پوسٹ تلاش کریں

رسول اللہ ۖ ، صحابہ ، امام ابوحنیفہ ، شاہ ولی اللہ اور دار العلوم دیوبند کے سپوت کپوت تک کا سلسلہ

رسول اللہ ۖ ، صحابہ ، امام ابوحنیفہ ، شاہ ولی اللہ اور دار العلوم دیوبند کے سپوت کپوت تک کا سلسلہ اخبار: نوشتہ دیوار

رسول اللہ ۖ ، صحابہ ، امام ابوحنیفہ ، شاہ ولی اللہ اور دار العلوم دیوبند کے سپوت کپوت تک کا سلسلہ

خلفاء راشدین سپوت اور ذوالخویصرہ کپوت ، عبد اللہ ابن مبارک سپوت، ابویوسف کپوت، جامعہ بنوری ٹاؤن سپوت اور دار العلوم کراچی و جامعة الرشیدکپوت

رسول اللہ ۖ پر قرآن نازل ہوا ، خلفاء راشدین حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت حسن، حضرت امیر معاویہ جیسے عظیم سپوتوں کے بعد سلسلہ یزید و مروان بدترین کپوتوں تک پہنچ گیا۔ ابو سفیان کے دو بیٹے تھے۔ ایک یزید بن ابی سفیان اور دوسرا امیر معاویہ بن ابی سفیان۔ یزید بن ابی سفیان تو امیر معاویہ کے مقابلے میں بھی زیادہ اچھے صحابی تھے۔ بہرحال حضرت حسن نے امیر معاویہ کے حق میں اپنی خلافت سے دستبرداری کا فیصلہ کیا تو امیر معاویہ نے20سال تک بہت کامیابی کے ساتھ امارت کا نظام چلایا تھا۔ یزید سے نااہلی کا سلسلہ شروع ہوا تو یزید کے بیٹے معاویہ بن یزید بھی عظیم سپوت تھے۔ جس نے تخت پر بیٹھنے سے انکار کردیا۔ پھر مروان بن حکم سے کپوتوں کا سلسلہ بنو اُمیہ کے آخری خلیفہ تک جاری رہا لیکن ان میں بھی حضرت عمر بن عبد العزیز جیسے عظیم سپوت نے جنم لیا تھا۔ پھر بنو عباس میں سپوتوں اور کپوتوں نے تخت پرقبضہ کیا اور آخر چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بنو عباس کی امارت ختم کردی۔ پھر سلطنت عثمانیہ سے نئی بادشاہت کا سلسلہ شروع ہوا جو1924تک جاری رہا۔ برصغیر پاک و ہند سے مولانا محمد علی جوہر وغیرہ اور ہندو سکھ رہنماؤں نے خلافت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔ پھر تقسیم ہند کے بعد بر صغیر پاک و ہند میں پاکستان اور ہندوستان کے حکمرانوں اور سیاستدانوں میں بھی سپوت اورکپوت کا یہ سلسلہ جاری رہا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح و قائد ملت لیاقت علی خان اورپہلے دو انگریز آرمی چیف سے اب تک عمران خان و شہباز شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ وحافظ سید عاصم منیر تک سپوتوں اور کپوتوں کا سلسلہ قائم ہے۔ حکمرانوں کے علاوہ مشائخ و علماء حق اور علماء سوء کا بھی سلسلہ حضرت علی و قاضی شریح سے لیکر حضرت امام ابو حنیفہ ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل سے موجودہ دور تک کے سپوتوں اور کپوتوںتک جاری ہے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اکابر دیوبند کے شیخ المشائخ تھے۔ مولانا قاسم نانوتوی ، شیخ الہند محمود الحسن اور مولانا محمد الیاس بانی تبلیغی جماعت ، مولانا یوسف ، مولانا شیخ زکریااور حاجی محمد عثمان تک بھی سلسلہ حق تھا۔ مولانا انور شاہ کشمیری ، مولانا یوسف بنوریاور مولانا بدیع الزمان جامعہ بنوری ٹاؤن و دار العلوم کراچی تک کا سلسلہ ۔ مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا احمد علی لاہوری، سید عطاء اللہ شاہ بخاری ، مفتی محمود ، مولانا غلام غوث ہزاروی ،مولانا سراج احمد دین پوری، مولانا عبد اللہ درخواستی ، مولانا عبد الکریم بیر شریف، مولانا فضل الرحمن اور مولانا محمد خان شیرانی تک سپوت و کپوت کا سلسلہ ہر میدان میں جاری ہے۔1970میں جب مشرقی و مغربی پاکستان اکھٹے تھے تو علماء حق جمعیت علماء اسلام پر ایک کفر کا فتویٰ لگاتھا جس میں سرغنے کا کردار مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع ، مولانا رشید احمد لدھیانوی، مولانا احتشام الحق تھانوی وغیرہ نے ادا کیا تھا۔ لیکن دوسری طرف حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی وغیرہ نے علماء حق کے خلاف اس سازشی فتوے کا کردار ادا نہیں کیا تھا۔
پھر1977میں جمعیت علماء اسلام کے مولانا مفتی محمود نے ذو الفقار علی بھٹو کے خلاف جماعت اسلامی و قوم پرستوں کا ساتھ دیا تھا جبکہ مولانا غلام غوث ہزاروی نے سازش کو بھانپ کر ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے معروف رہنما مولا بخش چانڈیو لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بلوچ رہنماؤں نے جنرل ضیاء الحق کا ساتھ نہیں دیا لیکن ولی خان و دیگر پشتون رہنماؤں نے بھٹو کے خلاف جنرل ضیاء کا ساتھ دیا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب مفتی محمود نے نصرت بھٹو کے ساتھMRDکے اتحاد پر جنرل ضیاء الحق کے خلاف جمہوریت کی بحالی کیلئے تحریک پر اتحاد کیا لیکن دوسری طرف جماعت اسلامی اور دار العلوم کراچی کے مفتی تقی عثمانی وغیرہ نے جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دینا شروع کیا۔ رسول اللہ ۖ کے بعد حضرت ابوبکر نے جب زبردستی سے زکوٰة لینے کا فیصلہ کیا تو حضرت عمر اس پر متفق نہیں تھے۔ مگر مجبوری میں ایک خلیفہ وقت کا ساتھ دیا تھا۔ پھر حضرت عمر نے وفات سے پہلے اس بات کی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ کاش ہم رسول اللہ ۖ سے تین چیزوں کے بارے میں پوچھ لیتے۔ (1):زکوٰة نہ دینے والوں کیخلاف قتال کا ۔(2):نبی ۖ کے بعد جانشین خلفاء کے نام۔ (3):کلالہ کی میراث کے بارے میں۔
اہل سنت کے چاروں امام امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے شریعت کا یہ حکم واضح کیا تھا کہ ”مانعین زکوٰة کیخلاف قتال کرنا جائز نہیں ہے”۔ حضرت عمر و حضرت عثمان کے دور میں فتوحات کے دروازے کھل چکے تھے اسلئے مانعین زکوٰة کیخلاف قتال کرنے اور نہ کرنے پر بحث کی کوئی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ اہل سنت کے چاروں اماموں نے حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت پر مکمل اعتماد کے باوجود بھی اپنے اختلاف رائے سے اسلام کی حفاظت کا سامان کیا تھا۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا تھا کہ بہترین دور میرا ہے، پھر ان لوگوں کا ہے جو میرے دور سے ملے ہوئے ہیں۔ پھر ان لوگوں کا ہے جو میرے بعد والوں سے ملے ہوئے ہیں۔ اس سے یہ عقیدہ بن گیا کہ صحابہ کرام اُمت مسلمہ کے افضل ترین لوگ ہیں۔ پھر تابعین اور پھر تبع تابعین تک یہ سلسلہ پہنچتا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ”بدعت کی حقیقت” میں لکھا ہے کہ پہلی صدی ہجری تو صحابہ کرام کی ہے، دوسری صدی ہجری تابعین کی ہے اور تیسری صدی ہجری تبع تابعین کی ہے۔ ان پہلے تینوں صد ہجری میں ”تقلید کی بدعت” ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ تقلید چوتھی صدی ہجری کی بدعت ہے۔ لہٰذا چاروں مسالک کی تقلید بدعت ہے۔
علامہ ابن تیمیہ و علامہ ابن قیم نے بھی بہت پہلے تقلید سے انتہائی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے چاروں فقہی مسالک کو چار الگ الگ فرقے قرار دیا تھا۔ شاہ اسماعیل شہید نے بھی علامہ ابن تیمیہ سے متاثر ہوکر مسالک کی تقلید کو بدعت قرار دیا تھا۔ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نے شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ”بدعت کی حقیقت” کے اردو ترجمہ پر اپنی تقریظ میں زبردست حمایت بھی کی ہے اور ساتھ ساتھ شاہ اسماعیل شہید کی دوسری کتاب ”منصب امامت” کی بھی تائید فرمائی ہے۔
سعودی عرب کے موجودہ حکمرانوں کا تعلق علامہ ابن تیمیہ کے مسلک سے ہے۔ ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے خانہ کعبہ میں چاروں مسالک کے الگ الگ مصلے تھے جو تقلید ہی کی وجہ سے اپنی الگ الگ جماعت کراتے تھے۔ علماء دیوبند کے اکابر نے شاہ اسماعیل شہید کی حمایت کی تو اس وقت حرمین شریفین میں شریف مکہ کی حکومت تھی۔ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی نے علماء دیوبند پر فتویٰ لگایا کہ یہ لوگ تقلید کو بدعت سمجھتے ہیں اور علامہ ابن تیمیہ کے ماننے والے ہیں تو اس وقت کے حرمین شریفین والوں نے مولانا احمد رضا خان بریلوی کے فتوے پر دستخط کردئیے۔ دیوبندی اکابر نے اپنی صفائی کیلئے ”المہند علی المفند” کتاب لکھی اور اس میں واضح کیا کہ ہم چاروں مسالک کو برحق مانتے ہیں اور خود حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ تصوف کے چاروں سلسلوں کو برحق مانتے ہیں اور خود مشرب چشتی سے تعلق رکھتے ہیں اور علامہ ابن تیمیہ کو بھی بہت برا بھلا کہہ کر برأت کا اعلان کیا۔
جب رسول اللہ ۖ نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی تھی تو قرآن نے فتح مکہ سے پہلے اور فتح مکہ کے بعد والے صحابہ کے اندر واضح فرق رکھا ہے۔ بدری اور غیربدری صحابہ کے اندر بھی واضح فرق تھا۔ جب حضرت عمر کے دور میں فتوحات کے دروازے کھل گئے تو حضرت عمرنے بدری صحابہ کے لئے الگ وظائف مقرر کئے اور غیر بدریوں کیلئے الگ۔ حضرت حسن اور حضرت حسین بدری صحابہ نہیں تھے لیکن اہل بیت ہونے کی وجہ سے حضرت عمر نے ان دونوں کیلئے بھی بدری صحابہ کے درجے پر وظائف رکھے تھے۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر نے جب عرض کیا کہ مجھے بھی حسنین کی طرح بدری صحابہ کے برابر وظیفہ دیا جائے تو حضرت عمر نے فرمایا کہ ”وہ نبی ۖ کے نواسے ہیں آپ نہیں ہو، ان کی برابری کاسوچو بھی مت”۔
مولانا عبید اللہ سندھی نے لکھا ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ نے پہلا دور نبی ۖ کا ، دوسرا حضرت ابوبکر و عمر کا اور تیسرا دور حضرت عثمان کا بہترین قرار دیا ہے۔ حضرت علی کے دور کو فتنے میں شمار کیا ہے جو خیر القرون میں داخل نہیں ہے۔ لیکن حضرت علی کے دور کو قیامت تک کیلئے فتنوں میں مثالی دور قرار دیا ہے اور میرے نزدیک نبی ۖ اور ابوبکر کا دور ایک تھا اس لئے کہ حضرت ابوبکر کے دور میں معمولی سی تبدیلی بھی نہیں آئی تھی۔ پھر حضرت عمر کا دور ہے جس میں مال و وظائف کے اعتبار سے طبقاتی تقسیم کا آغاز ہوگیا تھا۔ تیسرا دور حضرت عثمان کا دور ہے جس میں خاندانی اور طبقاتی کشمکش کی بنیادیں مضبوط ہوگئیں۔
جب حضرت عثمان کو شہید کیا گیا تو ذوالخویصرہ نے اپنے قبیلے کے10ہزار افراد کے ساتھ دعویٰ کردیا کہ حضرت عثمان کے قاتل ہم ہیں۔ حضرت عثمان کے قاتلین دو حصوں میں بٹ گئے تھے۔ ایک طرف وہ حضرت علی کے ساتھ تھے اور دوسری طرف وہ حضرت علی کے مخالفین کے ساتھ تھے۔ حضرت علی کی بیعت کرنے اور نہ کرنے والے بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ حضرت امیر معاویہ نے قاتلین عثمان سے بدلہ لینے کا جو مطالبہ حضرت علی سے کیا تھا اس پر عمل کرنا بہت مشکل تھا۔جس کی وجہ سے اہل حق کے دو گروہوں میں قتل و غارت ہوئی۔ ان میں حق پر کون تھا؟۔ یہ حضرت عمار کی شہادت سے نبی ۖ نے بتادیا تھا کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا جس کو عمارجنت کی طرف بلائے گا اور وہ عمار کو جہنم کی طرف بلائیں گے۔
حضرت عثمان کی شہادت سے پہلے حضرت حسن و حسین کی طرف سے حفاظت ہورہی تھی اور محمد بن ابی بکر نے حضرت عثمان کی داڑھی میں سب سے پہلے ہاتھ ڈالا تھا۔ محمد بن ابی بکر بھی حضرت علی کے پالے ہوئے تربیت یافتہ بیٹے تھے۔ جس کی وجہ سے بعض لوگوں کو شک تھا کہ حضرت عثمان کی شہادت میں حضرت علی کا بھی ہاتھ ہے۔ یہاں سے اُمت کی جو تفریق شروع ہوئی تھی اس کا سلسلہ آج تک جوں کا توں موجود ہے۔
حضرت علی کے بعد امام حسن کی خلافت قائم ہوگئی تو حسن نے امیر معاویہ کے حق میں دستبردار ہوکر مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائی۔ لیکن یہ پھر یزید کی نامزدگی کے بعد واقعہ کربلا سے معاملہ شروع ہوا تو یزید کی سرکردگی میں عبد اللہ بن زبیر کے خلاف مکہ میں کاروائی ناکام ہوئی۔ یزید نے اہل مدینہ کو کچل کر اہل مکہ کو بھی کچلنا چاہا تھا۔ یزید کے مرنے کے بعد یزید کے بیٹے معاویہ نے تخت نشین ہونے سے دستبرداری اختیار کی تو مروان بن حکم جو بنو اُمیہ کا دوسرا سلسلہ تھا وہ اقتدار میں آگیا۔ مروان نے پھر حضرت عبد اللہ بن زبیر کی خلافت کو بھی مکہ مکرمہ میں کچل دیا تھا۔ مروان کا سلسلہ بنو اُمیہ کے آخری حکمران تک جاری رہا جن میں حضرت عمر بن عبد العزیز جیسے عظیم سپوت بھی شامل تھے۔ بنو اُمیہ کے شروع دور میں مدینہ کے7مشہور فقہاء نے مسند سنبھالی جن میں حضرت ابوبکر کے پوتے قاسم بن محمد بن ابی بکر اور نواسے عروہ بن زبیر، سعید بن المسیب اور سعید بن جبیر وغیرہ شامل تھے۔ حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر کو بھی بہت بے دردی کے ساتھ شہید کیا تھا۔
امام ابو حنیفہ نے بنو اُمیہ کے آخری اور بنو عباس کے شروع دور میں اپنی خدمات انجام دیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے100سال بعد احادیث کی کتابیں مرتب کرنے کی اجازت دی تھی۔ جب ضعیف و من گھڑت اور صحیح احادیث کا ایک سلسلہ مرتب ہونا شروع ہوا تو امام ابو حنیفہ نے قرآن کے مقابلے میں ان احادیث کو بھی مسترد کرنے کی بنیاد رکھ دی جن کی سند بظاہر صحیح لیکن خبر واحد یعنی کسی ایک شخص کے توسل سے نقل تھیں۔
امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا تعلق دوسری صدی ہجری سے تھا۔ امام مالک اہل مدینہ تھے۔ امام ابو حنیفہ کا تعلق فارس سے تھا۔ امام شافعی نے امام مالک اور امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد سے فقہ کی تعلیم حاصل کی تھی اور امام احمد بن حنبل امام شافعی کے شاگرد رشید تھے۔ ان ائمہ نے اپنے اپنے دور کے حکمرانوں سے سخت سے سخت سزائیں کھائی ہیں۔ جن کو تاریخ میں سنہری حروف سے یاد کیا جاتا ہے۔
امام ابو حنیفہ کے ایک شاگرد عبد اللہ ابن مبارک تھے جس کو محدثین اور صوفیاء میں بھی بہت بلند مقام حاصل تھا۔ عبد اللہ ابن مبارک اپنے اُستاذ امام ابو حنیفہ کے عظیم سپوت تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام ابو یوسف کو قاضی القضاة (چیف جسٹس) کا منصب اسلئے مل گیا کہ وہ درباری تھا اور اس نے یہ گھناؤنا کام کیا تھا کہ بادشاہ کا دل جب اپنے باپ کی لونڈی پر آیا تو بادشاہ نے اپنے باپ کی اس لونڈی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کیلئے حیلہ تلاش کیا۔ امام ابو حنیفہ نے درباری بن کر بادشاہ کی خواہش کو پورا نہیں کیا تو جیل میں زہر دے کر شہید کیا گیا۔ امام ابو حنیفہ نے واضح کیا تھا کہ اگر باپ نے لونڈی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم رکھے ہیں تو بادشاہ کیلئے اس کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا قطعی طور پر حرام ہیں۔ جبکہ امام ابو یوسف نے بادشاہ کیلئے یہ حیلہ نکال دیا کہ لونڈی عورت ہے اور جب وہ بولے کہ تیرے باپ نے میرے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا ہے تو اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہے۔ اس کیلئے باقاعدہ ایک اچھا خاصہ معاوضہ بھی طے کیا گیا۔ جب امام ابو یوسف نے حیلہ بتایا تو بادشاہ نے کہا کہ صبح خزانے کا دروازہ کھل جائے گا تو معاوضہ لے لینا۔ امام ابو یوسف نے کہا کہ مجھے ابھی راتوں رات وعدے کے مطابق معاوضہ دے دینا۔ میں نے بھی تمہارے لئے رات ہی کو بند دروازہ کھولا ہے۔
یہ واقعات علامہ جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء اور امام غزالی نے اپنی کتابوں میں لکھ دئیے تو امام غزالی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مصر کے بازار میں ان کی کتابیں جلائی گئی تھیں۔ جس کے بعد امام غزالی نے فقہ کی راہ چھوڑ کر تصوف کی راہ کو اپنالیا تھا۔ تصوف کے مشائخ اور فقہ کے علماء کے درمیان اختلافات کا بھی ایک سلسلہ ہے اور علماء نے اہل تصوف سے بیعت و سلوک کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہے۔ امداد اللہ مہاجر مکی کے مرید و خلیفہ مولانا قاسم نانوتوی نے کہا تھا کہ میں حاجی امداد اللہ مہاجر سے ان کے علم کی وجہ سے بیعت ہوں۔ مولانا رشید احمد گنگوہی نے کہا تھا کہ میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے علم کی بنیاد پر اختلاف رکھتا ہوں مگر عمل کی وجہ سے بیعت ہوں اور یہ بھی یاد رہے کہ مولانا منظور مینگل نے کہا ہے کہ مولانا رشید احمد گنگوہی واحد شخص ہیں جو علامہ ابن تیمیہ سے عقیدت رکھتے ہیں جبکہ دوسرے تمام اکابر نے ابن تیمیہ کی سخت مخالفت کی ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی کے شاگرد مولانا حسین علی کے شاگرد شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان اور شیخ القرآن مولانا محمد طاہر پنج پیری تھے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پنج پیری طلبہ کو پڑھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ یہی حال جامعہ فاروقیہ و دیگر مدارس کا بھی تھا۔ حالانکہ دونوں کا تعلق دیوبند سے تھا۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فاضل ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی نے ”توحید خالص” وغیرہ کتابیں لکھ کر اکابرین پر شرک و کفر کے فتوے لگائے تھے۔ جس طرح عام دیوبندی پنج پیری طبقے کو اپنے سے الگ اور گمراہ سمجھتے تھے اس سے بڑھ کر ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی کی کتابوں سے پنج پیری الرجک تھے۔ آج خود کو بہت بڑا شیخ الحدیث ، شیخ القرآن ، جامع العلوم سمجھنے والا ڈاکٹر منظور مینگل کہتا ہے کہ میں نے ابن تیمیہ اور پنج پیری کو بڑا کافر گمراہ کہہ کر گالیاں دی ہیں مگر ابھی توبہ کرتا ہوں۔
حنفی مسلک پر دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کا اتحاد ہے اور درس نظامی میں فقہ ، اصول فقہ ، حدیث اور تفسیر کی کتابیں بھی ایک ہیں۔ ایک نصاب کے باوجود دونوں میں اختلافات بھی ہیں۔ ابوبکر صدیق اکبر نے جبری زکوٰة کی وصولی شروع کردی تو اہل سنت کے چاروں اماموں نے اختلاف کیا تھا۔
مالکی و شافعی مسالک نے بے نمازی کو واجب القتل قرار دیا تو حنفی مسلک نے ان سے اختلاف کیا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ جب حضرت ابوبکر نے زکوٰة نہ دینے والوں کے خلاف قتال کیا تو بے نمازی کے خلاف قتال بدرجہ اولیٰ بنتا ہے۔ حنفی مسلک والوں نے جواب دیا کہ جب حضرت ابوبکر کے فیصلے سے تمہارا اتفاق نہیں ہے تو اس پر نماز کو کیسے قیاس کرسکتے ہو؟۔ مفتی محمد شفیع مفتی اعظم پاکستان نے اپنی تفسیر ”معارف القرآن” میں لکھ دیا کہ بے نمازی کے خلاف قتال کرنے کا حکم سورہ توبہ اور حضرت ابوبکر صدیق کے فعل سے ثابت ہوتا ہے۔ تو علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی تفسیر ”تبیان القرآن” میں اس کو مسلک حنفی کے خلاف قرار دیتے ہوئے لکھا کہ مفتی شفیع نے حنفی فقہاء کے مسلک سے انحراف کیا ہے۔
امام ابو یوسف نے جب بادشاہ کیلئے لونڈی کی گواہی کو غلط قرار دینے کی بدعت جاری کردی تو ایک طرف حدیث صحیح کے خلاف زنا بالجبر میں بھی عورت کی گواہی کو ناقابل قبول قرار دیا گیا اور دوسری طرف امام ابو حنیفہ کے نام پر حرمت مصاہرت کا غلط پروپیگنڈہ کرکے انتہائی غلیظ مسائل کو فقہ کا حصہ بنایا گیا۔ چنانچہ اورنگزیب عالمگیر مغل بادشاہ کے دور میں لکھی گئی کتاب ”نور الانوار:ملاجیون” درس نظامی میں داخل نصاب ہے۔ جہاں یہ مسئلہ پڑھایا جاتا ہے کہ ”اگر ساس کی شرمگاہ کو باہر سے شہوت کے ساتھ دیکھ لیا تو عذر کی وجہ سے معاف ہے لیکن اگر اندر کی طرف سے دیکھا تو اس سے بیوی حرام ہوجائے گی”۔
اسی طرح مفتی تقی عثمانی سے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن تک نے پرویز مشرف کے دور میں یہ نام نہاد غلط شرعی مسئلہ اُجاگر کیا کہ ” کسی عورت کو زبردستی سے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تو اگر اس کے پاس چار سے کم گواہ ہوں تو وہ زیادتی پر بھی خاموش رہے اسلئے کہ اگر تین افراد نے بھی اس کے حق میں گواہی دی تو ان سب پر بہتان کی حد جاری کی جائے گی”۔
جب جنرل ضیاء الحق نے بینکوں کے سُودی نظام سے زکوٰة کی کٹوتی کا فیصلہ کیا تو مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی نے اس کے جواز کا فتویٰ دے دیا۔ جس پر مفتی محمود نے دونوں بھائیوں کو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں طلب کیا۔ دونوں نے چائے پینے سے انکار کیا کہ ہم دن میں ایک بار چائے پیتے ہیں۔ مفتی محمود نے کہا کہ میں خود زیادہ چائے پیتا ہوں لیکن اگر کوئی کم پیتا ہے تو اس کو پسند کرتا ہوں۔ مفتی تقی عثمانی نے پان کا بٹوہ دکھایا کہ ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے۔ مفتی محمود نے کہا کہ یہ تو چائے سے بھی بدتر ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنی تحریر میں یہ نہیں لکھا تھا کہ اسکے باوجود میں نے پان کھلایا جسکے بعد مفتی محمود پر دورہ پڑگیا۔ اور مفتی رفیع عثمانی نے دورہ قلب کی خصوصی گولی حلق میں ڈال دی۔ مگر مولانا یوسف لدھیانوی نے یہ لکھ دیا۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے اپنا بیانیہ بعد میں بدل دیا کہ مفتی محمود بے تکلفی میں وہ مجھ سے پان مانگ کر کھایا کرتے تھے۔

دارلعلوم دیوبند کے سپوتوں کی چند یہ مثالیں

علماء حق کی یاد گار جامعہ بنوری ٹاؤن عظیم یہ شخصیات
علامہ سیدمحمدیوسف بنوریکی ایک یاد گار تقریر ماہنامہ البینات میں شائع ہوئی جو ماہنامہ نوشہ ٔ دیوارنے قارئین کیلئے شائع کی ،جو سودی نظام کے خلاف تھی ،جس میں اسلام کے معاشی نظام پر زور تھا۔علامہ بنوری کے دامادمولانا طاسین نے مزارعت پر تحقیق کا حق ادا کرکے قرآن وسنت سے اس سود کو واضح کیا۔جب سود کی حرمت پرآیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سود قرار دیا تھا۔ جس کی وجہ سے جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ دونوں نظام کا خاتمہ ممکن تھا اور محنت کشوں کیلئے بڑا متوازن روزگار تھا۔ اس سے محنت و دیہاڑی کا ایک مناسب معاوضہ بھی خود بخود معاشرے میں رائج ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں پانی کا بہاؤ ایک نعمت ہے جس سے سستی بجلی پیدا کرنے اور سستی خوراک ملنے میں مثالی مدد مل سکتی ہے۔ رسول اللہ ۖ نے مدینہ میں یہ نظام قائم فرمایا تو پوری دنیا میں اسکا ڈنکا بج گیا۔ روم و فارس کے بادشاہوں ، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو پیغام مل گیا کہ اب دنیا میں انسان اپنی طاقت ، جاگیر اور سرمایہ کے ذریعے سے دوسرے انسانوں کو غلام نہیں بناسکتا ہے۔ آج پاکستان سے پھر پوری دنیا کو یہ میسج جائے گا تو سُودی نظام کا خاتمہ ہونے میں دیر نہ لگے گی۔

دارالعلوم دیوبند کے کپوتوں کی یہ چند مثالیں

دارالعلوم کراچی وجامعة الرشید علماء سوء کی یہ یادگاریں
ہمارے مرشد حضرت حاجی محمد عثمان سے تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ بڑی عقیدت و محبت رکھتے تھے اور بڑے بڑے مدارس کے علماء و مفتیان حلقہ ارادت میں شامل تھے۔ سعودی عرب کے سرکاری افسران اور شام کے عرب بھی بیعت تھے۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی، مفتی عبد الرحیم اور مفتی تقی عثمانی نے ان کے خلاف الائنس موٹرز سے کچھ مالی مفادات اٹھاکر جو گھناؤنا کردار ادا کیا تھا اس پر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ اب بھی مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی جلد دوم” میں موجود ہے۔ ہفت روزہ تکبیر کراچی میں بھی ان فتوؤں کی سرسری روداد موجود ہے۔ ہمیں ذاتیات سے غرض نہیں ہے لیکن جن لوگوں نے کتابیں چھاپ کر شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کے لین دین کو سُود قرار دیا تھا اور نبی کریم ۖ پر بھی آیت کی من گھڑت تفسیر لکھ کر سُود کا بہتان لگایا تھا اور سُود کو 73گناہوں میں سے کم از کم اپنی سگی ماں کے ساتھ بدکاری کے برابر گناہ قرار دیا تھا لیکن پھر اللہ کی طرف سے ایسی پھٹکار ہوئی کہ پوری دنیا کے سُودی نظام کو حیلے بہانے سے جائز قرار دیا۔ حالانکہ سبھی علماء اور مفتیان نے ان کے خلاف متفقہ فتویٰ بھی جاری کیا تھا۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ انتظار کریں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز