پوسٹ تلاش کریں

قبلہ اول بیت المقدس مسجد اقصی پر یہودی قبضے کا معاملہ

قبلہ اول بیت المقدس مسجد اقصی پر یہودی قبضے کا معاملہ اخبار: نوشتہ دیوار

qibla-e-awwal-bait-ul-muqaddas-masjid-e-aqsa-per-yahoodi-qabze-ka-maamlah

حضرت ابراہیم ؑ کے بیٹے حضرت اسحاق ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ تھے۔ بنی اسرائیل کا تعلق حضرت اسحاق ؑ سے ہے ، بیت المقدس ان ہی کا مرکز تھا۔ حضرت ابراہیم وحضرت اسماعیل ؑ نے آخری نبی حضرت محمدﷺ کیلئے خانہ کعبہ بنایا تھا۔ جب غارِ حراء میں وحی نازل ہوئی اور مشکلات بڑھ گئیں تو اللہ تعالیٰ نے ہجرت کیلئے باقاعدہ دعا سکھائی اور بعثت کے اس مرکز سے ہجرت کرنے کا حکم دیدیا۔ مدینہ ہجرت کرنے کے بعد شروع میں مسلمانوں نے اہل کتاب کی پیروی میں بیت المقدس کو قبلہ بنایا۔ جب نبیﷺ کی خواہش پر اللہ نے کعبہ کو قبلہ بنالیاتو بیوقوف لوگوں نے اعتراضات اٹھادئیے کہ کس چیز نے ان کو قبلہ بدلنے پر مجبور کیا؟۔ یہ تفصیل دوسرے پارہ کے شروع میں ہے۔
جب بیت المقدس ہمارا قبلہ نہیں تھا، تب بھی ہمارے قبضہ میں نہیں تھا۔ مسلمانوں نے اپنا رخ پھیر لیا تو اس پر قبضہ کرنا بھی غلط تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ کہا جاتاہے کہ حضرت عمرؓ کو چابیوں کے مالک نے خود چابیاں پیش کردیں اور ان کی کتابوں میں موجود 17 پیوند والے کپڑے اور غلام کی سواری تھامنے والے خلیفہ حضرت عمر فاروق اعظمؓ ان نشانیوں پر پورے اُترے تھے۔ ایسی صورت اگر محمود غزنوی کیلئے بھی سومنات کا مندر فتح کرتے وقت سامنے آتی تو بھارت کے ہندو بھی اس پر اعتراض نہ کرتے۔ حدیث میں بیت المقد س فتح ہونے کی بشارت میں مزاحمت نہ ہونے کی پیشگوئی موجود ہے۔ فتح مکہ کے وقت جب کعبہ فتح ہوا تو بھی مشرکینِ مکہ نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی اور اگر وہ معاہدہ نہ توڑتے تو 10سال تک یہ گارنٹی موجود تھی کہ کعبہ بتوں سے بھرا ہوتا اور مسلمان نیام میں تلوار رکھنے کے علاوہ کوئی بھی ہتھیار ساتھ نہ لاتے۔ نبیﷺ نے زندگی بھر کیلئے یہ معاہدہ کیا تھا کیونکہ 6ہجری میں صلح ہوئی اور 10ہجری میں آپﷺ کا وصال ہوا،حضرت ابوبکرؓ کا پورا دور، حضرت عمرؓ کا آدھا دورِ خلافت بھی اسی میں آجاتا۔ مگر دشمنوں کی زیادتی تھی کہ پہلے ہجرت پر مجبور کیا اور پھر وہ معاہدہ بھی خود ہی توڑنے میں پہل کردی تھی۔
اسلام وہ دین ہے جس نے دین میں بھی زبردستی کی تعلیم نہیں دی اور نظام میں بھی جبر کا سبق نہیں سکھایا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو دین کی دعوت نرمی سے دی ، نظام کیلئے بھی خود کش حملے نہیں کئے بلکہ ایک مرتبہ غلطی سے کوئی شخص قتل ہوا تو دوسری جگہ چلے گئے اور جب فرعون کو حق کی دعوت دیکر حجت تمام کردی ، تب بھی اپنے لشکر کو لیکر فرعون سے نجات حاصل کرنے کیلئے دریا عبور کیا۔ فرعون کو اللہ نے خود ہی اسکے لشکر سمیت غرق کردیا۔
اسلام دینِ فطرت ہے اور اس کی فطری شکل معاشرے میں بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ یزید نے ایک طرف قسطنطنیہ فتح کیا اور دوسری طرف کربلا میں امام حسینؓ کو ساتھیوں سمیت شہید کردیا۔ ایک طبقہ وہ بھی ہے جس کا عقیدہ ہے کہ یزید صحابی نہ ہونے کے باوجود بھی رضی اللہ عنہ کا حقدار اسلئے ہے کہ قسطنطنیہ کی فتح پر حدیث میں جنت کی بشارت ہے۔ مفتی سید عدنان کاکا خیل نے بجافرمایا کہ مجھے اس طبقے کا علم نہیں۔ شاہ بلیغ الدین اور انکے علماء ومفتیان ساتھی ، محمود عباسی کے ساتھی علماء و مفتیان اور وفاق المدارس کی ا نتظامہ چلانے والوں میں بہت معتبر ہستیاں تقیہ کی پوزیشن پر فائز تھیں۔ دوسری طرف غلو کے مرتکب شیعہ واقعہ ایسا پیش کرتے ہیں،لگتاہے کہ اثناعشری امام حسین ؑ سے پہلے 2 اور بعد میں آنیوالے9 اماموں پر بھی طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ یہ رویہ ان کومحرم کے10دنوں تک محدود کردیتاہے۔
بکھرے تاریخی صفحات میںیزید و حسینؓ کی کئی داستانیں بھری پڑی ہیں، بنی اسرائیل نے مشکل سے گائے ذبح کی، تو ہندوؤں نے مقدس کی پرستش شروع کردی اور گائے کی وجہ سے خود کو گاؤ ماتا کے نام پر بھگوانوں تک محدود کرلیا۔ بدر کی فتح پر مشاورت کے بعد نبیﷺ و صحابہؓ کو اللہ نے وحی بھیج کر رلادیا تھا تو محرم کا غم صرف شیعہ نہیں سنی بھی ملکر منائیں تو مجھے بڑی خوشی ہوگی اور خون بہانے سے مزاحمت، جہاد، دنیا کے سامنے خانہ کعبہ میں رمل کی طرح ایک طاقت کا اظہار ہوگا اور خون بہانے سے سنگینی کی سنت عمل ہوگا، حلوہ کھاناسنت نہیں۔ بخاری میں بھی اہلبیت کیساتھ علیہ السلام ہے، زندوں و قبروں پر السلام علیکم، ’’ و علیہ السلام‘‘ اور نماز میں ’’السلام علیک ایھاالنبی، السلام علینا وعلی عبادللہ ‘‘ ہے نا؟۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

بیداری کسی عنوان کے بغیر اور شیطان پر ایک حملہ
مشرق سے دجال نکلے گا جس کے مقابلے میں امام حسن علیہ السلام کی اولاد سے سید گیلانی ہوگا! علامہ طالب جوہری
حقیقی جمہوری اسلام اور اسلامی جمہوری پاکستان کے نام سے تاریخ ، شخصیات ، پارٹیاںاور موجودہ سیاسی حالات :حقائق کے تناظرمیں