زنا بالجبر (منکرات)
اپریل 16, 2017
موت کا منظر کتاب میں ’’زنا بالجر کی سزا‘‘ کے عنوان سے وائل ابن حجرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے خاتون نے شکایت کی تو نبیﷺ نے اس شخص کو سنگسار کا حکم دیا ۔ ابوداؤدکی اس روایت کی تائید انسانی فطرت اور قرآن کی آیت سے بھی ہوتی ہے۔ اللہ نے مسلم خواتین کو حکم دیا کہ گھروں سے نکلیں تو شریفانہ لباس پہن لیں تاکہ پہچانی جائیں اور کوئی اذیت نہ دے۔ یہ عناصر مدینہ میں نہیں رہیں گے مگر کم عرصہ ، پہلے بھی ایسے لوگ تھے جنکے بارے میں یہ سنت رہی ہے کہ اینما ثقفوا فقتلوا تقتیلا ’’جہاں بھی پائے گئے تو قتل کردئیے گئے‘‘۔ سینٹ میں امسال ان خواتین کی رپورٹ پیش کی گئی جن سے زبردستی زیادتی کی گئی 2936کیس تو صرف پنجاب کے تھے۔ سندھ وغیرہ کی تعداد انکے علاوہ ہے۔ بہت بڑی بات یہ ہے کہ میڈیا پر خبر نشر ہوئی کہ سندھ رینجرز کو ایک خاتون نے مدد کیلئے پکارا، جس کا تعلق خیبر پختونخواہ سے تھا۔ اس کو زبردستی اغوا کرکے بیچا جارہا تھا، جسکے پیچھے پورا گینگ تھا جن کا یہ دھندہ تھا۔ افسوس ہے کہ ایک دن سیاسی شخصیت میڈیا پر ببانگ دہل کہہ رہی تھی کہ فوجی عدالتوں میں صرف دہشتگردوں کیخلاف سماعت ہوئی ، اغواء وغیرہ کے چھوٹے معاملے فوجی عدالت کے حوالے نہیں کئے گئے، حالانکہ سب سے زیادہ سزا کے مستحق زبردستی سے عزتوں کے لٹیرے و اغواء کارہیں۔
کوئی غیرتمند انسان یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کی ماں ، بیٹی، بیوی اور بہن پر کوئی جبری ہاتھ ڈالے، اس کی عزت کوتار تار کردے۔ ہمارے اصحابِ حل و عقد کو کیا ہوگیا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کیساتھ زیادتیاں ہوتی ہیں اور ان پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ سیاسی لیڈر حکومت کرنے کے بعد ایسے واقعات کو روکنے پر وجہ نہیں دیتے تب بھی کس منہ سے عوام سے ووٹ مانگنے جاتے ہیں؟، تحریکِ انصاف انقلاب کی بات کرتی ہے لیکن اسکے جلسے میں لڑکیوں کو بدقماش لڑکے بھمبھوڑ لیتے ہیں۔ خواتین صحافیوں کو بھی کنچے مارنے میں شرم محسوس نہیں کی جاتی۔ عمران خان کہہ دیتے کہ جنہیں ہیرو سمجھتا تھا وہ تو ہیرہ منڈی کی پیداوار نکلے جو اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں تو سخت پیغام جاتا۔ لوگوں کی غیرت جاگ جاتی۔ امریکہ میں بھی خواتین سے بیہودہ حرکت کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
سب سے بڑی افسوسناک بات یہ ہے کہ سیاسی لوگ انسانی ضمیروں کو جگانے اور مذہبی طبقات عوام میں اسلامی روح پھونکنے میں ناکام ہیں۔ معاشرے میں جبری جنسی زیادتیوں کے خلاف کوئی بھی غم و غصہ کا اظہار نہیں کرتاہے لیکن کسی مذہبی اور سیاسی رہنما کے بارے میں سخت لہجہ استعمال ہوجائے تو ان کی ساری رگیں پھڑک اٹھتی ہیں، یہ رویہ ہم نے بدلنا ہوگا۔ رسولﷺ نے فتح مکہ کے وقت کسی کو لونڈی اور غلام نہیں بنایا۔ متعہ کی اجازت دی۔ ایک مذہبی انسان کی یہ سوچ کتنی گھناؤنی ہوگی کہ ابوسفیانؓ اور امیر معاویہؓ کی بیگمات کو لونڈی بنانا ٹھیک سمجھے اور ابوجہل وابولہب کی بیواؤں سے متعہ کی اجازت کو زنا قرار دیا جائے؟۔ ایک مولوی اور نبیﷺ کے اسلام میں فرق ہے۔ نبیﷺ نے آل فرعون کی طرح بنی اسرائیل کی خواتین کو لونڈی نہیں بناناتھا۔ قرآن میں لونڈی کی شادی کرانے کا حکم ہے۔ گورنر سندھ زبیر صاحب کی یہ بات غلط ہے کہ جنرل راحیل شریف ایک عام آدمی تھا ، نوازشریف کی وجہ سے کراچی میں امن قائم ہوا ہے۔ اگر پاک فوج کے ذمہ لگایا جائے تو پنجاب میں جبری جنسی تشدد کا خاتمہ ہوگا۔ سندھ رینجرز نے بس میں ایک عورت کی آواز پر مدد کی ، ایک گینگ خواتین کو پختونخواہ سے اغواء کرکے بیچتا تھا، جمہوری حکومت میں غیرت ہوتی تو خبر سے عوام کو آگاہ کیا جاتا۔ جب ن لیگ کے رہنماؤں نے الطاف حسین کیخلاف صرف زبان کھولی تھی تو ایم کیوایم والوں نے خاندان کی خواتین کو استعمال کرکے سعودیہ میں پناہ کا الزام لگایا گیا، اب مراد سعید پر ن لیگ کے رہنماؤں نے سنگین الزام لگاکر اپنا بھڑوا بچہ قرار دیا۔سلیم بخاری نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ میں بھڑوے بیٹھے ہیں جس کی وسعت اللہ خان نے بھی خبرلی تھی۔
لوگوں کی راۓ