پوسٹ تلاش کریں

پاکستان اور فلسطین کے مسائل کا حل حقیقی اسلامی تعلیمات ہیں مگر مذہبی طبقہ بھی محروم ہے

پاکستان اور فلسطین کے مسائل کا حل حقیقی اسلامی تعلیمات ہیں مگر مذہبی طبقہ بھی محروم ہے اخبار: نوشتہ دیوار

پاکستان اور فلسطین کے مسائل کا حل حقیقی اسلامی تعلیمات ہیں مگر مذہبی طبقہ بھی محروم ہے

پاکستان اور اسلام کو غلط استعمال کرکے روسی کمیونزم کو شکست دی گئی اور اب فلسطین کو استعمال کرکے اسرائیل اور مغربی دنیا سے اسلام اور مسلمانوں کو شکست دینے کا شیطانی منصوبہ ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے

پاکستان ، افغانستان ،ایران اور سعودی عرب اپنے ہاں درست اسلامی نظام نافذ کردیں تو اسرائیل وامریکہ سمیت پوری دنیا اسکے سامنے سرنگوں ہوجائے گی اور خلافت کا نظام پھر سے پوری دنیا میں نافذ ہوجائیگا

جرمنی اورجاپان کو شکست کے بعد پاکستان سے روسی کمیونزم کو شکست دی گئی ۔ اب اسرائیل سے اسلام کو شکست مقصود ہے۔فلسطین اور افغان مہاجرین کیساتھ جو کچھ ہورہا ہے یہ انسان نہیں درندوں کیساتھ بھی جائز نہیں ہے مگر کیوں ؟اس صورتحال کو پہلے سمجھ لیں، پھر اس سے نکلنے کی ضرورت پرسب مل کر زور دیں!

اقبال نے کہا:
اُٹھو! مری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخِ امراء کے درودیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہرخوشہ گندم کو جلادو
اقبال نے اپنے شاہینوں کو ”فرشتوں کا گیت” کے ذریعے کمیونزم کا انقلاب لانے کا کہا تھا مگر پاکستان کی ریاست ، حکومت اور مذہبی طبقات اس کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔شاعرفیض احمد فیض، حبیب جالب ، حسن ناصر شہید،بائیں بازو کے شعراء و سیاستدان چلاتے رہے مگر لاالہ الااللہ کے نام پر معرض وجودمیں آنے والا پاکستان سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کیلئے استعمال ہوگیا۔جمعیت علماء اسلام مولانا غلام غوث ہزاروی، مفتی محمود، مولانا عبیداللہ انور اور مولانا عبداللہ درخواستی پر وہ مرکزی جمعیت علماء اسلام فتویٰ لگارہی تھی جس کے بانی علامہ شبیراحمد عثمانی تھے اور جو ہندوستان میں شیخ الہند کی جماعت جمعیت علماء ہندکے مقابلے میں بنائی گئی تھی۔ معراج محمد خان بھی کہتے تھے کہ وہ علماء حق کے پیروں کی خاک ہیں اور ان کی والدہ خالص پشتون تھی جس نے مذہب کی محبت ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی کہتے تھے کہ میں خالص یوسفزئی پٹھان ہوں۔ علامہ اقبال نے ”محراب گل افغان” کے نام سے ایک اچھا تخیل پیش کیا تھا۔ نسل پرستی کی بنیاد پر لوگوں کی نفرت کا فائدہ ظالم طبقات کو ہی پہنچتا ہے۔ سیدعطاء اللہ شاہ بخاری اور سیدابوالاعلیٰ مودودی دونوں سادات بھی تھے اور پنجابی بھی۔ دونوں کی آپس میں بنتی بھی نہیں تھی۔ جب کشمیر کے جہاد کا مسئلہ آیا تو سیدعطاء اللہ شاہ بخاری نے کہا کہ” مجھے مولانا حسین احمد مدنی سے عقیدت ومحبت ہے لیکن اگر وہ بھی سامنے آگئے تو کشمیر میں وہ اپنے وطن کا دفاع کررہاہوگا اور میں اپنے وطن کا۔ اس کے سینے میں گولی اتاردوں گا”۔ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی نے کہا تھا کہ ” اسلامی جہاد پرائیویٹ تنظیم کا کام نہیں بلکہ ریاست کا شرعی فریضہ ہے۔ اگر ریاست جہاد نہیں کرتی تو پھر یہ جہاد نہیں کٹ مرنے کی بات ہے”۔ بعد میں جماعت اسلامی نے مولانا سید مودودی کی وفات کے بعد اپنی ساری زندگی ہی کشمیر اور افغانستان کے نام پر پرائیویٹ جہاد میں گزار دی۔ ولی خان کہتا تھا کہ” میں جہاد مانتا ہوں پاکستان کے پاس فوج، جہاز اور میزائل ہیں ،اپنی قوت کو افغانستان میں روس اور کشمیر میں بھارت کے خلاف استعمال کرے لیکن یہ کونسا جہاد ہے جو ہمارے ہاں ہورہاہے اور مال غنیمت منصورہ لاہور میں بٹتا ہے؟۔ جنرل ضیاء الحق کہتا ہے کہ اگر تم اسلام مانتے ہو ؟۔ تو مجھے وردی میں صدر بناؤ۔ میں کہتا ہوں کہ اسلام کا تقاضا ہے کہ تم وردی اتاردو اور لوگوں کو اپنا حکمران منتخب کرنے دو۔ وہ اسلام کو نافذ کردیں گے”۔ بھٹو کے خلاف قومی اتحاد اور نظام مصطفیۖ کے نام پر مشترکہ تحریک چلائی گئی تو جمعیت علماء اسلام کے مولانا غلام غوث ہزاروی نے اس کو فراڈ قرار دے دیا تھا۔
علامہ اقبال نے کہا:
جانتا ہوں یہ امت حامل قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندہ مؤمن کا دیں
جانتا ہوں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے یدِ بیضاء ہے پیرانِ حرم کی آستیں
عصر حاضر کے تقاضوں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں
الحذر آئینِ پیغمبر سے سو بار الحذر
حافظِ ناموسِ ،زن مرد آزما، مرد آفریں
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر وعمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں
چشم عالم سے پوشیدہ رہے یہ آئیںتو خوب
یہ غنیمت ہے کہ خود مؤمن ہے محرومِ یقیں
ہے یہی بہتر الٰہیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے
مذہبی و جہادی طبقے کا دین سرمایہ داری تھا ۔فلسطین کے ڈاکٹر عبداللہ عزام نے عرب کو اسرائیل سے لڑانے کے بجائے سعودیہ کے اسامہ اور مصر کے ایمن الظواہری کو روس سے لڑا دیا۔ پاکستان بن رہاتھا تو پختونخواہ میں باچا خان کے بھائی ڈاکٹر خان کانگریس کی حکومت تھی۔ پنجاب میں مخلوط حکومت تھی ، بلوچستان آزاد اورسوات آزاد ریاست تھی ۔باجوڑ سے وزیرستان تک 7ایجنسیاں قبائلی علاقہ جات آزادو خودمختار تھے۔ سندھ کے5میں سے3ارکان کی حمایت اور2کی مخالفت تھی۔ گویا سندھ کے ایک ووٹ سے یہ پاکستان انگریز اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پر وجود میں آیا۔ امریکہ کو اڈے دینا۔4لاکھ افغانی،80ہزارپاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اُتارنا ۔57ہزار ڈورن اور جہازوں نے یہاں سے اڑکر بمباری کردی توجائزتھا۔ ہم نے بھی مختلف ادوار میں بڑی زیادتیاں کی ہیں۔
ایک افغانی نے کہا کہ میں نے14سال روس کیخلاف جہاد کیا ،اب سوچتا ہوں کہ اگر ہم صدر نجیب اللہ کو مارنے اور اس کی ریاستی مشینری کو ختم نہ کرتے اور اس طرح اشرف غنی کی ملی اردو کو اپنے ساتھ رکھتے تو آج پاکستان ہمارے ساتھ زیادتی نہ کرتا۔ ایک گنڈہ پور کو اپنے بیٹے کی نالائقی کی شکایت تھی تو اس نے کہا کہ کاش یہ میری بیٹی ہوتی اور کوئی اس کے اوپر دل کے آبلے تو پھوڑ لیتا۔ یہی افغان مجاہد ین سے کہنا پڑے گا کہ کاش! تم افغانی لڑکیاں ہوتیں اور اس طرح اپنی قوم کیخلاف غلط استعمال ہونے کے بجائے دوسروں کیلئے دل کے آبلے پھوڑنے کا ذریعہ بنتیں تو اتنا برا نہ ہوتا۔
نوازشریف مغربی کوریڈورگوادر کا راستہ نہ بدلتا تو چین عرب سے کنکٹ ہوتا۔ پاکستان ٹول ٹیکس سے قرضہ واپس کرچکا ہوتا۔ایران سے تیل وگیس کی سپلائی ہوتی تب بھی حالات بدلتے۔ جو پاکستان اپنا بھلا خود نہیں چاہتا ہے تو اس سے کسی اور کو کیا امید ہوسکتی ہے۔ ڈنڈا مار سیاست کی جگہ پر درست جمہوری عمل ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔ پنجاب، بلوچستان، پختونخواہ، سندھ اور کراچی کا سیاسی ماحول ڈنڈے کے زور سے بگاڑا گیا ہے لیکن سیاسی قوتوں کا بھی بالکل مزہ نہیں ہے۔
اسرائیل کو برطانیہ نے پاکستان کے9ماہ بعد جنم دیا تھا۔ اسرائیل کے ذریعے مغرب نے اسلام کوصفحۂ ہستی سے مٹانے کا پروگرام بنایا ہے۔ غزہ کی پٹی اوربیت المقدس کے پاس بڑے فلسطین کی حیثیت ایک تجربہ گاہ کی ہے۔ حماس نے مجاہد یا دہشتگرد کا روپ دھارلیا اور محمود عباس نے ہیجڑہ طرز پر مسلمان حکمرانوں کا روپ دھارلیا ۔ جس سے مسلمانوں کی درست عکاسی دنیابھر میں ہورہی ہے۔
علامہ اقبال نے ”ابلیس( اپنے مشیروں سے)” میں اس کی خوب ترجمانی کررکھی ہے۔
ہے مرے دستِ تصرف میں جہانِ رنگ وبو
کیا زمیں، کیا مہر وماہ ،کیا آسماں توبتو
دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب وشرق
میں نے جب گرمادیا اقوامِ یورپ کا لہو
کیا امامانِ سیاست ،کیا کلیسا کے شیوخ
سب کو دیوانہ بناسکتی ہے میری ایک ہو!
کارگاہ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام وسبو
دست فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک
مزد کی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو
کب ڈراسکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد
یہ پریشاں روزگار،آشفتہ مغز، آشفتہ ہو
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشکِ سحرآ گاہی سے جو ظالم وضو
جانتا ہے ،جس پر روشن باطنِ ایام ہے
مزدکیت فتنہ فردا نہیں ،اسلام ہے
امریکہ نے افغانستان، عراق ، لیبیا کا جو حشر کیا تو کس اسلامی ملک نے مدد کی؟۔ داعش نے یزیدی و کرد خواتین کی عصمت دری کرکے بھیڑ وں کی طرح بیچ دیا، میڈیا پر تشہیر ہوئی تو کس مفتی نے کیا فتویٰ دیا؟۔آج کون فلسطین پر رحم کھاکر میدان میں اُترے گا؟۔دہشتگرد خود کوئی کم ظالم ہیں؟۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز