پوسٹ تلاش کریں

ایک عالم ہے ثنا خواں آپ ۖ کا۔ مغرب کے دانشوروں کا رحمہ للعالمین ۖ کو خراج عقیدت

ایک عالم ہے ثنا خواں آپ ۖ کا۔ مغرب کے دانشوروں کا رحمہ للعالمین ۖ کو خراج عقیدت اخبار: نوشتہ دیوار

ایک عالم ہے ثنا خواں آپ ۖ کا۔ مغرب کے دانشوروں کا رحمہ للعالمین ۖ کو خراج عقیدت

”ایک عالم ہے ثناخواں آپۖ کا”
مغرب کے دانشوروں نے رحمت للعالمین ۖ کے بارے میں ایک عرصے تک سخت معاندانہ رویہ اختیار کیے رکھا ، مگر بالآخر آج وہ اعترافِ حقیقت پر مجبور ہوگئے ہیں۔ان کی حقیقت بیانیوں کا نچوڑ پہلی مرتبہ پیش کیا جارہا ہے ۔
مرتب :ستارطاہر۔موسم اشاعت: نومبر1995ء تعداد: ایک ہزار
دوست پبلی کیشنز ۔8۔ اے ، خیابان سہروردی پوسٹ بکس نمبر2958 ۔

”آربیل”
محمد(ۖ) نے پوری زندگی میں کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ معجزہ کر دکھانے کی طاقت رکھتے ہیں۔آپۖ نے اس حوالے سے اپنی کوئی ”علامت” بھی قائم نہ کی۔ آپۖ ہمیشہ یہ فرماتے تھے کہ تمام علامتیں اور نشانیاں اللہ کی ہیںاور خدا کے کلام کا ان پر نزول سب سے بڑا معجزہ ہے۔

” جارج برناڈ شا”
از منہ وسطیٰ میں عیسائی راہبوں نے جہالت و تعصب کی وجہ سے اسلام کی نہایت بھیانک تصویر پیش کی۔ یہ سب راہب اور مصنف غلط کار تھے،کیونکہ محمد(ۖ)ایک عظیم ہستی اور صحیح معنوں میں انسانیت کے نجات دہندہ تھے۔
محمد(ۖ) کے مذہب کو میں نے ہمیشہ اسکی حیران کن قوت اور صداقت کی وجہ سے اعلیٰ ترین مقام دیا۔ میں نے اس کی حیران کن اور صداقت کی وجہ سے اعلیٰ مقام دیا ہے۔میرے خیال میں محمد (ۖ)کا مذہب دنیا کا واحد مذہب ہے جو ہردور کے بدلتے ہوئے تقاضوں کیلئے کشش رکھتا ہے۔میں نے اس حیران کن انسان (ۖ) کا بغور مطالعہ کیااور اس سے قطع نظر کہ انہیں ” مسیح کا دشمن” قرار دیا جاتا ہے۔محمد (ۖ) ہی انسانیت کے نجات دہندہ ہیں۔میرا ایمان ہے کہ اگر آپ (ۖ) جیسا شخص دنیا کا حکمران ہوتا تو ہماری دنیا کے سارے مسائل حل ہو چکے ہوتے اور یہ دنیا خوشیوں اور امن کا گہوارا بن جاتی۔محمد(ۖ) کے مذہب کے بارے میں میں یہ پیش گوئی کرتا ہوں کہ یہ کل کے یورپ کیلئے بھی اتنا ہی قابل قبول ہے جتنا آج کے یورپ کے لیے ۔۔۔جو اسے قبول کرنے کا آغاز کر چکا ہے۔میری خواہش ہے کہ اس صدی کے آخر تک برطانوی ایمپائر کو محمد(ۖ) کی تعلیمات مجموعی طور پر اپنا لینی چاہییں۔انسانی زندگی کے حوالے سے محمد (ۖ) کے افکار و نظریات سے احتراز ممکن نہیں۔

”آرلی روژ”
انسانی تاریخ کو سامنے رکھیے اور اس کا بغور مطالعہ کیجئے تو ایک زبردست حقیقت کا انکشاف ہوگا ۔ یہ محمد(ۖ) تھے جو پہلے سماجی بین الاقوامی انقلاب کے بانی تھے،جن کا حوالہ ہمیں تاریخ میں ملتا ہے۔ آپۖ سے پہلے کی تاریخ میں کوئی ایسا نہیں ملتا جو بین الاقوامی سماجی انقلاب کا بانی ہو۔
آپ نے ایسی ریاست قائم کی کہ جب تک پوری دنیا کی ریاستیں اور حکومتیں اس کی تقلید نہیں کرتی ہیں ،عالمی امن قائم نہیں ہوسکتا اور سماجی انصاف فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ آپۖ نے انصاف اور جود وسخا کے جو قوانین مرتب اور نافذ کیے ،جب تک دنیا انہیں نہیں اپناتی ،یہ نہ تو خوشحال ہوسکتی ہے اور نہ پرسکون۔ آپۖ نے بین الاقوامی مساوات کا نظریہ دیااور دنیا کے سب انسانوں کو برابر ٹھہرایا۔ آپ ۖنے درس دیا کہ انسان کو انسان کی مدد کرنی چاہیے۔

”ای بلائیڈن”
محمد(ۖ) کے دین کا پورا سسٹم دو بنیادوں پر استوار ہے اور یہی قرآن کی روح ہے۔ جزا اور سزا کے ستون۔ ………اچھے کام کی جزا اور برے کام کی سزا….. امید اور خوف۔ امید کہ اچھائی باثمر ہوگی اور خوف کہ برائی کا ارتکاب ہوا تو سزا ملے گی۔ ایسا مکمل نظامِ حیات دنیا کے کسی مذہب نے پیش نہیں کیا۔
ولیم پین، پادری جارج وائٹ فیلڈ، صدر ایڈورڈز ،……. یہ سب لوگ کئی اہم کتابوں کے مصنف تھے اور ان کی شہرت عالمگیر ہے۔ مسیحی دینیات کی دنیا میں انہیں ممتاز مقام حاصل ہے۔ یہ سب کیسے انسان تھے؟ سب غلامی کے حامی تھے اور سینکڑوں غلام ان کی ملکیت تھے۔حبشی ان کے نزدیک انسان تھے ہی نہیں بلکہ وہ انہیں ”شیطان کی اولاد” سمجھتے ہوئے ان سے نفرت کرتے اور ان پر ہر ظلم روارکھنا جائز سمجھتے تھے۔ کتنی صدیوں نے ظلم کا بازار دیکھا ، صرف اسلئے کہ یہ دیندار، نیک طینت ،سفیدفام اس نظرئیے پر یقین رکھتے تھے کہ خدا نے انہیںیہ حق دیا ہے کہ وہ افریقہ کے حبشیوں کو اپنا غلام بناسکتے ہیں۔
ان عیسائی عالموں کا خدا محمد(ۖ) کے خدا سے کتنا مختلف ہے!
محمد(ۖ) نے انسانوں کو بتایا کہ حبشی اور کالے بھی انسان ہوتے ہیں۔ ان کی اپنی جانیں اور روحیں ہوتی ہیں۔
اس کے برعکس دینداروں اور کلیسا کے عہدیداروں نے حبشی غلاموں کو بتایا تھاکہ ” تمہیں جان لینا چاہیے کہ تمہارے جسم بھی تمہارے اپنے نہیں،بلکہ تمہاری جانوں اور روحوں کے مالک بھی وہی ہیں جنہیں خدا نے تمہارا آقا بنایا ہے”۔
اور پھر اسلام اور محمد(ۖ) پر گھٹیا باتیں کرنے والے بہت کچھ جان بوجھ کر بھلا دیتے ہیں…… ڈاکٹر میکلر ہمیں بتاتا ہے کہ پروشیا میں اسلاف کی توہم پرستی اس حد تک گہری ہوچکی تھی کہ ہر شخص کو تین شادیاں کرنے کا حق حاصل تھااور ان بیویوں کی حیثیت کنیزوں اور باندیوں سے زیادہ نہ تھی۔اور پھر جب ان کا خاوند مرجاتا تو اس کی بیواؤں سے یہ توقع رکھی جاتی تھی کہ وہ اسکے ساتھ جل مریں۔ اگر وہ یہ توقع پوری نہیں کرتی تھیں تو مرنے والے کے لواحقین قتل کردیتے تھے۔
محمد (ۖ) نے حکم دیا: جب تک تمہیں اپنی پہلی بیوی کی اجازت حاصل نہ ہو اور جب تک اس کی کوئی جائز شکایت نہ ہو اور جب تک دوسری بیوی کے ساتھ ساتھ پہلی بیوی کی کفالت نہ کرسکو اور دونوں میں انصاف کا توازن برقرار نہ رکھ سکو ،تمہیں دوسری شادی کی اجازت نہیں ۔
سچا اور اصلی اسلام ….. جو محمد (ۖ) لے کر آئے ۔اس نے طبقۂ اناث کو وہ حقوق عطا کیے جو اس سے پہلے اس طبقے کو انسانی تاریخ میں نصیب نہیں ہوئے تھے۔اس کے بعد …… اسلام نے انسانیت کو متحد کیا ۔ اسلام صرف عربوں تک محدود نہیں تھا ۔ محمد(ۖ) کا مشن پوری انسانیت کیلئے تھا۔
مسیح کے نام لیواؤں نے انسانیت کو جس قعر مذلت میں دھکیل دیا تھا، محمد (ۖ) نے اس انسانیت کو امن ومسرت اور مساوات کی فضا میں جینے کا برابر حق دیا ۔افریقہ میں اسلام اور محمد(ۖ) کے شیدائیوں نے جمہوری حکومتیں قائم کیں۔ مسلم فتوحات کی روشنی میں کالے خطے میں اسلام کی روشنی پھیلی اور تعلیمات محمدی ۖ نے انسانوں کو جینے اور سر اٹھانے کا حق بخشا۔ عیسائیت جہاں بھی گئی وہاں انسانوں کو غلام بنایا گیا اور طاقت اور جارحیت کے ذریعے ان پر حکمرانی کی گئی۔ محمد(ۖ) کا دین جہاں بھی پہنچا وہاں حقیقی جمہوری حکومتوں کا قیام معرض وجود میں آیا۔ محمد (ۖ) کے دین اور انۖ کی تعلیمات کو کن الفاظ میں سراہا جاسکتا ہے ۔………حقیقی انقلاب جو ذہن بدل دے، دل بدل دے، اس کی تعریف کیسے ممکن ہے؟۔شمالی افریقہ میں مسلمانوں کی فتوحات کے بعد ، جنوبی افریقہ میں اسلام ….. تلوار کے ذریعے نہیں بلکہ مدرسوں، کتابوں، مسجدوں باہمی شادیوں ، رشتہ داروں اور تجارت کے ذریعے پہنچا۔ محمد(ۖ) کی روحانی فتوحات کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
محمد(ۖ) کے ساتھ ہی اس جمہوریت اور مساوات نے جنم لیا جو اس سے پہلے دنیا میں موجود نہیں تھی۔ اب دولت اور حسب نسب کے پیدائشی دعوؤں کی کوئی اہمیت نہ رہی۔ غلام …مسلمان ہوکر آزاد ہوجاتا۔ دشمن ….اسلام قبول کرکے خون کے رشتے دار سے زیادہ عزیز سمجھا جاتا۔ اور کافر …..اسلام قبول کرنے بعد دین کا مبلغ بن جاتا۔ محمد (ۖ) نے ایک حبشی بلال کو موذن بنادیا کیونکہ وہ اسلام لے آئے تھے۔ اور ان کے ہونٹوں سے خوبصورت کلمات سنائی دیے۔” نماز نیند سے بہتر ہے”۔محمد (ۖ) نے خوابیدہ انسان کو بیدار کردیا۔ انسانی بیداری کی یہ صدا آج بھی دنیا کے ہر ملک میں سنی جاتی ہے۔محمد(ۖ) نے دھتکارے ہوئے غلاموں کو آقا بنادیا۔

”ڈبلیو ڈبلیو کیش”
عیسائیوں کو یہ حقیقت قبول کرلینی چاہیے کہ اسلامی اخلاق مسیحی اخلاقیات سے بدرجہا بہتر اور قابلِ عمل ہیں۔ ………..
محمد(ۖ)! یہ آپ ۖ کا دَین ہے کہ اسلامی دنیا میں انسانوں کی راہ میں اوج کمال اور ترقی کے اعلیٰ ترین مناصب تک پہنچنے کیلئے حسب نسب حائل ہوتا ہے نہ رنگ، غربت، امارت، بلکہ اسلام نے تمام نسلوں کو مواقع فراہم کیے ہیں کہ وہ ایمان لائیں اور ایسی جمہوریت اور مساوات کا حصہ بن جائیں جس میں کسی قسم کی اونچ نیچ سرے سے موجود نہیں !۔ آج کے دور میں محمد(ۖ) کی تعلیمات ہی کا یہ اثر ہے کہ ایشیا و افریقہ میں ایسی بیداری کی لہر دکھائی دے رہی ہے جس سے مغرب کا خدا کو نہ ماننے والا لزراں وترساں ہے۔

”ای ڈرمنگھم”
عرب بنیادی طور پر انارکسٹ اور انتہا پسند تھے ۔ محمد(ۖ) نے زبردست معجزہ دکھایا کہ انہیں متحد کردکھایا۔ بلاشک وشبہ دنیا میں کوئی ایسا مذہبی رہنما نہیں گزرا جسے محمد (ۖ) جیسے سچے اور جانثار پیروکار ملے ہوں۔ اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ محمد(ۖ) نے عربوں کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ اس سے پہلے طبقۂ اناث کو کبھی وہ احترام حاصل نہیں ہوا تھا جو محمد(ۖ) کی تعلیمات کے نتیجے میں ملا۔ جسم فروشی، عارضی شادیاںاور آزادانہ محبت ممنوع قرار دئیے گئے۔ لونڈیاں اور کنیزیں جنہیں اس سے پہلے محض اپنے آقاؤں کی دل بستگی کا سامان سمجھا جاتا تھا،وہ حقوق ومراعات سے نوازی گئیں۔ غلامی کا ادارہ بوجوہ اس دور میں باقی رہا لیکن غلام کو آزاد کرنے والے کو سب سے بڑے نیکوکار قرار دیا گیا۔ غلاموں کیساتھ برابری کا سلوک روا رکھا جانے لگااور غلاموں نے دین کی تعلیم سے فیضاب ہوکر اعلیٰ مناصب حاصل کیے۔ ……….

” کتاب کے مندرجات پر تبصرہ”
کتاب میں موجود تمام مغربی دانشوروں کے تبصرے اس قابل ہیں کہ ان کو تمام مسلمانوں تک پہنچایا جائے۔تاہم اس بات کو بھی ذہن نشین ہونا چاہیے کہ جس انسانیت کا مظاہرہ رسول اللہ ۖ اورصحابہ کرام کے بعد مسلمانوں نے کیا ہے،وہ غیر مسلموں کے ہاں بھی قابلِ قبول اور بہترین رویہ قراردیا گیا ہے۔ اور یہ بات پیشِ نظر رہے کہ سلطان عبدالحمید خلافت عثمانیہ کے بادشاہ نے اپنے حرم میںساڑھے چار ہزار کنیزیں رکھی تھیں اور محمد شاہ رنگیلا نے محل کے بالاخانہ تک سیڑھیوں پر ننگی لڑکیوں کا اہتمام کیا تھا جن کے سینوں کو پکڑ پکڑ کر وہ زینے چڑھتا تھا اور انفرادی وااجتماعی زیادتیوں اور قتل وغارتگری سے تاریخ بھری پڑی ہے۔
یہاں اسلام ، مسلمانوں اور نبی کریم ۖ کے دفاع کیلئے نہیں بلکہ پوشیدہ حقائق تک عالم انسانیت کی فکر ونظر اور اسکے دل ودماغ تک کچھ حقائق پہنچارہا ہوں۔ حضرت حسین کی زوجہ محترمہ شیربانو شاہ ایران کی صاحبزادی اور شہزادی کو کس طرح مالِ غنیمت میں تقسیم کرکے پیش کیا گیا؟۔ غلامی ولونڈی کا سسٹم کیوں بوجوہ باقی رکھا گیا؟۔ جب ایران کے ظالم بادشاہ کا تخت الٹ گیا تو اپنے لوگوں میں بھی اسکے خاندان کیلئے کوئی جگہ اور نرم گوشہ نہیں تھا۔ایرانی انقلاب کے بعد اگر ایران کی شہزادی کا ایسی معزز شخصیت سے رشتہ ہوتا تو لوگ اس کو معیوب بھی نہیں سمجھتے تھے۔ اصل بات یہ تھی کہ غلام ولونڈی بنانے کا ادارہ جاگیردارانہ نظام تھا۔ نبی ۖ نے مزارعت کو سود قرار دیکر عالم انسانیت سے غلام ولونڈی بنانے کی فیکٹریاں ختم کرنے کا اقدام فرمایا تھا لیکن مسلمانوں نے حیلہ کرکے جواز نکالا تھا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ قرآن میں ملکت ایمانکم سے کہیں لونڈی و غلام مراد ہیں اور کہیں ایگریمنٹ۔ جو خواتین خرچے کا بوجھ خود اٹھاسکتی ہوں تو ان کیلئے نکاح کی جگہ ایگریمنٹ کی اجازت بھی ہے۔ نکاح میں نان نفقہ ، گھربار سب کچھ شوہر کے ذمے ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ معاشرے میں شدت سے اس کی ضرورت ہو لیکن اس کی جگہ بدکاری نے لے لی ہے۔ لونڈی وغلام کی حیثیت بھی جانور کی طرح ملکیت اور عبدیت کی نہیں رہی بلکہ ایگریمنٹ کے مطابق جب بھی کوئی مطلوبہ رقم ادا کردے تو مالک اس کو اپنے ہاں رکھنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔
تیسری اہم بات جس کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ ایک طرف دہشت گردی کی فضاء پیدا کرکے مسلمانوں کو انتہاپسند بنایا گیا اور دوسری طرف عالمی سطح پر سودکی منڈیوں میں پھنسی ہوئی دنیا کیلئے ایسے شیخ الاسلام پیدا کئے گئے ہیں کہ اب عالمی صہیونیت کے ظالمانہ معاشی نظام کے صف اول میں مسلمانوں کو بھی کھڑا کیا گیا ہے۔ جو اسلام جاگیردارانہ نظام کو ختم کررہاتھا وہ خاندانوں کو ہی نہیں پورے پورے ملک وخطے کو غلام اور بڑی بڑی قوموں کولونڈیاں بنار ہاہے تو اس سے بڑھ کر اسلام ، مسلمانوں اور خاتم الانبیاء ۖ کے خلاف کوئی سازش نہیں ہوسکتی ہے۔ ہمیں غرور کی جگہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی ہوگی۔
چوتھی بات یہ ہے کہ فقہ اور مسلکوں کے نام سے قرآن وسنت کا جو حلیہ بگاڑا گیا ہے،جب تک ان کی طرف توجہ نہیں دی جائے مسلمانوں کا حال کسی طرح سے بھی دوسری قوموں کے مقابلے میںاچھا نہیں ہوسکتا اسلئے کہ انہوں نے اپنا مذہب چھوڑ کر جمہوریت کے ذریعے سے اپنے قوانین بنانے شروع کئے ہیں۔
پانچویں بات یہ ہے کہ کتاب میں بعض جگہ حضرت عیسیٰ کی ذات پر رکیک حملہ کئے گئے ہیں جن کا تعلق عیسائیت کی بگڑی ہوئی تحریف سے ہوسکتا ہے۔ ہم رسولوں میں تفریق کے قائل نہیں،البتہ اللہ نے انبیاء ورسل میں بھی بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس فضیلت کا اقرار غیر مسلموں کی زباں سے زیادہ اچھا تھا لیکن ہمیں اپنے اعمال اسلام کی حقیقی تعلیمات کے مطابق ٹھیک کرنے ہونگے اور پھر دنیا میں ہرکوئی نبیۖ کی تعریف کرتا پھرے گا اور اللہ نے قرآن میں جو مقام محمود کا ذکر کیا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ نبیۖ کی تعریف کی جائے۔
جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے علاوہ اسلام کا معاشرتی نظام اہمیت کا حامل ہے اور اس کی طرف بالکل بھی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ پاکستان، افغانستان کے طالبان اور ایران کے علاوہ سعودی عرب، مصر، عرب امارات، قطر، سوڈان، عراق،ملائشیا، انڈونیشیا، افریقہ ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی، کینیڈا، امریکہ اور آسٹریلیا،روس سمیت دنیا بھر میں اسلامی احکام کو پہنچانے میں ابھی دقت نہیں ۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز