پوسٹ تلاش کریں

پروفیسر احمد رفیق اختر نے آیت کی غلط تفسیرکی جس کا نوٹس لینا بڑا ضروری

پروفیسر احمد رفیق اختر نے آیت کی غلط تفسیرکی جس کا نوٹس لینا بڑا ضروری اخبار: نوشتہ دیوار

پروفیسر احمد رفیق اختر نے آیت کی غلط تفسیرکی جس کا نوٹس لینا بڑا ضروری

صحابہ نے پوچھا کہ توبہ ہم جانتے ہیں طہارت سے کیا مراد ہے؟۔ نبی ۖ نے فرمایا : ڈھیلوں کے بعد پانی کا استعمال کرنا زیادہ طہارت ہے(مفہوم)

آیت میں حیض کا ذکر ہے اور طہارت کا مفہوم بھی بالکل واضح ہے۔ پروفیسر احمد رفیق اختر نے تعلیم یافتہ لوگوں کا بار اٹھایا ہے غلطی کا ازالہ ہونا چاہیے۔

پروفیسر احمد رفیق اختر نے ایک ویڈیو میں کہا ہے کہ خواجہ مہر علی کی ایک بات مجھے وہ اخری لٹریٹ مسٹک سے ان کی رائے میں بڑا حسن ہے دل نے چاہا کہ اس کے اختتام سے پہلے میں ان کو کوڈ نہ کروں فرمایا کہ ان امور کے بیان میں جن کا جاننا ضروری ہے واضح ہو کہ تفسیر کے تمام طریقوں میں سے اول درجہ بڑی انقلابی بات ہے، اول درجہ تفسیر القران بالقرآن ہے۔ یعنی سب سے پہلے قران کی وضاحت قران سے طلب کیجیے اگر قرآن ایک بات ایک جگہ کہی ہے جیسے معتزلہ نے کیا یا ماتریدیہ نے کہا یا جہیمیہ نے کیاایسے نہ کیجئے۔ ایک آیت سے استنباط نہ کیجیے پہلے پورا قران تو پڑھ لیں۔ مختصر یہ کہنا ہے امام کا خواجہ مہر علی کا کہنا یہ ہے کہ یار پہلے پورا قران تو پڑھ لو نا اگر ایک آیت سپلیمنٹ آیت آئی ہوئی ہے سپلیمنٹ آیتیں آئی ہوں گی اگرآگے آیات ہوں گی تو پورا ادراک ایک موضوع پہ آیات قرانی سے کر لو پھر ان کے بارے میں رائے دینا۔ تو فرسٹ ڈگری قرآن کو سمجھنے کیلئے یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر بالقرآن۔ اس کے بعد کیونکہ ان القرآن یفسر بعضہ بعضا قرآن ایسی کتاب ہے کہ اس کی ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر کرتی ہے ایک حصہ دوسرے حصے پہ دلالت ہے اس کی محکمات متشابہات پہ دال ہے اور متشابہات زمانوں پہ آکے دلیل دیتی ہے قرآن کے بارے میں۔ دوسرا درجہ تفسیربالسنہ باوجود اس کے کہ وہ ایک بڑے سپیشلائز مسٹک علوم میں استاد معظم ہیں اسکے باوجود جو رائے دے رہے ہیں قرآن پڑھنے کے بارے میں کہ دوسرا طریقہ قرآن کی تفسیر بالسنہ ہے کہ اصحاب کے رویوں سے تصدیق کرو اگرآپ کو پتہ لگے یہ ہے تو آپ کوشش کرو کسی سے پوچھو کہ جب یہ حکم آیا تھا اصحاب نے کیسے لی ؟۔ چھوٹی سی آپ کو ایک بات بتا دوں کہ جب یہ آیت اتری کہ پروردگار نے صفائی پہ اتاری یحب التوابین ویحب المتطاہرین کہ خدا توبہ کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے اور پاک رہنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ تو اصحاب نے پوچھا یا رسول اللہ توبہ کی تو سمجھ آگئی مگر یہ پاک رہنے والے کون ہیں؟۔ تو اگر آپ کے سامنے بھی یہ لفظ پاک میں رکھ دو تو بڑی مشکل سے پتہ ہے کہ کیا پاکیزگی کا بیان ہے مگر رسول اکرم ۖ نے اصحاب کو جو بتایا کہ پاکیزگی کا مطلب ہے جوآپ ڈھیلے کے بعد آب دست لیتے ہیں کہ جب آپ گئے کیونکہ اس وقت جو رواج تھا رویہ تھا باہر گئے آپ نے ابولوشن کی تو پاک وہ لوگ ہیں جو اس ابولیوشن سے پوری طرح مطمئن نہیں ہوئے اور گھر آکے انہوں نے پانی سے وضو کیا۔ اے لٹل ایکسٹرا کلین (تھوڑی سی مزید صفائی )۔تو آپ کیلئے قابل قبول ہو گیا۔ اصحاب کی ان وضاحتوں سے دین ہماری گرفت میں آجاتا ہے آپ کو پتہ ہے اگر ہم ان کی بات نہ سنیں تو دین ہماری گرفت سے نکل جاتا ہے۔ اگر میں طاہرین کا یا متطاہرین کا ترجمہ لنگوسٹیکلی کروں زبان کے لحاظ سے کروں تو مجھے پاکیزگی کے ہولناک خواب آنے شروع ہو جائیں مگر یہ جو ایک نیچرل بتایا ہے کہ اینی بوڈی ہووش ٹو بی مور کلین وہ طاہر ہے۔ وہ غیر معمولی کنڈیشن نہیں ہے معمولی سی بات ہے کہ اگر آپ اپنے آپ کو زیادہ صاف رکھنا چاہو۔ اسلئے اصحاب کے رویے جو ہیں وہ قرآن کی اور سنت رسول کی بہترین تائید میں ہیں اور بہترین تفسیر ہیں۔ اور تیسرا درجہ شاہ خواجہ مہر علی کہتے ہیں کہ اصحاب کرام کی تفسیر کا ہے اور یہ کون ہے خلفاء اربعہ عبداللہ بن مسعود عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما۔ پھر چوتھادرجہ تابعین اور تبع تابعین کا ہے۔ ان میں چند ایک کے انہوں نے نام بتائے ہیں کہ عمدہ ترین مفسرین جو ہیں حضرت مجاہد بن جبل ابن عباس کے شاگردوں میں سے ، امام بخاری اور امام شافعی نے ان کی تفسیر پر اظہار اعتماد کیا ہے۔

تبصرہ نوشتۂ دیوار : عتیق گیلانی
پروفیسر احمد رفیق اختر کے اس بیان پر پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف کی تصویر بھی یوٹیوب پر لگی ہے مگر اس میں ایسی جہالت کا مظاہر ہ کیا گیا ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ پاکی کا ایک تصور وہی ہے جس کی پہچان دنیا میں ”مسلم شاور” سے ہوتی ہے۔ یورپ وغیرہ میں ٹشو پیپر کا استعمال ہوتا ہے اور مسلمان استنجاء پانی سے بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے استنجاء میں استعمال ہونے والا شاور ”مسلم شاور”کہلاتا ہے۔ پروفیسر صاحب نے قرآن کی آیت222البقرہ کے حوالہ سے بات کی ہے جسمیں توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کا ذکر ہے۔ اس آیت میں ناپاکی اور پاکی کے تصورات عام فہم ہیں۔ اللہ نے فرمایا: ویسئلونک عن المحیض قل ھو اذی فاعتزلوا النساء فی المحیض ولاتقربوھن حتی یطھرن فاذا تطھرن فاتوھن من حیث امرکم اللہ ان اللہ یحب التوابین و یحب المتطھرین ۔ ترجمہ :”اور آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ وہ ایک تکلیف ہے۔ پس حیض کی حالت میں عورتوں سے دور رہو۔ اور ان کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں۔ پس جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس آؤ جیسا کہ اللہ نے حکم دیا ہے۔ بیشک اللہ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ”۔ (البقرہ آیت222)۔ اسمیں پاکی اختیار کرنے والوں کی تفسیر بالکل واضح ہے۔ حیض کی حالت میں بیگمات سے قربت یعنی جماع سے روکا گیا ہے اور یہی پاکیزگی اختیار کرنے والے مراد ہیں۔پروفیسر احمد رفیق اختر اتنی دور کی کوڑی لانے سے بہتر تھاکہ پہلے آیت کے ترجمہ کو دیکھ لیتے اور پھر اس سلسلے میں احادیث کو دیکھ لیتے جن کا تعلق حیض سے ہے۔جہاں تک پانی سے استنجاء کرنے کی بات ہے ۔تو وہ حدیث سورہ توبہ آیت108سے متعلق ہے۔ جس میں مسجد ضرار کے مقابلے میں مسجد قباء کی وضاحت ہے۔ فیہ رجال یحبون ان یطھروا واللہ یحب المطھرین ” اس میں لوگ ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ وہ پاک رہیں۔ اور اللہ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے”۔ اس میں ان صحابہ کرام کی خبر ہے جو مسجد قباء کے پاس رہتے تھے۔ زیادہ پاکی سے مراد یہ ہے کہ وہ ڈھیلوں کے علاوہ پانی سے بھی طہارت حاصل کیا کرتے تھے۔ اس میں توبہ کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔
شاید اسرائیلیات میں کہیں درج ہے کہ مسلمانوںکا یہ امتیاز ہوگا کہ وہ ڈھیلوں کے استعمال کے بعد استنجوں کیلئے پانی سے بھی صفائی کریں گے۔ اس کی پہلی مثال مسجد نبوی سے بھی پہلے کی مسجد قباء تھی اور موجودہ دور میں بھی جہاں مشرق سے مغرب تک دنیا صرف ٹشو پیپر کا استعمال کرتی ہے تو وہاں مسلم شاور کی حیثیت سے استنجے میں استعمال ہونے والے شاور کو یاد کیا جاتا ہے۔ نمازی لوگ لوٹوں کا استعمال شروع سے کرتے ہیں۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ کسی عالم سے غلطی کی وجہ سے بدظن مت ہو اسلئے کہ کبھی کبھی شیطان بھی کسی اچھے آدمی کے منہ سے غلط بات نکال دیتا ہے۔ ایک صحابینے دوسرے سے پوچھا کہ کیسے پتہ چلے گا کہ شیطان نے بات نکلوائی ہے؟۔ اس کا جواب اس صحابی نے یہ دیا کہ جب کوئی ایسی بات کرے کہ لوگوں کو تعجب ہو کہ یہ کیا بات کہہ دی لیکن اچھے عالم کی نشانی یہ ہے کہ وہ غلط بات سے رجوع کرلیتا ہے۔ اگر وہ رجوع نہیں کرتا تو پھر وہ ایک عالم نہیں بلکہ شیطان ہے۔ یہ روایت مولانا یوسف لدھیانوی شہید نے اپنی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں” لکھی ہے۔ جب مولانا یوسف لدھیانوی کی طرف سے حاجی عثمان صاحب کے خلاف خط کا جواب دیا گیا تو مجھے حاجی صاحب نے آخر میں وصیت کی تھی کہ مولانا لدھیانوی سے ضرور پوچھ لینا۔ مولانا لدھیانوی نے کہا تھا کہ یہ مفتی جمیل خان نے لکھ کر میری طرف منسوب کردیا ہے۔ اور حاجی عثمان کی بہت تعریف بھی کی۔ جب میں نے کہا کہ میں اس کی وضاحت کروں گا تو انہوں نے کہا کہ اگر مجھے گالیاں بھی دو تو میں جواب نہیں دوں گا۔ میں نے عرض کیا کہ ”غلطی کا ازالہ آپ کا اپنا فرض بنتا ہے”۔ مولانا محمود حسن گنگوہی پر فتویٰ لگایا گیا تو ایک عالم نے چھپ کر معافی مانگی۔ مولانا نے فرمایا کہ ”فتویٰ کھل کر لگایا تھا تو اس کی معافی چھپ کر نہیں بنتی بلکہ یہ شریعت کا تقاضہ ہے کہ کھل کر اس کی تشہیر بھی کرنی ہوگی”۔
پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب نے یہاں پر بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے اور اس کا ازالہ بھی کھل کر کرنا ہوگا وگرنہ چھپ کر اس کی توبہ نہیں بنتی ہے۔ جہاں تک آیت222میں توبہ کا تعلق ہے تو یہ مردوں کیلئے عورت کو اذیت کی حالت میں تنگ کرنے کے حوالے سے وضاحت ہے۔ جب عورت اذیت کی حالت میں ہو تو اسکے شوہر کو اس کا خیال رکھنے کی تلقین ہے۔
اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کو دیکھیں کہ جب مفسرین اور فقہاء نے عورت کی اذیت کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا تو آیت222البقرہ کے بعد آیت223سے232تک مسلسل اللہ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے احکام بیان کئے ہیں۔ لیکن عورت کی اذیت کو نظر انداز کرکے جب تفسیر کی گئی اور مسائل گھڑے گئے تو اسلام اس کی وجہ سے اجنبیت کا شکار ہوگیا۔ عورت صنف نازک ہے اور کمزور ہے اور اللہ نے اس کے حقوق کا تحفظ کیا ہے لیکن مردوں نے ان کے تمام حقوق کو غصب کرلیا ہے۔
جس دن مسلمان اپنی کمزور صنف نازک کے حقوق کو بحال کردیں گے تو ان پر مقتدر اور طاقتور حلقوں کی طرف سے ظلم بھی بند ہوجائے گا۔ ایک افغانی عورت امریکہ میں بظاہر بڑی بے شرمی کا ارتکاب کرتی ہے اور پشتون تحفظ موومنٹ کے شاعر گلامن وزیر کی تعریف بھی کرتی ہے اور کہتی ہے کہ میں اپنے شوہر کی دسترس میں رہتی ہوں اور عورتوں پر طعنہ زنی کا کوئی حق نہیں بنتا اسلئے کہ جب امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کیا تو اس کے فوجیوں نے خواتین کو نہیں چھوڑا۔ تاریخ میں جتنے لوگ بھی دوسری اقوام پر قابض ہوئے ہیں تو خواتین کی عزتیں تار تار کردیتے ہیں۔ مغرب مسلمانوں کے بارے میں یہ تاثر رکھتا ہے کہ اگر اس کے قبضے میں ہم آگئے تو ہماری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بیگمات کو یہ لوگ اپنی لونڈیاں بنادیں گے۔ عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے مغربی حکمرانوں نے اپنے دشمن یہودیوں کو بیت المقدس سونپ دیا ہے تو کیا وہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کو اپنے قبلے سے زیادہ مقدس سمجھیں گے؟۔ پروفیسر احمد رفیق اختر نے انکشاف کیا کہ کوئی5برسوں میں ہی مغرب کے حکمران دنیا کے مسلمانوں سے مکہ کی مرکزیت چھین لیں گے۔ کیونکہ ان کے نزدیک جب تک یہ مرکز ختم نہیں ہوگا تو مسلمانوں سے چھٹکارا نہیں مل سکتا ہے۔ یہودیوں نے مصر سے مدینہ کیلئے ایک سڑک کا پروگرام بنایا ہے جس کے بعد وہ مدینہ کے بنو قریظہ ، بنو نظیر کے قبائل اور خیبر کے مقامات کو تلاش کرکے اپنا قبضہ جمالیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر یہود و نصاریٰ اور عرب میں ایک نیا بھائی چارہ قائم ہوگا جس کو بنی اسحاق اور بنی اسماعیل کے درمیان رکھا جائے گا۔ باقی مسلمانوں کو حجاز مقدس میں قدم نہیں رکھنے دیا جائے گا۔
ایک طرف مسلمانوں کو وحشیوں کی طرح دہشت گرد بنادیا گیا اور دوسری طرف سیاستدانوں کے ساتھ جب تک بھلائی ہو تو ان کو آزادی کی فکر نہیں رہتی۔ جب اقتدار سے محروم ہوتے ہیں تو وہ آزادی کا طبلہ بجانے لگتے ہیں۔ اگر2018میں عمران خان کا ضمیر جاگتا اور محکمہ زراعت کو مسترد کردیتا تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے مگر اس وقت پروفیسر صاحب نے اس کا گٹار بجاکر سنا ہے کہ استقبال کیا تھا۔ اللہ ہم سب پر رحم کرے

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز