شیعہ سنی کا قرآن پر ایمان اور اس کیلئے عملی اقدام کی ضرورت
اکتوبر 12, 2017
علامہ احمد لدھیانوی اورعلامہ حسن ظفر نقوی لوگوں کو دلیل سے ایک پلیٹ فارم پر لا ئیں تو قتل وغارت گری کا سلسلہ رُک جائیگا۔ جب برما کے مسلمانوں پر مظالم کی انتہا کی گئی تو ایک جلوس نکالا گیا جس میں ایران اور اسرائیل کی حکومتوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اس خبر کی خوب تضحیک ہوئی اور اہلسنت (سپاہِ صحابہ) والے کا مذاق اڑاگیا مگرسوچنے کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنی برائیاں ہیں؟۔ زنا بالجبر، بدکاری کے بعد بچوں اور بچیوں کو قتل کردیا جاتاہے ، انواع و اقسام کی بدمعاشی ، مظالم ، رشوت، بے حیائی اور چوری ڈکیتیوں کا بازار گرم ہے کیا یہ سب اسرائیل و امریکہ کی سازش ہے؟۔
بے شعور عوام کو ہم کیا دے رہے ہیں؟، اگر کبھی امریکہ ، اسرائیل اور بھارت نے سازش کی اور شیعہ سنی ایکدوسرے سے لڑے تو کسی کاکردار ہو یا نہ ہو مگر ہم اپنی بداعمالیوں کی سزا ضرور کھائیں گے۔ افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کے بعد اللہ نہ کرے کہ پاکستان کی باری آجائے۔ قرآن کہتا ہے کہ ظھر الفساد فی البر و البحر بماکسبت ایدی الناس ’’ خوشکی اورسمندر میں فساد برپا ہوگیا بسبب جو لوگوں نے ہاتھوں سے کمایا ہے‘‘ ۔
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم باقاعدہ سکالر اور عالم نہ تھے۔ البتہ قرآن کا ترجمہ سمجھانے کی بڑی خدمت کی۔ بڑے آدمی تھے اور بڑے کی غلطی بڑی ہوتی ہے۔ میرے ایک مہربان جماعت اسلامی کے عبدالرزاق بھٹی کا تعلق شیخ اتار گومل ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان سے تھا جوایک بڑے تاریخی کردار تھے۔ پاکستان بننے سے پہلے وہ کمیونسٹ تھے، پھر جیل میں مولانا مودودی کی کتابیں پڑھ کر مسلمان بن گئے تھے۔ سید منور حسن گذشتہ امیر جماعت اسلامی بھی کالج کے دور میں کمیونسٹ تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے کالجوں میں کمیونسٹوں کا راستہ روکنے کی قربانی دی ہے مگر پہلے جو امریکہ جہادی فلسفہ پھیلارہا تھا ،اب خلافت، جہاد اور مذہب کی مخالفت کو شعار بنارکھا ہے۔عبدالرزاق بھٹی نے بتایا تھا کہ ڈاکٹر اسراراحمدنے لکھا کہ’’ اگرچہ شیعہ کا موجودہ قرآن پرایمان نہیں مگر مہدی غائب تک اہل تشیع نے موجودہ قرآن کو قبول کیا ہے تو اس بنیاد پر ہم ان کو مسلمان کہہ سکتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر اسرار احمد نے شیعوں کیلئے اس نرمی کا مظاہرہ اسلئے کیا تھا کہ وہ خود بھی موجودہ قرآن کو مصحف عثمانی کہتے تھے ،جس کو اصل نہیں نقل سمجھتے تھے۔ جس میں کمی وبیشی کا تصور ہے اور برملا اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ’’ اللہ تعالی نے قرآن میں کہا کہ اس قرآن کو نہیں چھوسکتے مگر پاک لوگ۔ موجودہ قرآن کو ناپاک بھی چھو سکتے ہیں اسلئے یہ اصل قرآن نہیں بلکہ نقل اور فوٹو کاپی ہے ۔ اصل قرآن لوحِ محفوظ میں ہے جس کو ملائکہ کے علاوہ کوئی نہیں چھوسکتا‘‘۔
ڈاکٹر اسرار احمد اچھے انسان تھے ، مجھے انکے اپنے نظریات کا زیادہ پتہ نہیں تھا، انہوں نے میری کھل کر نہ صرف حمایت کی بلکہ کانفرنسوں میں بھی دعوت دی۔ میں نے سوچا کہ میڈیا کی سطح پر آواز پہنچانے کیلئے ان سے مدد لوں اور میں نے انکے سامنے یہ بات رکھ دی کہ مدارس میں قرآن کریم کے بارے میں تحریف کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اگر آپ میرا ساتھ دیں تو بہت اچھے نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں کھل کر ساتھ نہیں دے سکتا لیکن میری خاموش حمایت آپ کے ساتھ ہوگی، جیسے امام ابوحنیفہؒ نے ائمہ اہلبیت کی خاموش حمایت کر دی تھی مگر زباں سے کھل کر اظہارنہیں کیاتھا‘‘۔
جب مجھے پتہ چلا کہ ڈاکٹر اسرار احمد نے یہ تشہیر بھی عام لوگوں میں کی ہے کہ اصل قرآن لوح محفوظ میں ہے ، ہمارے پاس نقل ہے تویہ منافقت میں نہیں کرسکتا تھا کہ اپنے حامی کیلئے نرم گوشہ رکھوں۔ اپنے ضرب حق اخبار اور اپنی کتاب’’ آتش فشاں‘‘ میں اس کا کھل اظہار کیا جو ڈاکٹر اسرار احمد کو ناگوار بھی گزرا۔ مجھے اپنے اساتذہ کرام کی بھی حق بات کے سلسلے میں کوئی پرواہ نہیں تھی تو کسی اور کیا کرتا؟۔ قرآن واحد ذریعہ ہے جو اس امت کا بیڑہ پار کرسکتاہے مگر ہمارے مذہبی طبقات قرآن کی خدمت کرنے کا دعویٰ کرنے کے باوجود حقائق نہیں مانتے۔
شیعہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ میں تمہیں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن اور دوسری میری عترت۔اگر تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھام لوگے تو گمراہ نہ ہوگے‘‘۔ یہ حدیث صرف شیعہ نہیں سنیوں کی کتابوں میں بھی ہے، صحیح مسلم ، ترمذی وغیرہ صحاح ستہ میں شامل کتابوں میں بھی یہ حدیث موجودہے۔ اہل تشیع کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ و امام جعفر صادقؒ کا تعلق ائمہ اہلبیت سے تھا اور ہم حدیث کی پیروی کرتے ہوئے اپنے ائمہ اہل بیت کے مسلک پر گامزن ہیں۔ اہلسنت حضرت ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور معاویہؓ کو مان کر یہ حدیث نہیں مانتے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کو مانتے ہیں مگر امام جعفر صادق ؒ کو نہیں مانتے۔
اہلسنت کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’دو بھاری چیزیں چھوڑے جار ہا ہوں قرآن اور میری سنت ‘‘۔ موطا مالک کی اس حدیث کا تقاضہ ہے کہ قرآن و سنت کو ہی اطاعت کیلئے اپنامحور بنالیا جائے۔قرآن کا بار بار حکم ہے کہ ’’اطاعت کرو اللہ کی اور اسکے رسول کی ‘‘۔ ایک جگہ یہ ہے کہ ’’ جس نے رسول کی اطاعت کی تو بیشک اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘۔ قرآن اللہ کی وحی ہے ، اس وحی پر عمل وکردار کی مثالی شخصیت رسول ﷺ خود ہیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کا حکم قرآن میں ہے اور عملی کردار نبیﷺ کی سیرت طیبہ کو ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ رکوع وسجدہ ، روزہ اور طواف وحج کا حکم اللہ نے دیا مگر لوگوں کو خود کرکے نہیں دکھایا۔ رسول ﷺ نے احکام پر عمل کرکے دکھایا اور نبیﷺ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ ایک جگہ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے جو اولی الامر ہیں ان کی اطاعت کرو، اگر کسی بات پر تمہارا تنازع ہوتو اللہ اور رسول کی طرف اس کو لوٹادو‘‘۔ اگرشیعہ کہیں کہ اولی الامر سے مراد ائمہ اہلبیت ہیں، آیت میں اولی الامر سے اختلاف کی گنجائش ہے توانہیں ماننا پڑیگا کہ ائمہ اہلبیت سے اختلاف رکھنے کی گنجائش انکے ا دوار میں بھی تھی، آج بھی ہے۔ حضرت علیؓ نے مسند پر بیٹھنے والے خلفاء کرامؓ سے اچھے تعلقات رکھے، امام حسنؓ نے معاویہؓ کے حق میں دستبرداری کا معاہدہ کیا، کربلا میں حضرت امام حسینؓ کو واپس جانے دیا جاتا تویہ سانحہ پیش نہ آتا اور مہدی غائب تک باقی ائمہ نے شہیدکربلا کا راستہ نہیں اپنایا بلکہ ایک امام تو کسی عباسی خلیفہ کے جانشین بھی مقرر ہوئے۔ پھر اختلاف و افتراق کی شدت کوکم کرنا پڑیگا۔ ائمہ اہلبیت سے زیادہ باایمان اور تقویٰ وکردار رکھنے والا کوئی علامہ اور ذاکر نہیں ہوسکتا ہے۔
مفتی تقی عثمانی نے ’’ تقلیدکی شرعی حیثیت‘‘ کتاب میں قرآن کی آیت پرلکھا: ’’ اولی الامر سے مراد ائمہ مجتہدین ہیں،اختلاف سے مراد یہ نہیں کہ ان سے اختلاف ہوسکتا ہے بلکہ فان تنازعتم فی شئی سے علماء کے آپس کا اختلاف مراد ہے۔ احادیث میں علماء کے اٹھ جانے کی خبر ہے۔ ان ائمہ کے بعدجاہل علماء ہیں جو خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی وہ گمراہ کرینگے۔ علماء کا کام ائمہ کی تقلید کرنا ہے، اور عوام کا کام براہِ راست قرآن و حدیث کے احکام کی پیروی کرنا نہیں بلکہ علماء ومفتیان کے توسط سے قرآن و رسولﷺ کی پیروی ہے۔ عوام کی غلط رہنمائی ہوتو انکا مواخذہ نہ ہوگا‘‘۔
جس طرح شیعہ مسلک و اعتقاد میں قرآن کے حوالہ سے تضادات ہیں ، مہدی نے قرآن غائب نہیں کیا مگر اپنی منطق سے گمراہی کا شکار ہیں۔اسی طرح ہر دور کے درباری شیخ الاسلام نے مسلم اُمہ کو قرآن سے دور لے جانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ نے جیل کی زندگی میں زہرکھاکر شہید ہونا قبول کیامگر اپنے فتوے سے رجوع نہ کیا کہ لونڈی کو بادشاہ کے باپ نے استعمال کیا ہو اور پھر بیٹا اس کیساتھ ازدواجی تعلق قائم کرسکے۔ جبکہ شیخ الاسلام کی طرف سے حیلہ بنالیا گیا کہ ’’ عورت کی گواہی کا انکار کرکے یہ تعلق قائم کرسکتا ہے ‘‘۔ اس پر بڑا معاوضہ بھی حاصل کیا گیا۔ مفتی تقی عثمانی کی طرف سے اپنے جاہل عوام کو کہا گیا کہ ’’ شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کی لین دین سود ہے اور اسکے ستر سے زیادہ گناہ، وبال اور برائی میں کم از کم گناہ اپنی سگی ماں کیساتھ زنا کے برابر ہے‘‘ دوسری طرف معاوضہ لیکر سودکو جواز بھی فراہم کردیا ہے۔ تبلیغی جماعت کے کارکن اور رہنما شادی بیاہ کی رسم میں مفتی تقی عثمانی کے فتوے پر عمل نہیں کرتے مگرسود کادفاع کررہے ہیں۔
قرآن وسنت کے جھوٹے پیروکاروں کے منہ پر اللہ نے خوب طمانچہ مارا ہے۔ چاہے جو جس فرقہ ، جماعت اور مسلک کا لبادہ اُوڑھے وقال الرسول ربی ان قومی اتخذوا ھذا القرآن مھجورا ’’ اور رسول کہے گا کہ میرے ربّ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔ درسِ نظامی میں علماء ومفتیان قرآن پر حملہ آور ہوکر پڑھاتے ہیں کہ ’’ تحریری قرآن اللہ کا کلام نہیں، یہ الفاظ اور معانی نہیں صرف نقوش ہیں‘‘۔ اسی وجہ سے صاحبِ ہدایہ ، شامی اور فتاویٰ قاضی خان میں لکھ دیاکہ’’ علاج کیلئے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے‘‘۔ علماء نے تردید کرنے کے بجائے تائیدکا سلسلہ اب بھی جاری رکھا ہواہے۔علامہ اقبالؒ نے کہا:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
لوگوں کی راۓ