پوسٹ تلاش کریں

پریشان حال لوگوں کو یہ لوگ بیلوں، گایوں، بچھڑوں کا غول سمجھتے ہیں۔ انور مقصود

پریشان حال لوگوں کو یہ لوگ بیلوں، گایوں، بچھڑوں کا غول سمجھتے ہیں۔ انور مقصود اخبار: نوشتہ دیوار

پریشان حال لوگوں کو یہ لوگ بیلوں، گایوں، بچھڑوں کا غول سمجھتے ہیں۔ انور مقصود

عوام کیلئے دل دکھانے کا تصورقدم قدم پر میسرہے۔ہر حکومت نے غریبوں کو جانور سمجھاجو گٹھن میں ، روٹی کے لالے، رات کی نیند حرام

60فیصد آبادی غریب،40فیصد فوج۔امیروں کا ملک سے تعلق نہیں، بچے مسلمان کروانے باہر بھیجتے ہیں کہ اسلام کی سہولت میسر نہیں!

میں نے پریس کانفرنس میں کہا83برس کی عمرتک کپڑے خود اتارے، الٹا سیدھا بول کر پنجاب پولیس سے کپڑے اتروانا نہیں چاہتا۔

قیامت کی نشانیاں ہیں، جب عدالتیں کسی اور کے فیصلے کا انتظار کرنے لگیں، مولانا ماں کی گالی دے ،گویا اسکی ماں نہیں دونوں باپ ہیں؟

معز ز خواتین و حضرات۔ اس بے ادبی کے زمانے میں احمد شاہ صاحب ادب کو زندہ رکھنے کی کوشش میں مبتلا ہیں۔ سب سے کہتے ہیں ادب پر بات صرف مجھ سے کہتے ہیں پاکستان پر بات کریں۔ جبکہ پاکستان کا ادب سے کوئی تعلق نہیں۔ 15ویں اردو کانفرنس کے اشتہار میں لکھا4دسمبر6بجے شام اختتامی انور مقصود۔ اختتامی کے بعد لکھا, رقص۔ چلو سب کچھ ختم اب ناچو۔ عوام کیلئے دل دکھانے کا تصور پاکستانی سربراہوں کے دورِ حکومت میں قدم قدم پر میسر ہے۔ ہر حکومت نے غریبوں کو جانور سمجھا۔75برسوں سے یہ جانورگھٹن کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ روٹی کے لالے، رات کی نیند حرام۔ گرد و غبار میں چھپے ہوئے چہروں کو یہ صرف الیکشن کے زمانے میں دیکھ لیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے معاشرہ دلسوزی کے نام سے آگاہ نہیں ۔ پریشان حال لوگوں کو یہ لوگ بیلوں، گایوں ،بچھڑوں کا غول سمجھتے ہیں۔بڑی بڑی سیاہ شیشوں والی گاڑیوں میں بیٹھے خود کو خدا سمجھتے ہوئے ، کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں ان کو کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ سائرن بجاتے ہوئے غول کو اِدھر اُدھر بھگادیتے ہیں۔ بریانی کے پیکٹ پھینکتے جاتے ہیں۔ بچے بھاگ کر پیکٹ اٹھا لیتے ہیں، بڑے نہیں اٹھاتے وہ کہتے ہیں کہ بچوں کو تو زندہ رہنا چاہیے۔ ان مناظر کا اثر سیاستدانوں پر نہیں ہوتا۔ گاڑیاں گزرنے کے بعد لوگ خاموشی سے واپس جس طرح جنازے کا خاموش جلوس دفن کرنے کے بعد گھر لوٹتا ہے مایوس!75برسوں سے ہم یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔ بھئی کتنا کماؤ گے؟ کتنا لوٹو گے؟ کتنا جھوٹ بولوگے؟ کتنا اپنے اوپر خرچ کرو گے؟۔ غریب تو اب کہتے ہیں کوئی طاقت ہی نہیں آپکی طاقت کے سوا کچھ بچا ہی نہیں میرے لئے جنت کے سوا
غریبوں کیلئے کھانے باورچی خانے چلانے کے سلسلے میں ہمارے وزیر اعظم6،7ملکوں کے سربراہوں کے سامنے ہاتھ پھیلا چکے ہیں۔ غریب کہتے ہیں ہمیں بدنام نہ کریں اپنے لئے مانگیں۔ ٹک حرص و حوس کو چھوڑ میاں مت دیس بہ دیس پھرے مارا (یہاں میاں کا لفظ بہت اچھا لگ رہا ہے)جب چلتے چلتے رستے میں یہ گون تری ڈھل جائے گی ….اک بدھیا تیری مٹی پر پھر گھاس نہ چرنے پائیگی…..یہ کھیپ جو تونے لادی ہے سب حصوں میں بٹ جائیگی …. . دھی پوت جنوائی بیٹا کیا بنجارن پاس نہ آئے گی …… سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا
بات یہ ہے کہ حالات مسلسل اس طرح کیو ں ہیں؟ ۔ بھائی جب بندوق کی زبان قومی زبان بن جائے تو حالات ایسے ہی ہوجاتے ہیں۔ آرٹس کونسل کی عمارت65برس سے اسی جگہ موجود ہے۔ ایک وقت تھا کہ اسکے ایک کونے میں اکڑوں بیٹھے صادقین تصویریں پینٹ کرتے۔ سیڑھیوں سے فیض اتر رہے ہیں ۔ آرٹس کونسل کے پھسل منڈے سے صوفی پھسلتے آرہے ہیںکیونکہ وہ سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتے۔ عالی، رئیس امروہوی ، بخاری، سبط حسن، حاجرہ آپس میں باتیں کررہے ہیں۔ انتظار حسین ساقی فاروقی سے بچتے پھر رہے ہیں۔ محمد حسن عسکری خاموش بیٹھے ہیں۔..20،22برس پہلے احمد شاہ یہاں آگئے اور جانے کا نام نہیں لیتے۔ جانا چاہتے ہیں مگر عوام نہیں جانے دیتے۔ ویران کھنڈر کو شاہ نے خوبصورت عمارت میں تبدیل کردیا۔ دنیا بھر سے ادیب کانفرنس میں شریک ہوتے کچھ عصری کچھ ادیبوں کے بھیس میں۔ ہندوستان سے بھی شاعر اور ادیب آجاتے تھے۔ سب مرگئے۔ اب کوئی نہیں۔ میں نے پوچھا شاہ! ہندوستان سے کون آرہا ہے؟۔ کہنے لگے بھائی! ہندوستان سے صرف دھمکیاں آرہی ہیں۔ اسٹیج پر آنے سے پہلے شاہ نے کان میں کہا انور بھائی پاکستان پر سب کی تعریف کرنا ہے۔ خاص طور پر نئے آرمی چیف کی۔ میں نے کہاعاصم منیرکی تعریف تو سب کررہے ہیں۔ فوجی ، انکے دوست ، محلے والے۔ نیک ، شریف، نمازی، ایماندار، بہادر، اپنے پیشے سے محبت، وطن کی عزت، پرچم کی قدر، انکے ایک پڑوسی نے ٹیلی ویژن پر کہا میرے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلتے تھے۔ اب فرق ہوگیا گلی پڑوسی کے ہاتھ میں ، ڈنڈا عاصم منیر کے ہاتھ میںآگیا ۔ دعا ہے یہ ایسے فوج کے سربراہ ہوں جو صرف فوج کا خیال رکھے اور عوام کا۔ باجوہ نے الوداعی تقریر میں کہا فروری2022فوج نے فیصلہ کیا کہ سیاست سے پرہیز کریگی۔ بہت اچھا فیصلہ، مطلب74برس فوج نے سیاست سے بدپرہیزی کی؟۔ بدپرہیزی کا مطلب بے اعتدالی، بے احتیاطی، عیش، فضول خرچی۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ فوج ہماری ضرورت ہے ، پڑوسی بہت خراب ہیں۔ ہم بھی زیادہ اچھے نہیں ۔ اسی لئے فوج کبھی سرحد کی طرف دیکھتی ہے کبھی اپنے ملک کی طرف پھر سوچتی ہے، اُدھر جاؤں یا اِدھر جاؤں۔ بڑی مشکل میں ہوں کدھر جاؤں۔ پھر ادھر آجاتی ہے۔پاکستان کی60فیصد آبادی غریب،40فیصد فوج ۔ امیروں کا پاکستان سے تعلق نہیں۔ اپنے بچوں کو مسلمان کروانے بھی لندن بھیجتے ہیں کہتے ہیں یہاں مسلمان ہونے کی سہولت نہیں۔ بیروزگاری، بدحالی، مہنگائی، پریشانی، پشیمانی، اداسی ملکوں پر بادلوں کی طرح چھاگئی ۔ کسی کو احساس نہیں کہ ملک کیساتھ کیا کر رہے ہیں؟، قرضہ ملتا ہے تو ایوان تالیوں سے گونجتے ہیں۔ اسکے باوجود احمد شاہ کا اصرار ہے پاکستان پر بات کروں۔ پاکستانی کہانی سناؤں۔ حالات بدل گئے ۔
جو ہے زباں پر دل کو نہیں اس سے فائدہ جو دل میں ہے وہ لا نہیں سکتے زبان پر
میں نے پریس کانفرنس میں کہا83برس کی عمر میں ہمیشہ اپنے کپڑے خود اتارے ۔ الٹا سیدھا بول کر پنجاب پولیس سے نہیں اتروانا چاہتا۔ پاکستان75کا۔ میںاس سے8برس بڑا ہوں۔ میری ان گنہگار آنکھوں نے پاکستان کو پروان چڑھتے کم اورپروان اترتے زیادہ دیکھا۔ غریب غریب ترین ہوگئے امیر امیر ترین۔14اگست1947نیا ملک نیا آسمان خوبصورت سرزمین۔24سال بعد آدھی زمین بنگالیوں نے واپس لی۔ آدھی زمین جو بچی تھی یہاں لوگوں نے خرید لی یا بیچ دی۔اب سرزمین میں خالی زمین غائب ہوگئی، انگریزی سر بچے ۔ خریدی زمین پر مجبوراً کہتے ہیں سر! زمین کہاں گئی؟۔ اسکے باوجود پاک سر زمین شاد باد سن کرکھڑے ہوجاتے ہیں۔ پرچم ستارۂ و ہلال سے آنسو پوچھتے ہیں اندھیروں میں گم ہوجاتے ہیں کہانی پاکستان کی سنیں گے؟
قصہ میرا سنو گے تو جاتی رہے گی نیند آرام چشم مت رکھو اس داستاں سے تم
یہ کہہ کے جو رویا تو لگا کہنے نہ کہہ میر سنتا نہیں میں ظلم رسیدوں کی کہانی
کہانی ظلم رسیدوں کی ہے۔ مجھے شاہ کی بات یاد آگئی۔ انور بھائی بولنے کا چیک جب ملے گا آپ لوگوں کو خوش اور ہنستا ہوا رکھیں۔ شاہ ! جو کام حکومت کا ہے مجھے سونپ دیا۔ حکومت کا کام ہے لوگوں کو خوش اور ہنستا ہوا رکھنا۔ حکومت نے عوام کو ہنستا ہوا تو رکھا۔عوام وزیر اعظم اور تمام وزیروں کے بیانات پر گھنٹوں ہنستے رہتے ہیں مگر خوش نہیں۔ پاکستان کی کہانی فلم کی طرح75سال سے ہے۔ ہدایتکار پنجاب ، شوٹنگ بلوچستان میں۔ پس پردہ موسیقی آرمی کا بینڈ۔ فلم کا انٹرویل1971میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ انٹرویل کے بعد فلم ملی نغمے سے شروع ہے، اے وطن کے سجیلے جوانو! اسکے بعد فلم کا ہیرو جو سندھی ہے بڑھئی کے پاس جاتا ہے، کہتا ہے ایسا تختہ چاہیے جوالٹا نہ جائے۔ بڑھئی کاتختہ6فٹ چوڑا،4فٹ لمبا ہے۔ درمیان میں3فٹ اور ڈھائی فٹ کا سوراخ ہے۔ بڑھئی کہتا ہے تختہ کوئی الٹ نہیں سکتا مگر تختے کے سوراخ سے تم نیچے جاسکتے ہو۔ اس کے بعد آرمی بینڈ ہے ، اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا۔ فلم کے آخری منظر میں ایک آدمی امریکہ سے پیسے مانگ رہا ہے، چین ، برطانیہ، سعودیہUAEسے مانگ رہا ہے۔ اور کہہ رہا ہے اگر ترکی سے قرضہ مل گیا تو قسم خداکی سب کے پیسے واپس کردیں گے۔ ایک چھوٹا بچہ آکر ایک شعر پڑھتا ہے۔ خدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ہو اے مفلس! یہی وہ در ہے کہ ذلت نہیں سوال کے بعد
وہ آدمی بچے سے کہتا ہے اللہ میاں ڈالر کیسے بھیج سکتے ہیں؟۔ پچھلے سیلاب سے بڑا سیلاب تو بھیج سکتے ہیں۔ پھر دامن میں ڈالروں کی بارش۔ اب صرف تباہی بربادی آمدنی کا ذریعہ ہے۔ جتنی تباہی اتنی بہتری۔ بیٹے تم تو قیامت کی بات کررہے ہو۔ محترم قیامت تو آچکی۔ نشانیاں پتہ کیا ہیں؟ جب برے لوگ اچھے لوگوں پر حکومت کرنے لگیں۔جب جھوٹ سچ کو ماردے۔ عدالتیں کسی اور ادارے سے فیصلہ کا انتظار کرنے لگیں۔ مولانا وطن کی ماؤں بیٹیوںاور بہنوں کیلئے گندی زبان استعمال کرنے لگیں۔ جیسے ان کی ماں نہیں دونوں باپ تھے۔
تمہیں کیسے معلوم برے لوگ اچھے لوگوں پر حکومت کا؟۔ آج کی بات نہیں75برسوں کی بات کررہا ہوں۔ صرف بچوں کی تعلیم پر دھیان دیں۔ ایک یونیورسٹی کے بجائے100اسکول کھول دیں۔ بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں دے دیں تاکہ مستقبل میں زیادہ اچھے لوگ اچھے لوگوں پر حکومت کرسکیں۔ اچھا یہ بتاؤ بیٹے ہم اس ملک کو ٹھیک کرسکتے ہیں؟۔ ا لف ب والے قاعدے سے پ اور ع نکال دیں۔ پھر جو مرضی آئے وہ کریں۔ ع نکال دیں کیا ہوگا؟۔ قاعدہ سے ع نکال دیں تو عسکری غائب ، عروج غائب، عدالت غائب، عذاب غائب، عزت غائب، عریاں غائب، عیش غائب۔ بیٹے اگر پ نکال دیں تو؟۔ پبلک غائب،پریشان غائب، پارلیمان غائب، پیشی غائب، پھر مانگ غائب، پشیمان غائب، پامال غائب، پاکستان غائب۔ بیٹے کچھ اوربتاؤ۔ آج کے پاکستان کی کہانی سنارہا تھا۔ سب سرگزشت سن چکے اب چپ کے ہورہو آخر ہوئی کہانی میری تم بھی سو رہو نام تو بتادو بیٹے ۔ محمد علی ۔ لڑکا غائب ہوجاتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز