قرآن میںاحترام انسانیت کا اعلیٰ ترین تصور
اکتوبر 17, 2023
قرآن میںاحترام انسانیت کا اعلیٰ ترین تصور
اللہ تعالیٰ نے میدان جنگ میں بھی دشمنوں سے لڑائی کے معاملے میں بزدلی نہیں بہادری سکھادی ہے
جنگ جیتنے کے بعد قیدیوں کو مضبوط باندھنے کا حکم دیا ہے اور پھر رہائی کیلئے فدیہ یااحسان کرنے کا فرمایا
دشمن جب لڑائی و جنگ پر آمادہ ہو تو اللہ نے فرمایا کہ پھر گردنوں کا مارنا ہے اور جب تم خوب خون بہا چکے تو پھر قیدیوں کو مضبوط باندھ لو۔ پھر اس کے بعد ان کو احسان کرکے یا فدیہ لیکر چھوڑ دو،یہاں تک جنگ اپنے ہتھیار رکھ دے۔
قیدیوں کوغلام بنانا، عمر بھر قید رکھنا اور قتل کرنا سب غیر مہذب اور غیرانسانی فعل ہے۔ قرآن نے اس آیت کے ذریعے حالت جنگ کو قائم رکھنے کیلئے نہیں بلکہ جنگ کو ختم کرنے کیلئے بہترین چارٹر عالم انسانیت کے سامنے رکھا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ رسول اللہ ۖ نے جیسا فرمایا تھا کہ ” اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا تھا، یہ پھر عنقریب اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا۔ پس خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے ” کے بالکل مصداق اسلام بہت ہی جلد اجنبیت کا شکار ہوگیا تھا۔ پہلے تو جب ا بن مکتوم نابینا صحابی کی آمد پر نبی ۖ کے چہرہ انور پر کچھ ناگواری کے آثار نمایاں ہوئے تو سورہ عبس نازل ہوئی لیکن پھر نبی ۖ کے وصال کے بعد وحی کی رہنمائی کا سلسلہ بند ہوگیا تھا۔ حضرت ابوبکر نے مانعین زکوٰة کیخلاف قتال کا فیصلہ کیا تو حضرت عمر نے شروع میں اختلاف کیا۔ حضرت علی نے چھ ماہ تک بائیکاٹ اور ناراضگی کا سلسلہ جاری رکھا ہواتھا اسلئے ہنگامی بنیاد پر خلافت کا فیصلہ کرنا اور باقاعدہ مشاورت کا پروگرام نہ کرنا ایک اہم معاملہ تھا۔
حضرت عمر نے آخر میں بھی فرمایا تھا کہ ”کاش ! ہم رسول اللہ ۖ سے تین باتیں پوچھ لیتے۔ مانعین زکوٰة کے خلاف قتال، آپۖ کے بعد خلفائ، کلالہ کی میراث پرمزید تفصیلات”۔ حضرت خالدبن ولید نے حضرت مالک بن نویرہ کے قتل کے بعد عدت ہی میں اس کی بیوی سے شادی کرلی تو حضرت عمر نے ان کو سنگسار کرنے کا مشورہ دیا۔ حضرت ابوبکر نے ڈانٹ ڈپٹ کو کافی سمجھا۔ جب پتہ چلا تھا کہ فتح مکہ کے موقع پر بے گناہ لوگوں کے قتل سے بھی دریغ نہ کیا تو نبی ۖ نے تین بارفرمایا کہ ”اے اللہ گواہ رہنا،میں خالد کے فعل سے بری ہوں”۔
حضرت علی نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے مشرک بہنوئی کو قتل کرنا چاہا تھامگر ام ہانی نے اپنے شوہر کیلئے نبی ۖ سے پناہ لی۔ ام ہانی شروع میں مسلمان ہوئی تھیں اور معراج کا واقعہ بھی آپ کے گھر میں ہوا تھا۔ پھر ان کا شوہر چھوڑ کر گیا تو نبی ۖ نے نکاح کا پیغام دیا مگر اس نے معذرت کرلی۔ پہلے حضرت ابوطالب سے رشتہ مانگا تھا لیکن نبی ۖ کو یہ رشتہ نہیں دیا تھا۔ یہ انسانیت کا اعلیٰ نمونہ تھا کہ جب نبیۖ کو ضرورت تھی تو رشتہ نہیں ملا لیکن جب اس کی عمر زیادہ ہوئی ، بچوں کی ماں بن گئیں اور شوہر چھوڑ کر گیا تو نبیۖ نے پیغام بھیج دیا۔ پھر اللہ نے فرمایا کہ اے نبی ! ہم نے اپ کیلئے ان چچا اور ماموں کی بیٹیوں کو حلال کیا ہے جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی۔ پھر قرآن میں اللہ نے نبیۖ پر پابندی لگا دی کہ کوئی عورت کتنی بھلی لگے مگر اسکے بعد نکاح نہیں کرنا الا ملکت یمینک ”مگرجن کیساتھ آپ کا معاہدہ ہوجائے”۔ علامہ بدرالدین عینی نے28ازواج النبیۖ میں ام ہانی کا بھی ذکر کیا لیکن قرآن کی رو سے یہ نکاح نہیں معاہدہ ہی ہوسکتاتھا۔ شیعہ سنی اگر قرآنی آیات، احادیث صحیحہ اور ان تاریخی واقعات پر نظر ڈالیں گے تو بہت سارے پیچیدہ مسائل کا حل نکلے گا۔ جب عبداللہ بن زبیر نے کہا تھا کہ متعہ زنا ہے تو حضرت علی نے فرمایا کہ آپ بھی متعہ کی پیداوار ہیں۔ عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ صحابہ نے عرض کیا کہ کیا ہم خود کو خصی نہ بنالیں تو نبیۖ نے فرمایا کہ نہیں!۔ بھلے ایک یا دو چادر کے بدلے متعہ کرلو۔ لاتحرموا ما احل اللہ لکم من الطیبات ”حرام مت کرو،جو اللہ نے پاک چیزوں میں سے تمہارے لئے حلال کیا ہے”۔ (صحیح بخاری)
نبی ۖ کا آیت کی علت کا حوالہ دیکر متعہ کو حلال و طیب قرار دینا بہت بڑی بات ہے۔عبداللہ بن مسعود نے اپنے مصحف کی تفسیر میں متعہ کو حلال قرار دیتے ہوئے (الی اجل مسمٰی) لکھ دیا تھا۔ علماء ومفتیان غلط کہتے ہیں کہ وہ آیت میں اضافہ کا عقیدہ رکھتے تھے۔ اگر چہ حنفی مسلک میں اضافی آیت بھی آیت ہی کے حکم ہے جو حنفی مسلک کے تضاد کی بھی بہترین دلیل ہے۔
اللہ نے فرمایا کہ”پس نکاح کرو جن عورت کو چاہو دودو، تین تین ، چار چار سے اور اگر تمہیں ڈرہو کہ عدل نہیں کرسکو گے تو پھر ایک او ماملکت ایمانکم ” یا پھر جن سے تمہارا معاہدہ ہوجائے”۔ (سورہ النساء آیت3) اس سے مراد لاتعداد لونڈیاں نہیں بلکہ جو2،3،4عورتوں میں انصاف نہ کرسکنے کا خوف رکھتا ہو تو پھر ایک عورت یا جن سے معاہدہ ہوجائے۔یعنی جو ایک عورت رکھنے کی بھی پوزیشن میں نہ ہو تو پھر متعہ کرنے پربھی گزارہ ہوسکتا ہے۔قرآن کی تفسیر قرآن اور سنت سے بہتر نہیں ہے۔ محرمات کی فہرست کے آخرمیں دو بہنوں کو جمع کرنا منع ہے اور پھر المحصنٰت من النساء الا ما ملکت ایمانکم” مگرجن سے تمہارا معاہدہ ہوجائے”۔ اس کی تفسیر پر صحابہ نے بھی اتفاق نہیں کیا۔ آج ایک سرکاری افسر ، فوجی شہید کی بیگم کو مراعات ملتی ہیں مگر جب وہ دوسری شادی کرتی ہے تو اس کی عزت اور مراعات ملیا میٹ ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں قرآن نے بڑی مہربانی اور رہنمائی کی ہے کہ جس سے اس کی مراعات اور عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوگی اور انسانی فطرت اورضروریات کے تقاضے بھی پورے ہوں گے۔
قرآن میںما ملکت ایمانکم ”جنکے مالک تمہارے معاہدے ہیں”۔ (تمہارے معاہدوںوالے) متعہ ومسیار ، غلام ولونڈی، کاروباری شراکت دار سب پر موقع محل کے مطابق اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اگر قرآنی آیات کا درست ترجمہ وتفسیر کی جائے تو فحاشی وعریانی بھی کنٹرول ہوگی اور جنسی تسکین کیلئے جائز و معقول اور انسانی فطرت کے مطابق مستقل نکاح یا عارضی بندھن کی بھی اجازت ہوگی۔ نکاح کے مقابلے میں متعہ ومسیار کے مالی معاملات بھی عارضی معاوضے اور باہمی رضامندی سے طے ہوتے ہیں۔ جو طے ہوجائے اس کے بعد بھی اس میں کمی وبیشی کی باہمی رضامندی سے گنجائش قرآن نے رکھی ہے۔
قرآن نے متعہ ومسیار والیوں کے مقابلے میں طلاق شدہ وبیوہ کو ہی زیادہ اہمیت دی ہے ۔ اگر طلاق شدہ وبیوہ تک بھی میسر نہ ہو تو متعہ ومسیار والیوں کے ساتھ بھی نکاح کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ فرمایا ہے کہ جیسے تم ہو ،ویسے وہ ہیں اور ان کو کمتر نہ سمجھنے کا حکم ہے اور یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ اللہ تمہارا ایمان جانتا ہے (یعنی جو اپنے لئے اور ان متعہ ومسیار والیوںکیلئے الگ پیمانہ رکھتاہے)اور پھر ان کے ساتھ دوسری عام شادی شدہ عورتوں کے مقابلے میں فحاشی کی صورت میں نہ صرف آدھی سزا کی تجویز دی ہے بلکہ فرمایا کہ اگر تمہیں مشکل میں پڑنے کا خوف نہ ہو تو بالکل درگزر کرو۔قرآن کا معاشرتی نظام بہت زبردست ہے لیکن ترجمہ وتفسیر کرنے والوں نے موٹی موٹی باتوں کو بھی خود بھی بالکل نہیں سمجھا ہے۔
****************
نوٹ:اخبار نوشتہ دیوار خصوصی شمارہ اکتوبر2023کے صفحہ3پر اس کے ساتھ متصل مضامین”40آیات میں اطیعوا الرسول کا حکم ہے ”
”کون کانا دجال اورکون علماء حق کا کردار ہے؟”
اور ”امت مسلمہ قرآن کی طرف کیسے متوجہ ہوگی؟” ضرور دیکھیں۔
****************
اخبار نوشتہ دیوار کراچی
خصوصی شمارہ اکتوبر 2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ