پوسٹ تلاش کریں

پاکستان احیائے اسلام کا مرکز ہے اور یہاں بسنے والی قومیں قیادت کی حقدار ہیں۔ مولانا عبید اللہ سندھی

پاکستان احیائے اسلام کا مرکز ہے اور یہاں بسنے والی قومیں قیادت کی حقدار ہیں۔ مولانا عبید اللہ سندھی اخبار: نوشتہ دیوار

اسلام کی نشاة ثانیہ کا مرکز اور یہاں بسنے والی قومیں امامت کی حقدار
مولانا عبیداللہ سندھی نے اپنی تفسیر المقام المحمود کی سورة القدر کی تفسیرمیں بہت بڑاانکشاف کردیا تھا؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مولانا عبیداللہ سندھی نے کراچی کو اسلامی تحریک کا مرکز بنانے کا مشورہ دیا اور اگر کراچی میں یہ ممکن نہ ہو تو شکارپور سندھ کو مرکز بنانے کی تجویز رکھی تھی۔ آپ کا مشن اپنے استاذ اسیرمالٹا شیخ الہندمحمود الحسن کی تلقین پر قرآن کی طرف رجوع اور فرقہ واریت کا خاتمہ تھا۔ قرآن کے آخری پارہ عم کی تفسیر المقام المحمود میں سورة القدر کی تفسیر میں مولانا عبیداللہ سندھی نے زبردست انکشاف کیا ہے کہ
”سندھ، بلوچستان، کشمیر، پنجاب، فرنٹیئراور افغانستان میں جس قدر قومیں بستی ہیں یہ سب کی سب امامت کی حقدار ہیں۔ اسلام کی نشاة ثانیہ یہیں سے ہوگی ۔ اگر پوری دنیا کو بھی ہمارے مقابلے پر ہندو لے آئیں تو اس خطے سے ہم دستبردار نہیں ہوں گے۔ کیونکہ اب اسلام کی نشاة ثانیہ عرب نہیں عجم سے ہوگی اور عجم کا مرکزی حصہ یہی ہے۔ سندھ کا احادیث میں ذکر ہے اور پنجاب کے پانچوں دریا اور دریائے کابل وغیرہ اس کا حصہ ہیں۔ حنفی مسلک کی بنیاد قرآنی تعلیمات ہیں اور امام ابوحنیفہ ائمہ اہل بیت کے شاگرد تھے اسلئے ایران بھی یہاں کی قیادت کو قبول کرلے گا”۔(المقام المحمود)
مولانا عبیداللہ سندھی نے جلاوطنی کی زندگی گزاری ،تحریک ریشمی رومال کا آپ حصہ تھے جس میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور آپ کے شاگرد مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا عزیر گل مالٹا جیل پہنچائے گئے تھے۔1920میں شیخ الہند مالٹا جیل سے رہاہوکر ہندوستان واپس آگئے اور جیل میں قرآن کی طرف رجوع کا احساس پیدا ہوا تھا۔ دارالعلوم دیوبند اور مدارس نے آپ کی نصیحت اور وصیت کو نظرانداز کردیا کہ درسِ نظامی کو چھوڑ کر قرآن کی طرف رجوع اور فرقہ واریت کا خاتمہ کیا جائے۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے شیخ الہند کے مشن کیلئے سکول وکالج کے طلبہ پر توجہ دینے کی تلقین فرمائی۔ شیخ الہند نے1920میں حکیم اجمل خان کی یونیورسٹی کا افتتاح کیا، اسی سن میں وفات پاگئے۔ جمعیت علماء ہند سیاسی ڈگر پر کانگریس اور جمعیت علماء اسلام مسلم لیگ کیساتھ ہوگئی اور مولانا انور شاہ کشمیری نے دارالعلوم دیوبند کی تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔مولانا الیاسنے تبلیغ شروع کردی۔ مدارس اور تبلیغی جماعت کے کارکنوں نے اپنے اپنے حساب سے دین کی خدمت اور فرقہ واریت کے بیج بونے میں بھی زبردست کردار ادا کیا۔ مولانا عبیداللہ سندھی کی تحریک دھری کی دھری رہ گئی۔ مولانا انورشاہ کشمیری نے عمرکے آخری حصہ میں مولانا سندھی سے معافی مانگ لی اور یہ بھی واضح فرمایا کہ”میں نے مدرسے کی تدریس میں ساری عمر ضائع کردی، کیونکہ قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ فقہ کی فضول وکالت میں اپنی ساری زندگی ضائع کردی”۔
مولانا محمدالیاس نے عوام کے اندر دین کے فضائل کے ذریعے زبردست تحریک چلائی لیکن مدارس اور خانقاہوں سے بڑی تعداد میں لوگوں کے رجوع کا سلسلہ جاری ہونے کے باوجود کوئی خاطر خواہ نتیجہ اسلئے نہیں نکل سکا کہ قرآن کی طرف رجوع کے بجائے مولانا انور شاہ کشمیری کے طرز پر زندگی ضائع کرنے کا سلسلہ جاری تھا۔ علامہ سید محمدیوسف بنوری نے اپنے مدرسے کی بنیاد تقوے پر رکھی لیکن نصاب کی تبدیلی کا انقلاب برپا کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حضرت حاجی محمد عثمان نے فرقہ وارنہ تشخص کے خاتمے کیلئے مسجد کانام الٰہیہ رکھا۔ مدرسے کانام محمدیہ رکھا، خانقاہ کانام چشتیہ ، یتیم خانہ کا نام سیدنا اصغر بن حسین رکھا اور خدمت گاہ کا نام قادریہ رکھا۔ ہزاروں مکاشفے دیکھنے والوں میں علماء کرام، تبلیغی جماعت میں چار ماہ لگانے والے اور اہلحدیث حضرات بھی شامل تھے۔
ایک مکاشفہ یہ بھی بیان ہوا کہ حضرت شیخ الہندمحمود الحسن نے مولاناالیاس کے ہاتھ سے حاجی محمد عثمان کی تاج پوشی کردی۔ مولاناسید محمد یوسف بنوری کی حاجی محمد عثمان سے دوستی تھی۔ مفتی احمدالرحمن ، مفتی ولی حسن ٹونکیحاجی عثمان کے ہاں آتے تھے۔ جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر اور میرے استاذمولاناشیرمحمد کہتے تھے کہ ”مفتی ولی حسن میرے استاذہیں لیکن اپنے دشمن مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی اور مفتی رشید لدھیانوی کے ہاتھوں اپنے دوست حاجی محمد عثمان کے خلاف استعمال ہوگئے”۔ بڑے معروف مدارس کے علماء و مفتیان حاجی محمدعثمان سے بیعت تھے اور8بریگڈئیر،ایک کور کمانڈر نصیر اختر اورمیجر جنرل خواجہ ضیاء الدین بٹ بھی بیعت تھے۔ جس کو پھر بھاگنے کے بعد پرویزمشرف کے دور میں آرمی چیف بننے پرانتہائی ذلت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اگر دارالعلوم کراچی1970میں جمعیت علماء اسلام کے خلاف سازش نہ کرتی تو جمعیت علماء پاکستان کیساتھ مل کر اقتدار میں بھی آسکتی تھی۔ اس فتوے کا اثر آج بھی جمعیت علماء اسلام کے خلاف مذہبی حلقوں میں موجود ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے اسلامی سوشلزم کے مقابلے میں مفتی محمود ، مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا عبیداللہ انور اور مولانا عبداللہ درخواستی کی جماعت امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں پاکستان کو اسلامی نظام دے سکتی تھی۔کیونکہ یہ لوگ مولانا عبیداللہ سندھی سے عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ جماعت اسلامی نے امریکہ ہی کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ آخر کار مذہبی سیاسی قیادت سے بدظن مدارس نے جماعت اسلامی کے شانہ بشانہ امریکی جہاد کا بیڑہ بھی اٹھالیا ۔ جماعت اسلامی کرائے کے مجاہد کی ماں اور جنرل ضیاء الحق اس کا باپ تھا اور امریکہ اس کا دادا تھا۔ جب امریکہ نے عاق کردیا ۔ جنرل ضیاء فوت ہوگیاتو مولانا فضل الرحمن سوتیلا باپ بن گیا۔ جماعت اسلامی کچھ عرصہ متحدہ مجلس عمل میں جمعیت علماء اسلام کیساتھ رہی اورپھر اپنے سارے ڈھانچے کے باوجود ایک کونے میں سمٹ گئی۔ ابMQMکے ساتھ ملکر کراچی میں بلدیاتی نظام کے نام پر توانائی حاصل کرنے میں لگی ہے۔
ملی یکجہتی کونسل میں اسکے پارٹنر جمعیت علماء اسلام س کا وجود محدود ہوگیا ہے اور اسلامی جمہوری اتحادمیں اسکے پارٹنر مسلم لیگ ن پر جمعیت علماء اسلام نے اپنا اثر جمالیا ہے۔متحدہ مجلس عمل کو چھوڑ کر تحریک انصاف کیلئے بھی جماعت اسلامی نے بیساکھی کا کردار ادا کیا تھا لیکن اب وہ آخری حربے کے طور پر الطاف حسین کے دریتیم کوکسی اشارے پر استعمال کرنا چا ہے گی۔ پہلے احتجاجی دھرنے کے بڑے بڑے بینروں پر جماعت اسلامی نے نام تک بھی نیک نامی کی وجہ سے درج نہیں کیا تھا لیکن جب پیپلزپارٹی کے رہنما سعید غنی نے بڑا طعنہ دیا تو پھر جماعت اسلامی لکھ دیا گیا۔ بہروپ بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا ،اصلیت اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ مشعال خان کے بہیمانہ قتل پر سراج الحق کا اسلام کچھ اور تھا اور سری لنکن شہری کے قتل پر کچھ اور تھا۔ سلیم صافی جیو گروپ کے ناطے نوازشریف سے تعلق اور مولانا فضل الرحمن سے ہمدردی کے باوجود سخت سوالات کرلیتا ہے لیکن جب سراج الحق نے سری لنکن شہری پر اپنا مؤقف دیا تو سلیم صافی نے صحافت کا حق ادا کرتے ہوئے مشعال خان کے بارے میں رویہ کا سوال نہیں اٹھایا۔ جو صحافت، اسلام اور پشتو غیرت کا کوئی تقاضہ نہیں ہے لیکن جماعت اسلامی سے پرانی یاری کا حق ادا ہورہاہے۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی اور دار العلوم دیوبند کے ماننے والوں نے جب سود کو جائز قرار دیا ہے تو پھر لڑائی کس بات پر ہے؟۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

بیداری کسی عنوان کے بغیر اور شیطان پر ایک حملہ
مشرق سے دجال نکلے گا جس کے مقابلے میں امام حسن علیہ السلام کی اولاد سے سید گیلانی ہوگا! علامہ طالب جوہری
حقیقی جمہوری اسلام اور اسلامی جمہوری پاکستان کے نام سے تاریخ ، شخصیات ، پارٹیاںاور موجودہ سیاسی حالات :حقائق کے تناظرمیں