پوسٹ تلاش کریں

صلیبی جنگوں کے بعد عیسائی اور مسلمانوں کا کردار

صلیبی جنگوں کے بعد عیسائی اور مسلمانوں کا کردار اخبار: نوشتہ دیوار

صلیبی جنگوں کے بعد عیسائی اور مسلمانوں کا کردار

عیسائی حکمرانوں نے200سال صلیبی جنگیں لڑ کر مسلمانوں کو قریب سے دیکھا تو کیا بڑا سبق سیکھا؟۔

عسقلان قدیم دورسے مختلف لوگوں کے قبضہ میں رہاہے۔ معاویہ دور میں صلح سے مسلمانوں کے حوالے ہوا۔ مختلف ادوار میں عیسائیوں اور مسلمانوں میں منتقل ہوتا رہاہے۔ خلافت عثمانیہ اور انگریز قابض رہے۔ اسرائیل خریدتا اور قبضہ کرتا تھا۔2سو سال صلیبی جنگوں والے عیسائی القدس پر قبضہ چاہتے تھے۔ اُس دور میں پادری آج کے مسلمان جہادیوں کی طرح تھے جن کا حکمرانوں سے گٹھ جوڑ تھا۔ملالہ نے جب اس گٹھ جوڑ کی آواز اٹھائی تو سینیٹر مشتاق پنگوڑے میں سویا ہوا تھا۔ میں نے فجر کی آذان تھوڑی دیر سے دی تو پیر فاروق شاہ نے کہاکہ نماز نیند سے بہترکا جملہ نہ کہتے۔ چڑیا بھی جاگ چکیں۔ منظور پشتین نے دہشت گردی کے پیچھے وردی کا نعرہ لگایا تو مشتاق بھی شروع ہوگئے۔صلیبی جنگوں میں عیسائیوںنے قریب سے مسلمانوں کو دیکھا تو بہت متاثر ہوگئے۔ پادریوں کا اثر و رسوخ ختم کرکے جدید طرز تعمیر، تعلیم اور حکمرانی کواپنایا۔ پھر ترقی و عروج کی منزل پالی ۔ دنیا پر دنیاوی مفاد کیلئے حکمرانی کرنے لگے اور ان کے دل ودماغ میں مذہبی جہالت کی جگہ سیکولر ازم آگیا۔ القدس پر قبضہ کرسکتے تھے مگر مذہبی جنگ یہود اور مسلمانوں کے درمیان چھوڑدی ۔ آج عیسائیوں کے پاس ترقی یافتہ مغرب ہے۔ مسلمانوں کے حرمین کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں لیکن ان میں مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی مسلمانوں کی وجہ سے صلیبی جنگوں میں ختم ہوچکی ۔ روس کے خلاف جہادیوں کو امریکہ نے استعمال کیا۔ ولی خان نے سعادت حسن منٹو اور مولانا فضل الرحمن وغیرہ کی موجودگی میں روس کو افغانستان سے انخلاء پر امن کا ایوارڈ دینے کی تقریب کا انعقاد کیا تھا۔ بینظیر بھٹو سے کہا تھا کہ” محترمہ خود خاتون ہو ۔ عرب پختون خواتین کو لونڈیاں بنانا چاہتے ہیں جو اپنی شلواروں کے ناڑے سروں پر باندھتے ہیں۔کیا یہ ہماری خواتین کو لونڈیاں بنائیں گے؟۔ افغانستان کابینہ (گل بدین، ربانی ،مجاہدین لیڈرز)کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہورہاہے ،اگر کل افغانستان میں پاکستانی کابینہ کا اجلاس عالمی قوتوں نے منعقد کیا تو کیا ہوگا؟۔ بینظیر کے دوسرے دورِ حکومت میں نصیراللہ بابر کے ذریعہ افغان طالبان کو لایا گیا ۔MQMکی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی ۔ افغان مہاجرین اپنے وطن واپس جاسکتے ہیں ۔اللہ نہ کرے کہ کراچی کے مہاجر کو واپس بھیجنے کا فیصلہ ہوجائے۔ اچھا کیا کہ متحدہ قومی موومنٹ نام بدل دیا ۔
سندھیوں کی غلطی نہیں،وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے دارالخلافہ اور شہروں پر بھی مہاجروں کا قبضہ تھا۔افغانی مہاجر کادیہاتوں اور کچی آبادیوں پر قبضہ ہوگا؟۔ مگر پولیس والے رشوت نہ دینے پر پاکستانیوں کو بھی افغانستان بھیج رہے ہیں۔ وزیر داخلہ فوجی ہو تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے ناجائز لینڈ مافیا بھاگا۔
ہفت روزہ تکبیر کراچی نے لکھا تھا کہ ”افغانستان میں مولانا فضل الرحمن کی ریاست کو ضرورت پیش آئی تو وہ بیرون ملک رفو چکر ہوگئے ”۔ جماعت اسلامی ہمیشہ اسٹیبلیشمنٹ کی اٹوٹ انگ رہی ہے لیکن پروین شاکر کی یاد تازہ کردی۔
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کردیا عشق کے اس سفر نے مجھے نڈھال کردیا
چہرہ ونام ایک ساتھ نہ یاد آسکے وقت نے کس شبیہ کو خواب وخیال کردیا
راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے
جل چکے ہیں میرے خواب میرے خیموں کی طرح
جماعت اسلامی سید مودودی کے مشن احیائے دین کا کام شروع کرے۔ اگر مفتی تقی عثمانی اور جماعت اسلامی کو واقعی یہود سے نفرت ہے تو وہ بینکنگ کا سودی نظام (علامہ اقبال کے بقول: فرنگ کی جان پنجہ یہود میں ہے)کوکیوں اسلامی قرار دے دیا؟۔ سیدھے سادے لوگوں سے” کوکا کولا” کے بوتل گراتے ہو لیکن خود اس کے مضبوط معاشی نظام سے تنخواہ لے کر کھارہے ہو؟۔
اگر مفتی تقی عثمانی میں ایمان ہوتا تو اپنے استاذ، پیش رو مولانا سلیم اللہ خان صدر وفاق المدارس کی بات مانتا اور ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ، مفتی زرولی خان ، پاکستان بھر کے معروف علماء و مدارس کی بات مانتا ۔ مفتی محمود کی بات مانتا ۔ پان میں زہر کھلادیا اور دوسرے بھائی نے دورہ قلب کی خصوصی گولی حلق میں ڈالی جو نہ حکیم و ڈاکٹر تھا اور نہ دل کا مریض۔ مفتی محمود کی وفات کے بعد یہ تحریر لکھی کہ ”ہم بھائیوں نے چائے پینے سے منع کردیا تو مفتی صاحب نے کہا کہ میں خود زیادہ چائے پیتا ہوں مگر کوئی نہیں پیتا تو اس کو پسند کرتا ہوں۔ جس پر میں نے پان کا بٹوہ دکھایا کہ ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے۔ مفتی صاحب نے کہا کہ یہ توچائے سے بھی بدتر ہے”۔ مولانا یوسف لدھیانوی نے لکھا ” مفتی تقی عثمانی نے اصرار کرکے پان کھلایا”۔ جس پر مفتی تقی عثمانی نے مولانا لدھیانوی شہید پر غصے کا اظہار کیا تھا۔ اب بیان180ڈگری بدل دیا کہ ” مفتی صاحب سے بڑی بے تکلفی تھی ۔ کہتے تھے کہ بھیا! لاؤ، ہم تمہارا پان کھائیںگے”۔ دارالعلوم کراچی میں اپنا ذاتی گھر لیا تو مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے فتویٰ دیا کہ ” وقف مال بیچنا اور خریدنا جائز نہیں ہے اور یہ بھی جائز نہیں کہ بیچنے والا خود خریدے”۔ جس پر ان کی سخت پٹائی لگائی تھی۔حالانکہ شریعت کا یہ قانون عالمی قانون بن چکا ہے۔
مفتی صاحبان افغانستان اپنے بچوں سمیت منتقل ہوجاتے تو شریعت کے ماحول کا فائدہ اٹھاتے ۔ مدارس کو تجارت کا مرکز بنانا چھوڑ دیں تو القدس کا معاملہ بھی حل ہوجائے گا۔جنرل ضیاء الحق نے فٹ بال گراؤنڈ دارالعلوم کراچی کو دیا تو اس کو تجارتی گودام بنادیا گیا۔ جس کا عوام کو بہت نقصان ہے لیکن نواز شریف، عمران خان، ابھی نندن اور کلبھوشن کو قید میں رکھنے یا نہ رکھنے سے عوام کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہے۔ مفتی تقی عثمانی عوام کی امانت نہیں لوٹا سکتا ہے۔
ملالہ یوسفزئی نے فلسطین کی مظلوم عوام کو3لاکھ ڈالر کا عطیہ دیا ہے لیکن مالدار علماء و مفتیان کی طرف سے امداد کا اعلان نہیں ہوا ؟ ۔فلسطین اور مسلمانوں کے بچوں کی مظلومیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ مولانا طارق جمیل نے اپنے بیٹے پر کس قدر سوگ کا مظاہرہ کیا ؟۔ فلسطین میں گھر گھر صفِ ماتم ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز