شیعہ سنی اتحاد، امت کا مفاد، جہالت کیخلاف جہاد ،علم خاتمۂ فساد؟اسلام آباد شیطان برباد!
جولائی 22, 2023
شیعہ سنی اتحاد، امت کا مفاد، جہالت کیخلاف جہاد ،علم خاتمۂ فساد؟اسلام آباد شیطان برباد!
انجینئر محمد علی مرزا اور مفتی فضل ہمدرد کا تعلق اہل تشیع نہیں اہل سنت سے ہے لیکن فضائل اہل بیت کے حوالے سے احادیث بیان کرنے کی وجہ سے ان کو کچھ لوگ صحابہ کرام کا دشمن سمجھتے ہیں۔ انجینئر محمد علی مرزا اکابر صحابہ کرام کا دفاع کرتا ہے لیکن بنوامیہ اور حضرت امیر معاویہ کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے اور مفتی فضل ہمدرد انجینئر محمد علی مرزا سے کافی آگے جاچکے ہیں۔ بس اس کا شیعہ ہونے کا اعلان باقی رہ گیا ہے۔ وہ بھی شاید مصلحت کی وجہ سے نہیں کررہاہے۔
جہاں اتنے سارے شیعہ حضرات دنیا میں بستے ہیں وہاں اہل سنت کے چند حضرات کا دلائل کی بنیاد پر اپنے مؤقف کا اظہار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ صحافی ارشاد عارف کا ایک بھائی سید خورشید گیلانی بہت باصلاحیت لکھاری تھے مگر شاید ایرانی امداد نے ان کی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے استعمال کے بعد بھی کوئی کارنامہ انجام دینے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا۔ جب آدمی بھاڑہ لیتا ہے تو وہ مشن کا امین نہیں بلکہ نوکر پیشہ بن جاتا ہے۔ اسلئے سارے انبیاء کرام نے اپنے مشن پر کوئی معاوضہ نہیں لیا۔ نبی ۖ کے حوالہ سے ایک غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے۔
قل لااسئلکم علیہ اجرًا الا مودوة فی القربیٰ ” کہہ دیجئے میں تم سے اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا مگر قرابت داری کی محبت” یہ آیت مکی ہے اور مخاطب کفارقریش مکہ ہیں۔قرابت کی محبت کسی معاوضہ کے نتیجے میں نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک فطری چیز ہے، والدین ، بچوں، بھائی ، بہن ، عزیز واقارب، اپنی قوم ، زبان اور علاقہ کے لوگوں سے محبت میں معاوضے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے اور اگر اہل مکہ کے کفار کو اسکا لحاظ نہ ہوتا تو کب سے اپنا اقدام اٹھا چکے ہوتے؟۔
جب انہوں نے شعب ابی طالب کا بائیکاٹ کیا تو یہ بھی قرابت کا لحاظ ہی تھا لیکن درجہ بہ درجہ وہ فطری قرابتداری کا لحاظ بھی کھوتے جارہے تھے جس پر اللہ نے ان کو تنبیہ کردی کہ اس کا لحاظ رکھو۔نبی ۖ نے مکہ فتح کیا تو حضرت یوسف کے بھائیوں سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ آج تمہارے اوپر کوئی ملامت نہیں ہے ، تم آزاد ہو۔ یوسف کے بھائیوں نے بھی قرابت کا پاس رکھتے ہوئے قتل نہیں کیا تھا۔اس لحاظ کو بے لوث محبت کہتے ہیں ۔یہ کوئی معاوضہ نہیں ہوتا ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے مکی آیت سے متعلق احادیث پر سوالیہ نشان اٹھا دیا کہ جب حضرت علی ، حضرت فاطمہ کے رشتے اور حضرت حسن و حضرت حسین کی بات نہیں تھی جبکہ احادیث صحیحہ میں اہل بیت کی بڑی فضیلت ہے۔اہل سنت کی کتابیں اس سے بھری پڑی ہیں اور وہ صرف نظر یاتأویلات کرتے رہتے ہیں۔
بلاشبہ نہیں نبی ۖ کے وصال کے بعد انصار ومہاجرین نے مسئلہ خلافت پر اختلاف کیا تھا۔ حضرت ابوبکر نے حدیث پیش کی کہ ائمہ قریش میں سے ہوں گے۔ لیکن انصار نے کہا کہ ایک امیر ہم سے ہو اور ایک آپ میں سے۔ حضرت ابوبکر نے کہا کہ دو امیر سے فتنہ وفساد ہوگا۔ آخرکار حضرت ابوبکر پر جمہور کا اتفاق ہوگیا لیکن حضرت سعد بن عبادہ تادم حیات ناراض تھے۔ ہوسکتا ہے اور بھی بہت سارے لوگ ہوں۔ حضرت علی کے بارے میں بھی چھ ماہ تک ناراض رہنے کی روایت اہل سنت کے ہاں ہے۔ بہرحال خلافت کا گھمبیر مسئلہ بن گیا تھا۔
جس طرح قرابتداری کی محبت کے اولین مخاطب مشرکینِ مکہ تھے، اسی طرح یریداللہ لیذھب عنکم رجسا اہل بیت ویطھرکم تطہیرًا ” اللہ کا ارادہ ہے کہ آپ سے گند کو دور کردے ،اے اہل بیت اور تمہیں پاک کردے”۔ کے اولین مخاطب نبی ۖ کی ازواج مطہرات ہیں۔ سورۂ نور میں واضح ہے کہ ”پاک مرد پاک عورتوں اور پاک عورتیں پاک مردوں کیلئے ہیں”۔ آزمائش کی چکیوں میں پیس کرکے اللہ نے ازواج مطہرات کی پاکیزگی کا سامان پیدا کیا۔
اگر ہم احادیث صحیحہ کو دیکھ لیں تو مودة فی القربیٰ سے مراد یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ امت نبی ۖ کی آل اولاد کو اقتدار سونپ دیں۔ اہل تشیع یہی مراد لیتے ہیں اور اس وجہ سے السابقون الاولون من المہاجرین والانصار سے بھی نالاں رہتے ہیں۔ امام خمینی نے اپنے بیٹے کو اپنی قوم پر مسلط نہیں کیا نبیۖ نے کیوں اپنے چچازاد بھائی اور داماد حضرت علی کو مسلط کردینا ضروری سمجھا تھا؟۔
اور اگر ایسا کرتے تو پھر اس سے بڑا معاوضہ کیا ہوسکتا تھا؟۔ حضرت داؤد کے بیٹے حضرت سلیمان اپنی صلاحیت کی بنیاد پر خلیفہ بن گئے۔ اللہ نے فرمایا کہ ”سلیمان کو ہم نے زیادہ فہم عطا ء کیا تھا”۔ جس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ زیادہ فہم بھی خلافت کیلئے شرط نہیں ہے۔ جس شخص نے ملکہ سبا بلقیس کے تخت کو حاضر کیا تھا وہ صاحبِ کرامت بھی زیادہ صلاحیت کی وجہ سے خلافت کا مستحق نہیں تھا۔
حضرت علی ، حضرت فاطمہ ، حضرت حسن اور حضرت حسین کو نبی ۖ نے اپنی چادر میں لیا اور فرمایا کہ ” اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں ، ان کو گند سے پاک کردے”۔ یہ گند کیا تھا؟ جس سے نبی ۖ نے پاک ہونے کی دعا مانگی تھی؟۔ جب ابوسفیان نے حضرت علی کو پیشکش کردی کہ ابوبکر خلافت کی مسند پر بیٹھنے کا حقدار نہیں ، اگر آپ کہیں تو مدینہ شہر کو پیادوں اور سواروں سے بھردوں؟۔ لیکن حضرت علی نے پیشکش مسترد کردی۔ اختیار کا بڑاگند انسان دل میں رکھتا ہے۔ یہ نبی ۖ کی دعا کی برکت تھی کہ حضرت علی کے دل میں یہ گند نہیں تھا۔ حضرت ابوبکر رنجیدہ ہوکر فرماتے تھے کہ ایک چڑیابھی خوش قسمت ہے جو جوابدہی کے غم سے آزاد ہے۔ حضرت عمر نے حضرت ابوبکر سے کہا تھا کہ مجھے نامزد کرکے مجھے ہلاکت میں ڈال رہے ہو۔ لوگوں نے کہا کہ اپنے بیٹے کو جانشین بنالو ۔فرمایا کہ اس کو طلاق کا مسئلہ نہیں آتا اور میں اس کے ذمہ اتنی بڑی ذمہ داری لگادوں ، یہ مسندِ خلافت کیلئے نااہل ہے۔ ہماری بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈر شرم محسوس نہیں کرتے کہ اپنے پرانے دوستوں پر اپنے نکوں اور نکموں کو مسلط کرتے ہیں۔
حضرت فاطمہ نے باغ فدک کا مطالبہ کیا لیکن خلافت کی حقداری نہیں مانگی اور حضرت حسن جب خلیفہ بن گئے تو مسلمانوں میں اتحاد کیلئے دستبردار ہوگئے۔ حضرت حسین اسلئے نکل کھڑے ہوئے تھے کہ خلافت موروثیت کا شکار ہوگئی۔ پھر جن لوگوں کے حق میں شیعہ ائمہ معصومین کا عقیدہ رکھتے ہیں انہوں نے مسند کی خاطر کبھی امت مسلمہ افتراق وانتشار کو ہوا نہیں دی ہے۔ اپنی دو اینٹ کی بھی کبھی الگ مسجد نہیں بنائی ہے۔ آج بھی حضرت علی سے لیکر مہدی غائب تک نام مسجد نبوی ۖ پر تحریر ہیں۔ حضرت خضر کی طرح حضرت مہدی غائب میں بھی ظاہری خلافت کی خواہش نہیں جبکہ ایران، عراق، شام اور لبنان میں اہل تشیع کا اقتدار ہے۔جب سے ائمہ کا سلسلہ غائب ہوا ہے تو اہل تشیع بھی مدعی سست اور گواہ چست کا مظاہرہ کررہے ہیں لیکن اس کا امت مسلمہ کو فرقہ واریت وانتشار کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اہل تشیع اپنے آزادانہ دلائل اور علمی جواہر پارے ضرور دنیا کے سامنے رکھیں لیکن جب دوسروں کے مقدسات کی توہین کریں گے تو فتنہ وفساد اور قتل وغارت گری کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ اگر اپنی خستہ حالی کے باوجود مقدس شخصیات کو تنقید سے بڑھ کر توہین کا نشانہ بنائینگے تو اس کے نتائج بھی بھگتنے ہوں گے۔ یہ کون برداشت کرسکتا ہے کہ جو فیس لیکر صحابہ کرام کی توہین اسلئے کریں کہ ان کو زیادہ واہ واہ ملے ،دوسروں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائیں ،خوب اشتعال دیں اور مخالفت پر اُکسائیں؟۔
سب سے پہلے ہم اہل تشیع کو مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ جنہوں نے اپنے اہل بیت کا دامن تھام لیا اور جن کی وجہ سے وہ حلالہ کی لعنت سے بچ گئے۔شیعہ فقہ میں عدت کے اندر طہرو حیض کے تینوں مراحل پر نکاح کی طرح طلاق کے بھی شرعی صیغے ہیں اور دو عادل افراد کی گواہی ہے۔ جس کی وجہ سے نسل در نسل شیعہ حلالہ کی لعنت سے بچ گئے۔ امام جعفر صادق اور ائمہ اہل بیت امام ابوحنیفہ کے اساتذہ کرام تھے۔ اہل بیت کی فضیلت کے انکارسے ہم حدیث صحیحہ کے منکر بن جائیں گے۔ نبی ۖ نے قرآن اور اہل بیت کودو بھاری چیزیں قرار دیا ہے لیکن احناف پر دوسرے اہل سنت کے فقہاء بھی احادیث کے منکریں کا فتویٰ لگاتے رہے ہیں اور اہل حدیث بھی سمجھتے ہیں کہ احناف احادیث کو نہیں مانتے۔ اس میںحقیقت بھی ہے اور کچھ مبالغہ بھی نہیں ہے اورو اللہ نہیں ہے۔
میرے اجداد سید عبدالقادر جیلانی حنبلی مسلک سے تعلق رکھتے تھے لیکن انہوں نے حنفی مسلک اختیار کرلیا۔ اگر حنفی مسلک قرآن وسنت کے مطابق نہیں تو میں دوبارہ اس کو چھوڑنے کیلئے تیار ہوں۔لیکن درس نظامی کا حنفی مسلک حقیقت میں قرآن و سنت کا درست آئینہ ہے۔ جو سنی شیعہ سے چندہ مدد لیکر اپنا مؤقف بیان کرتا ہے کہ یہ میٹھی چوری والے طوطے کبھی بھی اُڑسکتے ہیں۔
بالفرض ہم نے مان لیاکہ ” حضرت عمر نے اکٹھی تین طلاق کا فیصلہ کرکے یہ امت گمراہ کردی” تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا کہ ایک شخص اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے گا اور پھر یہ ایک طلاقِ رجعی شمار ہوگی اور شوہر عورت کی مرضی کے بغیر رجوع کرلے گا۔ اس سے عورت کی بدترین حق تلفی ہوگی۔ وہ رجوع نہیں کرنا چاہ رہی ہو اورشوہر کو رجوع کاغیر مشروط اختیار دے دیا جائے۔ یہ قرآن وسنت اور انسانی فطرت کے منافی ہوگا۔ شیعہ اور اہلحدیث کے علماء کو دنیا بھر سے لایا اکٹھا کیا جائے اور سکینڈوں کے حساب سے ہم منوادیںگے کہ حضرت عمر نے ٹھیک فیصلہ کیا تھا۔ ائمہ اربعہ نے ٹھیک اجماع کیا تھا کہ اکٹھی3 طلاق واقع ہوتی ہیں اور شیعہ واہل حدیث کا فتویٰ بالکل غلط ہے کہ یہ طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔
البتہ تین طلاق استعارہ ہے کہ اس کے بعد رجوع کا حق ہے یا نہیں ؟۔ جب اکٹھی نہیں الگ الگ مرحلہ وار تین طلاق کے بعد بھی قرآن کے واضح الفاظ میںاصلاح کی شرط پراور معروف طریقے سے باہمی رضاسے اللہ نے رجوع کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا ہے تو رجوع کا دروازہ بہر صورت بند کرنا غلط ہے۔نبی ۖ نے تین طلاق کے باوجود ابو رکانہ سے فرمایا کہ ام رکانہ سے رجوع کرلو۔ ابوداؤد
اسلام اجنبیت کے جن مراحل سے گزرا ، شیعہ سنی دونوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اگر حضرت عمر کے دور میں قیصر وکسریٰ کو فتح کرنے کے بعد لونڈیاں بنائی گئیں تو دونوں کے اکابرنے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھولئے تھے ۔ مزارعت کے جواز میں دونوں کا حصہ تھا۔ حالانکہ امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام شافعی اسکے مخالف تھے۔ امام جعفر صادق کے بارے میں شیعہ بتاسکتے ہیں۔ لیکن آج شیعہ حضرات کو بھی یہ بات سمجھنے میں مشکل نہیں ہے کہ قرآن میںطلاق کے مسئلے پر سنی اکابر کی طرح شیعہ اکابر نے بھی بہت بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ جب ایک واضح مسئلہ سمجھنے میں آج دونوں مکاتب اتنی بڑی ٹھوکر کھارہے ہیں تو دوسرے مسائل پر کیا کیا ٹھوکرنہیں کھائی ہوں گی؟۔ہمیں اتفاق ہے کہ حسین کے مقابلے میں یزید باطل تھا لیکن امیرمعاویہ سے حضرت حسن نے صلح کی تھی اور حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان سے حضرت علی کی مصالحت تھی اور بنوامیہ وبنو عباس سے ائمہ اہل بیت نے مصالحت کی تھی۔ اہل تشیع کے بقول گیارہ امام جب تک زندہ تھے تو اپنے حق سے محروم رہے اور اب جب ان کے دنیا سے جانے کے بعد ان کو حق دیا بھی نہیں جاسکتا ہے تو خودکو پیٹنے سے کچھ ملے گا؟۔ اگر ان کے بقول امام مہدی غائب زندہ ہیں اور ہزار سال سے بھی زیادہ پردہ غیب میں ہیں تو پھر چند سوسال باقی گیارہ اماموں کا بھی حکومت نہ کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟۔
جس دن دیوبندی بریلوی اور اہلحدیث نے قرآن کو مان لیا اور اعلانیہ اپنے مسلکوں کی غلطی تسلیم کرتے ہوئے عوام کو بتادیا کہ حضرت عمر فاروق اعظم نے ٹھیک کیا تھا کہ اکٹھی تین طلاق کے بعد فیصلہ عورت کے حق میں دیا اورقرآن کا یہی تقاضا ہے لیکن اگر عورت صلح کیلئے راضی ہو تو پھر حلالہ کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اکٹھی تین طلاق کے بعد بھی حلالہ نہیں، اہل حدیث کے مطابق تین مجالس میں الگ الگ تین طلاقیں دی جائیں تب بھی نہیں اور شیعہ کے مطابق تینوں مراحل میں دو دو عادل گواہ مقرر کئے جائیں تب بھی حلالہ کی ضرورت نہیں اور غلام احمد پرویز اور ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مطابق حنفی احسن طلاق کے مطابق تینوں مرتبہ یہ کیا جائے کہ ایک مرتبہ طلاق دی جائے، عدت ختم ہوجائے، پھر رجوع کرلیا اور پھر طلاق دے دی اور عدت بھی ختم ہوگئی اور پھر رجوع کرلیا اور پھر طلاق دیدی اور عدت ختم ہوگئی تو پھر حلالہ ہوگا تو بھی حلالہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
طلاق سے قرآن کے مطابق رجوع کا اعزا ز کس کے کھاتے میں جائے گا؟ اس کا جواب درس نظامی کا نصاب اور فقہ حنفی میں دیوبندی مدارس ہیں۔ خصوصاً جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی ، جامعہ انوارالقرآن آدم ٹاؤن نیوکراچی اورجامعہ عبداللہ بن مسعود خانپور رحیم یار خان کا بہت بڑا فیضان ہے۔
حاجی عثمان پر علماء سوء نے فتویٰ لگایاتو مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید نے حاجی عثمان کی بیعت کرلی اور مفتی حبیب الرحمن درخواستی مدظلہ العالیٰ نے حاجی عثمان کے حق میں فتوی دیا تھا۔ مولانا عبداللہ درخواستی اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان اس وقت اختلاف تھا لیکن حاجی عثمان کے حق میں دونوں جمعیت متفق تھے۔ مسجد الٰہیہ ، خانقاہ چشتیہ، خدمت گا ہ قادریہ، مدرسہ محمدیہ ، یتیم خانہ سیدنا اصغر بن حسینامت مسلمہ کے اتحاد کا مرکز ہے۔ رکشہ ڈارئیور، ٹیکسی ڈرائیور،دونمبر پلمبر اور کباڑیہ جانتے ہیں کہ حاجی محمد عثمان کے مریدوں کو تقسیم کرنا غلط ہے لیکن معمولی معمولی مفادات نے انکے دلوں کو تقسیم کرکے خانقاہ کو ویران کردیا ہے۔
ومن اظلم من منع مساجد اللہ وسعی فی خرابہا ‘ ‘اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ کی مسجدوں سے روکے اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے؟”۔ جب ہم جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پڑھتے تھے تو شیعہ بھی نماز پڑھنے آتے تھے۔ باجماعت نماز میں بھی شریک ہوتے تھے اور انفرادی نمازبھی پڑھتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے سواداعظم والوں کو فسادی قرار دیا تھا اور بتایا تھا کہ مولانا یوسف بنوری عاشورۂ محرم سے پہلے پانی کے مٹکے صاف کرکے بھرواکر رکھ دیتے تھے کہ جلوس کے شرکاء پانی پئیں گے۔ واشروموں کی بھی صفائی کرواتے تھے۔ تحریک ختم نبوت کی کامیابی شیعہ سنی ، بریلوی دیوبندی ، حنفی اور اہلحدیث کے اتحاد کاقادیانیت کے زوال کا سبب بن گیا۔ لیکن پھر قادیانیوں ہی نے درپردہ امت مسلمہ کو لڑانے میں تخریب کارانہ کردار ادا کیا تھا۔ اگر طلاق کے مسئلے پر قرآن کے مطابق ہم اکٹھے ہوگئے تو قادیانی مذہب نابود ہوجائے گا اور اہل تشیع کے غبارے سے بھی ہوا نکل جائے گی اور اہل حدیث بھی راہ ِ راست پر آجائیںگے۔ دیوبندی بریلوی اختلافات کا بھی جلوس نکل جائے گا۔
شیعہ اس بات کو سمجھ لیں کہ اللہ نے اہل بیت سے قرآن وحدیث میں کونسے ”رجس یعنی گند” سے پاک کیا؟۔ انسانوں میں دوقسم کے فطری رجس ہیں ایک یہ کہ والذین یجتنبون کبائرالاثم والفواحش الا المم ” جو اجتناب کرتے ہیں بڑے گناہوں اور فحاشی سے مگر.. اس المم کی تفسیر حالات کے مطابق مختلف ہیں۔ حضرت آدم وحواء بھی شجرہ ممنوعہ کے پاس گئے۔ صالحین نے بھی حلالہ کے شجرہ ملعونہ کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ ازواج مطہرات کو اللہ نے اس گند سے پاکیزگی کی سندعطاء کی۔ جبکہ دوسرا گندیہ ہے کہ اللہ نے قرآن میں امانت کا ذکر کیا ہے جس کو قبول کرنے سے سب نے انکار کیا اور انسان کو اسلئے ظلوم وجہول قرار دیا۔ اللہ نے اس گند سے ائمہ اہل بیت کے دل صاف کئے۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ