پوسٹ تلاش کریں

مولانا سید شبیہ الرضا زیدی اور علامہ حسن الہ یاری کی بحث پر تبصرہ

مولانا سید شبیہ الرضا زیدی اور علامہ حسن الہ یاری کی بحث پر تبصرہ اخبار: نوشتہ دیوار

مولانا سید شبیہ الرضا زیدی اور علامہ حسن الہ یاری کی بحث پر تبصرہ

علامہ حسن الہ یاری نے کہا ہے کہ موجودہ شیعہ مقلدین اور مجتہدین دونوں اہل بیت کی تعلیمات سے برگشتہ ہیں۔ اگر مہدیٔ غائب آئے تو شیعہ خود اس کو نہیں چھوڑیں گے۔جس کے جواب میں مولانا شبیہ الرضا زیدی نے کہا کہ حسن الہ یاری امریکہ میں بیٹھ کر شیعوں کو آپس میں لڑانا چاہتا ہے۔ قرآن میں اللہ اور اس کے رسولۖ دونوں کی اطاعت کا حکم ہے۔ اولی الامر کے ساتھ اختلاف کی گنجائش ہے۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا فلولا نفر من کل فرقة منھم طآئفة لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم ”پس اگر ہر فرقے میں سے ایک جماعت دین کی سمجھ حاصل کرے اور اپنی قوموں کو ڈرائے جب ان کی طرف وہ لوٹیں”۔ ان آیات سے فقہاء کی تقلید کا ثبوت ملتا ہے۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا تھا کہ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن اور دوسرے میرے اہلبیت۔ امام کی غیبت کے بعد ہم کس سے مسائل پوچھیں گے؟۔ حضرت علی، حسن مجتبیٰ ، حسین سے گیارہویں امام علیہ السلام تک یہ سلسلہ پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ فقہاء کی تقلید کریں جو مخالف ہوں اپنی نفسانی خواہشات کے اور دین کے محافظ ہوںاور وہ مولیٰ کے مکمل اطاعت کرنے والے ہوں۔ مولیٰ اللہ کو بھی کہتے ہیں، مولیٰ رسول کو بھی کہتے ہیں، مولیٰ علی کو بھی کہتے ہیں۔ اس ایک لفظ کے ذریعے سے اللہ ، الرسول اور اہل بیت کا مطیع و فرمانبردار ہو۔ امام نے بھی فرمایا کہ فقیہ کے پاس جانا ہے جاہل کے پاس نہیں جانا ہے۔ کتاب کے پاس نہیں جانا ہے بلکہ آپ کو فقیہ کے پاس جانا ہے۔
علامہ صاحبان کی گفتگو کا مختصر خلاصہ یہاں پیش کردیا۔ جس سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ اہل بیت کا معاملہ غیبت میں ہے اور کتاب کی طرف نہیں جانا بلکہ فقہاء کی تقلید کرنی ہے۔ اہل بیت غیبت میں ہوں اور کتاب کی طرف جانا نہیں ہو تو اس کا انجام کیا ہوگا؟۔ اہل تشیع میں اجتہاد و تقلید کا سنجیدہ اختلاف اسلئے ہے کہ گیارہ اماموں تک تقلیدکا کوئی تصور نہیں تھا۔ امام کو تقلید کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ امام کی غیبت کے بعد اجتہاد و تقلید پر اہل تشیع دو حصوں میں تقسیم ہوگئے۔
زیدی شیعہ اور اسماعیلی (آغاخانی و بوہری) اثناء عشریہ یا امامیہ سے زیادہ اہل سنت کو اپنے قریب سمجھتے تھے۔ اہل سنت یہ تشہیر کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں قرآن اور سنت۔ اہل تشیع قرآن اور اہل بیت کی حدیث بیان کرتے ہیں۔ قرآن کو دونوں طبقات نے چھوڑ دیا ہے اور رسول اللہ ۖ قیامت کے دن اپنی قوم کے خلاف اللہ تعالیٰ سے قرآن چھوڑنے کی ہی شکایت فرمائیں گے۔ کیونکہ اہل سنت کے پاس سنت نہیں ہوگی اور اہل تشیع کے پاس اہل بیت نہیں ہوں گے۔ دونوں نے کتاب کو چھوڑ رکھا ہے۔ اہل سنت فقہاء کے سات طبقات میں الجھے ہوئے ہیں۔
سن2008کے الیکشن میں محمود خان اچکزئی، قاضی حسین احمد، عمران خان، ڈاکٹر طاہر القادری اور نواز شریف نے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا مگر پھر نواز شریف نے وعدہ خلافی کرکے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ اگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے علاوہ باقی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو سن2024کے الیکشن کیلئے آمادہ کرلیا جائے تو سیاسی،لسانی اور فرقہ وارانہ منافرت میں ایک زبردست کمی آسکتی ہے۔
شیعہ شیعہ سے ، دیوبندی دیوبندی سے، بریلوی بریلوی سے، اہل حدیث اہلحدیث سے نفرتوں کے بازار میں برسرپیکار ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی حالت ان سے بھی زیادہ خراب ہے۔ اگر بیت المقدس کیلئے ایک نمائندہ وفد کے ساتھ لشکر تشکیل دیا جائے تو اس آگ کو بجھانے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی جو اسرائیل نے عسقلان پر حملے کے بعد غزہ کی پٹی میں لگائی ہوئی ہے۔ بڑے پیمانے پر جن مظالم کا سامنا غزہ کے لوگ کررہے ہیں یہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔ اس طرح ایک بڑا وفد افغانستان اور ایران کیلئے بھی تیار کرکے بھیجا جائے جس سے مسائل کے حل میں آسانی ہو۔ بلکہ ہندوستان اور چین کے علاوہ عرب ممالک کو بھی افہام و تفہیم کے مسائل میں شریک کیا جائے۔ اسلام جس انسانیت کا درس دیتا ہے وہ صرف اپنے فرقوں اور مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار یہود و نصاریٰ اورہندوؤں کے علاوہ دنیا کے تمام مذاہب اور انسانوں تک پھیلا ہوا ہے۔
بلوچستان سے سینئر ترین سیاستدان محمود خان اچکزئی، لشکر ی رئیسانی اور سندھ سے رسول بخش پلیجو ، ڈاکٹر فاروق ستار، پنجاب سے نجم سیٹھی کی بیگم محسن جگنو ، مصطفی نواز کھوکھر اور پختونخواہ سے سراج الحق ،مولانا فضل الرحمن اس طرح مختلف صوبوں اور مذہبی جماعتوں سے معروف لوگوں کو وفد میں شامل کیا جائے اور دیوبندی، بریلوی ، شیعہ، اہل حدیث کے نمائندوں کو مختصر مگر انقلابی منشور پر اکھٹا کیا جائے۔ انقلابی سے مراد یہ نہیں کہ صرف دوسروں کے نیچے زمین کو گرم کیا جائے بلکہ اس میں قرآن کی طرف رجوع اور اپنی اصلاح کا زبردست اہتمام ہو اور سب کے جذبات ، عقائد اور ذہنیت کا خیال رکھتے ہوئے مثبت انداز فکر سے ایسی تبدیلی لائی جائے جس میں معاشرے کی تمام تلخیاں ختم ہوجائیں۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ایسی مٹھاس رکھی ہے جس سے جاہل سے جاہل تر انسان کو بھی ہدایت مل سکتی ہے۔ سورہ نور کی چند آیات پر عالم انسانیت کو اکھٹا کرنا ممکن ہے۔ قرآن وہ نور ہے جس پر مشرق و مغرب کی ہواؤں اور سایوں کا کوئی اثر نہیں ہے۔ جس میں رتی بھر تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ جس میں اللہ کی طرف سے گارنٹی ہے کہ و انزل الکتاب تبیانًا لکل شیء ”اور ہم نے کتاب کو نازل کیا ہے ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے”۔ صرف قرآن کی طرف مسلمانوں کی توجہ ہی کی دیر ہے۔ عرب و عجم اور شیعہ و سنی سب نے قرآن کو چھوڑ رکھا ہے۔ عتیق گیلانی

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز