی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کو مفت کی روٹیاں توڑنے کیلئے چھوڑو

حضرت عمر نے بدری وغیر بدری، فتح مکہ سے پہلے و بعد والے صحابہ کے علاوہ حضرت حسن و حسین اور عبداللہ بن عمر کے وظائف یا تنخواہوں میں فرق رکھا تھا تو پھر ہم کیسے انگریز دور کی پیداوار طبقاتی نظام میں مراعات یافتہ طبقات کی مراعات کو ختم کرسکتے ہیں؟۔ ایک غریب کی بچی کا دوپٹہ ہوا نے سرکایا تو اسکو کوڑا ماردیا اور پھر حضرت عمر نے معافی بھی مانگ لی لیکن جب بصرہ کے گورنر حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف چار افراد نے گواہی دی تو ایک کی گواہی کو ناقص قرار دیکر گورنر کی جان بخشی ہوئی اور تین گواہوں کو80،80کوڑے بھی لگائے اور پھر یہ پیشکش بھی ہوئی کہ اگر اتنا بول دو کہ ہم نے جھوٹ بولا تھا تو پھر تمہاری گواہی بھی قبول ہوگی۔ جمہور فقہاء اہل سنت کے ہاں حضرت عمر کی پیشکش درست تھی اسلئے اگر کوئی جھوٹی گواہی دیکر توبہ کرے تو پھر اس کی گواہی قبول ہوگی۔ لیکن مسلک حنفی نے حضرت عمر کی پیشکش کو قرآنی آیات کے خلاف قرار دیا کہ اس کے بعد جھوٹے کی گواہی کبھی قبول نہیں ہوگی۔
چار گواہ میں واحد گواہ صحابی حضرت ابوبکرہ تھے جس نے آئندہ گواہی قبول کرنے کی پیشکش ٹھکرادی ۔ صحیح بخاری میں بھی یہ واقعات ہیں اور ان سارے گواہوں کے نام بھی ہیں۔ کیا پارلیمنٹ میں اس واقعہ اور اسکے وسیع تناظر میں حنفی اور دوسرے مسالک کے درمیان قانون سازی پر بحث ہوسکتی ہے۔ اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کچھ لیپا پوتی کرے تو کرے ۔ مولانا مودودی نے لکھ دیا ہے کہ جس خاتون کو پکڑا گیا تھا وہ حضرت مغیرہ ابن شعبہ کی اپنی بیوی تھی۔
جب یہود نے تورات کے احکام میںتحریف کی تو اللہ نے کہا کہ تورات کی سیدھی سیدھی باتوں پر بھی عمل نہیں کرتے۔ تورات میں جان کے بدلے جان اور اعضاء کان، ہاتھ ، دانت وغیرہ کے بدلے میں کان ہاتھ اور دانت وغیرہ ہیں اور زخموں کا بدلہ ہے۔ لیکن یہود اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ طاقتور لوگ کمزور لوگوں کے اعضاء کاٹ دیتے تھے تو اس کے بدلے میں ان کے اعضاء کو نہیں کاٹا جاتا تھا۔ انصاف کا سیدھا سادہ نظام ظلم میں بدل گیا تھا۔ قرآن میں بھی تورات کے ان احکام کا ذکر ہے اور آج ہم ان پر عمل نہیں کرتے۔ اگر کسی غریب کے کان ، ناک ، دانت ، آنکھ کے بدلے طاقتور ظالم کے کان ، ناک ، دانت اور کان کو ضائع کیا جائے گا تو کبھی بھی کسی کے اوپر کوئی ظلم نہیں کرے گا۔ علماء اور حکمران طبقے نے قرآنی احکام کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔
خاور مانیکا کے ملازم نے عمران خان اور بشریٰ بی بی پر زنا کا الزام عدالت میں لگادیا۔ تمام مکاتبِ فکر کے علماء ومفتیان سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر فیصلہ کریں کہ ” اس جھوٹی گواہی کی وجہ سے اس پر80کوڑے لگتے ہیں یا نہیں؟”۔ اگر لگتے ہیں تو1973کے آئین اور قرآن کے حکم پر عمل کا آغاز بھی کیا جائے۔ اور اگر زنا ثابت ہو تو قرآن کے مطابق پھر عمران خان اور بشریٰ بی بی کو100،100کوڑے لگائے جائیں۔
سورہ نور میں زنا کی سزا مرد اور عورت دونوں کیلئے100،100کوڑے ہیں۔ صحابی نے کہا کہ” سورہ نور کی آیات نازل ہونے کے بعد کسی کو سنگسار کی سزادی گئی یا نہیں ؟ اسکا نہیں معلوم ” ۔( صحیح بخاری) حضرت عمر نے کہا کہ ”اگر مجھے خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اضافہ کیا ہے تو سنگسار کرنے کا حکم قرآن میں لکھ دیتا”۔ (صحیح مسلم) حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ بڑے آدمی کو دودھ پلانے اور سنگسار کرنے کی آیات نبی ۖ کی وفات کے وقت بکری نے کھاکر ضائع کردیں”۔(ابن ماجہ) ۔ قرآن کے واضح احکام کو بہت غلط رنگ دیا گیا ہے ۔پارلیمنٹ کے فیصلے ضروری ہیں۔
قرآن کی سورۂ نور میں لعان کا مسئلہ بھی ہے۔ اگر خاور مانیکا نے قابلِ اعتراض حالت میں دیکھا ہے تو عدالت میں لعان کیا جائے اور اگر بشریٰ بی بی اس کو جھٹلا دیتی ہے تو پھر بشریٰ بی بی کو قرآن کے مطابق کوئی سزا نہیں ہوگی۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ زنا کاروں کا آپس میں نکاح کرایا جائے۔ اگر گواہی آگئی تو پھر سزا کے بعد شادی بحال رہے گی۔ کیونکہ یہ قرآن کے حکم پر عمل ہوگا۔ اس سے وہ تصور بھی ٹھکانے آجائے گا کہ اسلام میں سنگساری کا حکم ہے یا نہیں ؟۔ علامہ مناظر احسن گیلانی نے اپنی ایک کتاب ”تدوین القرآن” میں اس پر اچھا خاصا تذکرہ کیا ہے۔ جو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے بھی شائع کردی ہے۔
طالبان حکومت کے ایک عالم دین نے مردکا مرد سے جنسی تعلق پر سزا کے اندر بڑے اختلاف کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے ثابت ہے کہ قرآن وحدیث میں کسی سزا کا ذکر نہیں۔ حالانکہ قرآن میں دونوں کو اذیت دینے کا حکم ہے اور پھر وہ توبہ کرلیں تو ان کو طعنہ دینے اور پیچھے پڑنے سے روکا گیا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ قتل کا حکم نہیں۔ طالبان جو چاہتے ہیں وہ قرآن میں موجود ہے لیکن مدارس کا نصاب رکاوٹ ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز