قرآن کی محکم اور متشابہ آیات
مارچ 4, 2023
قرآن کی محکم اور متشابہ آیات
” ہم نے نازل کیا کتاب کوہر چیز کو واضح کرنے کیلئے”۔متشابہ بھی واضح کرتی ہے ۔ومن یشتری لھوالحدیث.. اور جس نے لھوبات خریدی تاکہ گمراہ کرے …(سوشل میڈیا کی ٹیم)
اللہ نے فرمایا :” میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے مواقع کی ،بیشک یہ قسم ہے اگر تم جان لو عظیم۔بیشک یہ قرآن کریم ہے، کتاب مکنون میں ہے ۔اس کو نہیں چھوسکتے ہیںمگر پاک لوگ۔ یہ نازل ہے رب العالمین کی طرف سے ۔توکیا تم اس حدیث کو چھپانے کے مرتکب ہورہے ہو؟۔اور تم اس کو اپنا رزق بناتے ہو؟۔بیشک تم ہی اس کو جھٹلاتے ہو”۔ الواقعہ آیات:75تا82
قرآن کی وجہ سے ہی قوموںمیں عروج وزوال ہوتا ہے۔ اللہ کے ذکر سے اطمینان ملتاہے لیکن ذکر سے مراد وظائف نہیں بلکہ قرآن ہے، صوفی خود دھوکہ کھاتاہے اور عقیدتمندوں کو بھی دیتا ہے ۔
حضرت علی نے فرمایا کہ ” اگر میں چاہوں تو سورۂ فاتحہ کی اتنی بڑی تفیسر لکھ دوں کہ چالیس اُونٹ اس کا وزن اُٹھائیں گے”۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر حضرت علی نے اس کی تفسیر کیوں نہیں لکھی؟۔ اس کا جواب حضرت علی نے یہ دیا ہے کہ ”لوگوں سے ان کی عقلی صلاحیت کے مطابق بات کرو”۔ جب قرآن کے متشابہات آیات کا تعلق زمانہ کے عروج سے تھا اور عروج کے بغیر لوگوں کی سمجھ میںباتیں نہیں آسکتی تھیں تو اس کے بتانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں تھا۔ بلکہ الجھن مزید بڑھ سکتی تھی۔ رسول اللہ ۖ کے ساتھ عبداللہ بن عباس جب نماز پڑھنے کیلئے کھڑے ہوگئے تو نبیۖ نے اس کو اپنے ساتھ کھڑا کردیا۔ ابن عباس کچھ پیچھے ہٹ کر کھڑے ہوگئے۔ نبیۖ نے پوچھا کہ میں نے اپنے ساتھ کھڑا کیا اور آپ پیچھے ہوگئے؟۔ ابن عباس نے عرض کیا کہ مجھے ادب کا لحاظ ہوا، اسلئے تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہوا۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” اللہ تجھے قرآن کی تأویل کا علم دے”۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سنت بن گئی کہ دو افراد باجماعت نماز پڑھیں پھر بھی مقتدی تھوڑا سا پیچھے کھڑا ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ” قرآن کی تفسیر زمانہ کرے گا”۔ آج زمانہ قرآن کی تفسیر کررہاہے لیکن جن لوگوں نے قرآن کی تفسیر کو اپنے رزق کا ذریعہ بنارکھا ہے وہ اس کو چھپانے کے مرتکب ہیں کیونکہ اگر انہوں نے عوام کو بتادیا تو ان کو اپنی روزی کا خطرہ لاحق ہوتاہے۔
اللہ نے ستاروں کی قسم کھاکر فرمایا کہ اگر تم جان لو تو یہ عظیم قسم ہے۔ ہماری کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں جس نے ایک لاکھ20ہزار نوری سال جگہ کو گھیر رکھا ہے۔ ایک سکینڈ میں روشنی جتنا فاصلہ طے کرتی ہے،ایک منٹ میں کتنا فاصلہ طے کرتی ہوگی؟۔پھر گھنٹہ میں اور ایک دن میں کتنا فاصلہ طے کرتی ہے؟، ایک سال میں کتنا فاصلہ ہوگا؟۔ ایک لاکھ بیس ہزار نوری سال کا اندازہ کتنا عظیم ہے؟۔ دوسری کہکشاں میں غالباً دوگنا فاصلہ سے بھی زیادہ ہے ، اس طرح پھر اربوں کہکشاں ہیں۔1986میں صفر کے مہینے میں ایک دمدار ستارہ دکھائی دیا تھا اور وہ ہر75سال کے بعد دکھائی دیتا ہے ۔ اس سال2023میں صفر کے مہینے میں پھر ایک دمدار ستارہ نمودار ہوا ہے جو5ہزار سال کے بعد نکلتا ہے۔ اگر ستاروں کے واقع ہونے کی جگہوں کا پورا رازمعلوم ہوجائے تویہ کتنی بڑی بات ہوگی؟۔ ہماری کہکشاں میں بلیک ہول وہ ستارے ہیں جن کی کشش ثقل ایسی مضبوط ہے کہ روشنی کو بھی کھینچ لیتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کو بلیک ہول یعنی کالا سوراخ کہا جاتا ہے۔ ہمارا سورج ایک بونا ستارہ ہے اور اس سے کئی گنا بڑے بڑے ستارے جب بلیک ہول کی رینج میں آتے ہیں تو بلیک ہول ان کو نگل لیتا ہے۔ چونکہ قرآن نے ستاروں کی قسم کو عظیم قرار دینے کیساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ ”اگر تم جان لو ” جس کا مطلب یہی ہے کہ قرآن نے اس قسم کو آنے والے زمانہ کیساتھ ہی جوڑ دیا تھا۔ جتنی معلومات دستیاب ہیں ان سے بھی اس قسم کی عظمت کا احساس اچھی طرح سے ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔
اللہ نے قرآن کو کریم یعنی عزت والی کتاب قرار دیا ہے جو کتاب مکنون میں ہے۔ جس کو نہیں چھوسکتے مگر پاک لوگ۔مکنون کے معنی تکوینی امور کے ہیں اور قدرتی امور جیسے نظام شمسی اور کائنات کے دیگر قدرتی امور اور فطری معاملات ہیں ان کو تکوین کہتے ہیں۔قرآن میں محکمات آیات بھی ہیں اور متشابہات بھی۔ دونوں قسم کی آیات ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے ہیں۔ مسلمان بہت بڑی بد قسمت قوم اسلئے بن چکی ہے کہ محکمات سے بھی ہم نے منہ پھیر لیا۔ متشابہات بھی زمانہ واضح کررہاہے لیکن ہم نے ان سے آنکھیں چمگادر کی طرح بند رکھی ہوئی ہیں۔
اللہ نے قرآن میں فرمایا : انزلنا الحدید ”ہم نے لوہے کو اُتارا”۔ پھر جدید سائنس نے واضح کردیا کہ ” لوہا نظام شمسی کے باہر کسی اور ستارہ سے زمین پر اترا ہے”۔ اگر لوہا اتر اہے تو سونا ، چاندی، ہیرے ،جواہرات، یاقوت، مرجان اور مختلف دھات، ماربل وغیرہ بھی دوسرے ستاروں سے آسکتے ہیں۔ جہاں پر لاتعدادجنت اور جہنم کا تصور ہوسکتا ہے۔ حضرت آدم و حواء جنت سے آئے اور حجراسود اور طاؤس بھی جنت کے ہوسکتے ہیں۔ سائنس نے بہت ترقی کرلی لیکن زمین پر زندگی کے آغاز میں اب بھی بچکانہ خیالات پڑھائے جاتے ہیں ۔اسلئے کہ بیالوجی میںAاورBنظریات فرضی ہیں کہ گوشت میں کیڑے پیدا ہوگئے اور پھر تجربہ کیا تو کیڑے کے انڈے مکھی کے ذریعے منتقل ہوتے ہیں۔ پہلے اس نظرئیے پر عمل ہوا کہ جاندار سے بے جان پیدا ہوتا ہے اور اب دوسرے نظرئیے پر عمل ہے کہ جاندار سے بے جان پیدا نہیں ہوتے ہیں؟۔ جب پہلا نظریہ غلط ثابت ہوگیا تو پھر اس کو کیسے صحیح مان لیا گیا کہ بے جان سے جاندار پیدا ہوا؟۔
قرآن نے بہت بنیادی بات کہی کہ وجعلنا من الماء کل شئی حی ” اور ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ بنایا”۔ پانی سے زندگی کے آثار ممکن ہیں۔ انسان کو تسخیرکائنات کا نظریہ بھی قرآن نے دیا۔ سورج ، چاند، بادل ، لوہا ، جانور اور مختلف چیزوں کا نام لیکر اس کی تسخیر کا ذکر کیا۔ نبی ۖ نے دجال میں مختلف صلاحیتوں کی خبر دی۔ بارش، سبزہ اور مویشیوں کے دودھ پر کنٹرول تک کا بتایا۔ قرآن میں پانچ چیزوں کو غیب کی چابی بتایا۔ ان اللہ عندہ علم الساعة و ینزل الغیث و یعلم ما فی الارحام وماتدری نفس ماذا تکسب غدًا وبای ارض تموت ”بیشک اللہ کے پاس ساعة کا علم ہے۔ بارش برساتا ہے ۔ جانتا ہے جو ارحام میں ہے۔ کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائے گا اور کس زمین پر مرے گا”۔ پہلی چیز زمانے نے ثابت کردی کہ وقت کا علم غیب کی چابی ہے۔ دن رات سے پتہ چل گیا کہ زمین اپنے محور پر گھومتی ہے اور ماہ وسال سے پتہ چل گیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ نبیۖ نے معراج کے سفر میں کئی ماہ یا سال گزارنے کے بعد واپسی پر اپنا بستر گرم پایا ، کنڈی ہل رہی تھی تو مخالفین کی فضاؤں میں بھی ایمانی وقت کا ثبوت دیتے ہوئے جو دیکھا تھا جنت اور جہنم سب احوال بیان کردئیے۔ سورہ معارج میں اللہ نے فرمایا ” جس دن فرشتے اور روح چڑھتے ہیں تو اس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوتی ہے”۔ جس وقت کی پیمائش کو نبی ۖ نے غیب کی چابی قرار دیا تھا وہ قرآن وسیرت طیبہ میں موجود تھا۔ پھر وہ وقت آیا کہ آئن سٹائن نے نظریہ اضافیت کے ذریعے اس کو دو اور دو چار کی طرح ریاضی کے حساب سے بھی ثابت کردیا، غیب کی اس چابی سے علم کے کتنے دروازے کھلے ہیں؟۔ دوسری چیز بارش کا برسنا غیب کی چابی ہے۔ بارش سے آسمانی بجلی اور بجلی کی تسخیر سے دنیا میں علم کے کتنے روشن دروازے کھل گئے؟ ۔ تیسری چیز ارحام کا علم غیب کی چابی ہے۔ فارمی جانور، پرندے اور اناج پھل وغیرہ کے کمالات کے علاوہ ایٹم بم ، ایٹمی توانائی اور الیکٹرانک کی دنیا غیبی چابی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور زمانہ قرآن وسنت کی تفسیر کررہاہے لیکن ہم سمجھنے کی طرف عام لوگوں کو توجہ اسلئے نہیں دلاتے کہ پھر ہمارے پاس قرآن فہمی کا کونسا کمال رہ جائیگا؟۔ ہم نے قرآن کے خاص مفہوم میں اپنی مہارت بیان کرکے اپنا رزق بنایا ہوا ہے اسلئے اللہ نے فرمایا کہ تم ہی اس کو جھٹلانے کے مرتکب ہو۔ ومن یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ ”اور جو فضول بکواس خریدتا ہے تاکہ اللہ کی راہ سے گمراہ کرے” کا آئینہ سیاسی جماعتوں اور اداروں کے زرخرید میڈیاکے نیٹ ورک ہیں۔ کتوں کادن رات بھونکنے کاتماشہ لگا ہے۔ قرآن کی ایک ایک آیت کی تفسیر مختلف شکل میں موجود ہے۔
کائنات مسلسل وسیع ہورہی ہے اور اس کی خبر بھی قرآن میں موجود ہے ۔ سائنسدان قرآن کے سائنسی حقائق دیکھ کر مسلمان ہورہے ہیں۔ غیر مسلم قرآن کی اخلاقی قدروں کو دیکھ کرمسلمان ہورہے ہیں لیکن مذہبی طبقات نے قرآن کا معاشرتی ڈھانچہ ایسا بگاڑ دیا ہے کہ خود مسلمانوں کے پاس قرآن کی کوئی قدرنہیں ہے۔ جمعہ کی نماز کا فرض ادا کرنے کیلئے لوگ جاتے ہیں لیکن مولوی کی تقریر نہیں سن سکتے ہیں اسلئے کہ اس میں کام کی کوئی بات نہیں ہوتی ہے۔ محکمات بھی ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے ہیں اور متشابہات بھی ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے ہیں۔ متشابہ آیات کا تعلق سائنس اور زمانہ سے ہے مگرہم نے محکم آیات کو بھی کچل دیا ہے۔
ایک شخص نے ابن عباسسے پوچھا کہ کسی کو قتل کیا تو معافی مل سکتی ہے؟۔ ابن عباس نے فرمایا کہ بالکل بھی نہیں!۔ اور آیات کا حوالہ دیا جن میں ایک مؤمن کو جان بوجھ کر قتل پر اس کی جزاء جہنم ہے اور ایک جان کو بغیر کسی جان یا فساد کے قتل کرنا تمام لوگوں کے قتل کرنے کے مترادف ہے۔ایک اور شخص نے یہی سوال کیا تو ابن عباس نے فرمایاکہ ہاں ! اللہ معاف کرسکتا ہے۔ شرک کے علاوہ کوئی گناہ بھی اللہ معاف کردیتا ہے اور وہ آیت بھی تلاوت کردی جس میں قتل اور زنا کے بعد توبہ کرنے والوں کو نہ صرف معاف کرنے کی خوشخبری ہے بلکہ ان کے گناہوں کو نیکی میں بدل دینے کی وضاحت بھی ہے۔
اہل مجلس نے ابن عباس سے پوچھا کہ سوال ایک تھا اور جواب دونوں آپ نے بالکل مختلف دئیے۔ ابن عباس نے فرمایا کہ ” پہلے شخص کا مستقبل میں قتل کا ارادہ تھا اور اس کا تقاضہ تھا کہ ان آیات کا ذکر کرتا جس سے وہ اپنے مذموم مقصد سے رُک جائے۔ دوسرے شخص نے قتل کیا تھا اور اس کا ارادہ توبہ کا تھا ،اگر اس کو پہلی والی آیات سناتا تو مایوس ہوکر قتل کا سلسلہ جاری رکھتا اسلئے جن آیات سے اس کی اصلاح کا تقاضا تھا وہ اس کے سامنے پیش کردیں ۔
حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ” نبی ۖ ، ابوبکر اور عمر کے ابتدائی3سال تک اکٹھی تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی۔ پھر حضرت عمر نے اکٹھی3طلاق پر3کا فیصلہ جاری کردیا”۔ (صحیح مسلم) عبداللہ بن مبارک نے یہ روایت درست قرار دی ہے۔ دوسری طرف ابن عباس نے خود بھی اکٹھی3طلاق پر3کا فتویٰ دیا ہے۔ عام طور پر کم عقل لوگ اس کو قول اور فتوے کا تضاد سمجھتے ہیں لیکن عورت جب رجوع کیلئے راضی ہوتی تھی تو رجوع کا فتویٰ دیا جاتا تھا اور جب عورت صلح پر راضی نہیں ہوتی تھی تو رجوع کے خلاف فتویٰ دیا جاتا تھا۔ یہ قرآن کا واضح حکم ہے۔ کہ ” شوہر عدت میں ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں بشرط باہمی اصلاح چاہتے ہوں”۔ (البقرہ آیت228)۔ سورةالبقرہ آیت229،231،232اور سورة الطلاق آیت1اور2میں بھی معروف طریقے اور باہمی رضامندی سے عدت میں اور عدت کی تکمیل کے بعدرجوع کی گنجائش ہے اور باہمی صلح کے بغیر ایک طلاق کے بعد بھی رجوع کی گنجائش نہیں۔ آیت230البقرہ کا ابن عباس نے فرمایا کہ اس کا تعلق آیت229کیساتھ سیاق وسباق کے مطابق ہے۔ زادالمعاد میں علامہ ابن قیم نے باب الخلع جلد چہارم میں اس کا حوالہ دیا ہے۔ آیت229میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق دی جائے اور پھروہ دونوں اور فیصلہ کرنے والے رابطہ و صلح کا کوئی ذریعہ نہ چھوڑیں۔ جب صلح نہ کرنا چاہتے ہوں تو پھر شوہر کی طرف سے صرف غیرت کے نام پر ہی کوئی رکاوٹ ڈال سکتا ہے ، اسلئے شوہر کی دسترس سے باہر نکالنے کیلئے اللہ نے الفاظ کا استعمال تگڑہ کیا ہے اور اس کی صورت بہرحال تمام ان حالات میں بنتی ہے جن میں عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو۔ لیکن جب رجوع کیلئے راضی ہو تو پھر اللہ نے عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد بار بار ترغیب دی ہے۔
صحیح بخاری میں حسن بصری سے روایت ہے کہ بعض علماء کے ہاں حرام کہنا تیسری طلاق ہے جو کھانے پینے کی اشیاء کی طرح نہیںہے کیونکہ کھانے پینے کی اشیاء قسم کے کفارہ کے بعد حلال ہوتی ہیں اور بیوی حلالہ کے بغیر حلال نہیں ہوتی۔
بخاری میں ایک روایت چھوڑ کراس سے متصل ابن عباسکی روایت ہے کہ ” حرام کہنے سے کچھ نہیںہوتا نہ قسم اور نہ طلاق۔ یہ سیرت نبیۖ ہے”۔
نبیۖ نے ماریہ قبطیہ جب خودپر حرام قرار دی تو سورہ تحریم نازل ہوئی ۔ ابن تیمیہ کے شاگرد ابن قیم نے زادالمعاد میں حرام کے لفظ پر بیس اجتہادی اقوال نقل کئے کہ ” علی کے نزدیک 3 طلاق۔ عمر کے نزدیک ایک۔ عثمان کے نزدیک ظہار ……..”۔حالانکہ صحابہ نے قرآن کے برعکس لفظِ حرام پر ایسے متضاد اقوال کا اجتہاد کیسے کیا؟۔ بیوی راضی نہ تھی تو حضرت علی نے رجوع کا فتویٰ نہ دیااور بیوی صلح کیلئے راضی تھی تو حضرت عمر نے رجوع کا فتویٰ دیا۔کم عقل طبقے نے بعد میں حقائق کے منافی ان کے فتوؤں پر متضاد رنگ چڑھادیا۔
سورۂ تحریم کے شان نزول میں مولانا ابوالحسن علی ندوی نے لکھا کہ ” حضرت ماریہ قبطیہ کچھ فاصلے پر رہتی تھیں۔جب وہ آئیں تو نبیۖ نے حضرت حفصہ کے حجرے میں ان سے جماع کیا، جس پر حضرت حفصہ نے بہت سخت ناراضگی کا اظہار کیا، وہ غصے کی بہت تیز تھیں، حضرت عمر کی صاحبزادی تھیں۔ نبیۖ نے ان سے فرمایا کہ میں نے ماریہسے ہمیشہ کیلئے لاتعلقی اور اپنے اوپر حرام کرنے کا فیصلہ کیا ہے مگر اب یہ بات راز میں رکھو”۔ حضرت حفصہ نے حضرت عائشہ سے اس کا ذکر کیا اور پھر دونوں نے نبی ۖ کیساتھ مذاق کا منصوبہ بنایا۔دیگر ازواج مطہرات سے بھی اس پر عمل کی گزارش کی۔ چنانچہ نبیۖ جس زوجہ کے پاس جاتے ، وہ کہہ دیتی کہ منہ سے برگد کی بو آرہی ہے۔ نبیۖ فرماتے کہ میں نے شہد کھایا ہے۔ جب تسلسل کیساتھ ایک ہی بات سامنے آئی تو نبیۖ نے شہد کو اپنے اوپر حرام کردیا۔ سورۂ تحریم میں حضرت عائشہ و حضرت حفصہ کی ڈانٹ ہے اور توبہ کرنے کا مطالبہ ہے کہ تم اللہ کے رسول کو شکست نہیں دے سکتی ہو اسلئے کہ اللہ ، جبریل اور صالح مؤمنین نبیۖ کے طرفدار ہیں۔ اگر تم نے توبہ نہیں کی تو نبیۖ کیلئے تم سے بہتر کنواری اور غیر کنواری عورتیں آسکتی ہیں۔
قرآن وسنت سے ایک سبق تو یہ ملا کہ شوہر کو اتنا تند خو اور بد مزاج نہیں ہونا چاہیے کہ بیگم مذاق کا تصور بھی نہیں کرسکے۔ دوسرا یہ ملا کہ جب جھوٹ تسلسل کے ساتھ بولا جاتا ہے تو شریف لوگ بھی غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تیسرا یہ ملا کہ حرام کے لفظ پر بعد میں جو کہانیاں بنائی گئی ہیں یہ علمی کتابی کیلئے ہدایت نہیں بلکہ گمراہی کا ذریعہ ہیں۔ چوتھا سبق یہ ملا کہ اللہ نے سچ فرمایا کہ ”رسول کہیںگے کہ اے میرے رب بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔سورہ تحریم کی واضح آیت کو چھوڑ کر20متضاد اجتہادی اقوال پکڑنا کہاں کی دانش ہے؟۔
اجتہاد کسی متوازی دین کی اختراع کو نہیں کہتے ہیں۔ نبیۖ نے معاذبن جبل سے فرمایا :” لوگوں کے درمیان فیصلہ کس طرح کروگے؟۔ عرض کیا : قرآن سے !۔ نبیۖ نے فرمایا : اگر قرآن میں نہ ملے ؟۔ عرض کیا: نبیۖ کی سنت سے!۔ نبی ۖ نے فرمایا : اگر اس میں بھی نہ ملے تو؟۔ حضرت معاذ نے عرض کیا کہ پھر خود کوشش کروں گا؟۔ نبیۖ نے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اپنے رسول ۖ کے رسول کو وہی توفیق بخشی جو وہ اس کو پسندہے”۔ عربی میں اجتہاد کا معنی کوشش کرنا ہے۔ قرآن میں اللہ نے طلاق کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع کی اجازت دی ہے۔ صحابہ کرام نے اپنی طرف سے قرآن کے واضح حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اجتہاد کے نام پر حلال وحرام کے تضادات میں خود کو ملوث نہیں کیا تھا ۔ جب عورت رجوع کیلئے راضی ہوتی تو رجوع کا فتویٰ دیتے اور جب راضی نہ ہوتی تھی تو رجوع کو غلط قرار دیتے تھے۔ یہ کوشش قرآن کے مطابق تھی کوئی اجتہادی اختلافات نہ تھے۔
آج جامعہ دارالعلوم کراچی سے بھی حلالہ کے بغیر صلح کی صورت میں رجوع کا فتویٰ دینے کی خبریں ہیں لیکن تبلیغی جماعت آج تصاویر اور ویڈیو بنارہے ہیں اور نماز و آذان کا اہتمام لاؤڈ اسپیکر کے بغیر کررہے ہیں۔ اگر علماء پہلے سے فتویٰ جاری کرتے کہ دیوبند کا فتویٰ غلط تھا تو تبلیغی مشقت میں مبتلاء نہ ہوتے۔ حلالہ کے بغیر رجوع کا فتویٰ بھی میڈیا پر کھل کر سرے عام دینا چاہیے تاکہ عزتوں کے ڈھیر لگنے سے پہلے لوگ اپنی عزتوں کو محفوظ کرنے میں کردار ادا کریں۔قرآن کو صرف اپنے رزق کمانے کا نہیں بلکہ لوگوں کی عزتوں کا محافظ بناؤ۔
ڈاکٹر اسرار احمد نے تمام مذہبی قائدین کے مقابلے میں ہمیں سب سے زیادہ عزت دی تھی لیکن انہوں نے یہ بات عوام میں پھیلا دی تھی کہ ” قرآن لوح محفوظ میں ہے ۔ ہمارے پاس جو قرآن ہے وہ اصل نہیں بلکہ فوٹو کاپی ہے۔ اسلئے کہ اس کو ہندو، یہودی اور سکھ وغیرہ ناپاک بھی ہاتھ لگاسکتے ہیں۔ اصل قرآن لوح محفوظ میں ہے جس کو فرشتوں کے علاوہ کوئی نہیں چھو سکتا ہے”۔ ہم نے ان پر واضح کردیا تھا کہ چھونے سے مراد ہاتھ لگانا نہیں ہے بلکہ جس طرح قرآن میں بیگم کو چھونے سے مراد مباشرت کرناہے اور بے عمل لوگوں کی مثال قرآن میں یہ ہے کہ ان کی مثال گدھا ہے جس نے ورق اٹھارکھے ہوں۔ پاک لوگ قرآن کو سمجھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں اور یہی قرآن کو چھونا ہے۔ قرآن میں آیات محکمات ہیں اور دوسری متشابہات ہیں۔ محکم آیات تو بالکل واضح ہیں اور ان پر عمل کرنے سے انسانی معاشرہ عروج تک پہنچتا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ یورپ میں مسلمان نہیں ہے لیکن اسلام پر عمل ہے۔ برصغیرپاک وہند میں مسلمان بہت ہیں لیکن اسلام پر عمل نظر نہیں آتا ہے۔ یورپ اسلئے ترقی وعروج کی منزلیں طے کرتے کرتے کہاں تک پہنچ گیا؟ اور ہم بھیک مانگنے کی آخری حد کو پہنچ گئے ہیں اسلئے کہ20فیصد منافع پر بھی سود نہیں مل رہاہے۔ اس سے بچنے کیلئے اگر ہم دورِ جدید کے صوفی پروفیسر احمد رفیق اختر سے وظیفہ لیںگے تو وہ کہے گا کہ قرآن کہتا ہے کہ ” خبردار ! اللہ کے ذکر سے اطمینان ملتا ہے” ۔ (القرآن) حالانکہ اس آیت کے سیاق وسباق میں ذکر سے مراد کوئی وظیفہ نہیں بلکہ قرآن ہے۔ بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ مچانے والے فوجی افسران ،سیاستدان اورصحافی پروفیسر صاحب سے ذکر کا وظیفہ پاکر سمجھتے ہیں کہ حرام کا مال ہضم کرنے کیلئے وظائف سے بھی ڈکاریں آتی ہیں بس انہی سے اطمینان مل جاتا ہے۔ قرآن کل حزب بما لدیھم فرحون ” ہرگروہ جس پر ہے خوش ہے”۔ ایسے خوشی اور اطمینان کی واضح الفاظ میں نفی کرتا ہے۔
اعمال صالح سے مراد نماز، روزہ ، حج اور عبادات نہیں ہیں بلکہ انسانی لحاظ سے حقوق اور فرائض ہیں۔ نماز کی ہر رکعت میں انسان اللہ کی تعریف بیان کرتا ہے اور اس سے صراط مستقیم کی ہدایت مانگتا ہے لیکن اس سے وہ بالکل غفلت میں ہوتا ہے۔ ایسے نمازیوں کیلئے تو قرآن میں ویل للمصلین ہلاکت کی اللہ نے خبر دی ہے۔جب تک ریاست اور حکومت کے ملازم اپنے فرائض اور عوام کے حقوق ادا نہیں کرتے ہیں تو پاکستان میں اعمال صالحہ کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ حافظ سید عاصم منیر آرمی چیف وہ روایتی نیک اور دیندار نہیں ہیں بلکہ حقوق و فرائض کے معاملے میں بہتر انسان ہیں جبھی تو اس عہدے تک پہنچے بھی ہیں اور پہنچنے میں آخری وقت بہت رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔
حکومت، عدالت، صحافی اور سیاستدان آرمی چیف پر بوجھ نہ ڈالیں ،جب ان کو بھرپور سپورٹ مل جائے گی تو اپنے ادارے فوج کا وقار صاف کردار سے بحال کرنے میں مدد مل جائے گی۔ جنرل راحیل شریف نے پاک فوج سے جتنا ہوسکتا تھا کرپشن کا خاتمہ کردیا تھا جسکا کامریڈ لعل خان نے بھی اعتراف کیا تھا مگر وہ پانامہ لیکس کے بعد نوازشریف کے پارلیمنٹ میں جھوٹے بیان اور قطری خط کیساتھ کھڑا نہیں تھا۔ مسلم لیگ ن کے رہنما ابصار عالم نے پاک فوج پر ادارے کی حیثیت سے جو الزامات لگائے ہیں وہ نوازشریف کے وزیراعظم کے دور ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر زیادہ ٹیکس جمع کرنے والی شخصیات کو ادارے تاوان کیلئے اغواء کرتے ہیں اور اس کا کیس سپریم کورٹ میں بھی چل رہاہے تو اس پر گرفت ہونی چاہیے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس نوازشریف، زرداری اور عمران خان نے اقتدار میں آنے کے باوجود بھی کچھ نہیں کیا تو پھر ان سے کون کیا توقع رکھے گا؟۔ نوازشریف نے باہر بیٹھ کر جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن میں اپنا حصہ ڈال دیا۔ عمران خان اور زرداری وغیرہ بھی اس جرم میں شریک تھے۔ جسٹس کھوسہ نے پارلیمنٹ کے کورٹ میں گیند پھینکا تھا۔ مریم نواز نے عدلیہ اور فوج کو رائیونڈ کا مرغی فارم سمجھا ہے۔ یہی حال عمران خان کے یوٹیوبرز کا ہے۔ اداروں کو ٹھیک ہونا چاہیے مگربے توقیری کا نقصان ملک، قوم اور سلطنت سب کو ہوگا۔ نظام ناکام ہوچکا ،اس کو خوش اسلوبی سے بدلنا ہوگا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ پر آج جتنے الزامات لگائے جارہے ہیں ،اگر اس کی ایکسٹینشن ہوجاتی تو پھر اس کو سب اپنا باپ قرار دیتے۔ اگر اس نے غلط کیا ہے تو سب سے زیادہ علی وزیر کا نام ہے؟۔ علی وزیر نے جو تقریر کی تھی وہ دوبارہ کرکے دکھائے۔ امجد شعیب کی گرفتاری صرف اس بات پر عمل میں لائی جاتی ہے کہ عمران خان کو سیاسی تجویز پیش کی ۔ علی وزیر نے تو بندوق سے مارنے کی دھمکیاں دی تھیں۔ اگر باجوہ نے یہ کہا تھا کہ علی وزیر کے اڈے کا مسئلہ ہے تو ہم نے اس بات کو ہدف تنقید بنایا تھا لیکن اب پتہ چلا ہے کہ وانا میں علی وزیر کی مارکیٹ کے قریب ایک کرنل شہید کیا گیا تھا جس کی وجہ سے مارکیٹ گرادی گئی۔ فوج تو یہ کام کرتی ہے ۔
علی وزیر کامنظور پشتین اور محسن داوڑ کے مقابلے میں مؤقف زیادہ سخت تھا اور اس کو جنرل باجوہ نے مارکیٹ یا لاری اڈے سے جوڑا تھا تو غیر معقول بات نہیں تھی۔ اعظم سواتی ، شہباز گل، صحافی شاہداسلم اور جنرل امجد شعیب کیساتھ جو کچھ ہوا ہے اس میں علی وزیر کی تقریر کے مقابلے میں ان کے جرائم کچھ بھی نہیں تھے۔ صحافی شاہد اسلم پر تو صرف جنرل باجوہ کا آفیشل ڈیٹا لیک کرنے کا الزام تھا جس کو انعام بھی دینا چاہیے تھا کہ بروقت بتادیا۔ حالانکہ اس نے الزام کو مسترد کیا ہے۔ لیکن جس بہادری کا مظاہرہ کیا ہے اس کو داد نہیں ایوار ڈ ملنا چاہیے۔
سورہ رحمان میں اللہ نے فرمایا کہ ” اس نے آسمان کو اٹھایا اور میزان قائم کیا پس میزان میںسرکشی مت کرو، وزن کو قائم کرو اور میزان میں خسارہ مت کرو” ۔
کائنات کے توازن کو اللہ نے قائم کیا ہے اور دنیا کے عالمی نظام کا توازن انسانوں نے برقرار رکھنا ہے۔ نبیۖ نے ریاست مدینہ میں یہودونصاریٰ، منافقین اور نبوت کے دعویدار ابن صائد کیساتھ میثاق مدینہ میں توازن کا نظام برقرار رکھا تھا۔ جب تک آخری حدوں کو پار نہیں کیا تو ان کو برداشت کرتے تھے اور مشرکینِ مکہ کیساتھ صلح حدیبیہ میں توازن کا معاہدہ کیا تھا۔ توازن کی بدولت سے مسلمانوں نے دنیا کی سپر طاقتوں کو ختم کیا تھا۔جسٹس عمر عطابندیال نے اس وقت بھی اچھا کیا تھا جب عمران خان وزیراعظم بن کر ریاست کے نظام کو چیلنج کر رہے تھے اور آج بھی اچھا کیا کہPDMکو آئین سے بھاگنے نہیں دیا ہے۔
مسلم لیگ ن نے سپریم کورٹ پر حملہ، جسٹس قیوم کو خرید کر اتنا نقصان اس ریاست کو نہیں پہنچایا جتنا آج عدالت کے حکم کی غلط تشریح سے پہنچارہی ہے۔ فائز عیسیٰ کی بیگم کے نام پراپرٹی اور نوازشریف کا پارلیمنٹ میں بیان و قطری خط کے حقائق کو زر خرید میڈیا کے ذریعے سے بدلنے کی کوشش نظام کو لے ڈوبے گی لیکن ہمیں اس نظام سے کیا لینا دینا اور کیا ہمدردی ہوسکتی ہے؟۔ البتہ غلط کو غلط اور درست کو درست کہنا ایک مجبوری ہے۔ جس کو اسلام اور انسانیت کا اہم تقاضہ سمجھتے ہیں۔ ہمیں سیاسی جماعتوں کے مفادات کی جنگ کی افادیت سے بھی کوئی انکار نہیں ہے۔ اگر آج سپریم کورٹ پر دباؤ نہ ڈالنا ہوتا تو ابصار عالم ، کامران خان اور نئے دور کا غازی کب فوجی افسران کی اس کرپشن کا ذکر کرتے جنہوں نے بقول ان کے ٹیکس کی ادائیگی دیکھ کر اغواء برائے تاوان کا کارنامہ انجام دیا تھا۔ اس میں جو بھی ملوث ہو اور کورٹ کو جلد فیصلہ کرنا چاہیے۔
جنرل امجد شعیب کو براڈ شیٹ میں زیر تفتیش لانے کی ضرورت تھی اسلئے کہ قوم کا بہت پیسہ ضائع ہواتھا اور قصورواروں کا اتہ پتہ نہیں چل سکا۔ ملک ریاض کو ساڑھے پانچ سو ارب معاف کرنے کا قصہ کیا ہے ؟۔ اس کو بھی منظر عام پر آناچاہیے۔ جن لوگوں نے دعا زہرہ کیس میں اغواء کے جھوٹے پروپیگنڈے کئے تھے ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ سب سے پہلے شہباز شریف سے پوچھ لینا چاہیے کہ نوازشریف کی ضمانت دی تھی اور اب وزیراعظم بھی بن گئے ہو اور اپنی مرضی کا آرمی چیف بھی لائے ہو۔ جس کو چور اور ڈاکو کہتے تھے اس زرداری کو لٹکانے کی جگہ تم خود کہاں لٹک گئے ہو؟۔ عمران خان سے پہلے نوازشریف کی طرف سے ڈھیروں قرضے نے ملک کو ڈبودیا تھا۔ عمران خان نے نہلے پر دہلہ کیا تھا اورPDMنے قوم کو قربانی کاچیلہ بناکر دہلے سے بھی بدتر کردیا۔ اللہ اس قوم کو قرآن کی طرف جانے پر آمادہ کرکے انقلاب برپا کردے۔ آمین ثم آمین
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ