قرآن کریم کی غلط تعبیر سے کس نے گمراہ کیا؟
مئی 18, 2024
قرآن کریم کی غلط تعبیر سے کس نے گمراہ کیا؟
ولا تکرھوا فتیٰتکم علی البغآء ان اردن تحصناً لتبتغوا عرض الحیٰوة الدنیا ومن یکرھھن فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیم(33)
اور اپنی لڑکیوں کو بغاوت پر مجبور مت کرو اگر وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں تاکہ تم دنیا کی سرخ روئی چاہو اور جس نے ان کو زبردستی سے مجبور کردیا تو بیشک اللہ ان کی مجبوری کے بعدمغفرت کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔سورہ النور
کنواری لڑکیوں کوانکے ولی (سرپرست) اپنی مرضی سے نکاح کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔جب لڑکی کسی سے عشق اور محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکربغاوت کرنے پر آتی ہے تو خاندان کی عزت کو فالودہ بنادیتی ہے۔ عدالتوں میں بڑے پیمانے پر اس طرح کے کیس سامنے آرہے ہیں۔قرآن اورحدیث میں ان مسائل کا حل موجود ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عام طور پر لڑکی کا نکاح خاندان کی باہمی مشاورت سے طے کیا جاتا ہے۔ یہ بالکل معمول سے ہٹ کر معاملہ ہوتا ہے کہ لڑکی مرضی سے نکاح چاہے اور والدین کی رضامندی اس میں شامل نہ ہو لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڑکی اپنا دل کسی کو دے بیٹھتی ہے اور خاندان کیلئے وہ رشتہ قابل قبول نہیں ہوتا ہے۔
ایک طرف حنفی فقہاء نے صحیح حدیث کو قرآن کے خلاف قرار دیا اور دوسری طرف ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کی اس صورت میں اجازت دی ہے کہ جب لڑکی اور لڑکے دونوں کے خاندان میں برابری ہو۔ اگر لڑکی کا خاندان اُونچا ہو تو پھر اس کا نکاح کم حیثیت رکھنے والے لڑکے سے اس صورت میں جائز ہے کہ جب لڑکی کے خاندان والے اجازت دیں۔
فقہاء نے قرآن کو حدیث کے خلاف قرار دیکر رد کردیا تھا مگر پھر کفوء کا شرعی مسئلہ فقہی مسائل اور فتوے کا حصہ بنادیاہے اور کفوء کے مسائل میں بھی عجائبات ہیں لیکن اس طرف زیادہ تفصیلات میں جانے کا یہ موقع نہیں۔ زیادہ تر مسائل اسی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ لڑکی کے خاندان لڑکے کو برابر نہیں سمجھتے ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو وضاحت کیساتھ بیان کردیا ہے۔ جب لڑکی والوں کو اپنی خاندانی وجاہت کا احساس ہو اور لڑکے کو اپنی خاندانی وجاہت کے قابل نہ سمجھتے ہوں تو پھر اللہ نے اس کی نشاندہی کرتے ہوئے آیت میں واضح کیاکہ:
” اور اپنی لڑکیوں کو بغاوت پر مجبور مت کرو اگر وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں تاکہ تم دنیا کی سرخ روئی چاہو اور جس نے ان کو زبردستی سے مجبور کردیا تو بیشک اللہ ان کی مجبوری کے بعدمغفرت کرنے والا رحم کرنے والا ہے”۔(سورہ النور۔ آیت33)
اگر لڑکی کو مجبور کرکے اس کی دوسرے شخص سے زبردستی سے نکاح کرایا گیا تو پھر اگر چہ یہ جائز نہیں ۔ عورت کی مرضی سے اس کا نکاح کرانا ہی ضروری ہے لیکن ان کو زبردستی سے مجبور کرنے کے بعد لڑکی پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اسلئے کہ مجبوری میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور اللہ غفور رحیم ہے۔اور اگر لڑکی نے بغاوت کرکے باطل نکاح کرلیا تو بھی اگرچہ یہ حرام ہے مگر جب اس کے ولی اس کو اپنی مرضی کے خلاف مجبور کررہے تھے تو یہ بغاوت اور باطل نکاح بھی قابل معافی ہے اور اللہ غفور رحیم ہے۔ قرآن وسنت کی روح کو سمجھ کر آج اُمت کی ذہن سازی کی جائے تو ماحول پر بھی قابو پانے میں آسانی ہوگی اور قوم کی مردہ جان میںبھی زندگی کی روح دوڑ جائے گی اور مسلک کے نام پر اختلافات اور خرافات سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ علم سے جاہل ، عمل سے عاری ، عقل سے گدھے اور دنیاپرستی کے معاملے میں انتہائی عیارو چالا ک ہیں اور نئے نئے ریکارڈ بنارہے ہیں اور اسلاف کا نام لیتے ہیں۔
جامعہ دارالعلوم کراچی کے ایک فاضل نے بتایا کہ مفتی محمد تقی عثمانی کی لڑکی کو ایک لڑکا ٹیوشن پڑھا رہاتھا اور پھر اس نے اس لڑکے سے شادی کی ٹھان لی مگر پھر اپنی لڑکی کو مارپیٹ سے مجبور کرکے دوسرے لڑکے سے نکاح پر مجبور کیا گیا ۔
جن کے گھروں میں مسائل ہوں تو وہ قرآن و حدیث کے مسائل کو درست انداز میں اٹھانے سے بڑا گریز کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے نومنتخب امیر حافظ نعیم الرحمن صاحب یہ بات سمجھ لے کہ ”اگر قرآن کی اس آیت کا درست ترجمہ وتفسیر منی پاکستان کراچی کے لوگوں کو سمجھا دی گئی تو پورے پاکستان کے لوگوں میں یہ شعور عام ہوجائے گا۔ پھر کوئی باپ بھی اپنی بیٹی کو بغاوت پر مجبور کرنے کی حد تک لے جانے کے بجائے اس کا نکاح اس کی مرضی سے کردے گا اور ہمارا معاشرہ ایک بہت بڑے بحران سے بچ جائے گا۔
علماء نے اس آیت کا ترجمہ یوں کردیا ہے ۔(العیاذ باللہ)
” اور تم اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور مت کروجب ان کا ارادہ پاکدامن رہنے کا ہو،تاکہ اس کے ذریعے سے دنیاوی مفاد حاصل کرو۔ اور جس نے زبردستی سے ان کو مجبور کردیا تو پھر ان کی مجبوری کے بعد اللہ غفور رحیم ہے”۔ النور،آیت:33
اگر قرآن وسنت کی درست تعلیمات کو سیکھ اور سمجھ کر اپنے منبر ومحراب پر عوام کے سامنے بیان کیا جائے تو سوشل میڈیا پر بھی حقائق پھیل جائیں گے اور اسلام اور علماء کا نام روشن ہوگا۔
احادیث میں کنواری لڑکیوںاور طلاق شدہ وبیوہ خواتین کا نکاح ان کی مرضی اور اجازت سے بہت بڑی وضاحت ہے۔
ملا جیون بہت سادہ مگر مخلص انسان تھے۔ رائیونڈ تبلیغی مرکز میں ایک عالم نے بیان کیا کہ ” شاہجہان بادشاہ اور اسکے وزراء ریشمی کپڑے پہنتے تھے۔ ملاجیون سے کسی نے پوچھا کہ ریشمی کپڑے مرد کیلئے جائز ہیں ؟۔ تو اس نے جواب دیا کہ بالکل بھی جائز نہیں ہیں اور اگر کوئی اس کو حلال سمجھتا ہے تو وہ واجب القتل ہے”۔ مفتی تقی عثمانی نے سود کو بھی اب حلال قرار دیا۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ