پوسٹ تلاش کریں

مفتی شفیع سے مفتی تقی تک کا گھٹیا کردار اور قرآن وحدیث، اجماع وقیاس اجنبیت کا شکار؟

مفتی شفیع سے مفتی تقی تک کا گھٹیا کردار اور قرآن وحدیث، اجماع وقیاس اجنبیت کا شکار؟ اخبار: نوشتہ دیوار

مفتی شفیع سے مفتی تقی تک کا گھٹیا کردار اور قرآن وحدیث، اجماع وقیاس اجنبیت کا شکار؟

متحدہ ہندوستان کے حامی مولانا ابوالکلام آزاد اور تحریک پاکستان کے حامی علامہ سید سلیمان ندوی نے قرآن وسنت کے مضبوط دلائل سے ثابت کیا تھا کہ جاندار کی موجودہ تصویر مذہبی نہیں دنیاوی ہے اور یہ سابقہ اور موجودہ شریعت میں جائز ہے۔ قرآن میں حضرت سلیمان علیہ السلام کیلئے تصاویر اور مجسمے بنانے کا ذکرہے ۔سابقہ شریعتوں میں بھی پوجا پاٹ کی تصاویر اور مجسموں کی ممانعت تھی ۔ یہی صورتحال امت محمدیہ میں بھی ہے۔ جن تصاویر کو کپڑوں پر نقش کیا جاتا تھا تو ان کی حیثیت پوجا پاٹ کی نہیں دنیاوی ہوتی تھی اسلئے ان کی ممانعت بھی نہیں تھی۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے ” معارف اعظم گڑھ” کے نام سے ایک موٹی کتابی شکل میں اتنے تفصیلی دلائل دئیے تھے کہ ان کے دیکھنے کے بعد کوئی شخص بھی دنیاوی تصاویر کے عدم جواز کا تصوربھی نہیں کرسکتا تھا۔
مفتی شفیع سے مفتی تقی کا سلسلہ مافیا ہے جس کے پیچھے شیطانی طاقت ہے۔ ڈاکٹر حبیب اللہ مختار نے شیخ عبداللہ ناصح علوان کی کتاب ” مسلمان نوجوان” کا اردو ترجمہ کیا تھا ۔ عربی اور اردو میں یہ کتاب ناپید ہے۔ حالانکہ ”تربیت اولاد” ان کی کتابیں دستیاب ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ”مسلمان نوجوان”میں سودی نظام کے خاتمے اور خلافت کے قیام کی باتیں تھیں۔ علامہ سید محمد یوسف بنوری کے داماد مولانا طاسین ملکی سطح پر مفتی محمد شفیع سے زیادہ شہرت اور قابلیت رکھتے تھے لیکن ان کا نام اور معاشی نظرئیے کی کتابیں مارکیٹ میں نہیں۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کی مقبول کتاب ” عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں” غائب ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی کی ”معارف اعظم گڑھ” مارکیٹ کی زینت بنتی تو مفتی شفیع کی جہالت دنیا پر آشکارا ہوجاتی لیکن غائب کردی گئی ہے۔
جب علماء حق انگریز کے خلاف آزادی کی جنگ لڑرہے تھے اور مسلمانوں کو جہالت سے نکال کر علم کی شاہراہ پر ڈالنا علماء حق کی بہت بڑی خدمت تھی۔ تب مولانا ابوالکلام آزاد اور علامہ سید سلیمان ندوی نے مولانا جمال لدین افغانی کی طرح کیمرے کی تصویر کو جائز قرار دیا اور امت کو شعور کی دہلیز پر لانے کی ہمت کی لیکن مفتی شفیع نے جہالت کا توپ خانہ کھول کر دونوں بزرگوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ زبردست دلائل کے باوجود جاہل سے الجھنے کے بجائے انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ پھر اللہ نے مفتی شفیع کو پاکستان بننے کے بعد موقع دیا کہ جس تصویر کو خدا کی خدائی میں شرکت کا خطرناک مسئلہ قرار دیا تھا تو اسلامی ریاست بننے کے بعد اس پر عمل کراتا۔ شیطان مشرکینِ مکہ کو ورغلاء کر لڑنے کیلئے لایا اور پھر گدھا کوز مارتا ہوا بھاگا اور کہا کہ جو میں دیکھتا ہوں وہ تم نہیں دیکھتے۔ مفتی شفیع نے تصویر کی مخالفت کی۔جب پاکستان بننے کے بعد تصویر کو مٹانے کا وقت آیا تو کتاب میں ترمیم کر ڈالی کہ ریاستی اور تجارتی امور کیلئے تصویر جائز ہے۔
مفتی شفیع کو پتہ تھا کہ میں نے کیا کیا گند مچایا ہوا ہے۔ چنانچہ اس نے لکھ دیا کہ میں علامہ سیدسلیمان ندوی کے علمی مقام سے واقف نہیں تھا اور خود بھی عالم و طالب علمی کے درمیانے مرحلے میں تھا۔ اب میں کچھ ترمیمات کرتا ہوں۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ قارونی کتب فروشوں کے مالکان جہاںمولانا اشرف علی تھانوی کی ہڈیوں کا گودا نچوڑ نچوڑ کر مختلف ناموں اور نئے نئے اندازوں سے نئی نئی کتابیں چھاپتے رہتے ہیں تو ایک معارف اعظم گڑھ بھی چھاپ دیتے۔ لیکن ان کو پتہ ہے کہ اس سے ان کے آباء واجداد کی جہالتوں کا پتہ صاف ہوجائیگا۔
صحیح بخاری میں ہے کہ جس صحابی نے تصویر کے خلاف حدیث بیان کی تھی وہ بیمار ہوگئے اور دوسرے صحابہ وہاں عیادت کرنے گئے تو دیوار پر آویزاں گھر میں تصویر دیکھ لی۔ ایک صحابی نے کہا کہ یہ حدیث کی مخالفت ہے ۔دوسرے نے کہا کہ نہیں! اس نے الا رقمًا فی الثوب کپڑے میں نقش کوجائز قرار دیا تھا۔ مفتی شفیع نے اپنی کتاب میں حدیث کی تشریح میں بیوقوفی کی انتہاء کردی تھی۔ بخاری میں نقش تصویر کا جواز ہے۔ ائمہ اہل بیت نے بھی ان تصاویر کو جائز کہا تھا جن میں اُبھارنہ ہو اسلئے کہ ان کا استعمال مذہبی پوچا کیلئے تھا۔ مفتی شفیع نے اس کو درختوں کی تقش قرار دیا۔ ”جوہری دھماکہ” میں پیارے بچو! بلیک بورڈ پر لکھ کر اسکی نالائق ذریت کو سمجھایا تھا۔ تب وہ سمجھے۔ مفتی محمد شفیع نے مزدورکامکانات کی تعمیر کو خدا کی تخلیق میں مداخلت قرار دیا تھا تومیں نے لکھ دیا تھا کہ فارمی مرغیاں تخلیق میں زیادہ مداخلت ہیں یا بچوں کو ڈرائنگ کی کاپی پر تصویر زیادہ مداخلت ہے؟۔ اصل مداخلت کو پیٹ کے پجاری بالکل بھی حرام نہیں کہتے ہیں؟۔
درباری علماء نے ہمیشہ اہل حق کا مقابلہ کیا، مولانا احمد علی لاہوری اور مولانا غلام غوث ہزاروی نے جمعیت علماء اسلام کی بنیاد پر نظام کی تبدیلی کا آغاز کیا مگر مفتی شفیع اور مفتی تقی جیسے درباریوں نے ان پر کفر کا فتویٰ لگادیا۔مفتی محمود و مولانا درخواستی نے مفتی تقی ورفیع عثمانی کو سودی زکوٰة سے روکا تھا۔ حاجی عثمان کے حلقہ ارادت میں علماء ومفتیان ، تبلیغی جماعت ، اہلحدیث، شیعہ اور بریلوی، فوجی افسران ، سول بیوروکریسی، مجاہدین اور عرب وعجم اسلام کی نشاة ثانیہ کیلئے جوق در جوق داخل ہورہے تھے مگر مفتی تقی عثمانی حسد وبغض سے جل بھن گئے۔ان کو یہ پتہ نہیں تھا کہ حاجی محمد عثمان کے جانشین عتیق گیلانی سے اللہ تعالیٰ نے علماء سوء کے پیٹ سے حیلے، حلالے اور سود کی لعنت کے کیڑے گرانے کا کام لیناہے۔
دارالعلوم کراچی نے پہلا فتویٰ بڑا احمقانہ دیا اسلئے انہوں نے اپنی پشت میں چھپالیا۔ ریکارڈ چھاپنے کی ضرورت تھی۔ جرنیلوں نے قادیانی سسروں کی قادیانی بیٹیوں سے شادیاں کیں ،انکے نکاح کو ناجائز نہیں قرار دیا اور نہ ان پر حرامکاری اور اولادالزنا کا فتوی لگایا لیکن حاجی عثمان کے حلقہ ارادت پر فتویٰ لگادیا؟۔ ہمارے کچھ بے غیرت پیر بھائی پھر بھی ان کو معتبر قرار دیکر اپنا نکاح حرامکاری اوراپنے بچوں کو اولاد الزنا قرار دیتے ہیں؟۔ مفتی عبدالرحیم مفتی رشیداحمد لدھیانوی کے فسٹ کزن جنرل قمرجاوید باجوہ کی اولاد پر کیا فتویٰ دیتا ہے جس کا سسر قادیانی ہے؟۔دُم کے نیچے سے دھواں نکلتا نظر آئیگا!۔انشاء اللہ

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 5)
عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 4)
عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 3)