شیخ الہند کے جانشین مولانا الیاس وحاجی عثماناور مولانا سندھی اورہم ہیں!
مئی 31, 2023
شیخ الہند کے جانشین مولانا الیاس وحاجی عثماناور مولانا سندھی اورہم ہیں!
اکابر دیوبندکے مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی تھے ۔ مولانا قاسم نانوتوی و مولانا گنگوہی مولانا محمود حسن کے اساتذہ تھے۔ دیوبند کیلئے شیخ الہند محمود الحسن کو سمجھنا ہوگا۔ مشاہیر دیوبند شیخ الہند کے شاگرد تھے۔تصوف کے مولانا اشرف علی تھانوی او دعوت وتبلیغ کے مولانا الیاس کاندھلوی قائد تھے۔ قومی سیاسی قائد صدر جمعیت علماء ہند شیخ العرب والعجم مولانا حسین احمد مدنی تھے ۔درس کے استاذ اعلیٰ علامہ انورشاہ کشمیر ی تھے۔ انقلابی قائد مولانا عبیداللہ سندھی تھے۔ مذہبی سیاسی قائد شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی تھے۔ مفتی اعظم ہند مولانا مفتی کفایت اللہ سمیت سب مشاہیر شیخ الہند کے شاگرد تھے۔ مولانا رسول خان ہزاروی بھی شیخ الہند کے شاگرد تھے۔ جن کے شاگرد مولانا مفتی محمد حسام اللہ شریفی حیات ہیں ۔
مولانا رسول خان کے شاگردوں میں مفتی شفیع ، قاری طیب ، مولانا یوسف بنوری ، مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک، علامہ سید محمد میاں جامعہ مدنیہ لاہور اورمولانا محمدادریس کاندھلوی ہیں۔ مفتی شریفی ومفتی شفیع نے قاری طیب سے پڑھا۔ شیخ الہند کے شاگرداور شاگردوں کے شاگردمشہور تھے۔ کانیگرم ہماری مسجد کے امام مولانا اشرف ، سکول ٹیچرناظم استاذاور پیرمبارک شاہ شامل تھے۔مفتی حسام اللہ شریفی جنگ ہفت روزہ اخبار جہاں کراچی میں قرآن وسنت کی روشنی میں مسائل کا حل لکھتے ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت و سپریم کورٹ کے شرعی اپیلیٹ بینچ کے مشیر ہیں اور رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ تحقیقات قرآن وسنت کے رکن ہیں۔
دارالعلوم دیوبند کاایک شعبہ خانقاہی نظام ہے ۔ جسکے سرخیل حاجی امداداللہ مہاجر مکی اور مولانا اشرف علی تھانوی تھے۔ دوسرامدارس ہے جسکے سرخیل مولانا انورشاہ کشمیری تھے۔ تیسرا سیاست ہے جسکے سرخیل مولانا حسین احمد مدنی تھے۔ چوتھا انقلاب ہے جسکے سرخیل مولانا عبیداللہ سندھی تھے اور پانچواں تبلیغ ہے جسکے سرخیل مولانا محمد الیاس تھے۔سوال یہ تھا کہ کون کون شیخ الہند کے جانشین تھے؟۔ شیخ الہند1920عیسوی میں مالٹا سے رہا ہوئے تو مدارس کا نصاب ، فرقہ واریت ، قرآن سے دوری کا احساس تھا۔ امت کے زوال کے دواسباب بیان فرمائے۔ ایک قرآن سے دوری اور دوسرا فرقہ واریت ۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع ۔
رجل رشید مولانا عبیداللہ سندھی نے قرآن کی طرف علماء کو متوجہ کیا تو ان کو دارالعلوم دیوبند سے نکال دیا گیا۔ مولانا محمدالیاسنے اُمت مسلمہ کے اتحاد کیلئے مسائل وعقائد کو چھوڑ کر فضائل کی تحریک ”تبلیغی جماعت” شروع کردی۔ سیاست پر مولانا حسین احمد مدنی کو اقبال نے ابولہب کہہ دیا تو علامہ شبیراحمد عثمانی نے جمعیت علماء اسلام کے نام پر مسلم لیگ کی حمایت کی۔ جبکہ جمعیت علماء ہند کانگریس کی حامی تھی۔ شیخ الہند نے مولانا ابوالکلام آزاد کو امام الہند کا لقب دیا۔ مولانا عبیداللہ سندھیسیاسی میدان میں جمعیت علماء ہند اور جمعیت علماء اسلام کے الگ الگ تشخص کے قائل نہ تھے۔ جمعیت علماء اسلام کا علامہ شبیر احمد عثمانی نے یہ نقصان اٹھایا کہ قائداعظم کے غسل و جنازہ تک محدود تھے۔ یہی حال جمعیت علماء ہندکے اندرگاندھی سے جلسے کی صدارت تک تھا۔ جبکہ مولانا ابوالکلام آزاد قومی لیڈر وزیرتعلیم تھے۔ ان کی تدفین شاندار قومی اعزاز کیساتھ ہوئی تھی ۔ بے شرم حکمرانوں بشمول عمران خان اور مقتدر طبقہ نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وہ عزت نہ کی ، جسکے محسنِ پاکستان مستحق تھے۔ سیاسی پارٹی کے علماء ونگ کی طرح جمعیت علماء ہند کانگریس اور جمعیت علماء اسلام مسلم لیگ کے علماء ونگ تھے ۔پھر مولانا احمدعلی لاہوری نے جمعیت علماء اسلام کی تشکیل نو کردی جس میں مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا عبیداللہ انور، مولانا عبداللہ درخواستی اور مفتی محمود نے جمعیت علماء ہندو جمعیت علماء اسلام کے ملغوبے کا کردار ادا کیا اور مفتی محمد شفیع کی جمعیت علماء اسلام مرکزی کے نام پر درباری علماء کا ٹولہ بن کر ختم ہوگیا۔
مولانا مدنی نے مدرسہ وسیاست کو یکجا کیا تو تدریس کے شہسوار علامہ انور شاہ کشمیری کو دارالعلوم دیوبند سے ڈھابیل پہنچادیا۔ بہاری سید کا کشمیری سید سے یہ سلوک تھا۔مولانا سندھی سے زیادتی کی سزا کھائی تو کشمیری نے سندھی سے معافی مانگ لی اور کہاکہ اپنی ساری زندگی درسِ نظامی کی فضول تدریس میں ضائع کردی۔ جس سے ثابت ہوا کہ شیخ الہند کے جانشین مولانا سندھی تھے۔ آخر میں قاری طیب کو مولانا مدنی کے فرزندوں نے آوٹ کیا۔ جس پر دارالعلوم دیوبند تقسیم ہوگیا۔ ایک کا نام دارالعلوم دیوبند وقف رکھ دیا ۔ قاری محمد طیب اپنے والد حافظ محمد احمد اور دادا مولانا قاسم نانوتوی کے جانشین اور مہتمم دارالعلوم دیوبند تھے۔ جس طرح پروین شاکر نے شوہر کی بے وفائی سے اردو شاعری کو انمول خزانہ دیا جو سودا گھاٹے کا نہیں۔اسی طرح قاری طیب نے اپنے دکھ اور تکلیف سے ذخیرہ نعت میں ایک عظیم الشان اضافہ کرکے قیمت وصول کی ۔
نبی اکرم شفیع اعظم ۖدکھے دلوں کا سلام لے لو ،پیام لے لو۔
دیوبندی بریلوی مساجد میں ایک ماہ یہ نعت پڑھی جائے تو انقلاب آئیگا۔ یہ سورہ واقعہ کی اس آیت کی تفسیر ہوگی کہ سلام لک من اصحاب الیمین ”سلام ہو آپ کیلئے اصحاب یمین کی طرف سے ”۔ جمعیت علماء اسلام کے جلسے میں یہ نعت پڑھی گئی۔ جس سے اتحاد کا راستہ ہموار ہو ا۔ مہاجر مکی کا” فیصلہ ہفت مسئلہ” میں دیوبندی بریلوی اختلاف کاحل تھا ۔ مولانا اشرف علی تھانوی کو پسند تھا لیکن مفتی شفیع کی وجہ سے اس پر عمل نہ ہوسکا۔ لیگی علماء اندرون خانہ قادیانیوں کے حامی تھے۔ مولانا احتشام الحق تھانوی کو ختم نبوت والوں نے مارا پیٹا بھی تھا۔
مفتی رفیع عثمانی کی ” علامات قیامت اور نزول مسیح ” میں مفتی شفیع کی تحریر ہے کہ ” اس کا نام مرزا غلام احمد ، ماں اور باپ کا نام فلاں تھے تو کیسے وہ حضرت عیسیٰ کا دعویٰ کربیٹھا؟، جسکا نام عیسیٰ ،ماں مریم تھی اورباپ نہیں تھا”۔ حالانکہ اس سے مرزائیت کو تقویت ملتی تھی، وہ کہتے تھے کہ” قادیانی عیسیٰ کا مثل ہے”۔ مفتی رفیع عثمانی نے حدیث نقل کی کہ ” دجال سے بدتر حکمران اور لیڈر ہیں” اور وجہ یہ تھی کہ جمعیت علماء پر کفر کا فتویٰ لگادیا توان کو قادیانیوں سے بدتر قرار دیا۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ ” لوگوں کو شکایت ہے کہ مدارس سے اچھے استعداد وصلاحیت کے علماء پیدا نہیں ہورہے ہیں مگر یہ نصاب تعلیم ایسا ہے کہ اس سے اچھے خاصے ذہین لوگ کوڑھ دماغ بن جاتے ہیں”۔ علامہ یوسف بنوری نے کوشش کی کہ نیا نصاب تعلیم ہو جس میں علماء کے اندر استعداد پیدا ہو۔ فقہ ، اصول فقہ، حدیث ،تفسیر کیلئے کورس رکھا۔ کوڑھ دماغ مزید کوڑھ دماغ تو پیدا کرسکتے تھے لیکن انقلاب کیلئے مولانا عبیداللہ سندھی کہاں سے ڈھونڈ لاتے؟۔
حاجی محمدعثمان کو سناتو مولانا شیرمحمد امیر جمعیت علماء اسلام کراچی نے کہا کہ ” یہ تو الیاس ثانی ہیں”۔ پھر وقت آیا کہ خانقاہ چشتیہ مسجد الٰہیہ خدمت گاہ قادریہ مدرسہ محمدیہ میں مولانا سندھی کی کتابوں سے قرآن کی طرف رجوع کا آغاز کیا۔ مولانا الیاس کے اتحادامت اور مولانا سندھی کے قرآن کی طرف رجوع میں شیخ الہند کے اصل جانشین ہم ہیں۔ مدارس تجارتی کمپنیاں قتل گاہیں بن چکی ہیں۔ علامہ یوسف بنوری کے فرزندمولانا محمد بنوری کومدرسہ میں شہید کیاگیا۔ روزنامہ جنگ نے جھوٹی خبر لگائی کہ ”مولانا محمد بنوری کہتے تھے کہ میں خود کشی کرلوں گا اور آخر خود کشی کرلی”۔ تحریک ختم نبوت کے قائد علامہ بنوری کو تحفہ ملا۔ مولانا یوسف لدھیانوی ، مفتی نظام الدین شامزئی، ڈاکٹر حبیب اللہ مختار ، مولانا عبدالسمیع اور مفتی عتیق الرحمن کو شہیدکیاگیا اور ڈاکٹر حبیب اللہ مختار کی بیوہ علامہ بنوری کی چہیتی بیٹی کو بھی دھوکے سے انتہائی المناک ظالمانہ طریقے سے شہیدکیا گیاتھا۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے ”احرار” اور ”تحفظ ختم نبوت ” کی تحریک میں بریلوی ، اہلحدیث اور شیعہ کو ساتھ رکھا۔ علامہ ابوالحسنا ت احمد قادریبریلوی کو تحفظ ختم نبوت کا مرکزی امیر بنایا۔ مولانا یوسف بنوری نے اپنے والد مولانا زکریا بنوری کے متعلق لکھا:” صاحبِ کرامت ولی تھے ۔ کہتے تھے کہ برصغیر میں مسلک حنفی کا سہرااعلیٰ حضرت مولانا احمد رضاخاںبریلوی کے سر ہے”۔
حاجی عثمان اتحاد میں مولانا الیاس و شیخ الہند کے جانشین تھے۔ علامہ سید یوسف بنوری نے تقویٰ پرمدرسہ کی بنیاد رکھی تھی۔ہم نے مدرسہ اور خانقاہ دونوں کا فیض پایا ہے، حاجی محمد عثمان پر فتوے کا مقابلہ بفضل تعالیٰ ہم نے خوب کیاتھا۔
گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا کہاں سے آئے صدا لااِلٰہ الا اللہ
میرے آباء و اجداد اہل مدرسہ وخانقاہ کے استاذالاساتذہ و پیرانِ پیر تھے۔ اقبال نے اہل مدرسہ و مزاج خانقاہی کا ذکر کیا لیکن ہم مزاج خانقاہی میں پختہ تر ہوئے اور نہ اہل مدرسہ ہمارا گلہ گھونٹ سکے ۔ جب اہل فتویٰ کے رعب ودبدبہ اور اہل دنیاکی چمک دمک سے خانقاہ میںبھگڈر مچی اور رونقیں ماند پڑگئیں ۔ علماء ومفتیان اور فوجی افسران بھاگے۔ تب میں اس اُمید کیساتھ افغانستان کے میدان ِ جہاد سے کراچی آیا تھا کہ ہم مجاہدین کیساتھ مل کر وزیرستان اور قبائل سے اسلامی خلافت کا آغاز کریں گے۔ جہاد سے پہلے مولانا عبیداللہ سندھی کی قبر پر انقلاب کیلئے دعا مانگنے گیااور اس سے پہلے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا طالب علم تھا تو طلبہ تنظیم ” جمعےة اعلاء کلمة الحق ” بنائی ۔جب علماء کی طرف سے مولانا فضل الرحمن پر ”متفقہ فتویٰ” کا اشتہار چھپا تو میں نے اشعار لکھ کر منہ توڑ جواب دیا تھاجن کی کتابت مولانا شیر محمد نے کروائی تھی اور فتوے کے اس اشتہار کو تلف کرنے کی شرط پر اشعار نہیں چھپے۔ اس سے پہلے علماء ومفتیان نے ضیاء الحق کے ریفرینڈم کے حق میں فتویٰ دیا ۔علماء وطلبہ اورعوام میں یہ تأثر قائم کیاتھاکہ ریفرینڈم کے حق میں ووٹ نہ دینا کفرہے تب جماعت اسلامی بھی دُم چھلہ تھی توطلبہ پلیٹ فارم سے ریفرینڈم کی طالب علمانہ مخالفت کی تھی کہ اعراب کی16اقسام میں یہ نئی قسم ہے۔ ضیاء الحق کی جگہ ضیاع الحق سے روشنی ضائع ہوگی۔ اس سے پہلے مولانا سمیع الحق و قاضی عبداللطیف نے سینٹ میں ”شریعت بل” پیش کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے مخالفت کی تو حاجی محمد عثمان نے مسجدالٰہیہ میں جمعہ کی تقریر میں کہا تھا کہ ”علماء حق نے شریعت بل پیش کیا اور ایک بڑے مفتی کے بیٹے (مولانا فضل الرحمن) نے اس کی مخالفت کی تو اسکا نکاح کہاں باقی رہا”۔ عوام کا دل ہلااور چیخ کر اللہ کا نام نکلا اور میری بے ساختہ ہنسی نکلی۔ حاجی صاحب سے عرض کیا کہ ”شریعت بل نہیں نظام ہے اور یہ مارشل لاء کو طول دینے کا بہانہ ہے”۔ حاجی عثمان نے طالب علم مرید کی بات مان لی تھی۔بسااوقات فرماتے کہ ”بھیا! میں تو جاہل ہوں”۔ غلط بات پر ڈٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میں ریفرینڈم کا مخالف تھا کہ”یہ ان مفتی گدھوںنے فتویٰ دیا”۔ علماء واساتذہ نے کہا کہ ”حاجی عثمان اس گستاخی پر خانقاہ سے نکال دیں گے”۔ میں نے کہا کہ ” کچھ نہیں ہوتا، یہ انکا بھی کام نہیں ”۔کسی سوال پر حاجی محمد عثمان نے کہا ” فتویٰ پرنہ جاؤ،جنرل ضیاء کو 8 سال تک تم آزما چکے ہو، اگر تمہارا دل مانتا ہے تو ووٹ دو،نہیں مانتا تو نہ دو،اور میرا دل نہیں مانتا ”۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے علماء کو پتہ چلا توبہت خوش ہوگئے کہ پیر حاجی عثمان ان علماء ومفتیان سے دین کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔پھر وہ وقت آیا کہ مولانا فضل الرحمن لیبیا سے کراچی آئے۔ علماء و مفتیان جیل میں تھے اور مدارس کے طلبہ کو استقبال کیلئے ائیرپورٹ بھیجا تھا۔ درخواستیکی جمعیت ف سے الگ تھی ۔ اس وقت میںانوار القرآن آدم ٹاؤن نیو کراچی درخواستی کے مدرسہ میں تھا۔ مزدا گاڑی طلبہ کو استقبال میں لیجانے کیلئے ملی تھی ۔ مولانا فضل الرحمن کے ٹرک پرمیری ذمہ داری تھی۔ درجہ اولیٰ سے موقوف علیہ تک نصاب کے مقابلے میں تائید ملی۔ اساتذہ فرماتے کہ” عتیق امام ابوحنیفہ وا مام مالک کی طرح ہوگا”۔ مولانا شیرانی نے کہا کہ ” آپ نصاب بنالو، مدارس میں وہی پڑھایا جائیگا۔ علماء کا کباڑ ہ بنادیاہے ”۔مولانا سرفرازخان صفدر نے اپنا مدرسہ مرکز بنانے کا کہا۔ مولانا خان محمد امیر تحفظ ختم نبوت اور مولانا عبداللہ درخواستی نے دعا دی۔ مولانا عبدالکریم بیر شریف امیر جمعیت علماء اسلام، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر پرنسپل جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سمیت دیوبندی ، بریلوی، اہل حدیث، اہل تشیع، جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد، ڈاکٹرا سرار احمد ،ہفت روزہ تکبیر کراچی کے صلاح الدین،پروفیسر شاہ فریدالحق جمعیت علماء پاکستان، مولانا ایوب جان بنوری ، علامہ طالب جوہری ، علامہ عون نقوی، علامہ حسن ظفر نقوی اور بے شمار ولاتعداد لوگوں نے حمایت کی۔ خاص طور پر ضلعی علماء ٹانک نے بڑی تائید کی۔
بفضل تعالیٰ مدارس کے دل ہمارے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ ” اللہ کے حکموں میں کامیابی اور غیروں کے حکموں میں نا کامی کا یقین ہمارے دل میں آجائے”۔ ان کی حلالہ کے نام پرعصمت لوٹی جاتی ہے تو یقین کا ستیاناس ہوجاتا ہے۔ حاجی عثمان دعا کرتے تھے کہ:” ہم چھوٹے ہیں، اللہ تو بڑا ہے، ہم ناپاک ہیں، تو پاک ہے،ہم گمراہ ہیں،تو ہدایت والاہے”۔فرماتے تھے کہ ” اگر اللہ کی بھی پاکی بیان کریں اور خود کو بھی پاک سمجھیں ، اللہ کو بڑا کہیں اور خود کو بھی بڑا سمجھیں ۔اللہ کو ہادی کہیں اور خودکو بھی ہادی سمجھیں تو ہماری محنت کو اللہ قبول نہیں کرے گا۔ ہم بندے ہیں اور بندہ بن کر ہی رہنا پڑے گا”۔
اگر بات اپنی ذات تک ہو تو اپنی بہت ساری خامیاں اور دوسروں کی بہت ساری خوبیاں سامنے آتی ہیں۔ دوسروں کو برا بھلا کہنے کے بجائے خود کو براسمجھتے ہیں مگر جب بات قرآن وسنت اور امت کے اجتماعی مفادات کی آتی ہے تو پھر ایک بڑے بت کے کاندھے پر کلہاڑی رکھ کرسارے توڑ دئیے توبرا نہیں ہوگا۔
مدارس ، خانقاہیںاور تبلیغی جماعت تینوں مذہبی خدمات کے زبردست شعبے ہیں۔ مدارس کی مثال بجلی کی طرح ہے ،جوکارخانے، گھر اور بازار چلاتے ہیں۔ دین کی خدمت کا سب سے بڑا شعبہ بجلی کے محکمہ کی طرح یہی ہے۔ ہم دل سے ان کی قدر کرتے ہیں۔ خانقاہوں کی مثال ہاتھ کی ٹارچ کی طرح ہے جس کا اندر اس کے ظاہر سے زیادہ خوبصورت ہوتا ہے اور اس کی لائٹ بجلی کے بلب کوبھی ماند کردیتی ہے۔ تبلیغی جماعت کی مثال چراغوں کی طرح ہے جو ایک سے دوسرا روشن ہوتا ہے لیکن اندر مٹی کے تیل کی جہالت بھری ہوتی ہے۔ اگر زیتون کا تیل ہو تو پھر بہت خوب ہے۔ اب تبلیغی جماعت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہے اور یہ امت کو کیا جوڑے گی؟۔ شیخ الہند ، مولانا الیاس اور مولانا یوسف کی جانشینی تو دور کی بات ہے مولانا انعام الحسن کے راستے سے بھی ہٹ گئے ہیں۔ مدارس کے حالات بھی دگرگوں ہیں اور مشائخ طریقت بھی دنیا کے لش پش میں لگ گئے۔ قرآن وسنت کی طرف رجوع کئے بغیر ہدایت کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ عتیق گیلانی
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ