پوسٹ تلاش کریں

معاشرے میں گرد آلودہ مذہبی فضائیں!

معاشرے میں گرد آلودہ مذہبی فضائیں! اخبار: نوشتہ دیوار

معاشرے میں گرد آلودہ مذہبی فضائیں!

ہمارا معاشرتی، ریاستی ، حکومتی، سیاسی ، عدالتی ، انتظامی اور معروضی نظام زندگی ایسا ہے کہ اسلام کی بات مشکل سے سمجھ میں آسکتی ہے لیکن مغرب اور یورپ کو اسلام کی بات زیادہ اچھی طرح سے سمجھ میں آسکتی ہے۔ چونکہ مغرب اور یورپ ہمارے وحشیانہ نظام کی وجہ سے اسلام سے متنفر ہیں اسلئے مسلمانوں کو ہی اسلامی نظام کے حقائق پہلے سمجھانے پڑیںگے۔ جس دن مسلمانوںکی سمجھ میں اسلام آیا تو اس پر عمل کرنا بھی بالکل مشکل نہیں ہوگا۔ اسلام کو قرآن وسنت سے نکال کر فقہ و روایات کی کتابوں میں تقسیم در تقسیم فرقہ واریت کا شکار بنایا گیاہے۔ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی اور جعفری کے علاوہ بھی کئی مسالک اور فرقے ہیں۔ مسلک حنفی کا میدان روایات نہیں قرآن کریم اور سنت نبوی ۖ تھا۔ قرآن میںہے کہ ” گدھے، گھوڑے اور خچر سواری اور زینت کیلئے ہیں”۔ نبی کریم ۖ کے ماحول میں گدھے اور گھوڑے کھانے کیلئے نہیں بلکہ سواری کیلئے ہوتے تھے۔ نمازمیں رفع یدین بھی روایات نہیں ماحول امام ابوحنیفہ کے مسلک کی دلیل تھا۔ برصغیر پاک وہند میں قرآن وسنت کا ماحول ہے۔گھوڑے ، گدھے کو کھایا نہیں جاتا ۔ سواری ، مال برداری اور زینت کیلئے رکھا جاتا ہے۔ انکے گوشت کو کھانے کیلئے حرام وحلال کی بحث کرنا قرآن وسنت کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ جب نبیۖ کے پاس گوہ نما جانور کا گوشت پیش کیا گیا تو نبیۖ نے فرمایا کہ” ہم یہ نہیں کھاتے مگر حلال یا حرام نہیں قرار دیتے”۔ فرقہ واریت اور مسلکانہ چپقلش نے نکاح،طلاق ، رجوع اور خلع میں انواع واقسام کے خود ساختہ حلال وحرام کے مسائل سے انبار لگادئیے ہیں کہ آسمان کے فرشتے بھی الحفیظ والامان کی صدا لگاتے ہیں۔
نکاح شرعی عقد ہے جسکے بعد معاہدے کو بچانے کیلئے اللہ نے فرائض و حقوق ٹھہرائے ہیں۔ طلاق کے بعدعدت میں باہمی صلح ومعروف رجوع،عدت کی تکمیل پر باہمی صلح ومعروف رجوع اور عدت مکمل ہونے کے عرصہ بعد اللہ نے رجوع کاحق واضح آیات میں بیان کیا ہے۔ جو تعلیم یافتہ ، جاہل سب کو یکساں سمجھ میں آسکتی ہیں۔ مرد کو اللہ نے طلاق اور عورت کو خلع کا حق دیاہے۔ پڑھے لکھے ڈنگروں، دانشور خچروں اور مولوی گدھوں کویہ پتہ نہیں کہ اللہ نے کونسی آیت میں عورت کو خلع کا حق دیا ہے؟۔ مذہبی طبقہ یہ بات سمجھنے کی کوشش نہیںکرتا کہ سورۂ النساء آیت19میں خلع کا حق ہے اورسورۂ النساء آیت20اور21میں طلاق کا حق ہے۔ خلع و طلاق میں عورت کو مالی تحفظ ہے ۔آیت229البقرہ میں خلع مراد نہیں ہوسکتا ہے۔ دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری طلاق فامساک بمعروف اوتسریح باحسان ( معروف طریقے سے رکھ لو یا احسان کیساتھ چھوڑدو) احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہی تیسری مرتبہ طلاق ہے۔عربی قاعدہ اور حنفی مسلک میں ”ف” کے حرف کی وجہ سے دومرتبہ طلاق کا تعلق اس متصل طلاق سے ہے۔ نبیۖ سے صحابہ نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ تسریح باحسان آیت229تیسری طلاق ہے۔
آیت229البقرہ میں تین مرتبہ طلاق کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کیا ہے کہ ” ان طلاق شدہ عورتوں کو جو کچھ بھی دیاہے ،ان سے کچھ بھی واپس مت لو مگر یہ کہ دونوں کوخوف ہو کہ اس چیز کو واپس کئے بغیر دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیںگے۔ پھر (اے فیصلہ کرنے والو!) اگر تمہیں خوف ہو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیںگے تو عورت کی طرف سے وہ چیز فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ اللہ کی حدود ہیں ان سے تجاوزمت کرو۔ جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہ لوگ ظالم ہیں”۔(آیت229البقرہ )
قرآن وحدیث میں تین مرتبہ طلاق اور اس تیسری مرتبہ کے بعدحلالے کا کوئی تصور نہیں ۔ سورہ ٔالطلاق میں بھی تین مرتبہ مرحلہ وار طلاقوں کے بعد دوسری آیت میں پھر عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے رجوع کی اجازت ہے۔ قرآن میں بار بار صلح واصلاح ، معروف اور باہمی رضامندی کی بنیاد پر طلاق کے بعد رجوع کی اجازت ہے ۔حضرت عمراور حضرت علی میں طلاق اور حلالہ کے مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں تھا۔ جب عورت رجوع کیلئے راضی ہوتی تھی تو رجوع کرنا حلال ہوتا تھا اور جب عورت رجوع کیلئے راضی نہیں ہوتی تھی تو رجوع کرنا حلال نہیں ہوتا تھا۔ جس دن حلالہ کی بے غیرتی اور عورت کے حقوق سلب کرنے کا معاملہ ٹھیک ہوگیا توپشتونوں، پاکستانیوں ،افغانیوں اور دنیا بھر میں اسلامی انقلاب کے آغاز میں بالکل دیر نہیں لگے گی۔
جاویداحمد غامدی اور مولانا مودودی نے بھی اس آیت سے خلع مراد لیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں طلاق کے بعد عورت کو مالی تحفظ دیا ہے کہ اسے شوہر نے جو کچھ بھی دیا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس لینا تمہارے لئے حلال نہیں۔البتہ دوشرائط کیساتھ بالکل محدود چیز واپس لینا حلال قرار دیا۔ پہلی شرط یہ ہے کہ دونوں کو یہ خوف ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں۔ یعنی طلاق کے بعد وہ رابطے کا ذریعہ بنے اور دونوں کے ناجائز جنسی تعلقات کا خطرہ ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والے بھی یہ خطرہ محسوس کرتے ہوں کہ ان دونوں کا اس کی وجہ سے رابطہ ہوگا اور وہ ناجائزجنسی تعلق میں پڑیں گے۔ایسی صورت میں شوہر کی طرف سے وہ دی ہوئی چیز فیصلہ کن طلاق کے بعد بھی واپس کرنا حلال ہوگا۔

نوٹ: اس آرٹیکل کو مکمل پڑھنے کیلئے متصل عنوانات والے آرٹیکل
” مرد وں کاعورتوں پر درجے کا مطلب؟” اور
”عورت کے حقوق کا بہترین قرآنی چارٹر” ضرور پڑھیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز