پوسٹ تلاش کریں

پانچویں پارے کے شروع میں شادی شدہ عورت کو لونڈی بنانے کا تصور قرآن نے دیا ہے؟

پانچویں پارے کے شروع میں شادی شدہ عورت کو لونڈی بنانے کا تصور قرآن نے دیا ہے؟ اخبار: نوشتہ دیوار

پانچویں پارے کے شروع میں شادی شدہ عورت کو لونڈی بنانے کا تصور قرآن نے دیا ہے؟

ایران یا شیعہ کے ہاں متعہ اور سعودی یا عربوں کے ہاں مسیار کا تصور ہندوستان کی داشتاؤں اور مغرب کی گرل فرینڈز سے بھی بہت بدتر ہے اسلئے کہ اسلام کا حقیقی تصور اجنبیت کا شکار ہے

اسلام میں نکاح انتہائی قابل احترام تصور ہے ہمارے ہاں اگرچہ وقتی معاہدے یا ایگریمنٹ کا تصور بہت مجروح ہے اور ہونا بھی چاہیے لیکن نکاح جن حقوق کا نام ہے وہ یہاں مفقود ہیں

اسلام دین فطرت ہے۔ پردے سے متعلق مختلف آیات نازل ہوئی ہیں۔
اللہ نے فرمایا : نہیں ہے اندھے پر کوئی حرج اور نہ لنگڑے پر اور نہ بیمار پر اور نہ تمہاری جانوں پر کہ تم لوگ کھاؤ اپنے گھروں سے یا اپنے باپ کے گھر سے یا اپنی ماں کے گھر سے یا اپنے بھائی کے گھر سے یا اپنی بہن کے گھر سے یا اپنے چچا کے گھر سے یا اپنی پھوپھی کے گھر سے یا اپنے ماموں کے گھر سے یا اپنی خالہ کے گھر سے یا جس کے گھر کی کنجیوں کے تم مالک ہو یا اپنے دوست کے گھر سے ۔ نہیں کوئی گناہ تم پر کہ کھاؤ آپس میں مل کر یا الگ الگ ہوکر۔ پس جب تم گھروں میں داخل ہونے لگو تو سلام کہو اپنی جانوں پر دعائیہ کلمات کے ساتھ اللہ کے ہاں برکت اور اچھائی کے ساتھ۔ اسی طریقے سے اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی آیات بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھ لو۔ (سورہ النور:آیت61)۔
اس آیت میں روایتی پردے کا ذکر ہے۔ جو عرب کے زمانہ جاہلیت سے موجودہ دور تک ہر قوم اور ہر علاقے میں موجود ہے۔ جب کوئی اپنے خاص منصب یا عہدے کی وجہ سے مرجع خلائق بنتا ہے تو پھر اس کے پاس ایسے اجنبی لوگ بھی آتے ہیں جن میں منافق اور دشمن بھی ہوسکتے ہیں۔ جب نبی کریم ۖ لوگوں کیلئے مرجع خلائق بنے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی ازواج مطہرات کیلئے پردے کا خاص حکم بھی نازل فرمایا۔ ایک طرف حضرت عائشہ صدیقہ نے جنگ جمل میں خلیفہ راشد حضرت علی کے خلاف اپوزیشن کی قیادت کی اور دوسری طرف پردے کی وہ آیات جن میں گھروں کے اندر محصور ہوکر بیٹھنے کا حکم ہے۔ چونکہ بعد کے لوگ بال کی کھال اتارنے کے چکر میں اللہ کے احکام کو صحیح سمجھنے میں ناکام رہے اسلئے پردے کے احکام بھی ان کی نظروں میں متضاد اور اوجھل ہی رہے۔
رسول اللہ ۖ کو اللہ تعالیٰ نے بڑا امتیازی منصب عطا فرمایا تھا۔ ایک طرف عقیدتمندوں کے احترام کا مسئلہ تھا تو دوسری طرف بدو اعراب سے واسطہ تھا جو حجرات کے پیچھے سے پکارتے تھے اور ان کے بارے میں اللہ نے واضح کیا تھا کہ وہ یہ نہ کہیں کہ انہوں نے ایمان لایا بلکہ وہ یہ کہیں کہ ہم نے اسلام لایا۔ کیونکہ ایمان ابھی تک ان کے دلوں تک نہیں پہنچا تھا۔ عقیدتمندوں سے تو اُمہات المؤمنین کے احترام کی توقع ہوسکتی تھی لیکن بد عقیدہ اور بدبخت لوگوں کے علاوہ سادہ لوح لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔ اسلئے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف نبی ۖ کی ازواج کیلئے پردے کا خاص حکم نازل فرمایا اور دوسری طرف یہ تلقین کردی کہ ازواج مطہرات تمہاری مائیں ہیں۔ ان سے نکاح نہ کریں کیونکہ اس سے نبی کو اذیت ہوتی ہے۔ قرآن میں یہ آیات بہت واضح ہیں۔ آج کی دنیا میں بھی جن خواتین کے شوہر کوئی امتیازی مقام رکھتے ہیں تو ان کو نکاح کی دعوت دینا ان کی توہین سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح سے جب بعض لوگوں پر اجنبیت کا ازدہام ہو تو وہ پردے کا اہتمام کرتے ہیں۔
اس تمہید کے بعد یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ محصنات عربی میں بیگمات کو بھی کہتے ہیں جن میں وہ بیگمات بھی شامل ہیں جنکے شوہر زندہ ہیں اور وہ بیگمات بھی ہیں جن کے شوہر فوت ہوگئے۔ ایک عورت کیلئے اپنے شوہر کی اہمیت کیا ہوتی ہے اس کا اندازہ قرآن کی اس آیت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ نے فرمایا: مردوں کو عورتوں کا محافظ بنایا گیا ہے بسبب اللہ کے فضل کے جو بعض پر بعض کو عطا کیا۔ اور جو مرد خرچہ کرتے ہیں ۔ پس عورتیں نیک ہیں ، عاجزی کرنے والی ہیں ، حفاظت کرنے والی ہیں غیب میںجو اللہ نے ان میں حفاظت کا جوہر رکھا ہے۔ اور جن کی بدخوئی کا خوف ہو تو ان کو سمجھاؤ اور ان کو الگ کرو ٹھکانوں میں اور ان کو مارو اگر وہ تمہاری مانیں تو ان کیلئے لڑنے کی راہیں تلاش نہ کرو۔ بیشک اللہ بلند بڑا ہے۔ (النسائ: آیت34)۔
صنف نازک عورت کو تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے اور زیادہ تر مرد اپنی کمائی خواتین پر لگاتے ہیں تو یہ بھی ایک فضیلت ہے۔ اور دوسری طرف کی فضیلت عورتوں کی ایسی صفات ہیں جو مردوں میں نہیں پائی جاتی ہیں۔ وہ فطرتاً نیک ہوتی ہیں، عاجزی کرنے والی ہوتی ہیں اور غیب میں اپنی عزت کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔ ایک طرف مرد طاقتور ہوتا ہے اور دوسری طرف عورت زبان کی تیز ہوتی ہے۔ پاکستان کے محافظ افواج پاکستان ہیں اور ان کے ہاتھ میں طاقت اور ڈنڈا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے صحافیوں کی زبان بہت چلتی ہے۔ اگر ان میں یہ صفات پیدا ہوجائیں کہ وہ صالح بھی بن جائیں ، عاجز بھی بن جائیں اور غیب کی حالت میں حفاظت کرنے والے بھی بن جائیں اور پھر جب ایک دوسرے کے ساتھ ٹاکرہ ہو تو ایک دم سخت ڈنڈے چلانے کے بجائے پہلے مہینے میں ان کو سمجھانے سے کام لیا جائے دوسرے مہینے میں ان کے ٹھکانوں کو الگ کیا جائے اور پھر تیسرے مہینے میں ہلکی پھلکی مار پڑے تو پاکستان کے لوگ خود کو بہت خوش قسمت سمجھیں گے۔
اللہ نے مردوں کو مارنے کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ ان کی مارنے کی طاقت کو کنٹرول کرنے کیلئے یہ حکم دیا ہے۔ جب ہلکی پھلکی مار کی ضرورت پڑے تو اس کا مطلب شوہر کا پیمانہ بھی لبریز اور عورت بھی اس پر نہ مانے تو دونوں میں پھر نباہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن جدائی کیلئے پھر بھی ایک دم 3طلاق کا وہ شرعی مسئلہ نہیں ہے جس کے بعد دونوں مدارس اور مساجد کے طواف حلالہ کے چکر میں لگاتے ہیں بلکہ اللہ نے فرمایا : اور اگر تمہیں خوف ہو ان دونوں میں جدائی کا تو تشکیل دو ایک فیصلہ کرنے والا شوہر کے خاندان سے اور ایک فیصلہ کرنے والا بیوی کے خاندان سے۔ اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہو تو اللہ ان میں موافقت پیدا کردے گا۔ بیشک اللہ بہت علم رکھنے والا خبر رکھنے والا ہے۔ (النسائ: آیت35)
پانچویں پارے کے شروع میں ان محترم بیگمات خواتین کا ذکر ہے کہ جن کو کسی اور سے نکاح پر اس کے نام و نمود اور مفادات کا نقصان پہنچتا ہے۔ جس طرح آج کل کی ایسی خواتین جن کے شوہر وفات پاچکے ہیں اور ان کو بڑی بڑی پینشن ملتی ہے جیسے نشان حیدر والیاں وغیرہ۔ حکومت کی طرف سے ان کی مراعات اسی وقت ختم کردی جاتی ہیں جب وہ کسی اور سے نکاح کرتی ہیں۔ حرمت کے حوالے سے پوری فہرست بیان کرنے کے بعد آخر میں پہلے دو بہنوں کو اکھٹا کرنا منع کردیا جس میں ایک کے بعد دوسری سے نکاح ہوسکتا ہے لیکن دونوں کو اکھٹا نہیں کیا جاسکتا۔ پھر بالکل آخر میں سب سے کم درجے کی حرمت کا ذکر ہے۔ اس سے لونڈیاں مراد نہیں ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے اپنے چچا کی بیٹی حضرت اُم ہانی کو نکاح کی پیشکش کی اور وہ اولین مسلمانوں میں سے تھیں۔ ان کے گھر میں ہی معراج کا واقعہ ہوا تھا۔ اس کو اپنے مشرک شوہر سے بڑی محبت تھی۔ جس کی وجہ سے اس نے اللہ کے حکم کے باوجود بھی ہجرت نہیں کی۔ فتح مکہ کے موقع پر حضرت علی نے اس کے شوہر کو قتل کرنا چاہا تو اس نے اپنے شوہر کیلئے نبی ۖ سے پناہ مانگی۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ اپنے شوہر کو اور جس کو بھی چاہو پناہ دے سکتی ہو۔ پھر اس کا شوہر عیسائی بن کر نجران چلاگیا تو نبی ۖ نے اس کو اپنے نکاح میں آنے کی دعوت دی۔ اس نے پیشکش کو قبول کرنے سے معذرت کرلی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حکم نازل کیا کہ تمہارے لئے وہ چچا کی بیٹیاں حلال ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے۔ پھر اللہ نے کسی بھی عورت سے نبی ۖ کو نکاح کرنے سے منع فرمایا اگرچہ اس کا حسن بہت بھلا لگے۔ پھر الا ما ملکت یمینک کی اجازت دے دی۔ جس عورت سے آپ کا معاہدہ ہوجائے۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے علامہ بدر الدین عینی کے حوالے سے نقل کیا کہ نبی ۖ کی 28ازواج تھیں جن میں اُم ہانی بھی شامل تھیں۔ حالانکہ قرآن کی رو سے نبی ۖ کو نکاح سے منع کیا گیا تھا مگر معاہدہ کی اجازت تھی۔ تو یہ معاہدے والی ہی ہوں گی۔ اسلئے اُمہات المؤمنین میں شامل نہیں تھیں۔ جب اُم ہانی کو اپنے مشرک شوہر کیلئے اتنی بڑی مان تھی کہ اسکے بعد نبی ۖ سے عقیدت رکھنے کے باوجود بھی نکاح کے شرف کو قبول نہیں کیا تو اس سے خواتین کی فطرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پروین شاکر کو شوہر نے بیوفائی کرکے طلاق دی تھی لیکن پھر بھی اس کی وفاداری نے اُردو کی شاعری کو بہت بڑا شرف بخشا ہے۔ عورت کی فطرت سے ناواقف شوہر ہمیشہ بیوفائی بھی کرتے ہیں لیکن ان کو اس کا احساس تک بھی نہیں ہوتا۔ عورت کی اسی فضیلت کو اللہ تعالیٰ نے زبردست انداز میں بیان کیا ہے۔
سورہ النور میں گھروں میں کھانے کے حوالے سے : او ماملکتم مفاتیحہ او صدیقکم ”جن کی چابیوں کے تم مالک ہو یا تمہارے دوستوں کے”۔ ظاہر ہے کہ اس سے غلام و لونڈیاں اور آزاد دوست مراد لینا غلط ہوگا۔ ایک طرف قرآن نے لونڈی اور غلام کی ملکیت کو باطل قرار دیتے ہوئے اس کو ایک معاہدہ قرار دیا ہے چنانچہ لونڈی و غلام دونوں پر اس کا اطلاق بھی ہوتا ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے جس طرح آزاد مردوں اور عورتوں کے درمیان نکاح کے علاوہ آزادی سے ایک معاہدے کی اجازت دی ہے تو اسی معاہدے کی اجازت لونڈی و غلام سے بھی دی ہے۔ جاگیردارانہ نظام تربیت یافتہ لونڈی و غلام فراہم کرتا تھا جب اللہ نے سُود کو حرام قرار دیا تو مزارعت کو بھی نبی ۖ نے سُود قرار دے دیا۔ اگر اس وقت سے اسلام جاگیردارانہ نظام کو ختم کردیتا تو پھر بادشاہوں کے دربار میں لونڈیوں کے سلسلے بھی نہ ہوتے۔ ہم نے اس پر کافی مرتبہ بہت کچھ دلائل لکھ دئیے ہیں۔
پانچویں پارے کے ابتدائی صفحے میں جو احکام بیان ہوئے ہیں ان میں محصنات اور ماملکت ایمانکم کی زبردست وضاحت ہے۔ صحیح بخاری میں عبد اللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ سے صحابہ نے عرض کیا کہ کیا ہم خود کو خصی نہ بنالیں؟۔ نبی ۖ نے فرمایا : ایک دو چادر کے بدلے متعہ کرلو۔ لا تحرموا ما احل اللہ لکم من الطیبات حرام مت کرو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے۔ بخاری کی اس روایت میں نبی ۖ نے متعہ کی علت بھی قرآن کی اس آیت سے واضح کی ہے۔ صحیح مسلم میں بھی عبد اللہ ابن مسعود نے اس علت کو اپنی طرف سے بھی واضح فرمایا ہے۔ مفسرین کہتے ہیں کہ عبد اللہ ابن مسعود نے اپنے مصحف میں متعہ کے حوالے سے الیٰ اجل مسمیٰ کی اضافی آیت لکھی تھی۔ حالانکہ جلالین کی طرح وہ تفسیر تھی جو حدیث کے مطابق تھی۔ سورہ النساء کی آیت3میں بھی ماملکت ایمانکم سے مراد لونڈیاں نہیں ہیں بلکہ جن لاچار لوگوں کے بس میں ایک بیوی تک بھی پہنچ نہ ہو تو ا سے مجبوری کی حالت میں خصی ہونے کے بجائے وقتی طور پر معاہدے کی اجازت کا معاملہ ہے۔ اگر دنیا کو قرآن کی صحیح سمجھ آئے تو وہ بھی اپنے لئے اس کو راہ ہدایت کا واحد ذریعہ سمجھے۔ اگر کوئی ایسی لڑکیاں ہوں جنہوں نے دوستیوں کے اندر معاہدے کا کردار ادا کیا ہو تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگرتمہیں بیوہ و طلاق شدہ تک بھی نکاح کیلئے میسر نہ ہوں تو پھر ایسی لڑکیوں کو بھی ان کے سرپرستوں کی اجازت سے نکاح میں لاسکتے ہیں لیکن اس وقت پھر اپنے سے ان کو کم تر مت سمجھو اور اللہ تمہارا ایمان جانتا ہے۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہو تو پھر عام عورت کے مقابلے میں ان کو آدھی سزا ہے۔ اور اس میں بھی اگر مشکل میں پڑنے کا خوف نہ ہو تو درگزر کرو۔ (سورہ النسائ:آیات24،25)۔اسلام دنیا میں عیاشیوں کیلئے نہیں سرفروشی اور جانسوزی کیلئے آیا ہے۔ لیکن قرآنی آیات کی غلط تفاسیر سے نہ صرف عورت ذات کو اسلام سے متنفر کردیا گیا ہے بلکہ دنیا کے کفار بھی اس سے خطرات کھارہے ہیں۔میں اعلانیہ یہ بات کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں جو بھی نکاح کے نام سے رشتے ہیں ان کی حیثیت نکاح کی نہیں ایگریمنٹ کی ہے جب خلافت قائم ہوگی تو پھر عورتوں کو قرآن کے مطابق نکاح کے شرعی اور قانونی حقوق ملیں گے اور وہ ایگریمنٹ نہیں ہوگا۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز