پوسٹ تلاش کریں

شہریوں کے انسانی حقوق کیلئے تین اسلامی اقدامات اٹھانے کی سخت ضرورت

شہریوں کے انسانی حقوق کیلئے تین اسلامی اقدامات اٹھانے کی سخت ضرورت اخبار: نوشتہ دیوار

شہریوں کے انسانی حقوق کیلئے تین اسلامی اقدامات اٹھانے کی سخت ضرورت

1:جان اور اعضاء انسانی کی برابری: قرآن میں جان کے بدلے جان ، ناک اور کان کے بدلے ناک اور کان ۔ہاتھ ، پیر، دانت کے بدلے ہاتھ ، پیر اور دانت اور زخموں کا بدلہ ہے۔ (سورہ مائدہ کی آیت) جو حکمرانوں کے لئے ہے اور جس پر عمل نہیں کیا جائے تو ان لوگوں کو اللہ نے ظالم قرار دے دیا ہے۔
کیا ہمارے پاکستان کا آئین قرآن وسنت کے مطابق بنایا گیا ہے۔ جب طاقتور لوگ کمزوروں کے دانت توڑتے ہیں، آنکھ پھوڑتے ہیں اور ناک کاٹتے ہیں تو بدلے میں دانت توڑے ، آنکھ پھوڑی اور ناک کاٹے جاتے ہیں؟۔
ریاستی اداروں، جاگیرداروں، سیاستدانوں اور تمام طاقتور افراد کو کمزوروں سے روا رکھے جانے والے مظالم کے بدلے میں برابری کی سطح کا شہری قرار دیا جائے تو اس اسلام کو اسرائیل کے کٹر یہودی بھی مان جائیں گے اسلئے کہ قرآن کی یہ آیت تورات کے حوالے سے موجود ہے۔ اسلام اور مذہب کا یہ کمال ہے کہ فرعونیت کو نہیں مانتا بلکہ انسانیت کو برابری کی سطح پر لاتا ہے۔ جس دن قرآن کے اس قانون پر عمل شروع ہوگیا تو ظالم ، طاقتور اور جاہل طبقے کی آنکھیں کھل جائیں گی اور اسلامی معاشرہ جان ، مال اور عزت کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔
2:قرآن میں زنا کی سزا100کوڑے اور بہتان کی80کوڑے ہے۔ بہتان بنیادی طور پر عورتوں پر لگایا جاتا ہے۔ بدکار عورت پر بہتان سے کیا فرق پڑتا ہے مگر اپنی عصمت کی حفاظت والیوں پر بہتان کا بہت برااثر پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں اسٹیٹس کو کے توڑنے کا صرف دعویٰ ہوتا ہے۔ جب اماں عائشہ پر بہتان لگایا گیا تو بہتان لگانے والے دو مردحضرت مسطح، حضرت حسان اور ایک خاتون حضرت حمنا پر80،80کوڑے کی حد جاری کی گئی۔ اگر ایک معمولی درجہ کی خاتون پر بھی بہتان لگایا جاتا تو اس پر بھی یہی سزا تھی۔ مسلمانوں کی ماں، نبی کریم ۖ کی زوجہ مطہرہ اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر کی صاحبزادی پر بہتان لگے تو اس کی بھی80کوڑے سزا اور ایک جھاڑو کش عورت پر بہتان لگے اس کی بھی یہی سزا ہو تو اس سے زیادہ مساوات کا تصور ہوسکتا ہے؟۔ ہمارے کسی کرپٹ اور احمق سیاستدان کی بیوی اور بیٹی پر بہتان نہیں معمولی درجے کی ہتک عزت کی سزا بھی اربوں روپے ہے اور غریب کی ہتک عزت کی اتنی سزا بھی نہیں ہے کہ وکیل کی فیس ادا کرسکے۔ امیر کیلئے10کروڑ بھی بڑی سزا نہیں اور غریب کیلئے10لاکھ بھی بڑی سزا ہے جبکہ80کوڑے امیرو غریب کیلئے یکساں سزا ہے۔
3:قانون کا بنیادی مقصد کمزور کو تحفظ دینا ہے اور طاقتور لوگ سزاؤں سے بچنے اور کمزور کو اپنا غلام بنانے کیلئے قوانین بناتے ہیں۔ ہمارے عدالتی نظام کی بنیادی خصو صیات یہی ہیں کہ کمزور کے مقابلے میں طاقتور کو تحفظ دیتے ہیں، جبکہ اسلام میں کمزور کو تحفظ دیا گیا ہے۔ عورت مرد کے مقابلے میں صنف نازک ہے اور عورت کے حقوق بھی مردوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں لیکن افسوس ہے کہ درباری ملاؤں نے قرآن وسنت اور اسلام کا ستیاناس کرکے عورت کے سب حقوق کو غصب کیا ہوا ہے بلکہ عجیب وغریب مظالم کا شکار بنایا ہوا ہے۔ طلاق میں قصور شوہر کا ہوتا ہے اور سزا عورت کو دی جاتی ہے اور بچہ عورت جن لیتی ہے لیکن ماں کو بچے سے محروم کردیا جاتا ہے۔ عورت کے مستقبل کو قرآن نے محفوظ کیا ہے مگر علماء ومفتیان نے انکے سب حقوق چھین لئے ہیں۔

___آزادی رائے کیلئے 3بنیادی اقدامات ___
1:مذہبی آزادی رائے: اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ لااکراہ فی الدین ” دین میں کوئی جبر وزبردستی نہیں ہے”۔ مسلمانوں کے ایک شیعہ فرقہ کے امام ضیاء اللہ بہائی نے اپنے ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھ دی۔ روزہ ، نماز، تقریبات اور مختلف امور میں نئے مذہبی احکام کا اجراء ان کی اپنی مرضی ہے۔ اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ سکھ کے گرو نانک نے اپنا نیا مذہب تشکیل دیا جو نہ ہندو اور نہ مسلمان تھا۔ مسلمانوں اور ہندؤوں دونوں کیساتھ اپنا اختلاط بھی رکھا ہے اور دونوں سے اپنا مذہب بھی جدا رکھا ہے۔ جب مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تو مسلمانوں کی طرف سے قتل اور دہشت گردی کا کوئی رویہ بھی اختیار نہیں کیا گیا تھا۔ البتہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اس کی نبوت کو نہ ماننے والوں کو رنڈیوں کی اولاد قرار دے دیا۔ مولانا احمد رضاخان بریلوی نے تو وہابی، دیوبندی، اہلحدیث، شیعہ اور قادیانیوں کو ایک صف میں کھڑا کیا تھا۔
قادیانیوںکو1974میںذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قومی اسمبلی نے کافر قرار دے دیا۔ شیعوں کو بھی پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے بڑے مدارس کے علماء ومفتیان نے کافر قرار دے دیا تھا۔لیکن پھر ملی یکجہتی کونسل ، متحدہ مجلس عمل اور اتحاد تنظیم المدارس میں اہل تشیع کو بھی شامل کیا گیا۔ جب مذہبی آزادی ہوتی ہے تو مذہبی طبقہ بعض اوقات اپنے کی ہوئی الٹیوں کو چاٹ لیتا ہے۔
قادیانیوں سے مسلمانوں کا جھگڑا یہ ہے کہ وہ اسلام کا نام استعمال کرنے کی جگہ اپنے لئے نیا نام تراش لیں۔ قادیانی کہتے ہیں کہ دوسرے مسلمان فرقوں کی طرح ان کو بھی ایک فرقہ تسلیم کیا جائے۔ سپریم کورٹ کا مشہور فیض آباد کیس بھی ایک طرف یہ ہے کہISIکےDGCفیض حمید اس سیاسی عمل کا حصہ کیوں بنے؟۔دوسری طرف چیف جسٹس فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس بلوچستان لگانے والا سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی سے امریکہ تک ایک سازش کے تحت قادیانیوں کے حق میں بل کی منظوری دی جارہی تھی جس کیخلاف بلوچستان کے سینیٹر حافظ حمداللہ واحد شخصیت تھے جس نے اپنا کردار ادا کیا تھا۔
شیخ رشید جمعیت علماء اسلام کو سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے نام سے پکاررہا تھا اور مولانا عبدالغفور حیدری نے انکشاف کیا کہ قومی اسمبلی سے بل پاس ہوگیا تھا اور سینیٹ میں اگر پاس ہوجاتا تو مجھے قائم مقام چیئرمین سینیٹ کی حیثیت سے دستخط کرنے پڑتے لیکن شکر ہے کہ سینیٹ میں اکثریت سے پاس نہ ہوسکا۔
صحافی ابصارعالم نے بتایا کہ جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی چیف رضوان اختر کی وجہ سے جنرل قمر جاوید باجوہ اسلئے مشکلات میں تھا کہ اس کا سسر قادیانی تھا،نوازشریف سے میں نے ہی سفارش کی تھی کہ اس کمزور پر ہاتھ رکھا جائے تو ہمارے کام آسکتا ہے۔ شاید جنرل قمر جاوید باجوہ کو خوش کرنے کیلئے ہی قادیانیوں کے حق میں ن لیگ نے بل پیش کیا تھا۔فیض آباد دھرنے کیلئے مسلم لیگ ن نے جنرل فیض حمید کو خود مذاکرات کیلئے بھیجا تھا اسلئے کہ علامہ خادم حسین رضوی کی جماعت تحریک لبیک فوج پر اعتماد کررہی تھی سیاسی حکومت پر نہیں۔
اگر سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری ، حافظ حمداللہ، مولانا عبدالغور حیدری اور تحریک لبیک کے باخبر ذمہ دار ، شیخ رشیداورصحافی ابصارعالم کو حقائق کیلئے طلب کرے توالیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کو بہت سارے حقائق کا پتہ چلے گا۔ آزادی رائے کیلئے مذہب کا غلط استعمال معاشرے کیلئے زہر قاتل ہے۔
ریاست مدینہ میں رسول ۖ نے ابن صائد سے پوچھا کہ میرے بارے میں آپ کیا کہتے ہو؟۔ ابن صائد نے کہا کہ آپ امیوں کے رسول ہو۔ اور پھر کہا کہ میں تمام عالمین کا رسول ہوں۔نبی ۖ سے مطالبہ کیا کہ مجھے بھی آپ رسول تسلیم کریں۔ نبی کریم ۖ کے اخلاقِ کریمہ کا یہ معیار تھا کہ اس کو منہ پر جھوٹا کہنے کے بجائے فرمایا کہ” جو اللہ کے رسول ہیں وہی اللہ کے رسول ہیں”۔
حضرت عمر نے پیشکش کی کہ یہ دجال ہے اس کو قتل کردیتا ہوں۔ نبیۖ نے فرمایا کہ اگر یہ وہی دجال ہے تو اس کا قتل عیسیٰ ابن مریم کی تقدیر میں لکھا ہے اور اگر وہ نہیں تو اس کے قتل میں کوئی خیر نہیں ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا تھا کہ تیس دجال آئیں گے جو نبوت کا دعویٰ کریں گے۔ ان میں سے ایک دجال مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا لیکن دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث ، شیعہ اور دیگر لوگوں کے بڑوں نے اس کو قتل نہیں کیا۔ حضرت علی نے فتح مکہ کے بعد حضرت ام ہانی کے شوہر مشرک بہنوئی کو قتل کرنا چاہا تھا لیکن نبیۖ نے روک دیا تھا۔ علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے کہا کہ رسول اللہ ۖ کا جنازہ صرف گیارہ صحابہ نے پڑھا۔ اہلسنت کے عالم دین نے شیعہ کی معتبر کتابوں سے حوالہ جات پیش کئے کہ سارے مہاجرین وانصار نے جنازہ درود کی صورت میں پڑھاتھا۔
معاویہ بن قرة نے عائد بن عمرو سے روایت کیا ہے کہ ابوسفیان چند اور لوگوں کی موجود گی میں حضرت سلمان فارسی، حضرت صہیب رومیاور حضرت بلال حبشی کے پاس سے گزرے تو انہوں فقالوا : واللہ ما اخذت سیوف اللہ من عنق عدواللہ ” اللہ کی قسم ! اللہ کی تلواریں اللہ کے دشمن کی گردن میں اپنی جگہ تک نہیں پہنچیں”۔ کہا: اس پر حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ ”تم لوگ قریش کے شیخ اور سردار کے متعلق یہ کہتے ہو؟’۔ پھر حضرت ابوبکر نبی ۖ کے پاس حاضر ہوئے اور آپ ۖ کو یہ بتایا تو آپ ۖ نے فرمایا کہ ابوبکر! شاید آپ نے ان کو ناراض کردیا ہے۔ اگر تم نے ان کو ناراض کردیا ہے تو اپنے اللہ کو ناراض کردیا ہے۔ حضرت ابوبکر ان کے پاس آئے اور کہا کہ میرے بھائیو! کیا میں نے تم کو ناراض کردیا!۔ انہوں نے کہا کہ نہیں بھائی اللہ آپ کی مغفرت فرمائے۔ (صحیح مسلم حدیث6412کتاب صحابہ کے فضائل ومناقب)
پاکستان میں جو حضرت ابوبکر صدیق کے حوالہ سے تبلیغ کرتے ہیں ان میں حضرت ابوبکر کی طرح جذبہ ہے اور جو رسول اللہ ۖ کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں تو وہ رسول اللہ ۖ کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔ عراق وشام میں ایک یزیدی فرقہ ہے جو اسلام، ہندومت ، عیسائیت ، یہودیت اور سابقہ مذاہب کا مکسچر ہے اور ان کے ساتھ داعش نے مظالم کئے تو بھی غلط ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے کافرستان پرTTPنے حملہ کیا جن کو افغان طالبان نے گرفتار کیا ہے۔ اگر یہودی عیسائیوں کو اسلئے قتل کریں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد دوسرا نبی نہیں اور عیسائی مسلمانوں کو اسلئے قتل کریں کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد دوسرا نبی نہیں اور مسلمان ختم نبوت کے منکر کو قتل کریں تو یہ اسلامی تعلیمات نہیں ہیں۔ مسلیمہ کذاب کی بیوی نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور اس نے مدینہ پر چڑھائی بھی کی تھی لیکن حضرت ابوبکر نے نبوت کی دعویدار اس عورت کو لشکر سمیت پکڑلیا تھا اور اس شرط پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ دوبارہ مدینہ پر چڑھائی نہیں کرے گی ۔ پھر اس نے مسلیمہ کذاب سے شادی کی ، جس کا قبیلہ بہت مضبوط تھا۔ جس سے اسلامی ریاست کو خطرات لاحق ہوئے تھے اسلئے اس فتنہ کو ختم کرنا پڑا تھا۔ جب چترال کے کافرستان سے کوئی خطرہ نہیں اور ان مسلمان طالبان سے افغانستان اور پاکستان دونوں کو خطرہ ہے تو افغانستان اور پاکستان دونوں مل کر اس خطے کو خطرات سے پاک کرسکتے ہیں۔ دہشت گردی سے اسلام نہیں پھیل سکتا ہے اور اگر یہ لوگ نظام کی تبلیغ کیلئے کام کریں تو پوری دنیا کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔
2: سیاسی آزادی رائے: پاکستان کے پہلے منتخب قائد عوام ذوالفقارعلی بھٹو نے تمام اپوزیشن قیادت پر بغاوت کا مقدمہ کرکے حید ر آباد جیل میں ڈالا تھا اور پختونخواہ کے وزیراعلیٰ خان عبدالقیوم خان نے عوامی نیشنل پارٹی کے سینکڑوں کارکنوں کو احتجاج پر شہید کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے بڑی پابندیاں لگائی تھیں اور نوازشریف اس کو خراج عقیدت پیش کرتا تھا۔MRDنے جمہوریت کیلئے بڑی قربانیاں دیں۔MQMنے بھی صحافیوں کو دھمکاکے رکھا۔ زبردستی سے گھنٹوں تقریر دکھانے پر مجبور ہوتے تھے۔ عمران خان کو بھی میڈیا نے بہت کوریج دی تھی ۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نےTVچینلوں پر پتھراؤ اور خاتون صحافی ثناء مرزا کو غلیل سے کنچے مارکر رلایا تھا۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے اپنے دورِ اقتدار میں جیلوں کے اندر سہولیات بند کرنے کی دھمکیاں دی تھیں اور شہریار آفریدی نے رانا ثناء اللہ کو رنگے ہاتھوں ہیرون سمگلنگ پر پکڑنے کی قسم کھائی تھی لیکن بعد میں کہا کہ دوسروں کے کہنے پر یہ سب کچھ کیا تھا۔
حمزہ شہباز کے دورِ حکومت میں پنجاب پولیس نے جس طرح جسٹس ناصرہ جاوید اقبال کے گھر اور دوسرے گھروں کی بے عزتی کی تھی وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ مریم نواز کیلئے جس طرح سندھ پولیس نے پاک فوج کے خلاف احتجاج کیا تھا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔PDMکی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف جو کچھ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔9مئی کا واقعہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ جس میں جناح ہاؤس لاہور کو جلاڈالا گیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں جج نے وارنٹ کے بغیرتھانیدار کو سزا دی ہے۔ طالبان کے ولایت ڈیرہ اسماعیل خان ایریا ٹانک کے کمانڈر عمر اور کمانڈر اسرار نے حافظ گلبہادر گروپ کو چھوڑ دیا ہے۔ نوازشریف نے جنرل قمر باجوہ، فیض حمید، جسٹس ثاقب نثار ، جسٹس کھوسہ اور مستقبل کے چیف جسٹس کو اپنے انجام تک پہنچانے کا بیان دیا تو نگران حکومت اور ن لیگ کا گٹھ جوڑ ختم ہوگیا۔ راجہ ریاض جس طرح کا اپوزیشن لیڈر تھا اس سے جمہوری نظام کو شرم تو آتی ہوگی مگر کچھ صحافی مسلسل لگے ہوئے تھے کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔
نوازشریف کو ایون فیلڈ لندن فلیٹ سمیت جرائم پر14سال قید اور کتنے کروڑروپے سزا ہوچکی تھی لیکن پھر قومی اسمبلی میں جو جھوٹا بیانہ پیش کیا اور قطری خط لکھا تو اس کے دفاع میں سیاسی صحافت کا خاتمہ ہوگیا۔ سیاسی آزادی سوشل میڈیا کے ذریعے سب کو حاصل ہے۔ لیکن اس کا درست استعمال کرنا چاہیے۔
2:معاشرتی آزادی۔ وزیرستان آزادی رائے کیلئے بڑا زبردست میدان تھا لیکن طالبان نے ختم کرکے رکھ دیا ۔ وزیرستان کے لوگ آزادمنش ہیں مگر ان کو یہ پتہ نہیں کہ ملاپیوندہ کو ایک طرف انگریز کی طرف سے100روپیہ ماہانہ ملتا تھا اور دوسری طرف اس کی جدوجہد انگریز کی مراعات کی بحالی کیلئے ہوتی تھی۔ محسود علاقہ میں انگریز کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے لیکن اس میں محسود قوم کا ذاتی کردار تھا۔ ملاپیوندہ اور اس کا بیٹا قابل احترام تھے لیکن سرکاری ملکوں سے ان کی مختلف حیثیت نہیں تھی۔ وہ محسود خود کو بہادر کہتے تھے جو انگریز اور افغانستان دونوں کے وظائف کھاتے تھے۔محسود قوم کسی اچھی قیادت سے محروم رہی ہے۔ منظورپشتین سے پہلے گوخان بدمعاش اور اس کا بھائی رضا گو خان زیادہ مقبول تھے۔ بیت اللہ محسود اور عبداللہ محسود کے گروپ الگ تھے۔ قاری حسین و حکیم اللہ محسودہی بیت اللہ محسود کی قیادت کی کامیابی اور ناکامی کا سبب بن گئے تھے۔

___انقلابی نظام کی تبدیلی کے اثرات___
افغانستان میں طالبان نے چین کے ساتھ معاہدے کرکے معاشی تبدیلی کا آغاز کیا ہے۔ لیبیا بہت خوشحال ملک تھا اور عراق بھی بہت خوشحال تھا لیکن عوام کو پھر بھی اپنی قیادت پر اعتماد نہیں تھا اسلئے کہ ڈکٹیٹر شپ موجودہ دور میں مشکل سے چل سکتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان پوری دنیا کی امامت کرسکتے ہیں لیکن اس کیلئے مذہبی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں کی سخت ضرورت ہے۔
پاکستان کا آئین بھی قرآن وسنت کا پابند ہے اور افغان طالبان بھی قرآن وسنت کے پابند ہیں۔ ان دونوں کی اکثریت سنی العقیدہ اور حنفی مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔شیعہ سنی بھی ایک ہوسکتے ہیں لیکن ان میں اعتماد کا فقدان ہے۔ جب پاکستان اور افغانستان کے اندر کچھ بنیادی اقدامات اٹھائے جائیں گے تو لوگ اسلام کا مزہ بھی چکھ لیں گے اور اقتدار کو بھی غصب نہیں امانت سمجھ لیں گے۔
ایک عورت کا جب اس کے شوہر سے نکاح ہوتا ہے تو اسلام نے عورت کو مکمل حقوق دئیے ہیں۔ طالبان نے افغانستان میں معاشی اور سیاسی استحکام لایا ہے لیکن معاشرتی استحکام کے حوالے سے ان پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ عورت کے حقوق کا مسئلہ دنیا بھر میں تشویش کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اسلام کا بڑا مرکز مکہ مکرمہ ہے جہاں لوگ حرم پاک میں اپنی فیملی کیساتھ24گھنٹہ دن رات عبادات پنج وقتہ نماز، طواف اور صفا ومروہ کی سعی میں مشغول رہتے ہیں۔ لیکن یہ مسائل کا حل نہیں ہے۔ یہ چیزیں تو دورِ جاہلیت میں بھی جاری رہتی تھیں۔
پہلا مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح شوہر کو طلاق کا حق حاصل ہے کیا عورت کو بھی خلع کا حق حاصل ہے یا نہیں؟۔ سورۂ بقرہ آیت229میں خلع کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ سورہ النساء آیت19میں خلع کا ذکر ہے۔ حدیث میں خلع کی عدت ایک ماہ یا ایک حیض ہے جس پر سعودی عرب میں عمل بھی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں عدالت سے مدتوں بعد خلع ملتا ہے تو مفتی طارق مسعود اور قاری حنیف جالندھری اس کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں کہ اس سے عورت کا نکاح برقرار رہتا ہے اور دوسرے شوہر سے اس کا نکاح نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ زنا کرتی ہے۔ خلع کا حق نہ ہونے کی وجہ سے جن مسائل کا سامنا عورت کو کرنا پڑتا ہے اس کا تصور بھی عام لوگ نہیں کرسکتے ہیں۔ مثلاً مفتی تقی عثمانی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اور پھر مکر گیا۔ بیوی کے پاس گواہ نہ ہوں اور مفتی تقی عثمانی جھوٹی قسم کھالے تو وہ خلع لے گی اور خلع نہ ملے تو حرام کاری پر مجبور ہوگی۔ یا پھر مفتی تقی عثمانی نے اپنی بیوی سے کہا کہ طلاق طلاق طلاق اور مفتی سے فتویٰ لیا کہ میری نیت ایک طلاق کی تھی تو اس کو فتویٰ مل جائے گا کہ بیوی تمہارے نکاح میں ہے اور اس کی بیوی کو فتویٰ ملے گا کہ وہ تین طلاق ہوچکی ہے اور اس پر حرام ہے۔ حیلہ ناجزہ اور بہشتی زیور میں بھی مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی یہ مسائل لکھ دئیے ہیں۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ طلاق میں عورت کے حقوق زیادہ اور خلع میں کم ہیں۔ جب یہ بات ذہن نشین کرلی جائے تو مسائل کے انبار سے نکل جائیں گے ۔ پھر دنیا میں خواتین اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے اُٹھیں گی اور مرد ساتھ ہوں گے۔
پاکستان ، افغانستان اور ہندوستان کے علماء ومفتیان کو طلب کرلیں اور مجھے دعوت دیں۔ انشاء اللہ لوگوں کے ذہن کھل جائیں گے اور اسلامی انقلاب کے حقیقی ثمرات بھی دنیا دیکھے گی۔ جب محکوم عورت اور حاکم مرد کے معاملات گھر میں حل ہوں گے تو عالمی سطح پر بھی اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ برپا ہوگا۔ قرآن کی طرف رجوع بڑے زبردست انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا ۔ عتیق گیلانی

***************************************************
نوٹ: اس آرٹیکل کو مکمل پڑھنے کیلئے اس سے پہلے ”معاشی مسائل کے حل کیلئے 3بنیادی اقدامات جن سے بڑا انقلاب آسکتا ہے!” کے عنوان کے تحت آرٹیکل ضرور پڑھیں۔
***************************************************

اخبار نوشتہ دیوار کراچی
شمارہ اکتوبر 2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز