پوسٹ تلاش کریں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں اخبار: نوشتہ دیوار

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں

یا ایھا الذین امنوا لاتقربوا الصلوٰة وانتم سکریٰ حتی تعلموا ماتقولوں ولاجنباً الا عابری السبیل حتی تغتسلوا ”اے ایمان والو! نماز کے قریب مت جاؤ، جب تم نشے میں ہو، یہاں تک کہ تم سمجھو جو تم کہہ رہے ہو۔اور نہ حالت جنابت میں مگر کوئی مسافر یہاں تک کہ تم نہالو”(سورہ النساء آیت43)فرض پڑھنے اور نہ پڑھنے کی اس میں گنجائش ہے

النساء کی آیت43میں دو حالت میں نماز کے قریب نہیں جانے کا حکم دیا گیا ہے۔
نمبر1:جب بندہ نشے کی حالت میں ہو۔ نشے کی حالت ختم ہوجائے اور جب جو بول رہاہے وہ سمجھ میں بھی آرہا ہو۔
نمبر2:جب بندہ جنابت کی حالت میں ہومگر مسافر کیلئے اجازت ہویہاں تک کہ بندہ نہالے تو پھر نماز پڑھ سکتا ہے۔
مولانا ادریس نے کہا کہ جس طرح کی تروایح تم پڑھتے ہوجس میں تیز رفتاری سے اُوٹ پٹانگ کرتے ہو،اس کی وجہ سے تمہیں ثواب نہیں مل رہاہے بلکہ گناہگار بنتے ہو۔ انسان اللہ کے سامنے اس طرح نماز پڑھے جیسے بہت لوگوں کی عادت ہے تو مولانا ادریس کی بات کو کسی نے بھی برا نہیں سمجھا ہے۔
مفتی منیر شاکر کی باتوں کو ادھورا نقل کرکے کلپ بنایا ہے اور ان سے بعض لوگوں کو شدید اختلاف اور نفرت ہے اسلئے وہ ایسا کررہے ہیں لیکن بات پوری سنی اور سمجھی جائے تو اچھا ہوگا۔
مفتی منیر شاکر سے اختلاف کا حق ہے اس نے کہا کہ تراویح فرض واجب نہیں نفل ہیں تو اس پر طوفان کھڑا کیا گیا ۔
جہاں تک مفتی منیر شاکر کے مخالفین کا تعلق ہے تو ان کی حیثیت ایسی ہے جو شاہ ولی اللہ کے مخالفین کی تھی ایک طرف وہ ملاجیون کی کتاب” نورالانوار” میں پڑھتے اور پڑھاتے تھے کہ ”امام ابوحنیفہ کے نزدیک فارسی میں نماز پڑھنا عربی سے بہتر ہے اسلئے کہ عربی میں الفاظ کی سجاوٹ انسان اور خدا میں حجاب بنتا ہے ” اور دوسری طرف جب شاہ ولی اللہ نے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تو انہوں نے واجب القتل قرار دے دیا۔
مولانا مناظر احسن گیلانی اور بہت سے لوگ احادیث کی مخالفت کے بعد راہِ حق پر آئے ہیں ۔ مفتی منیر شاکر دلیر ہے جو بات سمجھ میں آتی ہے اس میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتا ۔ یہی بڑی خوبی ہے۔ مخالفین بات کو سمجھنے سے معذورلگتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نشے کی حالت میں نماز کے قریب جانے سے منع کیا گیا یہاں تک کہ سمجھو جو کہہ رہے ہو۔ تو کیا لوگ نماز جو پڑھتے ہیں تو وہ نشے کے بغیر بھی سمجھ رہے ہیں یا نہیں؟۔ نماز تروایح تو بہت دور کی بات ہے فرض نماز پر مولانا ادریس کہتے کہ گناہگار ہوتے ہو تو بھی قابل فہم بات تھی۔
حضرت عمر نے سفر سے واپسی پر اللہ کے رسول ۖ سے عرض کیا کہ مجھے پانی نہیں مل رہاتھا اور تیمم سے میرا دل نہیں مانتا تھا اسلئے میں نے نماز پڑھنا چھوڑ دی تھی۔ نبی ۖ نے فرمایا: آپ نے بہت اچھا کیا کہ نماز نہیں پڑھی۔ حضرت عمر نے فرض نماز پڑھنا اسلئے چھوڑ دی کہ جنابت کی حالت سے اگرچہ نکلتے لیکن اللہ کے دربار میں حاضری کے بھی اپنے آداب ہیں۔ جو سمجھ لئے جائیں تو حضرت عمر پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا ہے۔
حضرت عمار نے سفر سے واپسی پر عرض کیا کہ یارسول اللہ میں نے جنابت کی وجہ سے تیمم کیلئے مٹی میں لوٹ پوٹ ہوکر نماز پڑھ لی تو نبیۖ نے فرمایا کہ بہت اچھا کیا لیکن پورے جسم کے لوٹ پوٹ ہونے کی ضرورت نہیں ہاتھ منہ کافی ہے۔
شیعہ حسن الہ یاری نے ان احادیث کی وجہ سے حضرت عمر پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے کہ قرآن میں واضح تیمم کا حکم ہے اوروہ تیمم سے نماز نہیں پڑھتے تھے۔ حالانکہ قرآن میں تیمم سے نماز پڑھنے کا حکم نہیں بلکہ اجازت ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ” نماز کے قریب مت جاؤ”۔ پھر مسافر کو اجازت دی ہے ۔ عبداللہ بن مسعود اور ابوموسیٰ اشعری کے درمیان تیمم سے نماز پڑھنے اور چھوڑنے پر مناظرہ ہے۔ حالانکہ وہ فرض نماز کا مسئلہ تھا اور اب تراویح پر اتنا اودھم مچاکر جہالت کا ثبوت دیا جارہاہے۔
فقہ کی کتابوں میں مالابدمنہ، قدوری، کنز، شرح الوقایہ اور ہدایہ درس نظامی میں رائج ہیں۔ فقہاء کے7طبقات پہلا طبقہ مجتہد مطلق، دوسرا مجتہد فی المذہب، تیسرا مجتہد فی المسائل،چوتھا اصحاب التخریج ، پانچواں اصحاب الترجیح، چھٹا اصحاب التمیز اور ساتواں مقلد محض ”امام ابوحنیفہ اور باقی تین امام پہلے طبقے میں ہیں۔ دوسرے طبقے میں امام ابوحنیفہ کے تمام شاگرد امام ابویوسف، امام محمد، عبداللہ بن مبارک وغیرہ۔ تیسرے طبقے میں احمد خصاف،امام طحاوی،کرخی،شمس الائمہ حلوانی،سرخسی، بزدوی،قاضی خان۔
چوتھے طبقے میں کرخی،ابوبکرجصاص رازی، ۔ پانچویں طبقے میںامام قدوری ، صاحب ہدایہ ۔ چھٹے طبقے میںصاحب کنز الدقائق، صاحب وقایہ۔صاحب در مختار۔ساتواں طبقہ اندھوں میں کوئی ایک بھی کانا راجہ نہیں ہے۔ پہلے تین طبقات کو مجتہدین اور اسکے بعد کی تین طبقات کو مقلدین کہا جاتا ہے۔
امام ابوحنیفہکے شاگردوں میں امام ابویوسف اور عبداللہ بن مبارک میں جتنے اختلافات کی شدت تھی اس کے مقابلے میں مفتی منیر شاکر اور دوسرے علماء میں کچھ بھی نہیں ہے۔
قدوری میں نمازکی سنتیں ”نوافل” ہیں۔ تو تراویح نماز کا درجہ بھی نوافل کا ہے ۔ نوافل پر ثواب اور نہ پڑھنے پر پکڑ نہیں ۔ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نوافل کے ذریعے بندہ میرے اتنے قریب بن جاتا ہے کہ میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتاہے، اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے ،اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔ اس کے پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے”۔ اللہ نے فرمایا : اقم الصلوٰة لدلوق الشمس الی غسق اللیل وقرآن الفجر ان قران الفجر کان مشہوداو من اللیل فتھجد بہ نافلة لک عسٰی ان یبعثک مقاماً محموداً” اے نبی ! نماز قائم کر، سورج ڈھلنے سے رات کی تاریکی تک اور فجر کا قرآن ، بیشک فجر کے قرآن کی گواہی دی جاچکی ہے اور رات میں تمہارے لئے تہجد نفل ہے ہوسکتا ہے کہ آپ کو مقام محمود سے نوازا جائے ”۔
غزوہ بدر میں نبی ۖ نے پتھر کے کنکر ہاتھ سے پھینک دئیے ،اللہ نے فرمایا ”یہ آپ نے نہیں پھینکے بلکہ اللہ نے پھینکے ہیں”۔جب نبی ۖ نے صلح حدیبیہ سے پہلے حضرت عثمان کی شہادت پر بیعت لی تو اللہ نے فرمایا”اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر تھا”۔ شہادت عثمان کے بعد حضرت عائشہ نے جب قصاص کیلئے حضرت علی سے جنگ کی تو حضرت ابوبکرہ نے کہا کہ میرا دل تھا کہ حضرت عائشہ کے لشکر میں شامل ہوجاؤں مگر پھر مجھے حدیث یاد آگئی کہ جب ایران کے بادشاہ کے فوت ہونے پر اس کی بیٹی بادشاہ بن گئی کہ ”وہ قوم فلاح نہیں پاسکتی ہے جس کی قیادت عورت کررہی ہو” اسلئے ان کا ساتھ دینے سے رک گیا۔
جب حضرت عمر کے دور میں مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف 4افراد گواہی کیلئے آئے تو ابوبکرہواحد صحابی تھے باقی3صحابہ نہ تھے۔ پہلے نے گواہی دی تو عمر پریشان ہوگئے، دوسرے نے گواہی دی تو عمر کی پریشانی حد سے بڑھ گئی ، تیسرے نے گواہی دی تو عمر کی پریشانی کی انتہاء نہ رہی۔ چوتھا زیاد گواہی کیلئے آیا تو عمر نے کہا کہ اللہ اس کے ذریعے نبی کے صحابی کو اس ذلت سے بچائے گا اور پھر زور کی دھاڑ ماری کہ تیرے پاس کیا ہے؟۔ یہ اتنی زور کی دھاڑ تھی کہ راوی نے کہا کہ قریب تھا کہ میں بیہوش ہوجاتا۔ پھر زیاد نے کہا کہ میں نے اور کچھ نہیں دیکھا، یہ دیکھا کہ عورت ام جمیل کے پاؤں مغیرہ کے کاندھوں پر گدھے کے کانوں کی طرح پڑے تھے ،ایک سرین نظر آرہی تھی،یہ ٹھندی ٹھندی سانس لے رہے تھے۔ جس پر حضرت عمر نے کہا کہ اب گواہی مکمل نہیں ہوئی۔3گواہ کو حد قذف80،80کوڑے لگادئیے۔ پھر پیشکش کی کہ جو گواہ یہ کہے گا کہ اس نے جھوٹی گواہی دی تو آئندہ اسکی گواہی قبول کی جائیگی۔ حضرت ابوبکرہ نے اس پیشکش کو ٹھکرادیا اور باقی دو نے کہا کہ ہم نے جھوٹ بولا تھا۔
اہل سنت کے جمہور فقہاء مالکی ، شافعی ، حنبلی کے نزدیک یہ حضرت عمر کی پیشکش تھی اسلئے درست تھی ۔ اگر کوئی جھوٹی گواہی کے بعد توبہ کرے گا تو اس کی آئندہ گواہی قبول کی جائے گی۔ حنفیوں کے نزدیک قرآن میں واضح ہے کہ جس نے جھوٹ کی گواہی دی تو اس کی گواہی کبھی قبول نہیں ہوگی اسلئے حضرت عمر کی یہ پیشکش قرآن کی واضح آیت کے خلاف تھی۔
قارئین ! سمجھ سکتے ہیں کہ واقعہ کیا ہے؟۔اور اس پر فقہاء کے اختلافات کیا ہیں؟۔ اصل بات تو یہی تھی کہ حضرت عمر کی پیشکش بالکل بے بنیاد تھی اور مغیرہ کو بچانے میں عجیب کردار ادا کیا۔ گواہوں پر حد قذف لگانا بھی بالکل درست نہیں تھا۔لیکن اس کی بنیاد پر فقہی مسائل کی تشکیل اس سے زیادہ بھونڈہ تھا۔
اصل مسئلہ یہ تھا کہ جب عمر کے دور میں خوشحالی کی ہوائیں چل گئیں تو لوگوں میں عیاشیوں کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ ایک طرف حضرت عمر نے متعہ پر پابندی لگادی اور دوسری طرف یہ کہنا شروع کردیا کہ ”جس کے بارے میں پتہ چلے گا کہ اس نے بدکاری کی ہے تو اس کو سنگسار کردوں گا۔ اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے قرآن میں اضافہ کیا تو میں یہ حکم قرآن میں درج کردیتا”۔ قرآن میں سنگساری کا حکم نہ تھا اور قرآن میں زانی مرد اور عورت کیلئے100،100کوڑے کی سزا تھی۔ احادیث گھڑی گئی ہیں کہ” سنگسار کرنے و بڑے آدمی کا دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے اور ان آیات کو نبی ۖ کی وفات کے وقت بکری نے کھاکر ضائع کیا”۔
جب حضرت عمر پر امتحان پڑگیا تو اپنے بیٹے کو کوڑوں سے بھی مروا ڈالا۔ لیکن مغیرہ کیلئے زمین وآسمان کی قلابیں ملاکر اس کو بچایا۔ اچھا ہوا کہ جو حضرت عمر ایک غلط مشن کے علمبردار تھے کہ اس کے اپنے ہاتھوں سے اس کی تابوت میں آخری کیل بھی خود ٹھوک دی تھی۔ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ ”اگر مجھے اقتدار مل گیا تو مسلمانوں کیلئے قرآن اور باقی مذاہب کیلئے ان کی اپنی کتابوں کے مطابق فیصلہ کروںگا”۔ اچھا ہوا کہ حضرت علی اس اقتدار تک نہیں پہنچ سکے اسلئے کہ قرآن میں اللہ نے نبیۖ کو حکم دیا ہے کہ ”اگر اہل کتاب قرآن کے مطابق فیصلہ کرانے پر راضی ہوں تو فیصلہ کردیں اوروہ اپنی کتاب کے مطابق فیصلہ کرانا چاہتے ہوں تو نہ کریں وہ آپ کو فتنہ میں ڈالیں گے”۔
ایک ریاست دو دستور نامنظور نامنظور کی بات غلط ہے ۔ پاکستان میں سپریم کورٹ بھی ہے اور شریعت کورٹ بھی ہے۔ اسلامی خلافت قائم ہوگی تو مسلمان کو بدکاری پر100کوڑے لگائیں جائیںگے اور یہود کو سنگسار نہیں کیا جائے گا بلکہ انکے حال پر چھوڑا جائے گا۔ البتہ ہماری کتاب ”قرآن” سے فیصلہ کرائیں گے تو100کوڑے لگائے جائیںگے۔ نبیۖ پر جب سورہ نور نازل نہیں ہوئی تھی تو یہود اور مسلمان دونوں پر وہ حکم جاری کیا جو تورات میں تھا ،جس طرح پہلے قبلہ القدس ہی کو بنایا تھا لیکن پھر قبلہ بھی تبدیل ہوا اور سورہ نور میں کوڑے کا حکم نازل ہوا تو کسی کو سنگسار یا جلاوطن کرنے کی سزا نہیں دی۔
قرآن میں بیوی کو قابل اعتراض حالت میں دیکھ کر قتل کا حکم نہیں بلکہ لعان کا حکم ہے۔ مسلمان غیرت سے اپنا فیصلہ اہل کتاب سے کرواسکتے تھے ۔اللہ نے فرمایا :”اے ایمان والو! اہل کتاب کو اپنے اولیاء مت بناؤ”۔ ولی سے مراد دوست نہیں بلکہ فیصلہ کرانے کیلئے اختیار سونپ دینا ہے۔ اہل کتاب سے نکاح ہوسکتا ہے تو اس سے بڑھ کر دوستی کیاہے؟۔
جب بنوامیہ، بنوعباس اور سلطنت عثمانیہ کی بادشاہت نے ڈیرے ڈال دئیے تھے تو مسلمانوں سے دین کی سمجھ چھن گئی۔ پھر فقہاء نے قرآن وسنت سے دوری کیلئے وہ کھلواڑ کیا جو مکڑی کے جالوں سے کمزور ہے لیکن کوئی ہمت نہیں رکھتا ہے۔
قرآن وسنت کا معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام بالکل ہی تباہ وبرباد کرکے رکھ دیاہے۔ لاکھوں کروڑوں حضرت خضر کی طرح اولیاء بن جائیں مگر انقلاب حضرت موسٰی نے لانا ہے۔ ریاست مدینہ معاشرتی اور معاشی نظام کی بنیاد پر ہی کامیاب ہوگئی تھی۔میثاق مدینہ میں مسلمانوں کیساتھ یہودونصاریٰ کے برابری کے حق تھے اور صلح حدیبیہ میں مشرکینِ مکہ کو بہت اضافی رعایت بھی دی گئی تھی۔ نبوت کے دعویدار ابن صائد کے خلاف کوئی اشتعال انگیزی نہیں کی گئی۔ منافقین کو جینے کا حق دیا گیا۔
ہمارا مذہبی طبقہ اسلام کے معاشرتی، معاشی، سیاسی نظام کو بالکل بھی نہیں سمجھتا ہے۔ تمام لوگ مفتی منیر شاکر کے ہمنوا ہوکر قرآن کے تراجم اور تفاسیر سے استفادہ کریں کوئی معمولی فرق بھی نہیں آئے گا۔ جب افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا تھا تو ہم نے کونسا تیر مارا؟۔ ڈھائی ہزار امریکی فوجی مرگئے ،زیادہ تر وہ بھی بیماری اور ناموافق آب وہوا سے اور4لاکھ افغانی شہید اور80ہزار پاکستانی موت کے گھاٹ اترگئے۔ پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا اور عراق پر امریکہ نے حملہ کیا تو ایران نے امریکہ کا ساتھ دیا، حماس نے عسقلان پر حملہ کیا تو آج تک بھی غزہ کی پٹی اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ مصر، پاکستان، ایران، سعودی عرب اور اسلامی ممالک مل کر بھی حملہ کریںگے تو اس کا خمیازہ بھگت لیں گے۔ آج ہم فسلطین کیلئے روئیں گے تو کل دنیا عالم اسلام کیلئے احتجاج کرے گی لیکن جس طرح فلسطین کی مدد کوکوئی نہیں پہنچتا وہی حال ہمارا ہوگا ۔ جذبات سمجھ کیساتھ جوڑ نہیں کھاتے ہوں تو جہالت ہے۔جس دن ہمارا اپنا حال ٹھیک ہوگا اس دن دنیا میں خلافت کے قیام میں دیر نہیں لگے گی۔

(نوٹ: اس پوسٹ کے ساتھ عنوان ”پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟ ” کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز