پوسٹ تلاش کریں

قرآن کا غلط ترجمہ و تفسیر فرقہ واریت کی بنیاد ہے. محمد منیر مُلا

قرآن کا غلط ترجمہ و تفسیر فرقہ واریت کی بنیاد ہے. محمد منیر مُلا اخبار: نوشتہ دیوار

qatar-nawaz-sharif-ashraf-ali-thanvi-ahmad-raza-khan-barelvi-surah-fatah-syed-atiq-ur-rehman-gailani

کراچی نمائندۂ نوشتہ دیوار محمد منیر ملا نے کہا کہ قرآن کا غلط ترجمہ و تفسیر فرقہ واریت کی بنیاد ہے عرصہ ہوا کہ میڈیا متضاد بیانات، شواہد اور ججوں کے فیصلے و ریمارکس سے وزیراعظم نوازشریف اور اسکے خاندان کی دھجیاں اڑا رہا ہے، پانچ ججوں نے متفقہ طور سے آزادنہ ٹرائیل کا موقع دینے کے بعد نااہل قرار دیدیا مگر اپنا کوئی گناہ ماننے کیلئے وہ تیار نہیں ہیں، پھر کیسے نبیﷺ کے بارے میں یہ تصور مانا جائے کہ اللہ نے اگلے پچھلے گناہ کا کہا؟۔ بریلوی مکتب کے علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے مولانااحمد رضا خان بریلویؒ کے ترجمہ سے اختلاف کیا تو مفتی شاہ حسین گردیزی نے اس پربڑی کتاب لکھی۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ کواس ترجمہ پر کافر قراردیاگیا مگر پھر بریلوی مکتب کا آپس میں بھی اس آیت کے ترجمہ پر شدید اختلاف سامنے آیا۔ رسول ﷺ کی طرف گناہ کی نسبت اور آپﷺ کے والدین پر گناہ کی تہمت غلط ہے۔ قرآن کا درست ترجمہ و مفہوم فرقہ واریت کاحل ہے۔ قرآن کے مفہوم پرنبیﷺ کی ذات اور والدین کریمین پر فرقہ واریت، انانیت، خود غرضی کا مظاہرہ کرنے سے بڑی گمراہی کیاہوسکتی ہے؟ ۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے تو اپنی شہرت، دولت اور بادشاہ کی قربت کی قربانی دیکر ایک سید کو جتوایا تھاجسکے گھر کی ضروریات نہیں چل رہی تھیں تو بڑی ولایت مل گئی۔ سید عتیق الرحمن گیلانی اپنی ذات کیلئے نہیں بلکہ لازوال قربانیوں کی تاریخ رقم کرکے اس قرآن کی دعوت دے رہا ہے جو عزت کا لٹیرا نہیں محافظ ہے۔ جس سے دور ہوکر مسلم اُمہ خوار ہوگئی ہے، قومی ایکشن پلان پر عمل کی غرض سے حکومت، عدلیہ اور فوج مل کر اکابر علماء سے نکاح، طلاق، حلالہ اور قرآن کے ترجمے پرصرف تفتیش کر لیں۔ صوبائی حکومتیں بھی یہ کام کرسکتی ہیں ۔اسی سے تعصبات اور جہالتوں کا خاتمہ ہوگا۔
علماء ومفتیان، مذہبی سیاسی جماعتوں کا ہی یہ کام تھا مگران کو فرصت نہیں ملتی ہے، جب فرقہ وارانہ تعصب نہ رہے گا تو علماء سیاسی پلیٹ فارم پربھی اکٹھے ہوسکیں گے، حکمران کرپشن میں ڈھیٹ ہیں، اکابر علماء جہالت پر ڈھیٹ ہیں، دونوں اپنا کردار اور نظریہ ٹھیک کریں۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ دجال سے زیادہ خطرناک چیز حکمران اور لیڈر ہیں‘‘۔ (علامات قیامت و نزول مسیحؑ : مفتی رفیع)
مولانا فضل الرحمن نے حضرت ابوبکرؓ سے منقول رسولﷺ کی حدیث طالبان اور انکے امیر پرفٹ کی تھی، خراسان سے دجال اور اسکے لشکر کا حدیث میں ذکرہے، لیکن اگر ملا عمرخراسان کا دجال اور طالبان اسکا لشکر تھا تو کیا حکمران اور علماء کے کردار کو حدیث کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت نہیں ؟۔ خراسان سے ایک مہدی نکلنے کا بھی ذکر ہے، بعض علماء نے ملاعمرؒ کو مہدی قرار دیاہے۔ ایک ایسے اسلامی انقلاب کی بھی نوید ہے جس میں زورو جبر کا تصور بھی ختم ہوگا۔ قرآن وسنت کا حقیقی خاکہ دنیا کے سامنے پیش ہوجائے تو پاکستان کو یہ سعادت مل سکتی ہے۔
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ نے اپنی کتاب ’’ عصر حاضر حدیث نبویﷺ کے آئینہ‘‘ میں علماء، مفتیان، عوام، حکام سبھی کی تصویر پیش کردی ہے۔ مولانا یوسف لدھیانویؒ ختم نبوت کے مرکزی رہنما بھی تھے اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے ماہنامہ البینات کے مدیر بھی تھے۔ جن علماء و مفتیان نے حاجی عثمانؒ پر فتوے لگائے ، ان میں مولانا یوسف لدھیانویؒ کا نام بھی شامل کیا گیا تھا۔ حاجی عثمانؒ نے اپنی وفات سے پہلے سید عتیق الرحمن گیلانی کو وصیت کی کہ مولانا یوسف لدھیانوی کا مؤقف ضرور پوچھ لینا۔ مولانا یوسف لدھیانویؒ کے پاس ہمارا وفد گیا تو انہوں نے بات ٹالنے کی کوشش کی مگر جب سید گیلانی نے فتوے پر شرعی نکتے سے تنقید کی تو مولانا لدھیانویؒ نے فرمایا کہ ’’میں نے یہ نہیں لکھا، مفتی جمیل خان نے لکھ کر میری طرف منسوب کیا، مجھے حاجی عثمانؒ سے بڑی عقیدت ہے، انکے طفیل اپنی مغفرت کی دعا کرتا ہوں، یہ ساری مفتی رشید لدھیانوی کی خباثت تھی، جس طرح امام مالکؒ کا نام دنیا میں روشن ہے اور ان پر فتوے لگانے والوں کو کوئی نہیں جانتا، اسی طرح حاجی عثمانؒ کا نام زندہ رہے گا اور فتوے لگانے والے تاریخ سے مٹ جائیں گے‘‘۔ مولانا یوسف لدھیانویؒ نہ صرف خود بلکہ اپنے دامادوں کو بھی حاجی عثمانؒ کے مزار پر لے جایا کرتے تھے۔
حاجی عثمانؒ پر فتوے میں سب زیادہ جاندار اعتراض یہ تھا کہ ’’ نبیﷺ کی طرف منسوب اس حدیث کا انکار کیا ہے جس میں حضرت عائشہؓ نے آپﷺ سے عرض کیا تھا کہ اللہ نے آپکے اگلے پچھلے گناہ معاف کئے تو اتنی مشقت کیوں کرتے ہیں؟۔جس پر نبیﷺ نے فرمایا کہ’’ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘۔ حاجی عثمانؒ نے مشاہدات دیکھنے والے خلیفہ سے کہاتھا کہ اس حدیث کے بارے میں رسول اللہﷺ سے پوچھ لو۔ خلیفہ ابراہیم نے بتایا کہ ’’رسول ﷺ نے فرمایا کہ حدیث تو میری ہے لیکن الفاظ میں ردو بدل ہے‘‘۔ ان الفاظ میں بنیادی بات رسول اللہﷺ کی طرف گناہ کی نسبت تھی اور یہ الفاظ قرآن کی آیت کا ترجمہ کرکے لئے گئے تھے۔ حاجی عثمانؒ کو گناہ کی نسبت کا معاملہ رسول اللہﷺ کی طرف قبول اسلئے نہیں تھا کہ پھر معصومیت پر اثر پڑتاتھا۔ اس حوالہ سے اہل علم کے ترجمے اور تفاسیر میں بھی زبردست بحث کی گئی ہے۔ حاجی عثمانؒ کو سید عتیق الرحمن گیلانی نے ہی ایک موقع پر بتایا کہ یہ قرآن کی آیت ہے اور اس کی مختلف توجیہات بیان کی گئی ہیں۔حاجی عثمانؒ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہتاہے کہ یا موسیٰ مگر ہم تو ادب سے نام لیں گے۔ حاجی عثمانؒ نے جو مؤقف اپنایا تھا وہ اکابر علماء کی مستند کتابوں میں بھی موجود تھا۔
یہ مسلم اُمہ کیلئے کتنی بڑی خوشخبری ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تو ان علماء ومفتیان نے کفر اور واجب القتل کے فتوے لگائے جو فارسی میں نماز پڑھنے کو امام ابوحنیفہؒ کی طرف سے نہ صرف جائز بلکہ عربی سے زیادہ مناسب قرار دے رہے تھے۔ اپنے نصاب کو ہی نہ سمجھنے والوں نے شاہ ولی اللہؒ کیلئے مشکلات پیدا کردی تھیں۔آج شاہ ولی اللہؒ کے مشن پر فخر کیا جاتا ہے اور دنیا کی بہت سی زبانوں میں قرآن کے تراجم عام ہیں۔ پھر اردو میں ترجمہ کیا گیا توسورۂ فتح کی اس آیت کا ترجمہ فرقہ وارانہ تعصبات و مسلکی اختلافات کو ہوا دینے کا ذریعہ بنا اور آج سید عتیق الرحمن گیلانی کی طرف سے ایسا ترجمہ جو سیاق وسباق کے مطابق ہے۔ جس پر کسی فرقے، مسلک ، جماعت اور کسی بھی نظرئیے کا کوئی بھی آدمی اختلاف نہیں کرسکتا۔ کیا اس کاوش کا یہ نتیجہ نکلنا چاہیے کہ جس طرح شاہ ولی اللہؒ دوسال تک قتل کے خوف سے روپوش رہے اور جاہل قتل کرنے کے درپے رہے؟۔کیا عتیق گیلانی بھی چھپتے پھریں؟۔ جو لوگ آپ پر بزدلی کا الزام آج لگارہے ہیں تو مشرکین مکہ کے جاہل ابولہب، ابوجہل وغیرہ نے بھی تو نبیﷺ پر اس طرح ہجرت کے حوالہ سے یہ الزامات لگائے ہونگے؟،کون کس کی راہ پر چل رہا ہے؟۔ ضلع ٹانک کے تمام اکابر علماء کرام نے تحریری اور جلسۂ عام میں تائید کی ، مولانا نور محمد وانا اور مولانا معراج الدین کو کیوں شہید کیا گیا؟۔
اللہ کا شکر ہے کہ ہر مکتبۂ فکر کے اکابر علماء سے لیکر اصاغر تک نے دل و جان سے ہمارے مشن کی تائید کردی جس پر الگ سے کتابچہ مرتب ہوسکتاہے، اخبار ضرب حق میں جو سرخیاں لگتی تھیں، اس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا ۔سید گیلانی کی ہمت اتنی ہے کہ جب انکے تعاقب میں گھر پر دجالی لشکر نے حملہ کرکے13افرادکو شہید کیا تو اطلاع ملتے ہی فیصلہ کیا کہ میدان میں نکلے مگر بھائی نے منع کیا اور پھر اسی وقت تسلی دیتے ہوئے کہاکہ اب تو خلافت قائم ہو گی۔ جواب میں کہاگیا کہ اب ایسی خلافت کو کیا کرینگے؟۔ اپنے ساتھیوں کے پاس خود ہی مختلف علاقے میں گئے۔ ملاقات میں میرے رونے پر تسلی لینے کے بجائے تسلی دینے کے انداز میں فرمایاکہ’’ عورتیں روتی ہیں، مرد نہیں رویا کرتے‘‘۔ اتنے بڑے حادثے کے بعد دوبارہ سب کو چیلنج کرنے کی ہمت اللہ کا بڑافضل ہے۔ دین خیر خواہی کا نام ہے۔ شاہ صاحب ان مظلوموں ، بے کسوں اور فریاد کرنے والے بے بسوں کی آواز ہیں جن کو کوئی نہیں پوچھتا، جن سے ریاستیں ڈرتی ہیں ان کو بھی ببانگ دہل چیلنج کررکھا ہے۔
رات جل اٹھتی ہے شدتِ ظلمت سے ندیم
لوگ اس وقفۂ ماتم کو سحر کہتے ہیں
طوفان کر رہا تھا میرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!
رسول ۖ کی عظمت کا بڑ اعتراف
جامعہ بنوری ٹاؤن کے بانی کا بہت مثالی تقویٰ