پوسٹ تلاش کریں

پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟

پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟ اخبار: نوشتہ دیوار

پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟

یہ علم زوالِ علم وعرفاں کا شاخسانہ تھا کہ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے ”نماز کی سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کوبدعت قرار دیا”۔ جس پر دیوبندی ایکدوسرے پر فتوے لگانے شروع ہوگئے

غسل ، وضو اور نماز میں فرائض پر فقہی مسائل کے اختلافات قابل احترام تھے تو اسکے مقابلے میں سنت کے بعد اجتماعی دعا پر لڑنے سے زیادہ حماقت کا بازار گرم کرنا احمقوں کیلئے ممکن نہیں تھا

دیوبندی و بریلوی سے پہلے برصغیر پاک وہند میں شیخ احمد سرہندی المعروف مجددالف ثانی اورشیخ عبدالحق محدث دہلوی کے درمیان بھی اختلافات تھے۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے جب شروع میں جوشِ علم کی کتابیں لکھ ڈالیں تو تقویة الایمان، بدعت کی حقیقت وغیرہ سے فضاء کو بہت گرم کردیا۔ شرک وبدعات کے خلاف قلم اٹھایا تو ایک نئی دنیا پیدا کرلی ۔ کچھ لوگوں نے ساتھ دیا اور کچھ ان کے مخالف بن گئے اور اس میں معتبر علماء کرام اور مشائخ عظام کے نام شامل تھے۔
سن1857کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھ دی گئی۔ مولانا قاسم نانوتویو مولانا رشیداحمد گنگوہی حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے بیعت تھے ۔شاہ اسماعیل شہید سے علماء دیوبند بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ شاہ اسماعیل کی کتاب ”بدعت کی حقیقت ”کا اردو ترجمہ ہوا تو علامہ یوسف بنوری نے اس پر تائیدی تقریظ بھی لکھی ہے۔ شاہ اسماعیل شہید نے اپنی اس کتاب میں لکھ دیا ہے کہ ” تقلید چوتھی صدی ہجری کی بدعت ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ بہترین دور میراہے پھر جو لوگ اس سے ملے ہوئے ہیں اور پھر جو لوگ ان سے ملے ہوئے ہیں۔ پہلی صدی ہجری صحابہ ، دوسری تابعین اور تیسری تبع تابعین کی تھی۔ان تین ادوار میں جو مسائل بنائے گئے ان کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے اور اس کے بعد چوتھی صدی ہجری کے بعد بدعات ہیں۔تقلید کوبھی چوتھی صدی ہجری میں ہی ضروری قرار دیا گیا ہے”۔مولانا احمد رضا خان بریلوی نے اس بنیاد پر علماء دیوبند کے حرمین کے علماء سے فتویٰ حاصل کرلیا تھا اور اس کا نام ” حسام الحرمین ” یعنی حرمین کی تلوار رکھ دیا تھا۔
اس دور میں حجاز پر موجودہ وہابی حکومت نہیں تھی اور علامہ ابن تیمیہ اور عبدالوہاب نجدی سے حرمین اور حجاز کا مقتدر طبقہ بڑی نفرت کرتا تھا۔علامہ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ” تقلیدکے مسالک کو مستقل فرقے قرار دیا تھا ” اور شاہ اسماعیل شہید نے بھی ان سے استفادہ کیا تھا۔ مولانا خلیل احمد سہارنپوری عربی میں لکھ سکتے تھے اسلئے انہوں نے علماء دیوبند کی طرف سے اس کا جواب کتاب المہند علی المفند ”ہند کی تلوار جھوٹے پر” لکھی اور اس پرعلماء دیوبند کے اکابر نے دستخط بھی کردئیے۔
اس کتاب میں محمد بن عبدالوہاب نجدی کے عقائد سے بری ہونے کا کھل کر اعلان کیا گیا لیکن اس کے بعد موجودہ سعودی عرب کے وہابی حکمرانوں کا اقتدارسامنے آگیا، انہوں نے کئی لوگوں کو مشرک قرار دے کر قتل کیا ۔ مزارات بھی ہموار کردئیے اور ترکی حکومت خلافت عثمانیہ سے معاہدہ کیا کہ ان کی تعمیرات کو نہیں چھیڑا جائے گا۔ گنبد خضراء رسول اللہ ۖ کا روضہ بڑی مشکل سے بچ گیا جس کو محمد بن عبدالوہاب صنم اکبر کہتا تھا۔
عمران خان کو پاک پتن میںبابا فریدکے مزار کی راہداری سے زیادہ گنبد خضریٰ کے مکین ۖ سے عقیدت ومحبت ہے مگر اس کو معلوم تھا کہ اگر بابا فرید کی راہداری پر جبین نیاز جھکانے کا گنبد خضریٰ کے مکین ۖ کی راہدای کی طرح کی عقیدت کا مظاہرہ کیا تو چوتڑ پر بڑے سخت ڈنڈے پڑیں گے۔اسلئے وہاں اس طرح کی حرکت کرنے سے گریز کیا۔ نبی ۖ نے دعا بھی مانگی تھی کہ ” اے اللہ ! میری قبر کو سجدہ گاہ نہیں بنا”۔ مولانا شاہ احمد نورانی سے یونیورسٹی کی ایک لڑکی نے پوچھ لیا کہ قبر کو چومنا، اس پر جھکنا اور سجدہ کرنا جائز ہے؟۔ مولانا نورانی نے یہ جواب دیاکہ میں سمجھ رہا تھا کہ مجھ سے کوئی سیاسی سوال ہوگا لیکن چلو یہ بتا دیتا ہوں کہ ”قبر کو چومنا، اس پر جھکنا اور سجدہ کرنا سب حرام و ناجائز ہے ۔ قبر پر فاتحہ پڑھنے کے علاوہ کچھ بھی جائز نہیں ہے۔
شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ ” اللہ نے صحابہ کرام سے وعدہ کیا تھا اور عربی میں جمع کا اطلاق کم ازکم تین افراد پر ہوتا ہے۔ حضرت ابوبکر ، عمر اور عثمان سے خلافت کا وعدہ پورا ہوا۔ حضرت علی کے دور میں خلافت منتظمہ نہیں بن سکی اسلئے کہ فتنے کا دورتھا، بدامنی عروج پر تھی اور خلافت میں امن کا وعدہ ہے۔ خیرالقرون کے تین ادوار میں پہلا دورنبی ۖ کا تھا۔دوسرا ابوبکرو عمر کا تھا اور تیسرادور حضرت عثمان کا تھا”۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھ دیا کہ شاہ ولی اللہ سے مجھے اختلاف ہے۔نبی ۖ و ابوبکر کا پہلا دور تھا اسلئے حضرت ابوبکر نے کوئی تبدیلی نہیں لائی۔ دوسرا دور حضرت عمر کا تھا جس میں بہت سی تبدیلیاں اور طبقاتی تقسیم کی بنیاد پڑ گئی۔ تیسرا دور حضرت عثمان کا دور تھا جس میں خاندانی حکومت کی جڑیں پڑگئیں۔ جس کی وجہ سے خلافت راشدہ پھر بنوامیہ کی امارت میں تبدیل ہوگئی۔ تفصیل کا موقع نہیں ہے۔
مولانا رشیداحمد گنگوہی شیعہ پر کفر کا فتویٰ لگاتے تھے ، مولانا قاسم نانوتوی نے شیعہ پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا۔ بنوری ٹاؤن اور دیوبند کے کافی مدارس نے شیعہ پر کفر کا فتویٰ لگایا اور مفتی محمد تقی عثمانی کے جامعہ دارالعلوم کراچی نے اس فتوے کو مسترد کردیا۔
جن علماء ومفتیان نے بڑے پیمانے پر شیعہ کو قادیانیوں سے تین وجوہات کی بنیاد پربدترکافر قرار دیا ۔1:قرآن کی تحریف کا عقیدہ ۔2:صحابہ کرام خاص طور پر حضرت ابوبکر کی صحابیت کا انکار۔3:عقیدہ امامت کی وجہ سے ختم نبوت کے منکر ہیں۔
جب متحدہ مجلس عمل بن گئی تو بنوری ٹاؤن کراچی سے ہمارا ایک پڑوسی مفتی شاہ فیصل برکی تعلیم حاصل کررہاتھا اور اس نے استفتاء کا جواب دیا تھا کہ ” شیعہ سے سنی کا اتحاد جائز ہے”، جس پر میں لکھ دیا تھا کہ ” شیعہ نے اپنے عقائد سے توبہ کرلی یا پھر ان پر الزامات غلط تھے یا انکے باوجود کفر کا فتویٰ نہیں لگتا ہے؟”۔
مفتی شاہ فیصل برکی نے میرے گھر پر تشریف لاکر کہا تھا کہ ”پیر صاحب ! جب ہم شیعہ پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں تو آپ ہمیں نہیں چھوڑتے اور اب اتحاد کا فتویٰ دیا ہے تو بھی مخالفت کررہے ہیں؟”۔ میں نے کہا کہ اسلام کو بازیچہ اطفال بنادیا ہے کہ جب چاہو کسی کو کافر قرار دو اور جب چاہو اس کو مسلمان مان لواور وہ بھی اپنے مفادات کیلئے ؟”۔ یہی بات ایک مرتبہ مولانا محمد خان شیرانی کی موجودگی میں مولانا عبدالواسع سے کہی تھی۔ مسائل کا حل افہام وتفہیم سے نکلے گا فتوؤں سے نہیں۔
مفتی محمد ولی درویش کہتے تھے کہ ”پنج پیریت گمراہی کی پہلی سیڑھی ہے۔ دوسری سیڑھی مودودیت ہے۔ تیسری سیڑھی غیر مقلدیت ہے اور چوتھی سیڑھی لادینیت ہے”۔ جو لوگ دیوبند سے پنج پیری ، مودودی،غیرمقلد اور پھر احادیث کے منکر بنتے ہیں تو بظاہر لگتا یہی ہے کہ مفتی منیر شاکر نے غلام احمدپرویز کا مطالعہ کیاہے۔ علامہ تمنا عمادی بہت ماہر عالم دین تھے۔ مشرقی پاکستان کے ریڈیو سے ”درس قرآن” دیتے تھے۔ انہوں نے مشہور کتاب ” الطلاق مرتان ” لکھی ہے۔ دیوبند ی مشہور مکتب ”المیزان” نے بھی اس کو حال ہی میں شائع کردیا ہے۔
علامہ تمناعمادی نے بھی حنفی اصولوں کے مطابق احادیث کا انکار کرتے ہوئے ان کو عجمی سازش قرار دیا تھا لیکن پرویز نے پڑھے لکھے طبقے میں بہت پذیرائی حاصل کرلی ہے۔ مفتی منیر شاکر نے مجھ سے پوچھا کہ ”الطلاق مرتان ”پڑھی ہے تو میں نے کہا کہ ہاں پڑھی ہے لیکن ان کا مؤقف درست نہیں ہے۔ احادیث کے انکار کی ضرورت نہیں تھی اور آیت229البقرہ میں ”خلع” مراد بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ علامہ تمنا عمادی کا موقف غلطی پر مبنی ہے۔ انشاء اللہ آئندہ تفصیلی بات چیت کروں گا۔
ہمارے بچپن میں جب ایک پنج پیری عالم مولانا شادا جان نے نماز کی سنت کے بعد اجتماعی دعا کو بدعت قرار دیا تو مولوی محمد زمان نے اس پر کفر اور قادیانیت کے فتوے لگادئیے۔ جبکہ ہماری مسجد کا امام مولانا اشرف خان دارالعلوم دیوبند کا فاضل تھا اور مولانا محمد الیاس بانی تبلیغی جماعت سے بھی ان کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس نے خاموشی اختیار کرلی تھی لیکن خود سنت کے بعد اجتماعی دعا کا اہتمام کرتے تھے۔ میرے والد نے علماء کو بلواکر فیصلہ کرایا تو انہوں نے دعوت کھاکر فیصلہ ” فارسی ” میں سنادیا۔ مولوی محمد زمان کے ہاں سے ڈھول کی تھاپ پر جیتنے کا اعلان ہوا تو مولانا شاداجان کے حامیوں نے جیت کا ڈھول بجایا۔
سہراب گوٹھ جنت گل کی مسجد میںمولانا عبدالرزاق ژوبی نے امامت شروع کی تو چند دن کیلئے مجھے فریضہ سونپ دیااسلئے کہ بلوچستان جانا تھا اور خدشہ تھا کہ کوئی مسجد پر قبضہ نہ کرلے۔ میں نے سنت کے بعد اجتماعی دعا کا بتایا کہ دیوبند سے کتاب لکھی گئی ہے کہ یہ بدعت ہے اور افغانی علماء دیوبندی ہیں لیکن ان میں حق کہنے کی جرأت نہیں ہے تو وہ بڑے حیران ہوگئے۔
پنج پیری اور مفتی منیر شاکر اصل دیوبندیت کے دعویدار ہیں لیکن جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پہلے ان کا داخلہ ممنوع تھا۔ مفتی نظام الدین شامزئی شہید پنج پیری تھے اور مفتی محمددرویش کو مولانا نورالہدیٰ نے جامعہ میں داخل کرایا تھا اور وہ بھی اصل میں بڑے پنج پیری ہی تھے۔ غلام احمد پرویز اور منکرین حدیث نے جو اعتراضات احادیث پر کئے ہیں تو اس سے زیادہ قرآن پر بھی ہوسکتے ہیں۔ حضرت خضر کا بچے کو قتل کر نا، حضرت عیسیٰ کا مردوں کو زندہ کرنا، بیماروں کو دم شفاء دینا اورمٹی سے پرندہ بنانا اسمیں پھونک مارنے سے روح آجانا وغیرہ، شاہ ولی اللہنے لکھا کہ صوفیا مشاہدہ حق تک پہنچے مگر علم درست نہیں ۔ علماء کا علم صحیح ہے لیکن مشاہدہ حق تک نہیں پہنچے ہیں۔ دن میں ستارے ہیں لیکن نظر نہیں آتے ہیں۔علم اور مشاہدہ حق میں یہ فرق ہے۔

(نوٹ: اس پوسٹ کے بعد عنوان ”نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں ” کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز