پوسٹ تلاش کریں

سوات سے وزیرستان ، بلوچستان کے آزاد علاقہ جات

سوات سے وزیرستان ، بلوچستان کے آزاد علاقہ جات اخبار: نوشتہ دیوار

سوات سے وزیرستان ، بلوچستان کے آزاد علاقہ جات

انگریز نے جب افغانستان کیساتھ ڈیورنڈلائن کا معاہدہ کیا تو یہ علاقہ جات پہلے سے خودمختار اورآزادتھے

وزیرستان پر تو کبھی کسی کا بھی باقاعدہ اقتدار نہیں رہاہے۔پاکستان سے محبت نے اقتدار کو تسلیم کیا ہے؟

سوات کے بزرگ رہنما حاجی زاہد خان نے تفصیل سے ان علاقوں کی آئینی حیثیت سوشل میڈیا پر بتائی ہے کہ یہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔مسلم لیگ ن سندھ کے صدر سابق ڈی جیFIAکے گھی مل پر مقدمہ تھاجس میں نام کو غلط استعمال کرنے کا مسئلہ تھا۔ جس کو وزیرستان سے رجسٹرڈ کیا گیا تھا۔ جب وزیرستان کے اپنے باشندے نقل وحمل نہیں کرسکتے تھے تو ان لوگوں نے گھی کے مل لگائے تھے؟یا پھرمتأثرین میں گھی کی تقسیم کا جب معاملہ چل رہا تھا تو ان لوگوں نے گھی تقسیم مفت تقسیم کرنے والوں سے پیسہ بٹورنے کیلئے ایک پروگرام بنایا تھا؟۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم ڈیورنڈ لائن سے پہلے بھی افغانستان میں شامل نہ تھے۔انگریزنے روڈ،قلعے اور کیمپ بنائے۔لوگوں کو نوکریاں دیں اور انگریز کے جانے کے بعد پاکستان کے ساتھ آزادی کی خوشی منائی ۔معین قریشی کے دور عبوری حکومت تک پارلیمنٹ کانمائندہ بالغ حق رائے دہی نہیں13سو ملکان کے ووٹوں سے منتخب ہوتا تھا۔سرکاری نوکریوں،سکول،ہسپتال اور کوٹہ سسٹم سے لوگوں کو بہت فوائد پہنچے۔ انگریز کے وقت سے حساب کتاب ہو تو پھر اس کی بھاری قیمت بنتی ہے ۔لیکن اسکے عوض جتنی خدمات انجام دی ہیں اس کا معاوضہ بھی کم نہیں بنتا ہے۔اگر قوم نے فیصلہ کیا کہ عالمی عدالت انصاف سے اپنے لئے الگ وطن کا مطالبہ کرنا ہے تو بہت مشکل میں پڑ جائیں گے اسلئے کہ ہم شمالی اور جنوبی وزیرستان کو ایک کرنے کی بات بہت دور کی ہے جنوبی وزیرستان کے محسود اوروزیرقبائل کو اکٹھا کرنا بھی بہت مشکل کام ہے۔
لیکن اگرحکومت وریاست کی پالیسیوں نے مجبور کیا اور قوم اٹھ کھڑی ہوئی توسنبھالنا بہت مشکل ہوگا۔وزیرستان کی پرامن فضائیں ریاستی پالیسیوں سے بدامنی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔فوج نے امریکہ کا ساتھ دیا اور امریکہ کے خلاف ایک طرف طالبان کو کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی۔اور دوسری طرف عوام آپریشن سے متأثر ہورہے تھے۔ جس کی وجہ سے فوج اورطالبان کو ایک صف میں پانے والے لوگ دونوں سے بدظن ہوگئے اسلئے کہ ایک طرف طالبان کے ہاتھوں وہ مررہے تھے اوردوسری طرف فوج کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کررہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ عوام میں اس بات نے قبولِ عام کا درجہ حاصل کرلیا تھا کہ” طالبان اور فوج صحابہ کرام اور انبیاء عظام ہیں بس کا فر تو عام عوام ہیں ان کو قتل کرو”۔
سابقMNAعلی وزیر نے قومی اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ ”ہمارا خاندان پاک فوج کیلئے قربان ہوچکا ہے”۔سابقMNAمحسن داوڑ نے کہا تھا کہ ”پروگرام یہ تھا کہ خیبرپختونخواہ میں تحریک طالبان پاکستان کی صوبائی حکومت قائم کی جائے اور پھر افغان حکومت کے خلاف یہاں سے پروکسی لڑی جائے لیکن پھر قطر میں مذاکرات کی وجہ سے معاملہ بدل گیا ”۔طالبان کی پاک فوج سے قربتیں کوئی مخفی بات نہیں تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کے قریب سیاسی جماعتوں کو بھی طالبان نے کبھی نشانہ نہیں بنایا۔ مسلم لیگ ن اورتحریک انصاف کے بعدPTMکو بھی طالبان نے نشانہ نہیں بنایاتواس کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے اسلئے کہ یہ عام بات تھی کہ فوج اپنے مخالفین کو طالبان کے ذریعے نشانہ بناتی ہے۔PTMنے طالبان کے مسنگ پرسن کیلئے بڑا کام کیا ہے اور ”یہ جو دشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے” کانعرہ لگانے والے خود بھی اچھے رابطہ کار کی طرح تھے۔
نوازشریف کوگوجرانوالہ کے جلسہ اور مریم نواز کو بلوچی کپڑے پہن کرفوج کے خلاف آواز اٹھانا پڑتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور سیاسی قیادت پا رلیمنٹ سے باہراور نوازشریف کوسن1997میں بھاری مینڈیٹ کیساتھ حکومت ملتی ہے تو جمعیت علماء اسلام انتخابی سیاست چھوڑکر انقلابی سیاست کا اعلان کرتی ہے اور جب مولانا فضل الرحمن کو ضرورت پڑتی ہے توفوج کو دھمکی دیتے ہیں کہ امریکہ جیسا حشر کردیں گے۔ پیپلزپارٹی سندھ کارڈاورMQMمہاجر کارڈاستعمال کرتی ہے لیکن کیا قبائلی علاقہ جات ، سوات اور بلوچستان کے آزاد علاقوں سے بغاوت کا علم بلند کرنے کا خوف نہیں ہوسکتا ہے؟۔جن پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا ہے؟۔ لیکن یہ لوگ بہت سنجیدہ اور سمجھدار ہیں۔ان کو پتہ ہے کہ پاکستان کے میدانی علاقے، حکومت پاکستان کی حکومت وریاست ہمارے لئے مفید ہے۔
جہاں تک افغانستان سے ملنے کا تعلق ہے تو افغانستان میں ابھی تک کوئی ایسی حکومت قائم نہیں ہوئی ہے کہ خود افغانی اس سے مطمئن ہوں۔افغانی بھی خود افغانی کے دشمن ہیں تو پاکستان کے افغان سے ملنے کی امید رکھنا ایک مشکل کام ہے۔اللہ کرے کہ پاکستان ،طالبان اور سارے افغان مل کر اس خطے کو جنت نظیراوراسلام کا قلعہ بنادیں۔اگر تعصبات اور نفرتوں کو ہوادی گئی تو کابل کو لاہور اور لاہور کو کابل فتح کرنا مشکل بھی ہوگا مگر ہمیں چکی کے دوپاٹوں میں پیسنے کا عمل جاری رہے گا۔ وزیرستان کے لوگ آزاد تھے اور سوات کی اپنی حکومت تھی اور آج وزیرستان سے سوات تک لوگ بدحالی کا شکار ہیں۔ سوات کے لوگوں کی خوشحالی اور روزگار چھن گیا اور وزیرستان کے لوگوں کی آزادی چھن گئی ہے۔
تصویر کا پہلا رُخ یہ ہے کہ حامد میر نے میرانشاہ معدنیات کا کہا کہ اس سے پورا پاکستان چل سکتاہے۔بلوچستان کے ذخائر سے پاکستان چل سکتا تھا لیکن ہمارا مقتدر طبقہ سیدھی نہیں ٹیڑھی انگلی سے گھی نکالنے کا عادی مجرم بن چکا ہے۔ ہندوستان و چین اور اپنے آپ کو ایران کے سستے تیل وگیس سے مالامال کرتا اور افغانستان پر قبضہ کرتا کہ احمدشاہ ابدالی کے ظلم اور محمود غزنوی کا سومنات لوٹنے کا بدلہ لینا ہے ،علامہ اقبال نے کہا کہ میں سومناتی ہوں اور افغانستان کی عوام کو بھی سکون مل جاتا کہ وہاں جمہوریت سے خواتین کو تعلیم کا موقع ملے گا۔ جب انگریز سے مجبوری میں افغانی معاہدے کرسکتے ہیں تو پنجاب اور پاکستان کے لوگ وہی مسلمان ہیں جنہوں نے40سال سے40لاکھ افغانیوں کو پناہ دی اور کبھی ان کی روس کے خلاف مدد کی اور کبھی امریکہ کی مدد کرکے بھی ان پر احسان کیا؟۔
تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ” اگر صرف امریکہ کا منصوبہ ہے اور چین کو گوادر سے بھگانے کے بعد افغانستان میں بھی راستہ بند کرنا ہے تو یہ تیسری مرتبہ کی غلطی ہوگی ۔ روس کے خلاف جہاد کے نام پہلی غلطی کرچکے ہیں، دوسری مرتبہ امریکہ کو اڈے دیکرافغان سفیر تک بھی حوالے کرچکے ہیں ۔ یہ Uٹرن نہیں بلکہ پہلے بھی امریکی راہ پر چل رہے تھے اور پھر دوسری مرتبہ امریکہ نے موٹر وے پر لگایا تھا۔ تیسری مرتبہ پھر امریکہ کے کہنے پر افغانستان میں چین کا پیچھا کیا تو بہت بڑی غلطی ہوگی۔ ہماری پاکستان اور خطے سے محبت ہے ۔اللہ مشکلات سے بچائے۔ لیکن پاکستان قرضوں میں خود کو بھوک سے مارے یا اس جنگ کی پاداش میں امریکہ کو وزیرستان وغیرہ کے معدنیات پر قبضہ کرنے کا موقع فراہم کردے؟۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز