پاکستان کے معاشی بحران کا حل کیا؟
اپریل 12, 2023
پاکستان کے معاشی بحران کا حل کیا؟
پاکستان کے وسائل کیا ہیں؟ اور اخراجات کیا ہیں؟۔ جب تک وسائل اور اخراجات میں توازن قائم نہیں ہوتاہے تو پاکستان کے معاشی بحران کا حل نکالنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ بڑا المیہ یہ ہے کہ مسائل کاسامنا کرنے کے بجائے ہم اس سے فرار کی راہ اختیار کرتے ہیں۔پاکستان میں کونسے ایسے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے ہیں جن سے وسائل پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے؟۔
پاکستان کو گردشی سودی قرضوں کی مد میں کتنی سالانہ رقم دینی پڑ رہی ہے؟۔35ارب ڈالر!۔ اتنی بڑی رقم ادا کرنے سے بدلے میں ہمیں کیا ملتا ہے؟۔ اس کا جواب کیا ہے؟۔ بالکل زیرو!۔ اس سے بچنے کا راستہ کیا تھا؟۔ اللہ نے سود کی حرمت قرآن میں نازل کی ہے اور اس کو اللہ اور اسکے رسول ۖ کیساتھ جنگ قرار دیا ہے۔ اس سے راہِ فرار کیسے اختیار کرتے ہیں؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ”اس کو اسلامی بینکاری کا نام دیدیں۔ بھلے اسکے بدلے میں ہم35ارب کی جگہ37ارب ڈالر ادا کریں ”اسلئے کہ شیخ الاسلام کی بھی اس میں فیس ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مفتی محمد تقی عثمانی کو شیخ الاسلام اور مفتی قرار دینے کی جگہ اسلامی بینکاری کانفرنس میں کہا کہ ” تقی صاحب سے میں نے کہا تھا کہ آپ اسلامی بینکاری کو کامیاب کرنا چاہتے ہو تو پھر عام بینکوں سے شرح سود2%زیادہ کیوں رکھی ہے؟۔ اس طرح کون اسلامی بینکوں کی طرف آئے گا؟۔ پچھلی حکومت میں انہوں نے مہربانی کی تھی اور پھر شرح سود تھوڑی کم کی تھی”۔ پروگرام میں مولانا فضل الرحمن اور مدارس کے علماء ومفتیان بھی شریک تھے۔
پروگرام کا مقصد یہ تھا کہ حکومت اسلامی بینکوں سے وعدے وعید کرے کہ زیادہ شرح سود کی بنیاد پرعلماء ومفتیان کے اس کاروبار کو فائدہ پہنچائے لیکن وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کھلے الفاظ میں کہہ دیا کہ زیادہ شرح سود کی بنیاد پر ریاست کو نقصان پہنچانا ہوگا تو ہمیں بھی کچھ نہ کچھ دینا ہوگا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سودی نظام کو اسلامی بناکر تم مولوی اپنے فائدے حاصل کرو اور ہمیں کچھ نہیں دو؟۔
ایک اسلام کے نام پر دھوکہ ؟۔ دوسرا شرح سود زیادہ ؟۔ تیسرا مولانا فضل الرحمن اور اسحاق ڈار کی کمیشن ؟۔بدلے میں کیا حکومت کی تائید کیلئے علماء کرام کی حاضری! کیا اس سے ہمارے معاشی نظام میں بہتری آئیگی یا ابتری؟۔ اس طرح حکومت نے سول بیوروکریسی کے مختلف اداروں میں اپنے دلال رکھے ہیں اور ان کا کام ریاست کو نقصان پہنچانے کیلئے سہولت کاری ہوتی ہے۔ اس نظام کی اصلاح کیلئے بہت بڑے پیمانے پر ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت تھی۔ پاک فوج نے سمجھ لیا کہ ملک کو سول بیوروکریسی نے کھالیا ہے اسلئے اس نے بھی اس گنگا میں ہاتھ دھونا شروع کردئیے ہیں۔کسٹم، اینٹی نارکوٹس اور سمگلنگ کے معاملات میںگنگا کے ساتھ ساتھ جمنا نے بھی ڈیرے لگالئے ہیں۔ افغانستان کے نام پر مال بک ہوتا ہے اور پہلے افغانستان جانے کے بعد واپس آجاتا تھا اور اب اس تکلف کی بھی ضرورت نہیں رہی ہے۔ جس بوری میں محصولات جمع کئے جارہے ہوں اور وہ ہرطرف سے پھٹا ہوا ہو تو پھر مال جمع کہاں سے ہوسکے گا؟۔ پاکستان میں سول بیوروکریسی گنگا اور ملٹری بیوروکریسی جمنا کا کردار ادا کررہے ہوں تو محصولات قومی خزانے میں جمع ہونے کے بجائے قومی اداروں کے ناک سے نزلے کی طرح بہہ رہے ہوں گے اور کوئی ناک صاف کرنے کیلئے کہے گا تو اس گستاخی پراس کی جان بھی جاسکتی ہے۔ جب معاشی بحران کے حل کی تجاویز پر جان، مال اور عزت جانے کے خطرات ہوں تو کون پاگل یہ رسک لے گا؟۔ جب محافظ رہزن بن جائیں تو پھر دلال قسم کے سیاستدان ہی کام کریں گے۔
کرنل انعام الرحیم کی مانیٹرنگ
پاک آرمی کے کرنل انعام الرحیم میڈیا پر جس طرح کی اصلاحات بتاتے ہیں ، اس سے پاکستان میں آرمی کے اندر بہترین سسٹم کا اجراء ہوسکتا ہے۔ جب پاکستان میں دلال قسم کے سیاستدانوں سے قومی خدمات لی جائیں گی اور پوری قوم ان کو ہیرو کے طور پر دیکھے گی تو پاکستان معاشی بحرانوں سے کبھی نہیں نکل سکے گا۔ ہر نئی حکومت اور نیا سیاسی لیڈر ایک نیا طوفان لے کر آئے گا۔
عمران خان ، نوازشریف، آصف علی زرداری ، مولانا فضل الرحمن ، شیخ رشید اور پرویزالٰہی وغیرہ نے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض ادا نہیں کیا ہے۔ کرنل انعام الرحیم جیسے لوگوں کی قیادت میں ایک ایسی ٹیم تشکیل دی جائے جن کا کام امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہو۔ جو سول وملٹری بیوروکریسی کے اندر اچھے لوگوں کی تائید اور برے لوگوں کو برائی سے روک لیں۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ
” اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے کہ جو خیر کی طرف دعوت دیںاور معروف کا حکم دیں اور برائی سے روکیں”۔ جب ایک مستقل جماعت اس کارِ خیر کیلئے وقف ہوگی تو میڈیا کی بلیک میلنگ ،اشتہارات ، قوم کو تفریق اور انتشار کا شکار بنانے سے ریاست اور حکومت کو چھٹکارا مل جائے گا۔ شفاف کام کے بعد غلط فہمیاں پیدا کرنے والے عناصر سے کوئی خوف نہیں ہوگا۔ حامد میر کی طرف سے اتنا کہناکافی ہوتا ہے کہ” میڈیا آزاد نہیں ہے۔ جب درست باتیں کریںگے تو پھر چینل بند ہوجائے گا”۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ پتہ نہیں کیا طوفان برپا کیا ہوا ہے ہماری فوج نے جس میں زبان کھل گئی تو سب زمین بوس ہوگا ؟۔
عدالتی بحران میں جب قومی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا ، جس میں وزیراعظم اور سول وملٹری قومی قیادت نے شرکت کی۔ حامد میر نے خبر دی کہ عمران خان کی مخالفت میں سب کچھ پک کر تیار ہوچکا ہے۔ جس سے چیف جسٹس پر دباؤ ڈالنا اور عمران خان کے حامیوں کی حوصلہ شکنی مقصود تھی۔ لیکن جب حکومت نے اپنے اجلاس میں یہ فیصلہ نہیں کیا کہ ” الیکشن کمیشن کو پیسے ریلیز کرنے ہیں یا نہیں؟۔ تو اس سے حامد میر کی خبر بالکل جھوٹی ثابت ہوگئی ، جو گوگلی نیوز نے بہت سجاکر پیش کی ہے”۔ اس سے جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف منسوب اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ” حامد میر جھوٹ بہت بولتا ہے”۔ صحافت ریاست اور حکومت کیلئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ادارہ ہوتا ہے۔ حامد میر کا بھائی عامر پیپلزپارٹی کے رہنما سے ایک صحافی کیسے بن گیا؟۔ جس نے صحافی کی حیثیت سے عبوری حکومت میں وزارت کا حلف اٹھایا ہے؟۔ جب جیو اور مسلم لیگ ن ایک پیج پر تھے اور پیپلزپارٹی حریف جماعت تھی تو حامد میر جیو سے باہر دوسرے میڈیا چینل پر مسلم لیگ ن کی مخالفت بھی کرتے تھے۔ اب پیپلزپارٹی مسلم لیگ کی حلیف جماعت ہے اور عامر میر کو بھی عہدہ مل گیا ہے تو حامدمیر جھوٹ بولنے سے دریغ نہیں کرتا ہے۔ حامد میر نے پہلے شہباز گل کے بارے میں جھوٹی خبر دی کہ اس کو ننگا کرکے اس کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے۔ لیکن جب شہباز گل اور عمران خان کو فوج کیساتھ لڑانے کی دلالی میں کامیابی مل گئی تو حامد میر نے اس پر کبھی لب کشائی تک نہیں کی۔ جیو ٹی چینل کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جگہ مریم نواز اورPDMنے یہ فریضہ سونپ دیا تھا کہ عمران خان اور فوج کو لڑانا ہے۔ حامد میر کی کامیاب وارداتوں کے بعد جیو ٹی وی کے ہیرو اور بہت اہم تجزیہ نگار بن گئے۔تاہم کھلے دلال صحافیوں کے مقابلے میں حامد میرپھربھی بہترین ہیں۔
صحافت پر پابندی ریاست و حکومت اور ملک وقوم کا ناقابل تلافی نقصان ہے لیکن جب صحافت بلیک میلر بن جائے تو پھر ریاست اور حکومت کا فرض بنتا ہے کہ اچھے لوگوں کی قیادت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ادارہ بنائیں اورقوم کے اعتماد کو برقرار رکھنے کا سامان کریں اور اپنے اندر کی کالی بھیڑوں سے جان چھڑائیں۔معاشی بحران کے حل کیلئے بلیک میلنگ سے نکل کر شفافیت کے ایک ایسے ادارے کی ضرورت ہے جس سے درست اور غلط کی نشاندہی ہوسکے۔
پنجاب کی45ہزار ایکڑ زمین کا مستحق؟
پنجاب کی عبوری حکومت نے پنجاب کی45ہزار ایکڑ زمین کو پاک فوج کے حوالے کردیا ہے۔ کیا قانونی طور پر اس کو یہ مینڈیٹ حاصل ہے کہ اتنا بڑا قدم اٹھائے؟۔ کل جسٹس فائز عیسیٰ چیف جسٹس ہوں گے اور پاک فوج سے یہ زمین واپس لینے کیلئے کیس دائر کیا جائے گا اور اس سے پاک فوج کو اخلاقی نقصان اور فائز عیسیٰ کو فائدہ پہنچے گا تو لوگ کس کیساتھ کھڑے ہوں گے؟ اور اس کے اثرات کیا مرتب ہوں گے؟۔ یہ کبھی سوچا ہے؟۔
بلوچستان میں ایران سے پیٹرول سمیت کئی اشیاء کی سمگلنگ ہوتی ہے اور اس سے بلوچ قوم اور سرکاری اداروں کے لوگ مستفید ہوتے ہیں لیکن ریاست کو نقصان پہنچتا ہے۔ افغانستان سے کوئٹہ اور پشاور میں سمگلنگ سے پشتون قوم اورسرکاری اداروں کے لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ جس سے سرکار کو نقصان پہنچتا ہے۔ جب باقاعدہ ٹیکس اور کسٹم کا سسٹم قائم کیا جائے تو بلوچ اور پشتون بھی اس سے خوش ہوں گے اور ایک صحت مند تجارتی تحریک سے شریف لوگ زیادہ فائدہ اٹھا سکیںگے۔ پختونخواہ ، بلوچستان کے علاوہ سندھ میں بھی کراچی کا سی پورٹ ہے جس سے تجارتی سرگرمیوں میں بہت مدد مل رہی ہے۔ اندرون سندھ اچھے ہوٹل ہوتے تو سندھیوں کیلئے یہ بھی بہت بڑا روزگار تھا اور وہ اس میں دکانیں اور اچھے کاروباری مراکز بھی کھول سکتے تھے۔ آنے جانے والے سبزیوں اور پھلوں سے لیکر سندھ کے بہترین سوغات اور مصنوعات بھی خریدتے۔
پنجاب کو مطعون کیا جاتا ہے اور سب سے زیادہ محنت کش لوگ پنجابی ہیں۔ غربت کی وجہ سے جنسی بے راہرویوں کے شکار پنجابیوں کو روزگار کے موقع اس وقت بالکل بھی حاصل نہیں ہیں۔ ہندوستان کی سرحد پر سندھ اور بھارت کی فوج میں دوستی کا ماحول ہے لیکن پنجاب میں سخت دشمنی کے مناظر ہیں۔ بھارت کی سرحد کو تجارت کیلئے کھولنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بھارت کا گندم ، تیل، ادویات اور بہت ساری چیزیں دوبئی سے ہوکر آتی ہیں یا افغانستان سے پہنچتی ہیں تو بہت مہنگی پڑجاتی ہیں۔ پنجاب حکومت بھی اس میں اپنا جائز منافع رکھے۔ عوام کو بھی استفادہ اٹھانے کا موقع دے۔ علامہ اقبال کے صاحبزادے جسٹس جاوید اقبال مرحوم کی یادگار باتوں سے پاکستانی قوم کی تقدیر بھارت کیساتھ کوئی اچھے مراسم قائم کرنے سے بدل سکتی ہے تو اس میں دیر نہیں لگانی چاہیے۔
پنجاب کی عبوری حکومت نے جو45ہزارایکڑ زمین فوج کو دی ہے وہ ان مزارعین میں تقسیم کی جائے جو پرائی زمینوں پر غلامی سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ جب سود کی آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ ۖ نے مزارعت کو بھی سود قرار دے دیا۔ پاکستان اس حال کو پہنچ گیا ہے کہ لوگ فاقہ کشی کا شکار ہیں لیکن ہمارے حکمران آپس کے مراعات پر لڑرہے ہیں۔ جب غریب کے منہ سے اس کا ایک نوالہ بھی چھین لیا جائے تو اللہ رحمت کی جگہ لعنت ہی برسائے گا۔ ہماری قوم کی حالت بدسے بدتر اسلئے ہورہی ہے کہ مال پر مراعات یافتہ طبقہ قابض اور غریب لوگوں کی عزتیں لُٹ رہی ہیں۔ جب پنجاب میں مزارعین کو مفت زمین مل جائے گی تو سندھ شاہ عنایت شہید کی دھرتی ہے جس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اسلئے جام شہادت نوش کیا تھا کہ ”اس نے اسلامی نعرہ لگایا تھا کہ جو فصل بوئے گا وہی کھائے گا”۔ شاہ عناعت شہید شاہ عبداللطیف بھٹائی کے خلیفہ تھے اور جس وقت یہ نعرہ لگایا تھا تو اس وقت کارل مارکس پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔
اٹھو! مری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخِ امراء کے در ودیوار ہلادو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہوروزی
اس کھیت کے ہرخوشہ گندم کو جلادو
غیرسودی بینکاری اور خلافت کا نظام
پاکستان عالم اسلام اور پوری دنیا کی سطح پر خلافت کا آغاز کرنے کیلئے ایک غیرسودی بینکاری نظام متعارف کرائے۔جس میں0%سود ہو۔ پوری دنیا سے مسلمانوں اور غیر مسلموں کی ایک بہت بڑی تعداد عالمی سودی نظام سے چھٹکارا پانے کیلئے اس میدان کے اندر نکل سکتے ہیں۔ سودی نظام سے صرف ہمارا پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا متأثر ہورہی ہے۔ مذاہب کا سود کی حرمت پر اتفاق ہے۔جو سود کی حرمت کو تسلیم کرتا ہے وہ مسلم ہے اور جو سودی معاملات سے اپنے آپ کو بچاتا ہے وہ مؤمن ہے اور جو سود کی حرمت کا منکر ہے وہ کافر ہے اور جو سود کی حرمت کو حلال کرنے میں تبدیل کرتا ہے وہ دجال ہے۔ آج ہمارامذہبی طبقہ ایمان اور اسلام کی سرحدات سے نکل کر کافر نہیں بلکہ دجال کا کردار ادا کررہا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے اسلامی بینکاری کو بالکل سود قرار دے دیا تھا مگر تنظیم اسلامی کا امیر شجاع الدین شیخ اسلامی بینکاری کا دلال بن گیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کسی دور میں بینکوں کی زکوٰة کو شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل قرار دیتا تھا لیکن اب سودی بینکاری کو اسلامی قرار دینے سے بھی شرم محسوس نہیں کرتا ہے۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی وفاق المدارس پاکستان کے بورڈ کے صدر ہیں اور دوسرے بورڈ کی نکیل جامعة الرشید کے ہاتوں میں ہے۔ دونوں اسلامی بینکاری کے نام پر عالمی سودی نظام کے دلال بن گئے ہیں۔ جن علماء ومفتیان نے کراچی اور پاکستان کی سطح پر مزاحمت کی تھی وہ سب اکابر دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ جو باقی رہ گئے ہیں وہ رام کرلئے گئے ہیں۔
مغرب اور دنیا کی سطح پر درست اسلام کی تبلیغ ہو جائے تو نہ صرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عالمی سطح پر نفرتوں کا خاتمہ ہوگا بلکہ عوام کے سیاسی واخلاقی دباؤ پر حکومتوں کی پالیسیاں بھی پاکستان کی ریاست ، اسلام اور مسلمانوں کیلئے بہترین ہوجائیں گی۔ عمران خان اور دوسرے سیاستدان جب اپنی لابنگ کیلئے امریکہ وغیرہ میںفرم ہائیر کرتے ہوں اور معروف یہودی زلمے خلیل زاداس کی وجہ سے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتا ہو تو معاملات میں بہتری نہیں آئے گی۔ بیرون ملک رہنے والوں کی اپنے ملک سے محبت ایک فطری بات ہے لیکن جب بیرون ملک سے پاکستان آنے والوں کیساتھ ہماری پولیس، کسٹم اہلکار اور دوسرے اداروں کا سلوک بدترین ہوگا تو وہ اس محبت کو کیسے قائم رکھ سکتے ہیں؟۔
حال ہی میں ایک سندھی پروفیسر اجمل نے اپنی سندھ دھرتی کیلئے قربانی دی اور بیرون ملک سے بھاری تنخواہ چھوڑ کر سندھ کی غریب عوام کو پڑھانے آیا اور پھر خاندانی اورقومی اور نسلی دشمنی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ محسن داوڑ کو حکومت نے فنڈز دے دئیے تو نوازشریف کیلئے قرار داد پیش کردی۔ یہ وہی نوازشریف ہے جس نے طالبان اور فوج کا ساتھ دیکرANPکے رہنماؤں اور کارکنوں کے قتل کو امریکہ کی حمایت کے کھاتے میں ڈالا تھا؟۔ علی وزیر بھی شاید فنڈز لگانے کی جیل میں کہیں نظر بند ہواہے؟۔ جب نفرت کی سیاست کی جاتی ہے تو اس کے اثرات علاقائی سطح پر خاندانوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ محسن داوڑ اور علی وزیر بہت اچھے اسپیکر اور متحرک شخصیات ہیں ،ان کی مثبت سرگرمیوں سے پاکستان ، عالم اسلام اور عالم انسانیت کو بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ علی وزیر کا خاندان حکومت کی خدمت یا فوج کی حفاظت اور طالبان کاز کی مخالفت سے قربانی کی بھینٹ نہیں چڑھا تھا بلکہ کالج لائف سے علاقائی سطح تک بدمعاشی اور ذاتی رنجشوں کا نتیجہ تھا اور جو ڈاکٹر گل عالم وزیر بیت اللہ محسود کا سہولت کار تھا وہی ابPTMکیلئے اور علی وزیر کیلئے سہولت کاری کی خدمات انجام دیتا ہے۔
وزیر قوم نے ایک فرد کے تحت اپنی زبردست تنظیم بناکر ترقی وعروج کی راہ ڈھونڈ لی ہے جو دوسروں کیلئے قابلِ تقلید ہے اور عالمی سطح پر پاکستان اس طرز عمل سے فائد ہ اٹھا سکتا ہے۔ خوبی اور خامیاں سب میں ہوتی ہیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اداروں کا قیام ہر سطح پر قوم کی رہنمائی کیلئے ضروری ہے۔
اوریا مقبول جان نے سچ اُگل دیا؟
سچ بات یہ ہے کہ ”ہم نے نوشتۂ دیوار کے صفحات پر تجویز پیش کی تھی جو ریکارڈ کا حصہ ہے کہ امریکی انخلاء کے بعد تحریک طالبان پاکستان کو معافی تلافی کے ساتھ واپس پاکستان لایا جائے۔ بہت سارے وہ لوگ ہیں جن کا جذبہ جہاد تھا اور ایک ماحول کی رو میں بہہ کر پاکستان کی ریاست اور عوام کے دشمن بن گئے۔ اگر کوئی ناقابل اصلاح ہو تو اس کا الگ بندوبست ہوسکتا ہے مگریہ لوگ کب تک افغانستان میں رہیںگے؟۔ افغان طالبان پر بھی بوجھ ہوں گے”۔
ہماری اس تجویز کے بعد فیس بک نے ہمارے پیج کو بھی اڑادیا تھا۔ جس پر ہمارا بہت قیمتی مواد اور سرمایہ تھا اور بہت لوگ اس سے وابستہ تھے۔ اب جب یہ راز اوریا مقبول جان نے کھول دیا ہے کہ ”یہ افغان طالبان کا مطالبہ تھااور وہ اس تحریک طالبان کے پچاس ہزار افراد کیلئے نوکری ، روزگار اور دشمنوں سے بچت کا راستہ بھی چاہتے تھے اور اس مذاکرات میں اوریا مقبول جان خود بھی شریک تھے تو اس کو صرف عمران خان اور سابقہ فوجی قیادت کے کھاتے میں نہ ڈالا جائے”۔
مذاکرات میں پیپلزپارٹی کے اخونزادہ چٹان بھی شامل تھے اور ان سے اس وقت صحافی نے انٹرویو بھی لیا تھا ۔ جس میں اس نے اچھی امید ظاہر کی تھی۔ آج طالبان کی وہ مقبولیت اور طاقت نہیں رہی ہے جو کسی دور میں تھی اور قوم کے ہیرو شمار ہوتے تھے اور حضرات ان پر فخر کرتے تھے اور خواتین اتراتی تھیں، اسلئے کہ ملک وقوم کا ماحول ایسا تھا۔ اب ماحول بدل گیا ہے ، لوگ نفرت کرنے لگے ہیں اور پاکستان میں ایک منظم قوت فوج اور اس کے مضبوط ادارے ہیں۔ کشمیریوں نے کشمیر فتح نہیں کیا ہے اور بلوچوں نے بلوچستان کو آزاد نہیں کیا ہے جس میں قومی یکجہتی بھی موجود ہے تو طالبان کس طرح طاقت کے زور پر ریاست سے یہ لڑائی جیت سکتے ہیں ؟۔ جبکہ قوم پرست بھی ان کے سخت خلاف ہیں؟۔
جب ملاعمرامیرالمؤمنین کی موجودگی میں امریکہ اور نیٹو نے حملہ کرکے کئی سالوں تک قبضہ جمائے رکھا۔ افغان دوشیزاؤں کی امریکی اور نیٹو افواج کی گود میں کھیلتے ہوئے ویڈیوز سے خون بھی کھولنے لگتا ہے اور سر بھی شرم سے جھکتا ہے لیکن جب تک اپنی غلطیوں سے قومیں سبق نہیں سیکھ لیتی ہیں تو قدرت کی طرف سے ان کو بار بارعذاب اور مار پڑنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ شکر ہے کہ پھر بھی امریکی اور نیٹو افواج طویل عرصہ کے بعد یہاں سے نکل گئی ہیں۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دور میں بھی افغان قوم کے اتحاد سے امریکہ اور نیٹو کی فوج نکلنے میں زیادہ دیر نہ لگاتے۔ امن میں خواتین کی عزتوں اور حضرات کی جانوں کو اس قدر نقصان ہرگز نہیں پہنچتا ہے جتنا بدامنی کی صورت میں پہنچتا ہے۔ ڈھائی ہزار امریکی22سالہ جنگ میں طبعی موت بھی مرسکتے تھے لیکن افغانیوں کیساتھ جتنے مظالم ہوئے ہیں اس بھیانک جنگ میں افغانی افغانی کو ماررہے تھے۔
افغان طالبان تصویر، زبردستی کی داڑھی اورنماز سے دستبردارہوگئے ہیں جو خوش آئند ہے۔ خواتین کے پردے اور تعلیم کے مسئلے پر بھی نرمی کا مظاہرہ کریں اور اپنی قوم کو قوم لوط کے عمل سے بچائیں۔ اللہ قرآن میں نظروں کو نیچے رکھنے کی تلقین کرتا ہے لیکن افغانستان میں قرآن کے حکم پر عمل کا کوئی تصور بھی نہیں ہے۔ جس طرح عورت کو حیض کی حالت میں نماز کی تقلین کرنا جہالت ہے اس طرح غیرمسلم اور مسلم عورتوں کو پردے پر مجبور کرنا جہالت ہے۔ اگر اسلامی تعلیمات کے مطابق عورت کو آزادی ملے ۔ طالبان اپنی نظر اور عورت کی عزت کو تحفظ دیں تو پوری دنیا میں اسلام سربلند اور افغان قوم کابھی سر عزت سے بلند ہوگا۔جب مکہ میں اس طرح کا پردہ حج وعمرہ میں ممکن نہیں ہے تو افغانستان میں کیوں؟۔
پیر افضل قادری کا فتویٰ اور انعام؟
پیرافضل قادری کے اپنے بیٹے ، بھانجے ، بھتیجے اور قریبی عزیز واقارب ہیں یا بس ایک فرد واحد ہیں؟۔ ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو قتل کیا اور اس کے یتیم بچے اور بیوہ کس حالت میں ہوں گے؟۔5لاکھ نہیں5کروڑ کیلئے ممتاز قادری اپنی بیگم کو بیوہ اور اپنے بچوں کو یتیم بناتا؟۔ پیرافضل قادری نے5لاکھ بہت کم قیمت رکھی اور اس کیلئے کون اپنی جان کی قربانی دے گا؟۔
سلمان تاثیر کے قتل کی جھوٹی خبر اور سازش رؤف کلاسرا نے اپنی کتاب میں شائع کی تھی۔ مسلم لیگ ن کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس خواجہ شریف اور انصار عباسی کے گرد وہ کہانی گھومتی ہے جس کو ناول کی شکل دی گئی ہے۔ آصف علی زرداری اور گورنر پنجاب سلمان تاثیر پراس وقت خواجہ شریف چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے قتل کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس سازش کو پولیس کے ایک غریب سپاہی نے غلط گواہی سے انکار کرتے ہوئے ناکام بنایا تھا۔ اگر اس وقت سازشی کہانی گھڑنے پر انصار عباسی کو شہازشریف کروڑوں روپے کے فنڈز سے ذاتی گھر تک روڈ بناکر نہ دیتے اور اس کو قرار واقعی سزا بھی مل جاتی تو پنجاب میں سازشوں کا ایک حد تک خاتمہ ہوجاتا۔
انجینئر محمد علی مرزا نے چیف جسٹس عمر بندیال اور آرمی چیف کے درمیان سے عمران خان کونکلنے کی تجویز دے کرجتنا نقصان عمران خان کو پہنچایا ہے اس کی تو کوئی مثال ہی نہیں ملتی ہے اسلئے چیف جسٹس نے ہی عمران خان کو حق دلا دیا ہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ پنجاب کے لوگ جذباتی ہیں اور وہ اپنے کان کو نہیں دیکھتے کتے کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ اس پہلو کو بھی دیکھنا چاہیے کہ پیرافضل قادری کو انصار عباسی ٹائپ کے لوگوں نے شہبازشریف کے ساتھ مل کر ایسا فتویٰ دینے کیلئے تیار نہیں کیا ہو ،جس سے ایک طرف عمران خان کے حامی کو ٹھکانے لگایا جائے اور دوسری طرف تحریک انصاف کے کارکنوں اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کی جائے۔ ملک وقوم میں افراتفری پھیلانے والوں کو آزاد چھوڑ دیا گیا اور معاشرے پر ریاست وحکومت کا قابو نہیں ہے ؟۔ یا جان بوجھ کر نااہلی کے ذریعے سے حالات خراب کئے جارہے ہیں؟۔
پیرافضل قادری کو چاہیے کہ پہلے مدارس کے نصاب کا درست جائز ہ لیں اور اس پر اپنے خاندان ، عقیدت مندوں اور احباب کے علاوہ ملک وقوم کیلئے اچھی تجاویز مرتب کریں۔ اپنا فتویٰ بھی واپس لیں۔ ہندوستان میں اسلام تصوف اور اہل اللہ کے ذریعے پھیلا ہے۔ اگر یہاں تشدد کی فضاء قائم کرنے میں پیروں نے اپنا کردار ادا کیا تو پھر خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ مولاناالیاس قادری کی تحریک بہت مقبول ہے اور تعصبات سے بھی بھرپور ہے لیکن اپنے کارکنوں کو تشدد پر نہیں اکساتے ہیں۔ اگر تشدد پر اکسایا تو شناخت تبدیل ہوجائے گی۔
رسول اللہ ۖ نے صلح حدیبیہ میں کیسے شرائط پر معاہدہ کیا تھا؟۔ اصل دین کا یہی تقاضا ہے اور اس کو اللہ نے قرآن میں فتح مبین قرار دیا ہے۔ صلح حدیبیہ کی برکت سے ہی حضرت خالد بن ولید نے فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔
انجینئر محمد علی مرزا کی شخصیت بڑی متضاد ہے لیکن وہ علمی محاکمے سے ہی ختم ہوسکتی ہیں۔ حنفیوں کیلئے محمد علی مرزا ایک بڑی غنیمت اسلئے ہیں کہ احادیث میں وہ کمزور ہیں اور مرزا کی وجہ سے ان کو اچھی سپورٹ ملتی ہے۔ مرزا صاحب شیخ زبیر علی زئی اہل حدیث کے مرید ہیں جو ایک ساتھ تین طلاق کے قائل تھے اور اس وجہ سے مرزا صاحب بھی ایک ساتھ تین طلاق کے قائل ہیں۔ شیخ زبیر علی زئی بھی اسلاف کے مشاہدات کو جھوٹ قرار دیتے تھے لیکن ان پر کفر کا فتویٰ نہیں لگاتے تھے اور مرزا صاحب بھی اسی اعتقاد کا اظہار کرتے ہیں۔ شیخ زبیر علی زئی نے مرزاغلام احمد قادیانی کو اجماع امت کی وجہ سے کافر قرار دیا تھا اور مرزا نے بھی اجماع امت کی وجہ سے مرزاغلام احمد قادیانی کو کافر قرار دے دیا ہے۔ اس سے بڑھ کر تقلید کیا ہوسکتی ہے؟۔ لیکن قرآن مرزا کے دماغ کو کھول سکتا ہے۔
طلاق اور صلح ورجوع کا درست تصور
اللہ نے طلاق کے مسائل پہلی مرتبہ سورۂ بقرہ میں بیان کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کردی کہ ” اپنے قول وقرار کو اللہ کیلئے ڈھال مت بناؤ کہ تم نیکی کرواور تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ”۔ البقرہ آیت224
جس طرح سے نیکی ، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح کرانے کی ممانعت بنام خدا نہیں ہوسکتی ہے تو کیا میاں بیوی کے درمیان صلح کرانا کوئی کم تقوی ہے؟ اور کوئی کم نیکی ہے؟۔ کوئی کم صلح ہے؟ ۔قرآن کا کمال یہ ہے کہ نہ صرف برائی کو جڑ سے ختم کردیتا ہے بلکہ اس کے غلط اثرات سے بھی مکمل تحفظ دیتا ہے۔
علماء ومفتیان کو یہ غلط فہمی ہے کہ سورۂ بقرہ کی آیات224،225،226کا تعلق طلاق سے نہیں بلکہ حلف ویمین سے ہے۔ حالانکہ یمین کا اطلاق جس طرح سے حلف پر ہوتا ہے ،اسی طرح سے اس کااطلاق نکاح و طلاق پر بھی ہوتا ہے۔فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ” ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر میری شرمگاہ تیری شرمگاہ سے خوبصورت نہ ہو توتجھے طلاق ۔بیوی نے کہا کہ اگر میری شرمگاہ تیری شرمگاہ سے خوبصورت نہ ہوتو میری یہ لونڈی آزاد۔ اگر وہ دونوں کھڑے ہوں تو مرد کی طلاق ہوگی اور عورت کی لونڈی آزاد نہیں ہوگی اور اگر وہ دونوں بیٹھے ہوں تو پھر عورت کی لونڈی آزاد ہوگی اور شوہر کی طلاق نہیں ہوگی ۔ اسلئے کہ کھڑے ہونے کی حالت میں عورت کی اور بیٹھنے کی حالت میں مرد کی شرمگاہ زیادہ خوبصورت ہوتی ہے۔ اگر مرد بیٹھا ہو اور عورت کھڑی تو پتہ نہیں کہ کیا ہوگا؟۔ ابوبکربن فضل نے کہا کہ مناسب کے دونوں کے یمین واقع ہوں”۔
اس عبارت میں طلاق اور لونڈی کی آزادی کو یمین کہا گیا ہے۔ علماء و فقہاء نے خود ہی طلاق کے مسئلے کو مذاق بنارکھا ہے جو حنفی فقہ کیلئے ماں کی حیثیت رکھنے والی فتاویٰ قاضی خان میں لکھا گیا ہے۔ اگر اٹھک بیٹھک سے فتویٰ بدلتا ہو تو کتنی عجیب بات ہوگی؟۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں اس پر بات کرنا چاہیے۔
اللہ نے ان آیات میں یہ واضح فرمایا کہ ” طلاق کی ایک عدت ہے اور اس عدت میں باہمی صلح سے رجوع ہوسکتا ہے”۔ پھر یہ بھی واضح کیا ہے کہ ”عدت کی تکمیل کے بعد بھی باہمی صلح سے رجوع ہوسکتا ہے”۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ صلح میں رکاوٹ نہیں ہے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیت230میں پھر حلال نہ ہونے کا ذکر کیوں ہے جس میں دوسرے شوہر سے نکاح کو ضروری قرار دیا گیا ہے؟۔اس کا بالکل واضح جواب یہ ہے کہ آیت229میں اس سے پہلے اس صورت کا ذکر ہے کہ جب شوہر نے الگ الگ مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی ہو اور دونوں کا آئندہ رابطے نہ رکھنے کیلئے کوئی چیز بھی درمیان میں نہ چھوڑیں اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہی خوف ہو کہ رابطے کا کوئی ذریعہ نہ چھوڑا جائے تو پھر سوال یہ پیدا نہیں ہوتا کہ رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟۔ کیونکہ رجوع نہ کرنے کا انہوں سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔البتہ یہ خدشہ ہے کہ عورت پر اس کا شوہر ایسی پابندی نہ لگادے کہ اپنی مرضی سے کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے۔ اسلئے اللہ نے قرآن میں اس کی صراحت کیساتھ زبردست وضاحت فرمادی ہے۔
جہاں تک باہمی صلح اور رضامندی سے رجوع کا تعلق ہے تو آیت230سے پہلے عدت میں باہمی صلح اور معروف طریقے سے رجوع کی وضاحت تھی اور آیت231اور232میں عدت کی تکمیل کے بعد بغیر حلالہ کے واضح طور پر صلح ورجوع کی گنجائش بلکہ ترغیب کا ذکر ہے۔ اگر علماء ومفتیان یہ سادہ بات سمجھ لیں تو انجینئر محمد علی مرزا ، شیخ زبیر علی زئی ، مفتی محمود، مفتی محمد شفیع اور بڑے بڑے لوگ بھی ماحول زدگی کا شکار نہ بنتے اور آج بھی قرآن کی طرف رجوع ہوسکتا ہے۔
طلاق کا مسئلہ کیا پہلی مرتبہ تم نے سمجھا؟
بعض لوگ یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ طلاق کا مسئلہ پہلی مرتبہ آپ نے سمجھاہے اور اتنے لمبے عرصہ تک کوئی اس کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکا ہے؟۔
نبی ۖ نے افتتاحی خطبہ میں فرمایا کہ ” تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں۔ ہم اس کی تعریف کرتے ہیں،اس سے مدد مانگتے ہیں۔ اس سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور اپنے نفسوں کے شر سے پناہ مانگتے ہیںاور اپنے اعمال کی برائیوں سے۔ وہ جس کو ہدایت دے تو اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا ہے اور جس کو گمراہ کرے تو اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے”۔ اگر ایک طویل عرصہ سے قوم نے قرآن کی تعلیمات سے منہ پھیر رکھا ہے اور وہ قرآن کو چھوڑنے کا مصداق بن گئی ہے تو یہ قوم کی اپنی تقدیر ہے۔ میرا اس سے کیا واسطہ ہے؟۔ اگر اللہ نے مجھے ہدایت کی نعمت سے سرفراز فرمایا ہے تو مجھے اللہ سے یہی حسنِ ظن رکھنے کا حق بھی ہے۔
جب قوم اس پر لگ گئی کہ حضرت عمر نے اکٹھی تین طلاق کی بدعت ایجاد کی ہے یا یہ سنت ہے ؟ ۔اورقرآن کی طرف توجہ نہیں کی تو اس نے گمراہ ہونا ہی تھا۔ امام شافعی نے کہا کہ ایک ساتھ تین سنت ہے اور امام ابوحنیفہ وامام مالک نے کہا کہ بدعت ہے۔ سوال تو ان پر بنتا ہے جو حضرت عمر کے دفاع میں قرآن کو بھول گئے۔ حالانکہ حضرت عمر نے خود بھی قرآن وسنت کے عین مطابق فیصلہ کیا اسلئے کہ جب میاں بیوی میں ایک طلاق ہو یا تین طلاق ؟ یا پھر سرے سے کوئی طلاق نہ ہو بلکہ ناراضگی ہو تو حکمران اور عدالت کے جج کو یہ دیکھنا ہوگا کہ بیوی صلح کیلئے تیار ہے تو رجوع کی قرآن نے واضح اجازت دی ہے اور عورت صلح نہیں کرنا چاہ رہی ہو تو قرآن رجوع کی گنجائش نہیں دیتا ہے۔ حضرت عمر کے دربار میں معاملہ پہنچ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ عورت صلح کیلئے راضی نہیں تھی۔ حضرت علی نے بھی ایک جھگڑے کا یہی فیصلہ کیا کہ جب شوہر نے حرام کہہ دیا تو عورت رجوع پر آمادہ نہیں تھی اور حضرت علی نے فتویٰ دیا کہ عورت رجوع نہیں کرسکتی ہے ۔ جبکہ حضرت عمر کے پاس مسئلہ آیا کہ شوہر نے حرام کہا ہے اور اس کی بیوی رجوع پر آمادہ تھی تو حضرت عمر نے رجوع کا فتویٰ دیا۔صحابہ کے اندر تضادات نہیں تھے لیکن بعد والوں نے بنائے۔ فقہاء نے بال کی کھال اتارنے کے چکر میں اس پر بحث کی تھی کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوتی ہیں یا نہیں؟۔ لیکن اس کی طرف بالکل بھی دھیان نہیں دیا ہے کہ قرآن میں رجوع کی گنجائش کن کن آیات میں کس کس طرح وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔
احادیث صحیحہ کا بھی قرآن سے کوئی تصادم نہیں ہے۔ ایک صحیح حدیث عویمر عجلانی اور ان کی بیگم کے درمیان لعان کے بعد ایک ساتھ طلاق کی ہے اور اس میں قرآن کی سورہ طلاق کے مطابق فالفور عورت کو چھوڑنے کی فحاشی کی صورت میں گنجائش ہے۔ ایک اور روایت محمود بن لبید کی ہے جس میں ایک ساتھ تین طلاق پر نبی کریم ۖ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا اور ایک شخص نے کہا تھا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔ یہ شخص حضرت عمر تھے اور آپ نے اپنے بیٹے عبد اللہ کے بارے میں نبی ۖ کو اطلاع دی تھی کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق کا ذکر اس سے زیادہ مضبوط روایت میں صحیح مسلم کے اندر بھی موجود ہے۔ اور جہاں تک غضبناک ہونے کا تعلق ہے تو نبی ۖ کے بارے میں اس سے زیادہ مضبوط روایت میں صحیح بخاری کی کتاب التفسیر سورہ الطلاق میں بھی موجود ہے۔ نبی علیہ السلام نے عبد اللہ ابن عمر کو عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کا معاملہ سمجھایا تھا۔ کوئی ایک بھی ایسی حدیث نہیں ہے جس میں نبی ۖ نے رجوع سے منع کیا ہو۔ رفاعہ القرظی کی بیگم نے جب دوسرے سے شادی کی اور اس پر نامرد کا الزام لگایا تو بخاری کی ایک اور روایت میں ہے کہ وہ بری طرح مارتا تھا نامرد نہیں تھا۔ رفاعہ القرظی نے مختلف ادوار میں طلاق دی تھی اور وہ کسی اور کی بیگم بن چکی تھی۔ کوئی ایک بھی ایسی ضعیف روایت بھی نہیں کہ نبی ۖ نے کسی کو عدت گزارکر حلالہ کی لعنت کا فتویٰ دیا ہو۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ