پوسٹ تلاش کریں

مفتی تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمان، مولانا فضل غفور، وفاق المدارس اور وزیرستان کے محسود قبائل

مفتی تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمان، مولانا فضل غفور، وفاق المدارس اور وزیرستان کے محسود قبائل اخبار: نوشتہ دیوار

مفتی تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمن، مولانا فضل غفور، وفاق المدارس اور وزیرستان کے محسود قبائل

ہر شاخ پر اُلو بیٹھا ہے انجامِ گلستان کیا ہوگا؟۔الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے اسکرینوں پر سیاستدان، صحافی، جرنیل، بیوروکریٹ، قوم پرست،علماء اور مذہبی طبقوں کے علاوہ ملحدین اپنی اپنی طوطی اور مینا کی زبانیں بولنے کی کوشش میں عجیب وغریب انجام کی طرف لے جانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ضرورت نہ ہو توبولنے کی جگہ خاموشی کو ترجیح دیتے لیکن کوئی کسی سے بھاڑہ لیکر بولتا ہے اور کوئی خوامخواہ بکواس کی عادت سے سخت مجبور بھی ہے

جاگ اُٹھے ہیں شعور کے دیوانے دنیا کو جگاکر دَم لیںگے،یزیدیت کیخلاف حسینیت کی کامیابی تک راہِ وفا میں اپنی قسمت کے
ستم لیںگے،ڈرنے والے اپنی دُم دباکے سنبھالیں اورہمیںتکتے رہیں، چاہے ہاتھ ہوں ہمارے قلم ہم اپنے علم لیںگے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

وفاق المدارس اور جامعة الرشید بورڈ
وفاق المدارس العربیہ پاکستان دیوبندی علماء کا سرکار سے منظور شدہ بورڈ ہے ۔ جن مدارس کا وفاق المدارس سے الحاق ہے وہ اپنے فضلاء کو اپنے مدارس کی سند بھی دیتے ہیں۔ پختونخواہ کی حکومت بنوں کے مدارس کی سند پر بھی اپنے سرکاری ٹیچر کو بھرتی کرتی ہے۔ اکوڑہ خٹک حقانیہ سے وفاق المدارس کے علاوہ اپنے نالائق فضلاء کو اپنی طرف سے بھی دستارفضلیت کی سندیں دی جاتی ہیں۔
جامعة الرشید کے مولانا مفتی عبدالرحیم ایک انتہائی مکار، چالاک اور بیکار انسان ہے۔ اس کی جعل سازی کے بڑے شواہد ہیں۔ مفتی رشیداحمدلدھیانوی کے دستخط کا بھی مفتی عبدالرحیم مجاز تھا جو استاذ اور شاگرد کی جعل سازی کا بہترین ثبوت ہے اور پھر اپنی اصلی تحریر اور دستخط سے مکر جانے کا بھی ریکارڈ قائم کیا تھا۔
مولانا سلیم اللہ خان کے علم اور کردار سے اختلاف ہوسکتا تھا لیکن ان میں وفاق المدارس کے صدر بننے کی اہلیت دوسروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ تھی۔ نام نہاد شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کو وفاق المدارس کا صدر بنانا زیادہ اہم بات نہیں ہے لیکن اصولی طور پر مفتی تقی عثمانی کو جامعة الرشید کے نئے بورڈ مجمع علوم اسلامی کا چیئرمین ہونا چاہیے تھا۔ معاوضہ لیکر سودی نظام کو اسلامی قراردینا جامعة الرشید اور دارالعلوم کراچی کا مشترکہ وطیرہ تھا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن نیوٹاؤن کراچی،جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی، جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک پاکستان بھر کے تمام بڑے مدارس نے سودی نظام کی سخت مخالفت کی تھی۔ ایک انتہائی نالائق اور متنازع شخصیت کو اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے وفاق المدارس کا صدر بنانا قاری محمد حنیف جالندھری جیسے مفادپرست اور مولانا فضل الرحمن جیسے سیاستدان کے اپنے کام ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کہا کرتے تھے کہ جو نماز کی امامت کا اہل نہیں ہے وہ اقتدار کا بھی اہل نہیں لیکن جب موقع آیا تو علماء کی کثیر تعداد کے باوجود اکرم خان درانی کو داڑھی رکھواکر دنیا سمیٹنے کیلئے وزیراعلیٰ بنوادیاتھا۔

مولانا فضل غفور کاخواب اور علماء
جمعیت علماء اسلام کے مولانا فضل غفور نے کسی عالم کاایک خواب بیان کیا کہ ” خانہ کعبہ میں رسول اللہۖ کے دائیں جانب پاکستان کے علماء ہیں بائیں جانب عالم اسلام کے حکمران ہیں۔سعودی حکمران شاہ محمدبن سلمان نبیۖ کے بائیں پاؤں کی انگلیاں کاٹ رہاہے اور پاکستان کا وزیراعظم عمران خان بائیں ہاتھ کی انگلیاں کاٹ رہاہے۔ نبیۖ کا ستر کھلا ہوا ہے اور پاکستان کے علماء ستر کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں”۔ اس پر بعض دیوبندی علماء نے مولانا فضل غفور کو گستاخ اور واجب القتل قرار دیا اور بعض نے بھرپور دفاع کیا۔ پشتو زبان میں علماء کے ڈھیر سارے بیانات ہیں اور اردو میں بھی سوشل میڈیا پر ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ دونوں طرف کے علماء کی صف بندی کرکے عوام کو ایک تماشہ دکھا دیں کہ ان میں کتنی غیرتِ ایمانی اور قربانی کا جذبہ ہے اور عوام سمجھ لیں کہ ان کو لڑانے والے خود کتنے لڑنے کی ہمت رکھتے ہیں؟۔مفتی تقی عثمانی کے ایک شاگرد نے درمیانی راستہ نکالتے ہوئے ایک طرف یہ واضح کیا کہ مولانا فضل غفور کا مقصد گستاخی نہیں تھا لیکن یہ بڑی سنگین گستاخی ہے ، کوئی کسی کی ماں بہن کیساتھ خواب میں جماع دیکھے گا تو اس کو بیان کریگا؟۔ مولانا فضل غفور معافی مانگ لیں اور جس شیخ الحدیث مولانا ادریس نے فضل غفور کا دفاع کرتے ہوئے امام بخاری کے خواب کا حوالہ دیا ہے اس نے مزید سنگین گستاخی کی ہے۔ فوجی کا مجھے فون آیا کہ تین دن سے سو نہیں سکا ہوں کہ میں اور مولانافضل غفور کس طرح زندہ ہیں؟۔ اس گستاخی پر اب تک مجھے اس کو قتل کردینا چاہیے تھا۔مولانا سحبان محمود نے امام بخاری کے الفاظ کا ادب سے ترجمہ کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ سے کسی نے اپنا خواب بیان کیا کہ میں نے نبیۖ کو ننگا دیکھا تو امام صاحب نے کہا تھا کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ تم خود ننگے ہو۔ مفتی تقی عثمانی کے اس شاگرد کا بیان جس گستاخی پر شروع ہوتا ہے ،اسی پر ختم بھی ہوجاتا ہے اور یہ جہالت کی انتہاء ہے۔

مولانا فضل الرحمن کی سیاسی کامیابی
مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اسٹیبلشمنٹ کیخلاف جو بیانات دئیے ہیںوہ ایک طرف ڈھال کے طور پرمفتی تقی عثمانی کو وفاق المدارس کا سربراہ بناکر استعمال کررہے ہیںاور دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ن لیگ کو استعمال کررہے ہیں۔ بظاہر جمعیت علماء اسلام کی کشتی کیلئے دونوں چپو بڑے توانا معلوم ہوتے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی کے پشتون شاگرد عالم دین کو ایک طرف ایک رئٹائرڈ فوجی کا عشق رسول ۖکا جذبہ نظر آتا ہے اور اسی وجہ سے وہ مولانا فضل غفور کو توبہ کی دعوت دیتے ہیں اور اس کی حمایت کرنے پر دوسروں پر برستے ہیں لیکن دوسری طرف امام ابوحنیفہ کے اسی طرح کے خواب کی تعبیر کرنا مناسب خیال کرتے ہیں۔ یہ شعور وآگہی کی موت نہیں تو اور کیا ہے؟۔
مولانا فضل الرحمن نے ساری زندگی اسٹیبلشمنٹ اور سرکاری سیاستدانوں اور علماء کی مخالفت میں گزاردی ہے لیکن آخری عمر میں جدوجہد نہیں نیت کا شاید ان کو ثمرہ مل رہاہے۔ اعمال کا دارومدار نیتوں پرہوتا ہے۔ نیت دکھانے کیلئے اللہ انسان کو ہمیشہ موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ہمارا خود ساختہ مذہبی اور سیاسی نظام اب ناکامی کے کنارے لگ چکا ہے۔ عوام کے سامنے افغانستان کے طالبان کی بھی تصویر ہے اور پاکستان کی ریاست کی بھی تصویر ہے۔ سزا یافتہ نوازشریف ، مریم نواز بیرون ملک اور اندرونِ ملک آزاد ہیں اور تحریک انصاف کے وہ کارکن بھی زندہ ہیں جو ایک بین الاقوامی بھکاری عمران خان کی بات پر یقین رکھتے تھے کہ ”مرجاؤںگا مگر بھیک نہیں مانگوں گا”۔ تجزیہ نگار جنرل اعوان کہتا ہے کہ مزدورسچا نہیں کہ وہ بیروزگار ہے، بیلچہ بھیک کی علامت ہے اور وزیراعظم سچ کہتا ہے کہ ”ملک میں بیروزگاری نہیں ہے”۔ زرداری کھانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑا تھا، نوازشریف بیٹھا تھا اور عمران خان لیٹ گیا ہے۔ کھاؤ پیواور ملک مکاؤ پروگرام میں سب شریک ہیں۔ بھاری سودی قرضہ اور ٹیکس کا بوجھ لادا جاتا ہے۔

وزیرستان کی بہت بڑی کمزوری کیا ؟
وزیرستان کے محسود قبائل میں سب سے بڑی کمزوری مال کا لالچ تھی۔ اب انتہائی آزمائش سے گزرنے کے بعد یہ کمزوری اپنا دم توڑ رہی ہے۔ حادثہ پیش آتا ہے تو معاملے کا پتہ چلتا ہے۔ کانیگرم کے پیر خاندان کے ایک شخص نے محسود قبیلے کے ایک شخص کو کچل دیا۔ دونوں کا آپس میں کوئی تعارف اور تعلق نہیں تھا مگر ایک پیسہ لئے بغیر محسود خاندان نے معاف کردیا۔ یہ ایک بہت بڑا انقلاب ہے اور اس کی توقع صدیوں میں بھی نہیں ہوسکتی تھی لیکن محسود بہت بدل گئے ہیں۔
محسود ایک زبردست صفات رکھنے والی عظیم قوم ہے مگر ان کی تعلیم وتربیت کیلئے کسی استاذ نے کوئی محنت نہیں کی ہے۔ فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یا بندۂ صحرائی یا مردِ کوہستانی۔ لاکھوں میں ایک بھی پیدا ہو تو قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ ایک مشہور بدمعاش خاندان کے فرد نے طالبان کیساتھ مل کر ایک گھر سے بھتہ وصول کرنا چاہا، جس پر دونوجوان اور ناتواں لڑکوں نے کلاشنکوف اٹھاکر اپنا دفاع کیا اور اس ایک فرد کو موت کی گھاٹ اتار دیا اور باقی سب بھاگ کھڑے ہوگئے۔ پھر اس بدمعاش خاندان نے اپنے غنڈے طالب کی دیت بھی وصول کرلی۔ اگر یہ روایت ہو کہ طالبان جس کو ماردیں تو اس کی پرواہ نہ ہواور طالبان مارا جائے تو اس کی قیمت وصول کی جائے۔ یہ محسود قوم کی تاریخ پر سب سے بڑا بدنما داغ ہے۔ سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ،قبائلی عمائدین اورپی ٹی ایم مل کر اس مصیبت سے اس قوم کی جان چھڑائیں۔ بنوںسے ڈیرہ اسماعیل خان تک بات مشہور ہے کہ ”بوڑھے بوڑھے لوگوں کو موٹر سائیکل خرید کر دئیے گئے ہیں کیونکہ کرونا سے ویسے بھی انہوں نے مرنا ہے تو بہتر ہے کہ کسی کی گاڑی کے نیچے آکر ورثاء کیلئے سات آٹھ لاکھ کی دیت کا ذریعہ بن جائیں”۔
رونے دھونے سے انقلاب نہیں آتے بلکہ جو استنجاء سے اپنا گند صاف کرتا ہے وہی اپنی اور پوری قوم کی امامت کے قابل ہوسکتا ہے۔دیکھئے…
بقیہ_
Page 2 and 3

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز