قصاص (منکرات)
اپریل 16, 2017
اگر سوٹا لیکر کسی کوبال بچوں سمیت ایک مرتبہ گھر میں گھس کر پیٹ ڈالاجائے ، تو ان کو اندازہ لگ جائے کہ دہشتگردوں نے جنکے گھروں میں قتل وغارت کا بازار گرم کیا، اصل منکر وہی ہے، نماز نہ پڑھنا زنا، رشوت، قتل، شرک سے بڑا جرم نہیں۔وینا ملک، عامرخان اور دہشگردی کے ماحول کو سپورٹ کرنا غلط ہے۔ ہم پر آفت پڑی تو یقین ہوگیا کہ خلافت قائم ہوگی لیکن انکے ساتھ ایسا ہو تو شاید اسلام بھی چھوڑدیں۔یزید نے خود حسینؓ ، آپؓ کے کنبہ کے افراد اور ساتھیوں کو شہید نہ کیا، اس وقت گلوبٹ کا پولیس کی جھرمٹ میں گاڑیوں کے شیشے توڑنے کا منظر بھی نہیں دیکھا جاسکتا تھا۔ یزید ی لشکر کا سپاہ سالار حضرت حرؒ اپنے لشکر کو چھوڑ کر حضرت حسینؓ کیساتھ ملا تھا۔ اگر یزید ان کارندوں کو سزا دیتا تو تاریخ میں اتنی ملامت کا سامنا نہ کرنا پڑتا ، یزید سے فائدہ اٹھانے والے سیاسی رہنماؤں کا حال بھی موجودہ دور کے حکمران رہنماؤں سے مختلف نہیں تھا۔ حالانکہ یزید اور اسکے ساتھی قبروں میں بلبلا رہے ہونگے کہ کہاں ماڈل ٹاؤن لاہور کا میڈیا کے دور میں یہ واقعہ اور کہاں اس دور کے حالات؟۔ دہشت گرد مخالفین کو مارتے تھے تو پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف کہا کرتے تھے کہ ’’پنجاب میں حملہ نہیں کرنا چاہیے ، ہم آپ کیساتھ ہیں‘‘۔ دہشت گردوں کے حامی مذہبی لبادے والی بدترین بیکار مخلوق ابھی ہے۔
فوجی عدالت کی اسلئے ضرورت پیش آئی کہ دہشتگرد کو عام عدالتوں سے سزا نہیں ملتی تھی۔ قرآن کا یہ قانون دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو پاکستان میں ان جرائم کی شرح بالکل زیرو ہوگی۔ اسلئے کہ قتل کے بدلے قتل کی سزا انصاف کا عین تقاضہ ہے۔ قتل کے بدلے میں پچیس سال قید کی سزا، ریاست، جیل، اس شخص، اسکے خاندان اور اسکے دشمنوں سے بھی زیادتی ہے۔ بعض قاتل خود کو قانون کے حوالہ کردیتے ہیں۔ لواحقین و مخالفین دونوں کیلئے اس کا خود کو قانون کے حوالہ کرنا اسلئے اذیت کا باعث بنتاہے کہ لوئر کورٹ، سیشن کورٹ، ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ تک دھکے کھانا ، بھاری بھرکم رقم خرچ کرنا اور پیشیوں پر رسک لینا ایک لامتناہی آزمائش ہے۔ طالبان بنانے میں پیپلزپارٹی رہنما فرحت اللہ بابر کے بھائی نصیر اللہ بابر کے کردار کا سب کو پتہ ہے۔ طالبان پاکستان بھی پرویز مشرف نے عالمی قوتوں سے مل کر بنانے کا انکشاف کیا ۔ اگر طالبان اسلام کی سمجھ رکھتے اور اسلامی قوانین کو نافذ کردیتے تو پاکستان نہیں دنیا میں ان کا خیر مقدم کیا جاتا۔ طالبان نے اسلام کے نفاذ میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور پختون روایات کو بھی تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی دہشتگردوں اور امریکہ کو سپورٹ کرنے کے معاملے پر پھر لڑ رہے ہیں۔ اگر فوجی عدالت کے ذریعے دہشتگردی کا خاتمہ نہیں کیا جاتا تو یورپ کے دباؤ میں سزائے موت کا قانون بھی ختم ہوتا اور بڑے دہشتگردوں سے ڈیل کرتے یا سکیورٹی کا خرچہ کرکے خود کو بچانے کی کوشش کرتے اور عوام کو دہشتگردوں کے رحم وکرم پر چھوڑدیا جاتا۔
مشکوٰۃ شریف میں ایک خاتون کا دونوں ہاتھوں اور پیروں سے ناچنے کا ذکرہے ، اکابر صحابہؓ نے بھی مظاہرہ دیکھا ، رسول اللہﷺ بھی دیکھنے کھڑے ہوگئے۔ طرزِنبوت کی خلافت میں جبر کا ماحول نہیں ہوگا۔ کوئی انسان بھی اپنی بیوی سے زیادہ کسی بات پر غیرت نہیں کھا سکتا مگر اسلام نے 14 سو سال پہلے یہ قانون نازل کیا کہ قابلِ اعتراض حالت میں دیکھ کر قتل نہیں کرسکتے۔ لعان کی آیات میں میاں بیوی کا ایکدوسرے کا جھوٹا کہنے کے کلمات کا طریقہ ہے۔ حضرت عویمرعجلانیؓ نے بیوی کیخلاف گواہی دی اور بیوی نے اپنے خاندان کی ناک بچانے کیلئے اسکو جھٹلایا۔ اسلام کسی کی غیرت کو بھی خراب نہیں کرتا، جو قتل کرے تو اسکو بدلے میں قتل سے بھی نہیں کترانا چاہیے۔ غیرت کے نام پر کسی کو قتل کرکے اپنی زندگی کی بھیک مانگنے سے بڑی بے غیرتی کوئی نہیں ۔ اللہ نے فرمایا کہ قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے۔ کسی کو ناک کاٹنے پر ناک کاٹنے کی سزا دی جائے تو زندگی بھر نشے میں بھی اس ماحول کا کوئی فرد یہ جرم نہیں کرسکے گا۔ انصاف کیلئے بے چینی ختم ہو تو دہشتگردی ختم ہوجائیگی۔
لوگوں کی راۓ