ہاروت ماروت اور یاجوج ماجوج کاعجیب ذکر خیر
اگست 10, 2017
ہاروت ماروت اور یاجوج ماجوج کاعجیب ذکر خیر
یہ ضمیر کے سوداگرجادوگر کب ہونگے دنیا میں اجاگر
ہاروت ماروت فرشتے تھے جو لوگوں کو جھاڑ پھونک سکھاتے تھے، میاں اور بیوی میں جسکے ذریعے تفریق ہوجاتی اور وہ بتاتے تھے کہ ہم فتنہ ہیں اور اس کی تاثیر سے کسی کو نقصان نہیں پہنچتا مگر اللہ کے حکم سے۔ جن علماء نے قرآن وسنت کا تقاضہ سمجھ کر طلاق کے غلط تصورسے میاں بیوی میں جدائی کرائی، وہ محترم ہیں لیکن اگر قرآن وسنت میں ایسا نہ ہو اور حقائق واضح ہونے کے بعد بھی ناجائز تفریق اور حلالہ کا فتویٰ جاری رکھیں تو ایسی ہٹ دھرمی پر حکومت، اپوزیشن اور میڈیا اپنا کردار ادا کریں۔ جنگ گروپ کے مفتی حسام اللہ شریفی صاحب کی طرف سے طلاق اور حلالہ کے مسئلے پر وضاحتیں آچکی ہیں،اسلئے GEOپر یہ اہم مسئلہ ضرور اٹھایا جائے، تاکہ اخبارِ جہاں اور روزنامہ جنگ میں غلطیوں کا ازالہ ہوجائے۔ARY، آج، دنیا، بول، پاک، نیوز1،24، 92 ،DAWNودیگر چینلوں پر اس اہم ا یشو کو اٹھانے کی ضرورت ہے۔ علماء کرام نے پہلے تائید کرکے ثابت کیا کہ وہ بہت زیادہ قابل احترام ہیں۔
ہمیں کوئی شوق نہیں کہ بڑے علماء ومفتیان کی تذلیل کریں مگر جن خواتین کو ناجائز حلالے کے فتوے دئیے جاتے ہیں وہ ہماری مسلمان مائیں، بہنیں، بیٹیاں ہیں۔ ہماری غیرت گوارا نہیں کرتی کہ خاموش رہیں۔علماء کرام کو خاموشی کا روزہ توڑنے کی ضرورت ہے ورنہ ہم سپریم کورٹ کی عدالت میں فریق بناکر طلب کریں گے۔ دارالعلوم کراچی کے فتویٰ میں البقرہ:230 کا حوالہ ہے مگر متصل آیت:229 میں دو مرتبہ طلاق اور تیسری مرتبہ چھوڑنے کا بھی ذکرہے اورباہوش وحواس دونوں اور فیصلہ کرانے والوں کی طرف سے جدائی کی وضاحت ہے، عورت کی طرف فدیہ حلال نہ ہونے کے باوجوداس صورت میں جائز ہے کہ دونوں کو آئندہ رابطہ کرنے پر اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو۔ اس طلاق کا تعلق اس سے متصل صورتحال سے ہے ۔ علماء اللہ کے حدود کو توڑکر فتویٰ دیتے ہیں۔ آیات228اور231،232میں بھی عدت کے اندر اور عدت کے بعد باہمی رضا سے رجوع کی وضاحت ہے اور حدیث میں عدت کے اندر حلالہ کے انتظار کا فتوی نہیں۔
ایک طرف دارالعلوم کراچی کی شائع کردہ کتابوں میں شادی بیاہ میں لفافے دینے کی رسم کو سود اور اسکے 70سے زیادہ وبال اور گناہوں میں کم ازکم گناہ ماں کیساتھ زنا کے برابر قرار دیاگیاہے،جسکے خلاف انکے اپنے عقیدت مند بھی عمل پیرا ہیں۔ معروف تاجر محمود رنگون والا کے ہاں بھی یہ رسم جاری ہے، جہاں اشرف میمن کی مفتی رفیع عثمانی سے ملاقات ہوئی۔
دوسری طرف سارے مدارس والے موجودہ نام نہاد اسلامی بینکاری کو سود قرار دیتے ہیں لیکن یہ لوگ معاوضہ لیکر جواز کے فتوے جاری کئے ہوئے ہیں۔ ضمیر کے سوداگرجادوگر کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے یایہ سب کچھ اللہ پر ہی چھوڑدیں؟۔
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی و مفتی اعظم مفتی رفیع عثمانی علم وسند کے اعتبار سے ماشاء اللہ دونوں کی شہرت خوب ہے۔ ہاروت و ماروت فرشتے ، جھاڑ پھونک سے ’’ میاں بیوی کے درمیان تفریق کرتے تھے، اللہ کی طرف سے وہ فتنہ تھے‘‘۔حلالہ کی ضرورت نہ ہوتو اسکی نشاندہی ضروری ہے۔ یاجوج و ماجوج کا کام یہ بتایاگیاہے کہ ہر بلندی سے پستی کی طرف آئیں گے سب چیزیں چٹ کر جائیں گے۔ اللہ نے کسی عالم کے بارے میں فرمایا ’’ اسکے پاس علم تھا ، اگر ہم چاہتے تو اس کو علم کے ذریعے بلندی وعروج کی منزل پر پہنچاتے مگر اس نے زمین کی پستی کو پسند کیا ۔ اس کی مثال کتے کی ہے ، اگرآپ اس پر بوجھ لاد دیں، تب بھی ہانپے اور چھوڑ دیں، تب بھی ہانپے ‘‘۔
اگر عالم دین اپنے علم کا درست استعمال کرے تو اللہ ترقی وعروج عطا فرماتا ہے اور جو بھی اپنے علم کا غلط فائدہ اُٹھاکر زمین کی زندگی کو دائمی سمجھ لیتاہے تو اس کی مثال پھر کتے کی طرح بن جاتی ہے۔ مذہب کوکاروباربنادیا جائے توچندہ، زکوٰۃ، صدقہ، خیرات، فتویٰ فروشی اور حلالہ کی لعنت کے ذریعے انسان ہر بلندی سے پستی کا سفر کرتاہے ،جو ہرچیز چٹ کرجاتاہے۔ یاجوج اور ماجوج کا کردار ان علماء کابھی ہوسکتاہے جن کا سفر بلندی سے پستی اور ہر چیز چٹ کرجانے کا ہو۔سنریہم آےٰتنا فی الآفاق و فی انفسہم عن قریب ہم اپنی نشانیاں آفاق اور انکے نفسوں میں دکھائیں گے۔ اللہ کی آیات آفاق اور انفس کی موجودہ دنیا میں ہم بھی پاسکتے ہیں۔
مولانا یوسف بنوریؒ نے فتویٰ فروشی اور مذہب کو کاروبار بناکر کسی مفاد کو ترجیح نہ دی ۔ مولاناسیدعطاء اللہ شاہ بخاریؒ ، مولانا الیاسؒ ، مولاناتھانویؒ ، مدنیؒ ، سندھیؒ ، کشمیریؒ ، شیخ الہندؒ گنگوہیؒ ، نانوتویؒ اورانکے مرشد حاجی امداد اللہ مہاجرمکیؒ سے اختلاف ہوسکتاتھا، انکا آپس میں بھی تھا مگرانکے خلوص وایمان پرخود غرضی و دنیا طلبی کی تہمت نہیں لگائی جاسکتی ۔ مذہب فروشوں کو ا نکے بلند مقام کی جانشینی کا دعویٰ نہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ کہاں وہ اللہ والے ؟، کہاں یہ مفاد پرست؟۔ مؤمن کاتعارف یہ ہے: ان اللہ اشتریٰ من المؤمنین انفسہم واموالہم بان لہم الجنۃ ’’بیشک اللہ نے مؤمنوں سے جنت کے بدلے ان کی جانیں اور اموال خرید لئے‘‘ وہ مذہبی طبقے جو اپنی جان و مال کے بدلے اللہ سے جنت کا سودا کئے بیٹھے ہوں، انکا ادراک کرنامشکل کام نہیں۔ صحابہؓ ، علماء ومشائخ ؒ اور مجاہدینؒ کی قربانیوں سے تاریخ بھری پڑی ہے دوسرا وہ مذہبی طبقہ ہے جس کا یاجوج ماجوج کی طرح عروج سے پستی کاسفر تھا: ولاتشتروا بآےٰتی ثمناً قلیلاً وایای فاتقون۔’’ اور میری آیتوں کو تھوڑی سی قیمت کے بدلے مت بیچواور مجھ سے ڈرو‘‘۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کی تجدید واحیائے دین میں مدارس، خانقاہوں اور تبلیغی جماعت کے کردار کو دنیا نظر انداز نہیں کرسکتی لیکن کیا یہ سب کچھ اسلئے تھا کہ بڑی داڑھیاں رکھ کر، مذہبی لبادے اور عالیشان مذہبی عمارتیں بناکر دین کی حفاظت ، عوام کی عزتوں کی حفاظت اور اپنی آخرت کی حفاظت کے بجائے اپنے پیٹ کی آگ بجھائیں؟۔ اور جہنم کی طرح ہل من مزید ’’کیامزید بھی ہیں‘‘کی آواز لگائیں؟۔چندہ کی بے تحاشا مہم سے یاجوج ماجوج کا منظر دکھائی دے، غریب و مستحق عوام تک خیرات، صدقہ ، فطرہ اور زکوٰۃ کی رقم نہ پہنچے؟ ۔ یہ بلندی نہیں پستی کا سفر ہے، اُوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اپنے لئے مانگنا بھی برا ہے تو دین کے نام پر دنیاوی مقاصد حاصل کرنا زیادہ بدتر ہے بنوری ٹاؤن کے افتتاحی تقریب میں کہا جاتا ’’ دنیا کو دنیا کی راہ سے حاصل کرنا برا نہیں۔ دین کو دنیا کا ذریعہ بنانا بہت برا ہے۔ طلبِ دنیا ہو تو مدرسہ چھوڑ دو۔‘‘
حاجی عثمانؒ کے مرید وں کا آپس میں بھی نکاح پر فتوی پوچھاگیاتو جامعہ بنوری ٹاؤن نے فتویٰ دیاکہ ’’منسوب باتیں غلط ہیں تو فتویٰ نہیں لگتا، نکاح تو بہر حال جائز ہے‘‘۔ مفتی عبدالسلام چاٹگامی اور مفتی ولی حسن ٹونکیؒ کے تائیدی دستخط تھے۔ دارالعلوم کراچی سے سوال تھا کہ نکاح منعقد ہوجائیگا یا نہیں؟۔ مفتی تقی عثمانی ورفیع عثمانی نے لکھا ’’ نکاح منعقد ہوجائیگا،مگربہتر ہوگا کہ انکے بارے میںآگاہ کردیں‘‘۔ مفتی رشیداحمد لدھیانوی کے ہاں سے سوال جواب ایک ہی قلم سے لکھا گیا کہ’’ اس نکاح کا انجام کیا ہوگا؟ عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا‘‘۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکیؒ نے سابقہ فتوے کیخلاف دستخط کردئیے جو ایک مجذوب و معذور شخصیت تھی اور مفتی تقی عثمانی و رفیع عثمانی نے لکھ دیا کہ’’ نکاح جائز نہیں ،گو منعقد ہوجائے‘‘۔ میں نے دارالعلوم کراچی میں نماز مغرب اور جامعہ بنوری ٹاؤن میں نمازِ عشاء کے بعد اعلانیہ فتویٰ چیلنج کیا۔ تبلیغی جماعت کی تربیت نے اعلان اور مجدد ملت حضرت حاجی عثمانؒ کی صحبت نے ایمان سکھا یاتھا ۔ جائز نکاح کو حرامکاری کہا جائے تو جسکے سینے میں دل ہو وہ کتنا تڑپ اُٹھے گا؟۔ ایک خاتون نے بارگاہ رسالت ﷺ میں جرأت کرکے مجادلہ کیا تو وحی کے ذریعے فتوے کی دنیا میں ایسا انقلاب آیا جو قیامت تک قرآن کے سینے (28پارہ سورۂمجادلہ)میں وضاحت کیساتھ محفوظ رہے گا۔ بے خبر علماء ومفتیان! اس کو ذرا دیکھ لیں۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے فرمایا:’’ جان پر آئے تو مال کی قربانی دیدو۔جان سے زیادہ مال قیمتی نہیں مگرعزت جان سے بھی زیادہ اہم ہے۔ عزت کیلئے جان اور مال دونوں قربان کردو۔ معاشرتی اقدار یہی ہیں کہ عزت پر جان کی بھی بازی لگائی جائے۔ ایمان کا درجہ سب سے اُونچا ہے، جب ایمان پر بات آئے تو جان، مال اور عزت سب کو ایمان پر قربان کیا جائے‘‘۔یہی دستور ہے ورنہ اوندھے منہ نماز میں رکوع اورسجدے بہت مشکل ہوتے۔
طالبان ، القاعدہ، لشکر جھنگوی، داعش اور ساری انتہاپسند تنظیموں کیلئے یہ اقوال زریں کا بہت بڑا اثاثہ ہے جس کا ذکر قرآن میں بھی جابجا ہے، ایمان کیلئے ایک خود کش حملہ آور اپنی جان کی بازی اسی لئے لگاتاہے کہ ایمان سے زیادہ قیمتی چیز کا کوئی تصور نہیں۔ ایک نوجوان شادی شدہ کا سال، ڈیڑھ کیلئے تبلیغی جماعت میں جانا خود کش حملے سے زیادہ مشکل کام ہے لیکن وہ اپنے ایمان کیلئے یہ قربانی دیتاہے اور دنیا ومافیہا کو چھوڑ کر مذہبی علوم کی خدمت اور صوفیانہ روحانی ماحول کیلئے وقف ہوجانا تبلیغی جماعت میں سال اور ڈیڑھ سال لگانے سے بھی زیادہ بھاری اور دشوار کام ہے۔ مذہبی لوگ اپنے تئیں جو جان ومال اور وقت کی قربانیاں دیتے ہیں وہ یقینابہت زیادہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ ان کے پاؤں کی گرد کو خاکِ شفاء سمجھ کردھو کرپیا جائے تو بڑی سعادت ہے ، وہ سفلی جذبہ سے انسان کو پاک کرکے بلند وبالا مقام تک پہنچادیتے ہیں۔
اللہ انسان کو احسن تقویم کا اعزاز دینے کے بعد اسفل السافلین کے نچلے درجہ پر پہنچا دیتاہے مگرایمان وعمل صالح بچنے کا ذریعہ ہے لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ثم رددناہ فی اسفل سافلین الا الذین امنوا وعملوا الصالحات فلھم اجر غیر ممنون فما یکذبک بعد بالدین أالیس اللہ باحکم الحاکمین
انسان اپنے مذہبی طبقات ہی کے ذریعے ممکن سمجھتا ہے کہ ایمان و عمل صالح کی دہلیز پر پہنچ کرنچلے درجے کی انسانیت اور ہمیشہ کیلئے جہنم سے وہ اپنے رہنماؤں کی بدولت ہی بچ سکتاہے۔ایمان کی دولت سے زیادہ قیمتی سوغات کا تصور کوئی مذہبی طبقہ نہیں رکھتا ہے۔
خود کش حملہ قربانی ہے، اس سے بڑھ کر قربانی یہ ہے کہ نوجوان بیوی بچوں کو چھوڑ کر سال ، ڈیڑھ کیلئے تبلیغی جماعت میں نکلے اور اس سے بڑی قربانی یہ ہے کہ کوئی اپنی دنیا کو قربان کرکے علم وتصوف کیلئے ہی وقف ہو۔ جان دینا شہید کی قربانی اور جان کھپانا صدیق کی قربانی ہے ۔ انبیاء کرام ؑ کے بعد صدیقین و شہداء اور صالحین کا درجہ ہے۔ صالحین بہت ہیں لیکن صدیقین اور شہداء کا درجہ کسی کسی خوش قسمت اور بڑے نصیب والے کو ہی ملتاہے۔ صالح بندوں سے محبت رکھنا بھی ایمان کی علامت ہے۔ عربی شاعر نے خوب کہا ہے کہ
اُحب الصالحین ولست منھم
لعل اللہ یرزقنی صلاحا
’’ میں نیک لوگوں سے محبت رکھتا ہوں مگر خود ان میں سے نہیں ہوں۔ ہوسکتاہے کہ اس کی برکت سے اللہ میری اصلاح کردے‘‘۔ اصلاح کوئی معمولی بات نہیں ۔ حدیث کے حوالہ سے علماء نے لکھا کہ ’’ اللہ امام مہدی علیہ السلام کی اصلاح ایک رات میں فرمادیگا‘‘۔ اہل تشیع اور اہل سنت کے مذہبی طبقوں سے معذرت کیساتھ وہ کونسی قربانی ہوسکتی ہے جو علماء ومشائخ، صالحین، مجاہدین، شہداء اور صدیقین سے بھی بڑھ کر ہو؟، اپنے گریبان اور بند قباؤں کو چاک کرکے دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ کہ ایک تبلیغی جماعت کا کارندہ نصاب کے مطابق زندگی بھر اپنے معمولات جاری رکھے تو یہ بڑی ہے یا یہ بڑی قربانی ہے کہ یکم دم تین طلاق دینے پراپنے بچوں کی ماں کو ایک رات، ایک گھنٹہ اور ایک لمحہ حلالہ کی غرض سے پیش کردے؟۔ ایک مجاہد جان کی قربانی دیکر بڑی قربانی دیتاہے یا اگر وہ حلالہ کیلئے اپنی ماں کو پیش کردے؟ اور ایک عالم ومفتی اور شیخ الطریقت زندگی وقف کرنے سے بڑی قربانی دیتاہے یا یہ کہ اس کی بال بچوں والی بیٹی کو ایک رات کیلئے حلالہ کی لعنت کا سامنا کرنا پڑے تو بڑی قربانی ہے؟۔ لوگ ایمان کی خاطر حلالہ کی قربانی تک دیتے ہیں لیکن عزت دیکر اجر وثواب کے مستحق بنتے ہیں یا لعنت ملامت اور دنیا و آخرت کی تباہی مول لیتے ہیں؟؟؟۔ جسکے پاس ضمیر، غیرت اور عزت نام کی کوئی چیزہو، وہ بغیر جواز کے حلالہ کا کبھی کوئی فتویٰ دینے کا تصور نہیں کرسکتا لیکن جس نے ضمیر کھودیا ہو اس کا کچھ نہیں کہہ سکتا۔
ایمان کیلئے عزت کی بڑی قربانی دیکر بھی ایمان محفوظ رہ سکتاہے تو ضرور فتویٰ دیجئے۔
دارالعلوم کراچی کے محمود اشرف عثمانی نے فتویٰ میں اضافہ کیا کہ ’’ ورنہ نکاح ممکن بھی نہیں ‘‘۔ یہ واضح ثبوت ہے کہ علمی صلاحیت سے محروم جدی پشتی جاہل طبقہ تیسری نسل میں یہانتک پہنچ چکاہے کہ ممکن و ناممکن نکاح اور الفاظ و جملے کی تمیز سے بھی عاری ہے۔حلالہ سازشی نکاح ہے، دیگر مسالک اسکے ذریعے حلال ہونے کے قائل نہیں مگر حنفی مسلک کی خاص رعایت سے نکاح بہرحال نکاح ہے، سازشی ہو یا مستقل؟۔ بعض عدت کی شرط کا لحاظ رکھے بغیر نکاح ودخول کے ذریعے حلالہ کردیتے ہیں تو حنفی اصولوں سے جاہل علماء ومفتیان کا طبقہ یہ نہیں مانتا، حالانکہ نکاح کی قیدبھی محض تکلف ہے اسلئے کہ حنفی مسلک میں زنا بھی نکاح ہے۔ نکاح کیلئے سازشی گواہ اور سازشی ملا کی ضرورت نہیں۔ رسول ﷺ نے نکاح کا اعلان دعوت ولیمہ سے کیا،(بخاری) علامہ ابن رشدؒ نے کتاب ’’ بدایۃ المجتہد نہایۃ المقتصد‘‘ میں لکھاہے کہ امام حسنؓ کے نزدیک نکاح کیلئے گواہ شرط نہیں۔ البتہ اس کا اعلان ضروری ہے، حضرت ابن عباسؓ نے حدیث روایت کی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ’’ نکاح کیلئے دوعادل گواہ مقرر کردو‘‘۔ حنفیوں کے نزدیک یہ خبر واحد حدیث معتبر نہیں ہے۔ نکاح کیلئے دو فاسق گواہ بھی کافی ہیں۔ قرآن و حدیث کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟۔ جبکہ قرآن میں عدت کی تکمیل پر دو عادل گواہوں کا حکم ہے ۔ جو کوئی خبر واحد حدیث بھی نہیں مگر حلالہ کی لعنت کے خاتمے کیلئے قرآن کو معتبر کہا تو اپنے آباء اجداد کے کرتوت کا کیا بنے گا؟۔
فقہ کی کتابوں میں اس پر بحث ہے کہ اگر عدت میں عورت نے شادی کرلی اور دوسرے نے بھی طلاق دیدی تو عورت کی عدت ایک ہوگی یا دو عدتیں گزارنی پڑیں گی؟۔ہم حلالہ کا وہ شرعی مسئلہ فقہ کی کتابوں سے ثابت کرینگے کہ عدت وانتظار کی بھی کوئی ضرورت نہ ہوگی، لیکن جب قرآن وسنت میں حلالہ کے بغیر بھی رجوع کرنے کی نہ صرف گنجائش ہو بلکہ اس کی بار بار وضاحت کی گئی ہو تو حلالہ کا فتویٰ دینا بڑا سخت جرم ہے۔ ہم نے کتاب ’’ابر رحمت‘‘ اور ’’تین طلاق کی درست تعبیر‘‘ میں تفصیل سے وضاحت کردی۔ پھرکتابچہ ’’ تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل ‘‘ بھی پیش کردیا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے مظفر گڑھ کے واقعہ پر ازخود نوٹس لیامگر حلالہ پنچایت کے فیصلے سے زیادہ سنگین ہے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں بینچ نے ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے فیصلہ دیا ’’ طلاق کا تعلق الفاظ سے نہیں بلکہ باقاعدہ پراسیس مکمل کرکے طلاق دی جاسکتی ہے، لہٰذا بیوی کو خرچہ دیا جائے‘‘۔ سورۂ طلاق میں بھی پراسیس مکمل کرکے دوعادل گواہوں کومقرر کرنیکا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ دنیا کو ہماری ریاست کی جہالت کا کیسے پیغام جاتاہے کہ خرچہ کیلئے برسوں سے طلاق معتبر نہیں مگر ریاستی نظام ایسا ہے کہ قرآن وسنت کے خلاف جاہل مفتیوں کو جاہل عوام کی عزتیں لوٹنے کیلئے کھلا چھوڑ دیاہے؟۔ دارالعلوم کراچی کا یہ فتویٰ قرآن وسنت کیساتھ تودجل ہے ہی، علاوہ ازیں سپریم کورٹ کے فیصلے کی بھی توہین ہے۔ مذہبی جماعتیں ، مدارس، عدالتیں ،عوام جب تک حلالہ کی لعنت سے چھٹکارا نہیں پالیتے ہیں ، ان میں کوئی غیرت نہیں جاگ سکتی ہے۔ میڈیا چینل پر بھی اس کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اخبار جہاں جنگ گروپ کے مفتی حسام اللہ شریفی مدظلہ کی طرف سے حلالہ کی مخالفت کے باوجود جنگ و جیو والے ان کو اجاگر نہیں کرتے ہیں۔ میڈیا کی شامت اسی وجہ سے آسکتی ہے۔ ہر دم بک بک کرنیوالے میڈیا کو فرصت نہیں۔
لوگوں کی راۓ