پوسٹ تلاش کریں

نوروز کے موقع پرمذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے عتیق گیلانی کا خطاب

نوروز کے موقع پرمذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے عتیق گیلانی کا خطاب اخبار: نوشتہ دیوار

نوروز کے موقع پرمذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے عتیق گیلانی کا خطاب

اسلام نے اہل حجاز کو انسانیت، عبدیت اور خلافت سکھائی توسپر طاقتیں سرنِگوں ہوگئیں

عرب میں فارس اور روم سے نہ آج زیادہ طاقت ہے اورنہ کل تھی،اسلام نظریہ تھا جس سے دنیا میں روشنی پھیلی، روشنی کے آگے اندھیرا نہیں رُک سکتا ،آج ساری چیزیں بالکل اُلٹ ہوگئیں

یہ جو ہم دیکھ رہے ہیں یہ اسلام کی بالکل مسخ شدہ صورت ہے۔یہ وہ ہے جب یورپ میں چرچ نے عوام کے اندر مذہب کی شکل کو مسخ کیاتو یورپ کی عوام نے مذہب کو چرچ تک محدود کردیا

اسلام جب آیا تو حجاز کے اندر نازل ہوا۔ حجاز کے اندر جو مشرک تھے جو جاہل تھے جو اُمی تھے وہاں پر اس کا نزول ہوا ہے۔ ان جاہلوں کو جب اسلام نے انسانیت سکھائی آدمی بننا سکھایا عبدیت سکھائی خلافت سکھائی تو نتیجہ کیا نکلا کہ دنیا کی دو سپر طاقتیں تھیں اس وقت ایک فارس اور ایک روم۔ وہاں جب یہ ڈنکا بجا کہ ایک سائڈ کے اوپر رسول اللہ کا عزیز ابوجہل ہے اور ابو لہب ہے جو نبی علیہ السلام کا چچا ہے۔ اس سے زیادہ عزت اور قدر ایک حبشی بلال کی ہے۔ جس کا نسب قوم کچھ بھی معلوم نہیں، کوئی کالا کلوٹا غلام۔ لیکن ان نسب والوں سے ، ان بڑے بڑے سرداروں سے اس کی عزت بڑی ہے۔ صہیب رومی کی عزت بڑی ہے، سلمان فارسی کی عزت بڑی ہے اور رسول اللہ ۖ نے یہ فرمایا کہ عرب کو عجم پر عجم کو عرب پر کوئی فوقیت نہیں فوقیت کا جو معیار ہے وہ کردار ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس وقت کی جو سپر طاقتیں تھیں وہ سرنگوں ہوئیں۔ عرب اتنے قابل لوگ نہیں تھے فارسیوں اور رومیوں سے نہ آج ان کے اندر زیادہ طاقت ہے نہ کل تھی۔ لیکن ایک نورکانظریہ تھا اور اس نظرئیے کو جب دنیا کے اندر پھیلایا گیا تو دنیا کے اندر روشنی پھیل گئی اور روشنی ایک ایسی چیز ہے کہ جس کے آگے پھر اندھیرا نہیں رُک سکتا۔ آج وہ چیزیں بالکل الٹ ہوگئی ہیں۔ امن کی جگہ تشدد نے لے لی ہے۔ خوشخبریوں کی جگہ پر لوگوں کیلئے راستے تنگ کردئیے گئے ہیں۔ حالانکہ یہ جو ہم دیکھ رہے ہیں یہ اسلام کی بالکل مسخ شدہ صورت ہے۔ یہ وہ صورت ہے کہ جب یورپ کے اندر چرچ نے عوام کے اندر مذہب کی شکل کو مسخ کرکے رکھا تو یورپ کے عوام نے مذہب کو چرچ تک محدود کرکے رکھ دیا اور آج یورپ کو دنیا کے اندر امن اور سلامتی کا گہوارہ سمجھاتا جاتا ہے اس میں کوئی تعصبات نہیں ہیں مذہب کی بنیاد پر، قومیت کی بنیاد پر، نسل کی بنیاد پر۔ یہ الگ بات ہے کہ اچھے اچھے کو جب طاقت ہاتھ میںآتی ہے تو طاقت کے بعد پھر وہ اپنی اوقات بھول جاتے ہیں۔قیصر و کسریٰ کو تو خلفاء نے فتح کیا۔ ایک عربی عالم گزرے ہیں ابوالعلاء معریٰ،1000سال پہلے شام کے بہت بڑے عالم تھے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام نے لونڈی بنانے کو ناجائز قرار دیا تھا۔ لیکن عربوں نے یورپ کو فتح کیا ، ایران کو فتح کیا تو ان کے جو ارادے تھے وہ بدل گئے۔ پھر دوبارہ اس کو جواز والی شکل دے دی۔ عربی میں غلام کو عَبد کہتے ہیں۔ بندے کی تو بندگی جائز ہی نہیں اسلام میں تو پھر کیسے آپ کسی کو غلام بناسکتے ہیں؟۔ قرآن کے اندر اللہ نے کہا ہے کہ بنی اسرائیل میں جو ابنیاء آئے ہیں ان کا مقصد کیا ہے وہ جو آل فرعون تھے وہ نبی اسرائیل کے مردوں کو قتل کرتے تھے اور عورتوں کو لونڈیاں بناتے تھے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم یہ کہیں کہ رسول اللہ ۖ کو اللہ نے ان امیوں کے اندر عربوں کے اندر اسلئے بھیجا کہ وہ فرعون کے قائم مقام بنیں کہ جو کام فرعون کرتا تھا وہ عربوں نے کرنا ہے وہ مسلمانوں نے کرنا ہے؟۔ یہ بالکل غلط تصویر ہے جو تاریخ کے حوالے سے ہمارے اوپر مسلط کی گئی ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ یہاں پر بات کس کی ہوئی؟ انسانیت کی ہوئی، بات کس کی ہوئی؟ مقصدیت کی ہوئی۔ بات کس کی ہوئی؟ خوشحالی کی ہوئی۔
بات کس کی ہوئی کہ یہاں پر ہم ایسا ماحول بنائیں کہ اپنے اعمال کے ذریعے سے اگلی دنیا کو سنواریں۔ یہاں اپنے لئے جنت بنائیں تو اگلی دنیا میں ہمیں جنت ملے گی۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ یہ مجلس ایک مقصدیت کی مجلس ہے۔ یہاں پر جو تشدد اور نفرتیں ہیں اس کے خاتمے کی بات ہوئی۔ وقت کم ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ موضوع ایسا ہے کہ اس موضوع پر ہمیں بات کرنی چاہیے۔ بھارت ہمارا کوئی دشمن نہیں ہے نہ ہمارا مذہبی دشمن ہے نہ نظام کے حوالے سے ہمارا دشمن ہے۔ وہ نظام جو برطانیہ لے کر آیا تھا ان کے پاس بھی وہی عدالت، وہی فوج وہی پولیس وہی چیز ہمارے پاس بھی ہے۔ تو کس بات کی نفرت؟۔ اگر وہ کسی بھگوان کا تصور رکھتے ہیں اللہ کے علاوہ تو آدم علیہ السلام کو سارے فرشتوں نے سجدہ کیا یہ ہمارا قرآن کہتا ہے۔ اگر قرآن یہ کہہ رہا ہے کہ آدم علیہ السلام کو سارے فرشتوں نے سجدہ کیا تو اس سے بڑا بھگوان اور کیا ہوسکتا ہے؟۔ یوسف علیہ السلام کو بھائی اور والدین نے سجدہ کیا۔ سورہ یوسف میں اس کا ذکر ہے۔ اسلام کے اندر بہت واضح ڈائریکشن دی گئی ہے۔ آپ نے شاید کبھی نہیں سنا ہوگا کہ اللہ نے کیا فرمایا ہے ان الذین اٰمنوا والذین ھادوا و النصاریٰ والصابئین من اٰمن باللہ و الیوم لآخر وعمل صالحا فلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون (سورہ بقرہ:آیت62)۔ بیشک جو لوگ مسلمان ہیں یہودی ہیں عیسائی ہیں صابئین جو اہل کتاب نہیں ہیں ان میں سے جو بھی اللہ پر ایمان لایا اور اس نے اچھے عمل کئے تو اس کیلئے اجر بھی ہے اور اس کیلئے خوف بھی نہیں ہے اور اس کیلئے کوئی غم بھی نہیں ہے۔من یعمل مثقال ذرةٍ خیرًا یرہمن کے اندر یہ نہیں کہ یہ عیسائی ہے یہ یہودی ہے یہ ہندو ہے جو بھی اچھا عمل کرے گا اس کو وہ دیکھے گا ۔ ومن یعمل مثقال ذرةٍ شرًا یرہ اور جو ذرہ بر بھی شر کرے گا وہ اس کو دیکھے گا اس کا نتیجہ پائے گا۔ قرآن میں ہر جگہ پر ایمان کے ساتھ عمل صالح کا ذکر ہے اور عمل صالح کیا ہے؟۔ عمل صالح نماز پڑھنا نہیں ہے۔ جو عبادات ہیں جو معاملات ہیں وہ تو سارے مذاہب کیلئے اللہ کہتا ہے کہ ہر ایک کیلئے شریعت اور منہاج الگ الگ ہیں۔ مجھے بعض لوگ کہتے تھے کہ ایک آدمی ہندو کے گھر میں پیدا ہوا ہے اس کا کیا قصور ہے کہ وہ جہنم میں جائے گا۔ میں نے کہا کہ کون کہتا ہے کہ جہنم میں جائے گا۔ اگر مسلمان اچھا عمل کرے گا تو بھی اس نے جنت میں جانا ہے اور برا عمل کرے گا تو جہنم میں جائے گا۔ ہندو بھی اگر اچھا عمل کرے گا تو جنت میں جائے گا برا عمل کرے گا تو جہنم میں جائے گا۔ قرآن نے کسی کو بھی ایسی پروٹیکشن نہیں دی ہے بلکہ پہلے والوں کی مذمت کی ہے کہ انہوں نے اپنے مذاہب کو بگاڑ دیا۔ قالو لن یدخل الجنة الا من کان ھودًا او نصٰرٰینہیں داخل ہوں گے مگر یہود اور نصاریٰ تلک امانیھم یہ ان کی خالی خواہشات ہیں (سورہ بقرہ:111)۔ و قالت الیھود لیست النصٰرٰی علیٰ شی ئٍ و قالت النصٰرٰی لیست الیھود علیٰ شی ئٍ۔ پہلے کہتے ہیں کہ صرف یہ دو جائیں گے پھر کہتے ہیں وہ کسی چیز پر نہیں ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ یہ کسی چیز پر نہیں ہیں۔ و ھم یتلون الکتٰب کذٰلک قال الذین لا یعلمون مثل قولھم (بقرہ:113)جو جاہل ہیں جو نہیں جانتے وہ بھی ان کی راہ پر چلتے ہیں ۔ آج ہم نے اپنے لئے جو دائرہ کار محدود کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جو پہلے قومیں تحریفات کا شکار ہوئی تھیں اس طریقے سے مسلمان بھی ا ن کے نقش قدم پر چل کر اسی طرح تحریفات کا شکار ہوا ہے اگر کوئی یہ بھولا ہوا سبق ان کو یاد دلائے گا تو یہ جو مسلمان ہیں بہت بڑی تعداد کے اندر ہیں۔ ان کا قرآن کی طرف رجوع اگر ہوجائے اور یہ بڑے بڑے معاملات دیکھیں تو نہ یہ کسی جہادی تنظیم کیلئے اس طرح سے استعمال ہوں گے نہ اسٹیبلشمنٹ کیلئے استعمال ہوں گے اور نہ عالمی قوتوں کیلئے استعمال ہوں گے۔ اب آپ سوچیں کہ یہاں پر ہوتا کیا ہے لال ربن کے نام سے امریکہ کے اندر ہفتہ یا کچھ دن منائے جاتے ہیں۔ ایک شخص نے یہ کہا تھا کہ میں اس قوم کی تبدیلی کیلئے کچھ کروں گا۔ پولیس میں گیا پھر فوج میں گیا پھر اینٹی نارکوٹکس میں گیا وہاں اس کو پتہ چلا کہ کچھ فوجی کچھ عوام کچھ مختلف ادارے ہیروئن اور اس کی اسمگلنگ میںملوث ہیں۔ جب اس نے نشاندہی کی تو اس کو اٹھاکر غائب کردیا اور مار دیا۔ لیکن اس کے مارنے کے بعد لوگوں میں شعور آگیا ۔ یہ جو ہیروئن ہے اب یہاں پر جو چھوٹی قومیں ہیں جہاں کمزور جگہ ہوتی ہے یہاں جنگیں برپا کرکے اصل میں یہ ڈرگ پیدا کی جاتی ہے۔ اور پھر یہ یہاں سے بڑے پیمانے پر جہازوں کے ذریعے سے دوسرے ذرائع سے یہ وہاں تک پہنچتی ہے یہ کاروبار ہے یہ جو دہشت گردی ہے یہ عالمی قوتوں سے لے کر مذہبی طاقتوں تک یہ ایک دوسرے کے ساتھ جوائنٹ ہے اور یہ لوگ یہ کاروبار کررہے ہیں۔ لوگوں کے ذہن کے اند ر یہ آتا ہے کہ شاید اسلام سے تشدد نکلتا ہے۔ جو چور ہوگا ڈاکو ہوگا اگر بڑے بال رکھے بڑی داڑھی رکھے قرآن کی آیتیں پڑھے تو ضروری نہیں ہے کہ وہ جو مذہب کا نام استعمال کررہا ہے وہ مذہبی بھی ہو۔ قرآن کے اندر ایک اور آیت کے اندر اللہ نے کیا فرمایا ہے یہاں پر مسلمانوں کو پہلے نمبر پر رکھا وہاں پرعبادت گاہوں کے اندر مسلمانوں کی عبادتگاہ کو آخر میں رکھا۔ ولو لا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع و صلوٰت و مساجد یذکرفیھا اسم اللہ کثیرًا( سورة الحج:40)پہلے نمبر پر جو غیر مسلموں کی عبادت گاہیں ہیںان کو رکھا ،مسجد کو بالکل آخر میں رکھا ،جس میں اللہ کانام کثرت سے لیا جاتاہے۔
آج اگر اسلام کا پیغام پہنچے تو ہماری بادشاہتیں ہماری حکومتیںہماری اسٹیبلشمنٹ یہ اس طریقے سے لوگوں کو غلام نہیں رکھ سکتی ہیں۔ وقت مختصر ہے لیکن میں آپ کو آخر میں ایک بڑی زبردست بات بتانا چاہ رہا ہوں۔ دیکھو! حضرت عائشہ صدیقہ کے اوپر بہتان لگتا ہے۔ وہ خلیفہ اول ابوبکر صدیق کی صاحبزادی ہیں۔ رسول اللہ ۖ کی گھر والی ہیں۔ تمام مسلمانوں کی ماں ہیں۔ بہتان لگتا ہے تو بہتان کیلئے قرآن سورہ نور کے اندر بدکاری کیلئے100کوڑے اور بہتان کیلئے80کوڑے۔ اگر کوئی کسی پر بہتان لگائے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ایک اتنی بڑی خاتون اول کے اوپر بہتان لگتا ہے تو جو بہتان لگانے والے ہیں اس کیلئے80کوڑے ہیں۔ اگر ایک جھاڑو کش عورت کے اوپر بہتان لگے اس کیلئے بھی وہی80کوڑے ہیں۔ اگر دنیا کو یہ میسج جائے کہ ام المؤمنین کے اوپر جو بہتان کی سزا تھی وہ ایک جھاڑو کش عورت کے اوپر بھی اگر بہتان لگایا جائے تو اس کیلئے بھی یہی سزا ہے۔ کیا میسج جائے گا؟۔ آج اگر بڑا چھوٹا ہم تقسیم کرتے ہیں تو ایک بڑے آدمی کے اوپر آپ بہتان لگاؤ تو وہ اربوں کے حساب سے آپ کے اوپر ہتک عزت کا دعویٰ کرتا ہے اور چھوٹے آدمی کے اوپر آپ بہتان لگاؤ تو اس کے پاس اتنی بھی گنجائش نہیں ہوتی کہ قانونی طور پر عدالت اور وکیل کی فیس ادا کرسکے اتنی بھی اس کی عزت نہیں ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ قرآن کے اندر اللہ نے کہا ہے کہ یہ ازواج مطہرات اگر غلطی کریں تو ان کو عام خواتین کے مقابلے میں ڈبل سزا ہوگی۔ یعنی100کے مقابلے میں200کوڑے ملیں گے۔ اور جو نچلے طبقے والے ہیں ان کو عام کے مقابلے میں آدھی سزا ملے گی ۔ اب یہ جو وی آئی پیز ہیں اگر ان کو بڑی سزا ملے اور عام آدمی کو،،، تو یہ دنیا سدھرے گی یا نہیں سدھرے گی؟۔ تو ہمارے لئے بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جس کو ہم اگر انسانیت کیلئے۔۔۔ جو آدمی جج ہو ، آرمی چیف ہو، سیاستدان ہو، اگر آرمی چیف کا ڈیٹا لیک ہوتا ہے آفیشلی ڈیٹا لیک ہونے پر اس کو مار پڑتی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز