پوسٹ تلاش کریں

شرعی احکام میں قرآن کی مثالی رہنمائی سے شعور وآگہی

شرعی احکام میں قرآن کی مثالی رہنمائی سے شعور وآگہی اخبار: نوشتہ دیوار

شرعی احکام میں قرآن کی مثالی رہنمائی سے شعور وآگہی

اللہ نے طلاق کے مقدمہ میں فرمایاکہ ” اللہ کو اپنے عہدوپیمان کیلئے ڈھال نہ بناؤ کہ تم نیکی کرواور تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں میں صلح کراؤ”۔البقرہ:224
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میاں بیوی صلح چاہتے ہوں اور اللہ کو مذہب کے نام پر ان کے درمیان ڈھال کی طرح کھڑا کیا جائے؟۔ طلاق صریح وکنایہ کا کوئی لفظ بھی اللہ کی طرف سے پکڑ کا ذریعہ نہیں۔ فرمایا:” اللہ تمہیں لغو عہدوپیمان سے نہیں پکڑتامگر جو تمہارے دلوں نے کمایا ہے اس پر پکڑتاہے”۔ البقرہ:آیت225
البتہ اگر عورت صلح نہ چاہتی ہو تو پھر طلاق کے صریح وکنایہ الفاظ نہیں حلف و ناراضگی اور ایلاء پر بھی پکڑسکتی ہے جس میں طلاق کا اظہار بھی نہ ہو۔ طلاق میں عورت کے حقوق زیادہ ہیں اور خلع میں کم۔ عورت چاہے تو خلع لے سکتی ہے مگر طلاق میں اسکے مالی حقوق زیادہ ہیں اسلئے عورت چاہے تومذاق میں طلاق کا لفظ پکڑلے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ تین چیزوں طلاق ، عتاق، رجوع میں سنجیدگی اور مذاق معتبر ہے۔ مگر مطلب یہ نہیں کہ میاں بیوی صلح چاہیں تب بھی اللہ رکاوٹ بن جائے اور یہ بھی نہیں ہے کہ بیوی رجوع نہ چاہتی ہو اور شوہر کو پھر بھی حق ہو۔
فرمایا: جو لوگ اپنی عورتوں سے ایلاء لاتعلقی اختیار کرتے ہیں تو ان کیلئے4ماہ ہیں۔پس اگر پھر وہ آپس میں مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے۔ البقرہ:226
جمہور کے نزدیک چار ماہ نہیں عمر بھر تک عورت کی جان نہیں چھوٹ سکتی ہے کیونکہ شوہر نے اپنا حق طلاق کا اظہار استعمال نہیں کیا ہے اور حنفی مسلک ہے کہ چارماہ تک شوہر کا بیوی کے پاس نہ جانا اپنے حق کا استعمال ہے اسلئے طلاق ہوگئی لیکن اگر دونوں طبقے سوچتے کہ یہ4ماہ عورت کی عدت ہے ،اسکی مرضی ہے کہ وہ عدت کے اندر رجوع چاہتی ہے یا نہیں؟ تو اختلاف کی بنیاد ہی ختم ہوجاتی۔
جب رسول اللہۖ نے ایلاء کے ایک ماہ بعد رجوع کیا تو اللہ نے فرمایا: ”ان کو اختیار دیدو، اگر وہ علیحدہ ہونا چاہتی ہیں تو ان کی مرضی ہے”۔ طلاق تو دور کی بات ہے ناراضگی میں بھی عورت کو اختیار مل جاتاہے۔ البتہ طلاق میں اس کی عدت تین ماہ اور ایلاء میں چار ماہ ہے اسلئے اگر طلاق کا عزم ہواور اس کااظہار نہ کیا جائے تو یہ دل کا گناہ ہے جس پر اسلئے پکڑہوگی کہ ایک ماہ عدت کو بڑھایا۔
فرمایا:” اگر ان کا عزم طلاق کا تھا تو اللہ سننے جاننے والا ہے” البقرہ:227یعنی اللہ اس عزم کو بھی سنتا اور جانتا ہے جو دل کا گناہ ہے جس پر پکڑتا ہے۔
اگر ان آیات کے درست ترجمہ وتفسیر اور احکام پر عمل ہوجائے توعورت کی بڑی مشکلات آسان ہوجائیں گی۔اور فقہ واصول فقہ میں مسائل پر اختلافات کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ شیعہ بھی فقہ جعفریہ سے جان چھڑاکر قرآن سے رہنمائی حاصل کریںگے۔ چاروں فقہاء کے اختلاف کو رحمت قرار دیا جائے گا کہ ان کی وجہ سے امت نے اعتدال کا راستہ اپنایا اور قرآن وسنت کی طرف رجوع کیا۔ عورت کو ناراضگی وطلاق میں صلح کرنے اورنہ کرنے کااختیار مل جائے گا۔چار ماہ یا تین ماہ کی عدت میں ان کو تمام حقوق بھی مل جائیں گے۔ خلع میں عورت کی عدت ایک ماہ یا ایک حیض ہے۔ قرآن نے خلع میں بھی عورت کو مالی تحفظ دیا ہے لیکن طلاق کے مقابلے میںکم مالی حقوق ہیں۔ اگر ترقی یافتہ دنیا کے سامنے قرآن کے دئیے ہوئے عورت کے حقوق کا درست نقشہ پیش کردیا تو پورا یورپ اور مغرب اپنا آئین معطل کرکے اسلامی معاشرتی حقوق رائج کردیں گے۔
اگر دانشوروں اور پڑھے لکھے طبقے نہیں بلکہ علماء و مشائخ کے سامنے بھی وہ فقہ اور اصول فقہ کے احکام پیش کردئیے جن میں قرآن و حدیث اور انسانی فطرت کو بہت بری طرح سے سبوتاژ کیا گیا ہے تو سب سے پہلے علماء ومفتیان ہی اس کے خلاف عَلم بغاوت بلند کردیںگے کیونکہ ان کی فطرت ایسی مسخ شدہ بھی نہیں کہ اس کو قبول کرنے پر بالکل مجبور ہوں۔ چند مفاد پرستوں کو چھوڑیں جنہوں نے دنیا کو قبلہ بنالیا اور اسی طرح کچھ ناسمجھ گدھے بھی ہوسکتے ہیں۔
فرمایا:” طلاق شدہ عورتیںخود کو3ادوار تک انتظار میں رکھیں اور ان کیلئے حلال نہیں ہے کہ جو کچھ بھی اللہ نے کے رحموں میں پیدا کیا ہے کہ اس کو چھپائیں اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں، اس میںانکے شوہر ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں بشرط یہ وہ اصلاح چاہتے ہوںاورعورتوں کیلئے وہ حقوق ہیں جو مردوں کے ان پر ہیں اور مردوں کا ان پر ایک درجہ ہے”۔ البقرہ:228
زمانہ جاہلیت میں ایک ساتھ تین طلاق پر حلالہ ہوتا تھا تو اللہ نے طلاق کے بعد پوری عدت میں باہمی اصلاح کی بنیاد پر حلالہ کی لعنت کا قلع قمع کردیا۔ دوسری طرف عورت کی رضامندی کے بغیر طلاق رجعی کا قلع قمع کردیا۔عورت راضی نہ ہوتو ایلاء میں بھی رجوع نہیں ہوسکتا، پھر طلاق کے بعد کیسے ہوسکتا ہے؟
اللہ نے سورہ النساء آیت19میں عورت کو خلع اور آیات20،21میں مرد کو طلاق کا اختیار دیا اور دونوں صورتوں میں عورت کو مالی تحفظ دیا ہے تو پھر عورت سے خلع کا حق چھین لینے اور شوہر کو طلاق رجعی کا یکطرفہ اختیار دینے کے کتنے بھیانک نتائج ہیں؟۔ شوہر اپنی بیوی کو تین طلاق دے، پھر مکر جائے اور اگر عورت کے پاس گواہ نہیں اور شوہرقسم اٹھالیتا ہے تو عورت خلع لے اور اگر شوہر خلع نہ دے تو عورت حرامکاری پر مجبور ہے۔( حیلہ ناجزہ:مولانا اشرف علی تھانوی)
مفتی تقی عثمانی نے اپنی بیگم سے کہا کہ طلاق، طلاق، طلاق۔ اگر نیت ایک طلاق کی تھی اور رجوع کرلیاتووہ بدستور اسکے نکاح میں ہے لیکن بیگم صاحبہ پھر بھی سمجھے کہ اس کو تین طلاقیں ہوچکی ہیں۔ (بہشتی زیور۔ مولانا اشرف علی تھانوی)
پھر تو عورت حلالے سے بھی حلال نہیں ہوگی؟۔ آج کل بھی دیوبندی اور بریلوی مدارس میں اس پر فتوے چل رہے ہیں۔ اسلام کو اللہ اور اسکے رسول ۖ نے ان مذہبی طبقات کو ٹھیکے پر نہیں دیا ہے، اگر دین کی حفاظت نہیں کرسکتے تو علی وابوطالب اور نبی ۖ کی اولاد اٹھے اور اپنے ناناۖ کے دین کی حفاظت کرنا شروع کردے۔ اب تو آرمی چیف عاصم منیر بھی ایک حافظ سیدزادہ آیا ہے۔
فرمایا:طلاق دومرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے۔ اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں کچھ بھی واپس لو مگر جب دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے ۔ اور اگر تمہیں خوف ہو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیںگے تو دونوں پر کوئی حرج نہیں وہی دی ہوئی چیزعورت کی طرف سے دینے میں۔ یہ اللہ کی حدود ہیں پس ان سے تجاوز مت کرو۔ جو تجاوزکرے تووہی ظالم ہیں۔البقرہ:آیت229
طلاق کے تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق ہے۔ اگر رجوع کرنا ہو تو معروف طریقے سے یعنی صلح واصلاح کی شرط پر رجوع کرسکتے ہیں۔ اگر عدت کے تینوں مراحل میں تین مرتبہ طلاق کا فیصلہ کیا تو پھر تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ واپس لو۔ مگر جب دونوں اور فیصلہ کرنے والے یہ خوف رکھیں کہ اگر مخصوص دی ہوئی چیز واپس نہیں کی تو رابطہ کا ذریعے بنے گا اور دونوں اپنے رازدارانہ تعلقات کی بناء پر اللہ کی حدود توڑ دیںگے تو پھر اس چیز کو واپس کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ خلع نہیں بلکہ صلح نہ کرنے کی وضاحت ہے۔ جب یہ واضح ہوگیا کہ کسی صورت صلح نہیں کرنی ہے تو اللہ نے فرمایا: پس اگر پھر اس نے طلاق دے دی تو اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔ آیت230َ۔ اگر صلح کرنی ہے تو پھر عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع ہوسکتا ہے ۔آیات231،232۔ سورہ طلاق میں بھی یہی ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز