پوسٹ تلاش کریں

اسلام میں نہ صرف جمہوریت کی گنجائش ہے بلکہ دنیا میں جمہوریت کا حقیقی سہرا قرآن وسنت اور اسلام کے سرپر ہے!

اسلام میں نہ صرف جمہوریت کی گنجائش ہے بلکہ دنیا میں جمہوریت کا حقیقی سہرا قرآن وسنت اور اسلام کے سرپر ہے! اخبار: نوشتہ دیوار

اسلام میں نہ صرف جمہوریت کی گنجائش ہے بلکہ دنیا میں جمہوریت کا حقیقی سہرا قرآن وسنت اور اسلام کے سرپر ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جب جنرل ضیاء نے مارشل لاء لگایا اور پھر کچھ عرصہ بعد جنرل ضیاء الحق کے مخالفین نے تحریک شروع کردی تو لاہور میں دیوبندی مکتبۂ فکر کے بہت بڑے عالم دین مولانا محمد مالک کاندھلوی نے کہا تھا کہ ” پہلا مارشل لاء حضرت ابوبکر صدیق نے لگایا تھا”۔ موصوف کے والد مولانا ادریس کاندھلوی بڑے درجے کے عالم تھے لیکن اتنے سادہ لوح تھے کہ بیٹا محمد مالک اپنے باپ مولانا ادریس سے سائیکل چلانے کیلئے پیٹرول کے نام پر پیسے لیتا تھا۔ ملاجیون سے لیکر بہت بڑے بڑے علماء کی سادہ لوحی کے قصے زبان زد عام ہیں، اسلئے ملادوپیازہ کے نام سے بھی لطیفوں کی کتابیں مارکیٹ کی زینت بنتی رہی ہیں۔
اسلام کا بنیادی کردار یہی تھا کہ اولی الامر سے قرآن نے اختلاف کی گنجائش رکھی ہے جس سے جمہوری ذہن کا راستہ ہموار ہواہے۔ قرآن میں حضرت موسیٰ کا بہت زیادہ ذکر ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر سے اختلاف کیا تھا۔ حضرت موسیٰ نے حضرت ہارون کی داڑھی اور سر کے بال پکڑے تھے اور فرشتوں نے آدم کو زمین کا خلیفہ بنانے پر اعتراض اٹھایا کہ زمین میںخون بہائے گا اور فساد پھیلائے گا۔ جب اسلام نے اختلاف کے تقدس کا دنیا میں ڈنکا بجادیا تو اختلاف کو جمہوریت کا حسن قرار دیا جانے لگا۔ رسول اللہ ۖ کی سیرت طیبہ اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ جب نبی ۖ نے بدر کے قیدیوں پر مشاورت فرمائی تو اکثریت کی رائے فدیہ لیکر چھوڑ دینے کی تھی اور حضرت عمر اور حضرت سعد نے مشورہ دیا کہ ان کو قتل کردیا جائے۔ نبیۖ نے اکثریت کا مشورہ مان کر فدیہ لیکر چھوڑ دینے کا فیصلہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے اس فیصلے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کی تدبیر فرمائی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ قرآن میں اقلیت کے مشورے کی زبردست الفاظ میں تائید بھی فرمادی تھی، جس کی درست تفسیر کرنے سے ہمارے علماء بالکل قاصر نظر آتے ہیں اور اول فول باتیں بکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک طرف ان آیات کے ذریعے سے اکثریت کی رائے کو صائب اختلاف کے باوجود بھی قابلِ عمل ٹھہرا دیا تھا تاکہ قیامت تک ایک طرف کثرت رائے اور جمہوریت کی بنیاد پڑ جائے اور دوسری طرف افراد کے اختلاف کو اقلیت کے باوجود بھی بالکل کم اہمیت کا حامل نہ سمجھا جائے۔ بلکہ اس بات کا سوفیصد امکان رہے کہ اقلیت کی بات درست اور اکثریت کی بات غلط بھی ہوسکتی ہے۔ قرآن میں سیرت النبیۖ کے ذریعے بہترین جمہوریت کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ شیعوں کے اسلام اور نظریۂ امامت میں جمہورکی گنجائش نہیں ہے اسلئے اپنے بارہ اماموں کے مثبت کردار کو بھی منفی پروپیگنڈے سے بڑا بدنام کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ائمہ اہل بیت کے مثبت اور صائب کردار نے اُمت کو جمہوری مزاج پرقائم رکھنے کا کردار اداکیا۔ اگر حضرت علی چاہتے تو ابوسفیان کی پیشکش قبول کرکے حضرت ابوبکر کی خلافت کو ناکام بناتے۔ پھر حضرت عمر کی نامزدگی اور حضرت عثمان کی مختصر شوریٰ میں کثرت رائے کے ذریعے انتخاب بھی ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ حضرت علی کے کردار پر ماتم کرکے سینہ کوبی اور زنجیر زنی کی جگہ فخر کرنے کی ضرورت ہے۔ علامہ سیدجوادحسین نقوی ایک کٹر شیعہ ہیں اور اس طرح کے دیگر بہت سارے شیعہ علماء بھی ہیں جو ائمہ اہل بیت کے درست تشخص کو اجاگر کرکے ان اہل تشیع کی اصلاح کررہے ہیں جن کو جہالتوں نے بگاڑ دیا ہے۔ تاریخ کی کتابوں سے شیعہ اور خوارج کا ایک دوسرے کے خلاف استدلال پکڑنے میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا ایک دوسرے کے خلاف نقصان ہے۔ ہمارے ایک دوست کے دوست فرمان ایک کٹر شیعہ ہیں۔ ایک طرف وہ کہتا ہے کہ حضرت خدیجہ بالکل کنواری اور جوان تھیں جب نبیۖ نے شادی کی تھی اورچاروں بیٹیاں حضرت خدیجہ سے تھیں،کیونکہ یہ نبیۖ کی شان کے خلاف ہے کہ خود کنوارے ہوں اور کسی بیوہ سے شادی کریں۔ دوسری طرف اس کو جب بتایا کہ شیعوں کا یہ مؤقف ہے کہ حضرت فاطمہ کے علاوہ نبیۖ کی اور کوئی حقیقی صاحبزادی نہیں تھی تواس نے کہا کہ یہ شیعوں کا مؤقف نہیں ہے۔
اہل سنت اور اہل تشیع دونوں اپنے بادام اور اخروٹ کے مغز کو چھوڑ کرچھلکوں کیساتھ کھیل رہے ہیں۔ صحابہ کرام اور اہل بیت عظام دین کے مغز پر قائم تھے اور لوگ فرقہ فرقہ اور چھلکا چھلکا کھیل رہے ہیں اور فرقہ واریت کی آگ کوانہی چھلکوں سے بھڑکارہے ہیں۔ میں جاہل خطیبوں کی جہالت بھری خطابت پر اپنا وقت ضائع نہیں کرتا لیکن ساہیوال کے ایک گاؤں میں گیا تھا اور وہاں میرے ساتھ مولانا منظور احمد نے بھی خطاب کیا تھا۔ان کا یوٹیوب پر نام دیکھ کر سمجھنے کی کوشش کی کہ یہ وہی صاحب ہیں یا کوئی اور ہیں؟۔ اس نے تقریر میں صحابہ کرام کے متعلق قرآنی آیات سے زبردست استدلال پیش کیا اور پھر ان کے اتباع پر اپنے لئے بھی خوشخبری کی بات قرآن سے سنائی اور ساتھ میں قرآن کے الفاظ کو بھی بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا کہ ” اے اللہ ! جو ہم سے پہلے ایمان کے ساتھ گزر چکے ہیں۔ ان کیلئے ہمارے دل میں کھوٹ پیدا نہ فرما”۔ پھر آخر میں عبادت گزار لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے چوہدریوں کی بھی تعریف کی جن کی مدد سے مساجد اور مدارس میں علماء وطلبہ کی روزی روٹی چل رہی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ”ان چوہدری کی مخالفت کرکے نمک حرام مت بنو”۔
پھر علامہ جعفر حسین قریشی پر نظر پڑی تو اس کی تقریر بھی سن لی جو بہت زیادہ پیاری لگی۔ جب میں نے اوکاڑہ میں تقریر کی تھی تو نعت خوانوں کی نعتوں میں اہل سنت کا رنگ نظر نہیں آرہا تھا۔ علامہ جعفر حسین قریشی نے اپنوں کا یہ رنگ دیکھ کر فرمایا ہے کہ یہ ہماری کمزوری ہے۔ جس کی تقریر کے ایک حصے کو سنیوںاور دوسرے حصے کو شیعوں نے کاٹ پیٹ کر لگایا ہے۔ میری تقریر کے بعد سامعین میں سے کسی نے پوچھا تھا کہ یہ شیعہ تو نہیں؟۔ جبکہ مجھے ان میں سنیت کا احساس اجاگر ہونے پر خوشی ہوئی۔ کسی محلہ دار اہل تشیع نے میری تقریر سن کر کہا تھا کہ پہلی مرتبہ کسی اچھے علمی شعور والے بندے کو لائے ہو۔ اقبال نے پنجابی مسلمان کے نام سے خوب لکھا ہے کہ ”تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا” ۔
مولانا منظور احمد نے میری تقریر کے بعد جلسہ عام سے خطاب میں کہا تھا کہ ”میں نے آج تک ایسے علمی نکات نہیں سنے ہیں لیکن عوام کو یہ باتیں سمجھ میں مشکل سے آتی ہیںاسلئے کہ وہ خطیبوں کی سریلی آوازوں کی زبان سمجھتے ہیں”۔
علامہ عابد رضاعابدی کینیڈا سے سوشل میڈیا پر اہل سنت کی کتابوں سے بڑا مواد پیش کررہے ہیں اور اگر وہ ایک مہربانی کریں کہ حضرت علی کی بہن حضرت ام ہانی کی پوری کہانی بھی اہل تشیع کی کتب سے پیش کردیں ۔ جس نے ہجرت نہیں کی تھی اور حضرت علی فتح مکہ کے بعد اس کے شوہر کو قتل کرنا چاہتے تھے ۔ پھر اس نے نبیۖ سے اپنے شوہر کیلئے پناہ لی تھی۔ جو اولین مسلمانوں میں سے تھیں۔ جب نبیۖ نے ان کے شوہر کے جانے کے بعد نکاح کی دعوت دی تو اس نے اپنے مشرک شوہر سے محبت اور اپنے بچوں کی خاطر انکار کردیا۔ نبیۖ نے اس پر ان کی تعریف کی۔حضرت ام ہانی کا رشتہ حضرت ابوطالب سے پہلے بھی نبیۖ نے مانگا تھا لیکن حضرت ابوطالب نے اپنی لڑکی کا رشتہ نہیں دیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ” اے نبی! ہم نے آپ کیلئے حلال کیا ہے ان چچا اور خالہ کی بیٹیوں کو جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے”۔ حضرت ام ہانی کا نام علامہ بدرالدین عینی نے نبیۖ کی ازواج میں داخل کیا ہے۔ حالانکہ اللہ نے قرآن میں نبیۖ کو ام ہانی سے رشتے کو منع کرنے کے بعد دوسری بھی تمام خواتین سے رشتہ کرنے کو منع کردیا اور پھر ایگریمنٹ کی اجازت دیدی۔ قرآن کی ان آیات اور حضرت علی اور آپ کی بہن حضرت ام ہانی کے واقعہ سے اہل تشیع کی کتابیں ساقط نہیں ہوں گی اور اس سے اہل تشیع کے لوگوں میں بہت شعوروآگہی اور علم وفہم پھیلے گا۔ ان کے آپس کے جھگڑے بھی اس سے ختم ہوجائیں گے۔ اماموں نے اپنی ساری زندگی جمہوری طرز پر گزاردی لیکن کاروباری چالاک لوگوں نے مذہب کو دھندہ بناکر اپنا اُلو بھی سیدھا کرنا تھا۔
جمہوریت کی اس سے بڑھ کر کیا مثال ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو منع کردیا کہ مشرکات سے نکاح نہ کریں ،ان سے مؤمنہ لونڈیاں اچھی ہیں اگرچہ وہ مشرکات تمہیں بھلی لگیں اور مؤمنات کا مشرکوں سے نکاح نہ کریں،ان سے غلام مؤمن اچھے ہیں اگرچہ وہ مشرک تمہیں بھلے لگیں۔ پھر اللہ نے ہجرت کا حکم دیا۔ حضرت ام ہانی نے اپنے مشرک شوہر سے اپنا نکاح برقرار رکھا اور دین کے حکم پر ہجرت بھی نہیں کی لیکن اس کے باوجود ان کی عزت وتوقیر کرنا ایک فرض ہے اور قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کی درست توجیہات کو توہین و بے توقیری سے مشہور کرنا انتہائی غلط اور بددیانتی ہے۔ ایک شیعہ شاید یہ تصور بھی نہیں کرسکتا ہے کہ حضرت علی نے اپنے مشرک بہنونی کو قتل کرنے کا کوئی پروگرام بنایا ہو اور پھر نبیۖ نے حضرت ام ہانی کی سفارش پر منع کیا ہو۔ یہ ان کو امام کی عصمت کے خلاف لگتا ہے۔ وہ اپنے مؤقف کو اپنی کتابوں سے پیش کریں تو ہم وہ شائع کر دیں گے۔ قرآن میں اولی الامر کیساتھ اختلاف کی گنجائش ہے۔ نبیۖ کی سیرت اور قرآن کا یہ معجزہ تھا کہ اولی الامر کی حیثیت سے نبیۖ سے صحابہ کرام نے اختلاف کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ سورۂ مجادلہ، بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے اور دیگر مسائل پر قرآنی سورتوں میں واضح آیات ہیں۔ جب نبیۖ سے بھی قرآن میں اختلاف کی گنجائش کا واضح ذکر ہے تو کوئی اولی الامر کیسے ایسا ہوسکتا ہے کہ جس سے اختلاف کی گنجائش نہیں ہو؟۔ حالانکہ قرآنی آیت میں اولی الامر کیساتھ اختلاف کی گنجائش بالکل زبردست طریقے سے واضح کی گئی ہے۔
نبیۖ سے حدیث قرطاس کے معاملے پر حضرت عمر کے اختلاف کا واقعہ قرآن اور سیرت النبی میں کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ قرآن وسنت نے قیامت تک جمہوریت کی روح عالم انسانیت کو سکھادی ہے۔ جمہوریت میں سب سے بڑا فائدہ رائے کی آزادی اور ووٹ کے حق کا آزادانہ استعمال یقینی بنانا ہے۔
آج نام نہاد اور بے روح کاروباری جمہوریت کا یہ حال بن چکاہے کہ قوم ، حکومت، ریاست اور سیاسی پارٹیوں کے درمیان بدترین تصادم کا خطرہ موجود ہے۔ ایک حدیث ہے کہ اتبعوا السواد الاعظم ” اعظم جماعت کا اتباع کرو” جس سے اکثریت کے پیچھے چلنے کیلئے سمجھا جاتا ہے۔ اچھے علماء نے لکھا ہے کہ ”اس سے مراد اکثریت نہیں کیونکہ عربی میں اقل کے مقابل اکثر کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس سے مراد زیادہ عظمت والی جماعت ہے”۔ وزیروں کی اکثریت ہوتی ہے لیکن وزیراعظم ایک ہی ہوتا ہے اور ایک ہی کی بات مانی جاتی ہے۔
جب مختلف پارٹیوں اور جماعتوں میں ہر ایک کو اپنے اپنے ذہن کے مطابق عظمت والی جماعت کو ووٹ دینے اور اس کے پیچھے چلنے کی آزادی ہو تو یہی اس جمہوری نظام کو کہتے ہیں جو موجودہ دور میں رائج ہے۔ اسلام میں جمہوریت نہیں ہوتی تو مختلف فرقے بھی نہیں بن سکتے تھے اور فرقوں پر پابندی لگائی جاتی تو اس کو مذہبی آزادی اور جمہوریت کی روح کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کاروبار ی شکل نہ اختیار کرتی اور مذہب وسیاست کے نام پر کاروبار نہ ہوتا تو پاکستان سے انسانیت کیلئے عالمی انقلاب کا آغاز ہونے میں دیر نہ لگتی۔
شیعہ سنی افکار اور سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن جب تک ایک مضبوط بیانیہ حکومت، اپوزیشن، ریاست اور عوام کے سامنے نہیں آتا ہے تو یہ ملک وقوم تباہی کی طرف بہت تیزی سے جارہے ہیں۔ تحریک انصاف کے اندر کا بیانیہ شروع سے یہ تھا کہ ہماری35سیٹیں اسٹیبلشمنٹ نے ہمیں ہروائی ہیں اسلئے کہ اگر ہم اتحادی بیساکھیوں کے بغیرحکومت بناتے تو پھر اسٹیبلشمنٹ سے ہماری محتاجی ختم ہوجاتی۔ جن میں ایک سیٹ وہ فیصل جاوید کے مقابلے میں خواجہ آصف کی بتاتے ہیں۔35پنچر سے بڑا معاملہ یہی ہے۔ دنیا دیکھ رہی تھی کہ اتحادیوں کے سہارے کھڑی تحریک انصاف کی حکومت ایک اشارے سے گر سکتی ہے اور PDMنے اسٹیبلشمنٹ میں آرمی چیف اورDG آئی ایس آئی کا نام لے لے کر عوام میں تقریریں کیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ ہم غیرجانبدار ہیں۔ پھرDGISIپر حکومت اور فوج میں ناراضگی کا معاملہ آیا تھا۔ مسلم لیگ ن کے اندورنی اختلافات کی وجہ سے مرکز اور پنجاب میں تبدیلی ممکن نہیں ہوسکی تھی اور الزام پیپلزپارٹی پر لگایا گیا کہ استعفے ، لانگ مارچ کے بعد اس کا دھرنے دینے پر اتفاق نہیں ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی قابل اعتبار نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی کا فارمولہ تھا کہ پہلے تحریک عدم ِ اعتماد کا آئینی فارمولہ آزماتے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب اور شہبازشریف کو مرکز سپرد کریں گے۔ پھرجب PDMنے ایک لمبی مدت 23مارچ کی دیدی لیکن اسٹیبلشمنٹ کے خوف سے لانگ مارچ کرسکتے تھے اور نہ اپنی بات سے پھر سکتے تھے اسلئے تحریک عدم اعتماد کا شوشہ چھوڑ کر جھوٹے دعوے شروع کردئیے۔ خرید وفروخت کے ذریعے یہ ممکن بھی تھا اور مشکل بھی تھا لیکن PDMکی قیادت سنجیدہ نہیں لگ رہی تھی۔ اسلئے کہ پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کے ارکان کو بغاوت پر اکسانے اور یقین دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ جبکہ ن لیگ پنجاب میں وزارت اعلیٰ پرویز الٰہی کو دینے میں گومگو کا شکار تھی۔ اب سندھ ہاؤس اسلام آباد سے بھانڈہ پھوٹ چکا ہے۔
عمران خان نے 10لاکھ کا اجتماع D چوک پر کرنے کا اعلان کیا تو PDM نے بھی23مارچ کو اسلام آباد پہنچنے کا اعلان کیا۔ جس پرکور کمانڈر کانفرنس میں تلخ پیغام دیا گیا اور شیخ رشید نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن ماؤزے تنگ نہیں ایک عالم دین ہیں ، مولا جٹ بننے کی کوشش کاسودا مہنگا پڑسکتا ہے۔ مریم نواز اور شہباز کی قیادت میں لاہور سے نکلنے والے جلوس اورPDMنے23مارچ کی جگہ25 مارچ کا اعلان کردیا کہ غیرملکی مہمانوں کا ہمیں بھی احترام ہے لیکن اصل خوف ریاست کے میزبانوں سے ہے۔ دیکھئے سیاسی دنگل کا آخری نتیجہ کچھ تو نکلے گا۔
ہڑتال و احتجاج کی کال سے عوام کو باخبر رکھا جائے تو عوام اپنے مفاد میں اس کو کامیاب بناتے ہیں۔ سیاسی حکمت اور غیرت کا بھی یہی تقاضہ ہے۔ عوام کو ان کی مرضی کے بغیر مشکلات میں ڈالنا انتہائی درجے کی بے غیرتی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے جب سے پیشگی کال کے بغیر کارکنوں کے ذریعے عوام کو تکلیف دینا شروع کی ہے توعوام کو ان جماعتوں اور قائدین سے نفرت ہونے لگی ۔ اچانک روڈ اور تجارتی مراکز بند کرانے سے بچے اور خواتین بھی پھنستے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب ریاست عوام کے حقوق کی حفاظت نہ کرسکتی ہو تو تنگ آمد بجنگ آمد لوگ اپنی مدد آپ کے تحت سڑکوں کو بند کرنیوالے سیاسی کارکنوںکو مارنے کیلئے اپنی گاڑیوں میں سرئیے ، ڈنڈے اور اسلحے رکھنے شروع کردیں۔ ایک مرتبہ نوشہرہ اور دوسری مرتبہ کراچی میں لوگوں کو جمعیت علماء اسلام کے احتجاج پر بہت گندی گندی گالیاں دیتے ہوئے سنا ۔ عاقل کو اشارہ کافی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!
رسول ۖ کی عظمت کا بڑ اعتراف
جامعہ بنوری ٹاؤن کے بانی کا بہت مثالی تقویٰ