پوسٹ تلاش کریں

افغان طالبان کے لیے اسلامی آئین میں خواتین کے حقوق کے لیے چند بنیادی نکات

افغان طالبان کے لیے اسلامی آئین میں خواتین کے حقوق کے لیے چند بنیادی نکات اخبار: نوشتہ دیوار

افغان طالبان کیلئے اسلامی آئین میں حقوق خواتین کے چند بنیادی نکات

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

1:خواتین کا درست شرعی پردہ
ےٰا ایھا النبی قل لازواجک وبنٰتک و نسآء المؤمنین… O
ترجمہ” اے نبی! اپنی بیبیوں،اپنی بیٹیوں اور مؤمنوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکایا کریں تاکہ وہ پہچانی جائیں تو انہیں تکلیف نہ دی جائے۔بیشک اللہ بخشنے والا رحم والا ہے۔(الاحزاب:58، 59)
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمَْ …(سورہ نور:30، 31)
ترجمہ: ”مومنوں سے کہہ دیں کہ اپنی نظریں نیچی رکھیںاور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔ یہ ان کیلئے زیادہ پاکیزگی ہے اور اللہ جانتا ہے جو وہ اپنی طرف سے گھڑتے ہیں اور مومنات سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں ۔ اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کسی کے سامنے نہ دکھائیں مگر جو ان میں سے ظاہر ہوجائے۔ اور اپنی چادروں کو اپنے سینوں پر ڈالیں اور اپنی زینت کو نہیں دکھائیں مگر اپنے شوہروں کے سامنے یا اپنے باپ کے سامنے یا شوہروں کے باپ کے سامنے یا بیٹوں کے سامنے یا شوہروں کے بیٹوں کے سامنے یا بھائیوں کے سامنے یا بھتیجوں کے سامنے یا بھانجوں کے سامنے یا اپنی عورتوں کے سامنے یا جن کے مالک ان کے معاہدے ہوں یا ان تابع مردوں کے سامنے جن میںرغبت نہ ہو یا ان بچوں کے سامنے جو عورتوں کے پوشیدہ رازوں سے واقف نہیں اور اپنے پیر نہ پٹخیں تاکہ چھپی ہوئی زینت کا پتہ چلے اور اللہ کی طرف سب توبہ کرو اے مومنو! ہوسکتا ہے کامیاب ہوجاؤ”۔
جب طالبان کے روایتی پردے کا تصور اجاگر ہوتا ہے تو ان آیات پر عمل کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ اسلئے کہ نظروں کی حفاظت کا ماحول نہیں ہوتا۔
اللہ نے مسلمان عورتوں کو اپنی زینت چھپانے کا حکم دیا ہے لیکن کافروں پر زبردستی پردہ کرانے کی بات تو بہت دور کی ہے مسلمانوں پر بھی زبردستی نہیں تھوپی ہے۔ سعودی عرب اور ایران نے جس بات کواسلامی حکم سمجھ کر عمل کرانا شروع کیا تھا تو اس کا قرآن وسنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ طالبان ان کی تقلید نہیں کریں اور عورتوں کو آزادی اور تحفظ دیں تو ان کی ساری مشکلات ختم ہوجائیں گی۔
عورت کی زینت کو اردو میں ” حسن النسائ” کہتے ہیں۔ عورتوں کی اضافی چیز حسن النساء ہے۔ یہی ان کی زینت ہے۔ عورت اپنے شوہر اور اپنے محرموں کے سامنے دوپٹہ نہ لیں تو قرآن نے اجازت دی ہے۔ مسلمان عورتوں کی اکثریت اسلام کے فطری حکم پر عمل کرتی ہے۔ دوپٹہ لینا بھی خواتین کیلئے مشکل ہے۔ مخلوط معاشرے میں خواتین اہتمام کرتی ہیں۔ خاتون صحابیہ جب وہ گھر سے باہر نکلنے لگیں تو دوپٹہ لے لیا”۔ (بخاری)یعنی اپنے گھر میں دوپٹہ نہ تھا۔
دورنبویۖ میں عورتیںرفع حاجت، لکڑیاں لینے، پانی بھرنے، پنج وقتہ نماز، اقرباء کے ہاں جاتیں۔طواف، حج وعمرہ، مجاہدین کی خدمت کرتی تھیں۔ مدارس ،،دفاتر، کالج ویونیورسٹیوں کا وجود نہ تھا لیکن جس معاشرے کا زمانہ تھا تو مرد کے شانہ بشانہ عورت کی سرگرمیاں تھیں۔ غلام اور لونڈی کا وجود تھا۔ لونڈیوں کا لباس بہت مختصر ہوتا تھا۔ فقہ کی کتابوں میں ان کا فرض ستر بہت کم ہے۔ جب طالبان قرآن وسنت کی طرف دیکھ لیں تو کامیاب نظام بنانے میں دیر نہ لگے۔

2:خواتین کو تحفظ فراہم کرنا
لَّئِنْ لَّمْ یَنْتَہِ الْمُنَافِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھم……
اگر باز نہیں آتے منافقین اور جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہے اور افواہیں اُڑانے والے شہر میں تو ہم تجھے ان پر مسلط کردیں گے، پھر یہ آپ کے پڑوسی نہیں رہیں گے مگر تھوڑی مدت۔ملعون ہیں ،جہاں پائے گئے پکڑے جائیں قتل کئے جائیں بے دریغ قتل ۔یہ اللہ کی سنت رہی ہے پہلے لوگوں میں بھی اور آپ اللہ کی سنت کو بدلا ہوا نہیں پاؤ گے” (سورۂ احزاب ،آیات:61، 62)
اگر طالبان نے یہ تأثر قائم کردیا کہ انکے اقتدار میں جبر کا ماحول نہیں تو دنیا سے سارے افغانی واپس آجائیں گے۔ سورۂ احزاب کی آیات کے مطابق اگر کفار کی خواتین اپنے سینوں پر دوپٹے نہ بھی لیں تو یہ ان کی مرضی ہے اور اگر مسلمان خواتین اس حکم پر عمل نہ کریں تو بھی ان کو مجبور کرنے کا اللہ نے حکم نہیں دیا۔ اگر طالبان نے اس آیت کے حکم کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا شروع کیا تو افغانستان گھٹن کے ماحول سے نکلے گا۔ طالبان کو مشورہ ہے کہ قرآنی آیات کو سمجھ کر اس کو فوراً عملی جامہ پہنائیں۔ خواتین کو لباس کی آزادی ہو تو پھر یہ مرحلہ آئیگا کہ عورت شکایت کرے گی کہ اس کو ستایا گیا تو عورت کو تحفظ دیا جائیگا۔ اللہ نے قرآن میں واضح فرمایا ہے کہ اگر منافقین عورتوں کے ستانے سے نہیں رُکے اور جن کے دلوں میں مرض ہے وہ نہیں رُکے عورتوں کو ستانے سے اور شہرمیں افواہیں پھیلانے والے باز نہیں آئے تو یہ بہت کم مدت تک آپ کے پڑوس میں رہ سکیں گے۔ یہ ملعون ہیں جہاں بھی پائے جائیں پکڑے جائیں اور ان کو بے دریغ قتل کیا جائے۔ یہ پہلے لوگوں میں بھی اللہ کی سنت رہی ہے اور اللہ کی سنت بدلتی نہیں ہے۔
جب خواتین کو ستانے والوں کو ملعون قرار دیکر قتل کا حکم تھا اور اس پر طالبان افغانستان میں عمل کرکے دکھائیں تو دنیا بھر میں عورت مارچ کرنے والی خواتین طالبان کے نظام کا مطالبہ کریںگی۔ امیر المؤمنین ہیبت اللہ اخونزادہ اعلان کردیں کہ اسلام آباد ، لاہور، کراچی اور پاکستان کے دیگر شہروں میں 8عورت مارچ منانے والے افغانستان کے کابل، قندھار، جلال آباد اور دوسرے شہروں میں اس دن کے منانے کا اہتمام کریں۔جس طرح شیعہ کے جلوسوں کو ہم نے تحفظ دیا تھا اسی طرح سے عورت مارچ والوں کو بھی تحفظ دیں گے۔
امریکہ و نیٹو کے جانے کے بعد افغانستان کو فتح کرنے کیلئے اپنے بھائیوں کو نیچا دکھانے سے بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ البتہ پنجشیر سمیت پورے افغانستان کی تمام لسانی اور مذہبی اکائیوں کو متحد ومتفق ہوکر ایک نظام اور ایک پرچم تلے اکٹھا ہونے کی بہت سخت ضرورت ہے۔ رسول اللہۖ نے مکہ کو فتح کیا تو جنہوں نے صحابہ کرام کے گھروں پر قبضہ کررکھا تھا ان سے گھر واپس نہیںلئے۔ 3 دن سے زیادہ صحابہ کے مکہ میں رہنے پر پابندی لگائی۔ خانہ کعبہ کی چابیاں اسی کے پاس رہنے دیں جسکے پاس تھیں۔مکے کا ہی ایک مخالف شخص گورنر بنادیا گیا۔ زبردستی سے کسی کیساتھ زیادتی کا تصور ختم کردیا۔ ( ایک عالم ہے ثناء خوان آپ ۖکا)باہمی رضا سے تین دن تک متعہ کی اجازت دی ( صحیح مسلم) ،جس کا تصور بھی مغرب کی افواج نہیں کرسکتی ہیں جنگ کی حالت میں وہ انسانی حقوق اپنے سب سے بدترین اور جاہل دشمنوں کو دیدئیے گئے۔ طالبان قرآن اور نبیۖ کی سیرت پر چلنے کا اعلان کریں تو کامیابی قدم چومے گی۔
جب ایک عورت صبح کی نماز کیلئے نکلی اور اس کے ساتھ کسی نے جبری جنسی تشدد کیا تو نبیۖ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ اس کیلئے گواہ طلب نہ کئے بلکہ عورت کی شکایت پر اس کی داد رسی کرکے نشانِ عبرت بنادیا گیا۔

3:شرعی پردے کا مروجہ غلط تصور
لَّیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَج وَّلَا عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَج وَّلَا عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَج وَّلَا عَلٰی اَنْفُسِکُمْ اَنْ تَاْکُلُوْا مِنْ بُیُوْتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اٰبَآئِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اُمَّہَاتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اِخْوَانِکُمْ…. (سورہ النور61)
ترجمہ: ”کسی نابینا پر حرج نہیں اور نہ دونوں پیر کے لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ مریض پر کوئی حرج ہے اور نہ تمہاری اپنی جانوں پر کوئی حرج ہے کہ کھاؤ اپنے گھروں میں یا اپنے باپوں کے گھروں میں یا اپنی ماؤں کے گھروں میںیا اپنے بھائیوں کے گھروں میں یا اپنی بہنوں کے گھروں میں یا اپنے چچوں کے گھروں میں یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں میںیا ماموں کے گھروں میں یا خالاؤں کے گھروں میں یا جن کی چابیوں کے تم مالک ہو۔ یا اپنے دوستوں کے ہاں ، کوئی گناہ نہیں کہ تم اکھٹے کھاؤ یا الگ الگ کھاؤ۔ پس جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے نفسوں پر سلام کرو۔ یہ اللہ کی طرف سے مبارک پاک استقبالیہ ہے اس طرح سے اللہ تعالیٰ اپنی آیات کو بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھو”۔
ان آیات میں اجنبی افراد میں سے نابینا ، دونوں پاؤں سے لنگڑا اور مریض سے معاملہ شروع کیا گیا ہے اور پھر اپنے گھروں سے لیکر اپنے متعلقین کے تمام رشتوں اقارب اور احباب کے ساتھ کھانے کی اجازت دی گئی ہے۔ دنیا کی ہر قوم کی طرح مسلمانوں کو بھی عزیز و اقارب کے فطری رشتے سے بھرپور طریقے سے تعلقات نبھانے کی اجازت دی گئی ہے۔ چچا ، ماموں، پھوپھی اور خالہ کے گھروں میں مشترکہ کھانے کی اجازت سے غلط شرعی پردے کا بھانڈہ پھوٹتا ہے اور جن لوگوں نے تصنع کرکے من گھڑت مسائل بنائے ہیں ان کے غلط تصورات سے مسلمانوں کو کھلے الفاظ میں نجات دلائی گئی ہے۔
طالبان کے علماء ومفتیان کے نزدیک شرعی پردے کاتصور یہ ہے کہ بھائی ، چچا، ماموں اور قریبی اقارب نامحرموں سے اپنی بیگمات کا پردہ کروایا جائے لیکن علماء ومفتیان جانتے ہیں کہ ایک گھر میں کئی کئی بھائی رہتے ہیں۔ ماموں، چچا، ماموں زاد اور چچازاد سے شرعی پردے کا تصور نہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا ہے کہ ” ہمارے ہاں مروجہ پردہ اشرافیہ کا پردہ ہے، شریعت کا اس سے تعلق نہیں ہے۔ غریب پردہ کرنے کی اور اپنی خواتین کو پردہ کرانے کی اوقات نہیں رکھتا ہے”۔ قرآن میں تابع افراد سے سید مودودی نے مراد نوکر چاکر لئے ہیں۔ بخاری میں ہے کہ دلہن اور دلہا دونوں صحابہ کرام اور نبیۖ کی دعوت میں خدمت کررہے تھے۔ رسول اللہۖ نے چچی فاطمہ بن اسد والدہ محترمہ حضرت علی کی میت کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا اور فرمایا کہ ” یہ میری ماں ہے”۔ مفتی طارق مسعود کی ویڈیوز میں جہالتوں کو سن کر حیرانگی ہوگی۔
حدیث میں دیور کو موت کہا گیا تو مقصد یہ ہے کہ بھائی ایک گھر میں رہتے ہیں ،اختلاط رہتا ہے اور ان کو احتیاط برتنے کی اسی بنیاد پر تلقین کی گئی لیکن جب بھائی کیا چچا، ماموں، پھوپھی اور خالہ کے گھر میں مشترکہ کھانے کی اجازت ہے تو پھر پردے کا وہ تصور باقی نہیں رہتا جو مولوی نے سمجھا ہے اور جس پر مولوی عمل نہیں کرتا مگر جب موقع ملتا ہے تو دوسروں پر بھی زبردستی اپنا حکم مسلط کرتا ہے۔

4:نکاح وایگریمنٹ کا تصور
سعودیہ، مصر میں مسیار اور ایران میں متعہ ہے ، قرآن میں اوماملکت ایمانکم (جنکے مالک تمہارے معاہدے ہوں) ۔ مغرب میں یہ فرینڈشپ ہے اور قرآن وسنت میں نکاح و ایگریمنٹ کا الگ الگ تصورہے۔ حنفی مسلک میں قرآن کی خبر واحد آیت کے حکم میں ہے۔ عبداللہ بن مسعود کے مصحف میں والمحصنٰت من النساء الا ماملکت ایمانکم کتب اللہ علیکم واُحل لکم ماوراء ذٰلکم ان تبتغواباموالکم محصنین غیرمسٰفحین فمااستمتعتم بہ منھن (الی اجل مسمٰی) ……O
ترجمہ ”اوربیگمات عورتوں میں سے مگر جنکے مالک تمہارے معاہدہ ہوں، اللہ کا لکھاہے تمہارے اُوپر اور انکے علاوہ تمہارے لئے سب حلال ہیں تلاش کرواپنے اموال کے ذریعے نکاح کی قید میں لاکر نہ کہ خرمستیاں کرتے ہوئے۔ پس ان میں سے جن سے تم فائدہ اٹھاؤ( مقررہ مدت تک) تو ان کو ان کامعاوضہ دو ایک مقررہ۔اور تمہارے اوپر کوئی گناہ نہیں کہ مقرر کردہ میں باہمی رضا سے کچھ کمی بیشی کرلو اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ اور جو تم میں سے (بیوہ وطلاق شدہ) بیگمات سے بھی نکاح کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو پھر تمہاری وہ لڑکیاں جو تمہارے معاہدے والی ہوں( لونڈیاں یا متعہ ومسیار والیاں) ۔اللہ تمہارے اِیمان کو جانتا ہے ، تم میںبعض بعض سے ہیں۔( آدم وحواء اور ابراہیم وحاجرہ کی اولاد ہو)اور ان سے نکاح کرو،انکے اہلخانہ کی اجازت سے اور ان کا معروف اجر دیدو، ان کو نکاح کی قید میں لاکر نہ کہ خرمستیاں نکالنے کیلئے اور نہ چھپی یاری کیلئے اور جب تم انہیں نکاح کی قید میں لاچکے اور پھر وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں توان پر آدھی سزا ہے ،عام شریف عورتوں کی نسبت اور یہ ان کیلئے ہے جو تم میں مشکل میں پڑ نے سے ڈرتے ہوں اور اگر تم صبر کرلو( سزا نہ دو) تو تمہارے لئے بہتر ہے اور اللہ غفور رحیم ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارے لئے واضح کرے طریقے ان لوگوں کے جو آپ سے پہلے تھے اوراللہ چاہتا ہے کہ تمہارے اوپر توجہ دے اور جاننے والا حکمت والا ہے۔ اور اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے اوپر توجہ دے اور جولوگ اپنی خواہشات کے تابع بنے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم بڑے میلان کا شکار ہوجاؤ۔ اور اللہ چاہتا ہے کہ تمہارا بوجھ کم کردے اور انسان کو کمزور پیدا کیا گیا ”۔ النساء آیات
چوتھے پارہ کے آخر میںمحرمات کی فہرست اور پانچویں پارہ کے شروع میں بیگمات کا ذکر ہے مگر جن سے ایگریمنٹ ہوجائے۔ بیگمات سے کیا مراد ہے؟۔ اس پر صحابہ کے دور سے جمہور اور شخصیات میں اختلاف ہے۔ انگریزی اور اردو میں شادی شدہ پر بیگم کا اطلاق ہوتا ہے اور شوہر کیساتھ تعلق ہو یا بیوہ اور طلاق شدہ بن جائے تو وہ بیگم کہلاتی ہے۔ بیوہ یا طلاق شدہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے تو اسی شوہر سے منسوب ہوتی ہے۔ قیامت کے دن بھی بیوہ اپنے اسی شوہر کی بیوی ہوگی جس کی وفات کے بعد اس نے کسی اور سے شادی نہ کی ہو۔ یہ قرآن وسنت اور معروف مروجہ قوانین میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں ۔ قرآن کا حکم ہے کہ بیوہ کا نکاح کراؤ اور نشان حیدر والے کی بیوہ کے مراعات کا مسئلہ ہوگا تو ترجیح کا اختیار بیوہ کو ہوگا۔ اور ایگریمنٹ اس کیلئے زیادہ مفید ہوگا۔قرآن کی اس رہنمائی سے پاک فوج ، بیروکریٹ اور دنیا بھر کے لوگ فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
جب نبیۖ کو کسی اور عورت سے قرآن میں نکاح سے منع کیا گیا تو پھر بھی ایگریمنٹ کی اجازت دی گئی۔ حضرت ام ہانی نے ہجرت نہیں کی تھی اسلئے اللہ نے فرمایا کہ وہ چچازاد بیٹیاں آپ کیلئے حلال ہیں جنہوں نے آپکے ساتھ ہجرت کی۔ ام ہانی کیساتھ ایگریمنٹ کی اجازت تھی لیکن ازواج میں غلط شمار کیا گیا۔

5:مرد اور عورت کایکساں حق
دنیا بھر میں بیوہ کو شوہر کی پینشن ملتی ہے لیکن اگر دوسرا نکاح کرلے تو پینشن کے حق سے محروم ہوگی۔ ایسی بیگمات کو محرمات کی قرآنی فہرست کے آخر میں رکھا ہے لیکن ان سے ایگریمنٹ جائز ہے تاکہ یہ بیگمات پینشن سے محروم نہ ہوں۔ اگر عورت کسی شخص کی نسبت سے محروم ہونے پر راضی نہ ہو تو بھی ایگریمنٹ کی اجازت ہے۔ اگر طلاق شدہ بیگم ہو۔جس طرح وزیراعظم عمران خان کی بیگم جمائما خان ہے اور یا بیوہ ہو جیسے ذوالفقار علی بھٹو کی شیعہ بیگم نصرت بھٹو تھیں۔
لونڈی و غلام پر ماملکت ایمانکمکا اطلاق ہوتا ہے مگر جیسے فانکحوا ماطاب لکم من النساء …..اوماملکت ایمانکم میں ملکت ایمانکم سے غلام مراد نہیں ہوسکتے ہیں، اسی طرح لونڈیوں سے زیادہ ایگریمنٹ والی عورتیں مراد ہوسکتی ہیں۔ اسلئے کہ لونڈیوں کے نکاح کرنے کا حکم ہے۔
والمحصنٰت من النسا ء الاما ملکت ایمانکم میںبھی لونڈی کی جگہ ایگریمنٹ لینا واضح ہے۔ اگر شادی شدہ لونڈی مراد لی جائے تو اختلاف ہوسکتا ہے اور جہاں جنگ میں کوئی لونڈی بن جائے تو شادی شدہ ہونے کے باوجود تعلق جائز ہو گا؟ یہ بھی محل نظر ہے۔ اللہ نے قیامت تک ہر دورکی بہترین رہنمائی کی ہے ۔
اللہ نے انسان کو ضعیف قرار دیا اور سب سے زیادہ انسان جنسی خواہشات کے حوالے سے کمزور ہے۔ حضرت آدم و حواء کو جنسی خواہش سے منع کیا گیا تو اپنی ضعیف فطرت سے مجبور ہوکر بچ نہیں سکے۔صحابہ کرام نے روزوں کی راتوں میں ناجائز سمجھ کر بھی اپنی بیگمات سے جماع کیا اور دن میں روزہ بھی بیگم سے جماع کی وجہ سے توڑا تھا۔ اللہ نے لونڈی یا متعہ والوں سے بہتر بیوہ یا طلاق شدہ کو قرار دیا۔ لیکن اگر متعہ والی یا لونڈی سے نکاح کیا تو اسکو کمتر سمجھنے سے منع کیا گیا ہے اسلئے کہ انسان خود بھی نطفۂ امشاج ماں باپ کے رلے ملے نطفے سے پیدا ہوا ہے۔تکبر اور پاک بازی کے دعوے اس کو بالکل بھی زیب نہیں دے سکتے ہیں۔
کچھ عورتیں اپنی صنفی کمزوری اور پرکشش جسم کے سبب ہر دور میںمشکل کا شکار رہی ہیں اور معاشی مجبوری اور معاشرتی رویوں سے اپنی پوزیشن کھو بیٹھی ہیں۔ امریکی ہوٹل میں کام کرنے والی خوبرو امریکی دوشیزہ نے ایک پاکستانی کونکاح کے مطالبے پر جواب دیا کہ ”10 ہزارڈالرمہینے کے عوض شادی کرسکتی ہوں”۔ اگر وہ مستقل شادی کی جگہ ایک مقررہ وقت تک ایگریمنٹ کرتی ہے تو اس کا راستہ نہیں روکا جاسکتا۔ قرآن نے دونوں صورت میں عورت کا لحاظ رکھا ہے۔ لڑکی لونڈی ہو، متعہ والی ہو،مسیار والی ہو ، گرل فرینڈ ہو اور داشتہ ہو لیکن ترجیحات میں ان عورتوں کو رکھا ہے جو بیوہ وطلاق شدہ ہونے کے باجود بھی عزت کی حفاظت کرنے والی ہو اور کسی کے پاس اتنی طاقت بھی نہ ہو تو پھر ایگریمنٹ والی سے بھی نہ صرف ان کے اہلخانہ کی اجازت سے نکاح کا حکم ہے بلکہ ان کو کم تر سمجھنے کو بھی روکا گیا اور ان سے یہ رویہ بھی روا رکھنے کا حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی طرح کھلی فحاشی کی مرتکب ہوں تو پھر عام شریف عورتوں کی بہ نسبت آدھی سزا ہے اوراس میں بھی ایسی لڑکیوں سے در گزر کرنے کو ترجیح دی گئی ہے۔

6:آدھی اور پوری سزا کاتصور
نکاح کے حق مہر اور ایگریمنٹ کے معاوضے میں بہت بنیادی فرق ہے اور ایک مستقل رشتے اور وقتی پلاؤ میں فرق فطرت کا بھی تقاضہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کے مصحف میں استمتاع کیساتھ ”ایک مقررہ وقت” کا اضافہ بھی ہے۔ حنفی مسلک کے نزدیک یہ آیت کے حکم میں ہے ۔ ابن مسعود کا کوئی الگ مصحف نہ تھا۔ متعہ کے مقررہ وقت تک ابن مسعودنے تفسیر لکھی ۔ بخاری و مسلم میں ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے نہ صرف متعہ کی اجازت دی بلکہ اس کی یہ علت بھی واضح فرمادی کہ لاتحرموا ما احل اللہ لکم من الطیبٰت (حرام مت کرو ،جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے طیبات میں سے)۔ جس طرح جلالین کی تفسیر میں قرآنی آیات کیساتھ تفسیری نکات سطور میں لکھی گئی ہیں اسی طرح ابن مسعود نے بھی تفسیر لکھی ہے۔
علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب ” زاد المعاد” میں لکھا ہے کہ” حضرت عبداللہ بن زبیر نے کہا کہ متعہ زنا ہے تو حضرت علی نے فرمایا کہ آپ خود بھی اسی متعہ ہی کی پیداوار ہیں”۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نبیۖ پر دوسری خواتین سے نکاح کی ممانعت کردی لیکن ایگریمنٹ کی اجازت دیدی۔ حضرت ام ہانی نے ہجرت نہیں کی تھی اور اس نے نبیۖ کی طرف سے نکاح کی دعوت کو بھی قبول نہیں کیا تھا، فتح مکہ کے بعد اس کا شوہر چھوڑ کر گیا تو نبیۖ نے نکاح کی دعوت دی تھی لیکن آپ نے عرض کیا کہ میرے بچے بڑے ہیں اور ان کی وجہ سے مجھے دوسرا نکاح گوارا نہیں ۔ پھر قرآن میں آیات نازل ہوئیں کہ ” اے نبی! ہم نے تیرے لئے ان چچااور خالہ کی بیٹیوں کو حلال کیا ہے جنہوں نے آپ کیساتھ ہجرت کی تھی اور جن کو تمہارے لئے غنیمت بنایا ہے”۔ اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ تم لوگ بھی کافر عورتوں سے چمٹنے کے بجائے ان کو چھوڑ دو۔ مسلم خواتین ہجرت کرکے شوہروں کو چھوڑ رہی تھیں تو اللہ نے حساب برابر کیا۔ قرآن کا صحیح ترجمہ وتفسیر ہو تو مسلمان نہیں کافر بھی مان جائیں۔ علماء ایک ٹیم تشکیل دیں جس کو حکومت کی سطح پر سرپرستی بھی حاصل ہو۔
علامہ بدرالدین عینی کے حوالے سے علامہ غلام رسول سعیدی نے نبیۖ کی 28ازواج اور 27کا نام نقل کیا ہے اور ان میں ام ہانی اورامیر حمزہ کی بیٹی کا بھی ذکر ہے جس کا نبیۖ نے فرمایا کہ یہ میری بھتیجی ہے۔ قرآن میں ہجرت نہ کرنے والیوں کیلئے حلال نہ ہونے کی منطق کے بعد جب نبیۖ نے ام ہانی سے ایگریمنٹ کا تعلق رکھا ہوگا تو پھر حضرت علی نے متعہ کی بنیاد پر اس پیشکش کو جائز سمجھا ہوگا۔ اسی طرح ام المؤمنین ام حبیبہ نے صحیح بخاری کے مطابق اپنی سابقہ بیٹیوں کو پیش کردیا تھا جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ ”ان کو مجھ پر پیش نہ کرو ،یہ میرے لئے حلال نہیں ہیں”۔ مولانا سلیم اللہ خان نے بخاری کی اپنی شرح کشف الباری میں بہت سارے علمی انکشافات کئے ہیں اور ان کا حل کئے بغیر طالب علموں اور علماء ومفتیان کو تشویش میںچھوڑنا بہت خطرناک ہوگا۔
شادی شدہ ایگریمنٹ والی کیلئے آدھی سزا ہے اور سورۂ نور میں زانیہ اور زانی کیلئے 100، 100کوڑوں کی سزا ہے۔ سزائے موت آدھی نہیں ہوسکتی ہے لیکن100کے آدھے 50کوڑے ہیں۔ نبیۖ کی ازواج مطہرات کیلئے قرآن میں دوھری سزا کا ذکر ہے جو ڈبل سنگساری نہیں بلکہ 200 کوڑے ہوسکتے ہیں۔ شادی شدہ اور غیرشادی شدہ کیلئے بدکاری پر ایک ہی سزا ہے اور وہ 100کوڑے ہیں اور اس پر علامہ مناظر احسن گیلانی نے اپنی کتاب ” تدوین القرآن” میں بڑے زبردست دلائل دئیے ہیں جو بنوری ٹاؤن کراچی نے بھی شائع کردی ہے۔

7:مرد اور عورت کی یکساں سزا
سُوْرَة اَنْزَلْنَاہَا وَفَرَضْنَاہَا وَاَنْزَلْنَا…… O(سورہ النور: 1، 2، 3)
ترجمہ: ”یہ سورة ہم نے نازل کی ، فرض کی، اس میں کھلی آیات نازل کیں، شاید کہ تم نصیحت حاصل کرو۔ زانیہ اور زانی میںہر ایک کو سوَ سوَ کوڑے مارو۔ اور تمہیں ان پر اللہ کے دین کی وجہ سے نرمی نہیں برتنی چاہیے اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور ان پر مؤمنوں کا ایک گروہ گواہ بھی بن جائے۔ بدکارمرد نکاح نہ کرے مگر بدکار عورت کیساتھ یا مشرکہ کیساتھ اور بدکار عورت کا نکاح نہ کرایا جائے مگر بدکار مرد یا مشرک سے۔ اور یہ مؤمنوں پر حرام کیا گیا ہے”۔
ان آیات میں بدکاری پر عورت اور مرد کی بالکل یکساں سزا رکھی گئی ہے اور معاشرتی بنیاد پر بھی عورت اور مرد کو یکساں طور پر مسترد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مرد جتنے بھی بدکردار ہوں تو ان کو عورت نیک چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس روئیے کو بالکل مسترد کرکے فرمایا ہے کہ یہ مؤمنوں پر حرام کردیا گیا ہے۔ معاشرے میں اتنا عدم توازن ہے کہ عورت کنواری ہو یا شادی شدہ اس کو بدکاری کے شبے پر بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ اور مرد بدکاری میں شادی شدہ ہونے کے باوجود مشہور ہو تو بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑا جاتا ہے۔
ان واضح آیات کے باوجود شادی شدہ مرد و عورت کیلئے سنگساری کی سزا کا تصور غلط ہے۔ جس طرح خانہ کعبہ کی طرف رُخ کرنے سے پہلے بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھی جاتی تھی اسی طرح سورہ النور کی آیات نازل ہونے سے پہلے اہل کتاب کے مطابق توراة میں شادی شدہ کیلئے سنگسار کرنے پر عمل ہوا۔ ایک صحابی سے پوچھا گیا کہ سورہ نور کی آیات کے بعد بھی سنگساری پر عمل ہوا؟۔ تو انہوں نے جواب دیاکہ میرے علم میں نہیں۔ ( صحیح بخاری)
اگر مان لیا جائے کہ الشیخ و الشیخة اذا زنیا فارجموھما ”جب بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت بدکاری کریں تو ان کو سنگسار کردو”۔ غیر تحریف شدہ توراة کی آیت ہے تو بوڑھے شادی شدہ اور کنوارے زد میں آئیں گے اور جوان کنوارے یا شادی شدہ زد میں نہیں آئیں گے۔ جب اللہ نے واضح کیا ہے کہ توراة میں تحریف ہوئی ہے اور قرآن محفوظ ہے تو قرآن کے مقابلے میں توراة کو اپنے نصاب میں شامل کرنا کتنی غلط بات ہے؟۔ ابن ماجہ کی روایت ہے کہ جب رسول اللہ ۖ کا وصال ہوا تو آپۖ کی چارپائی کے نیچے رجم اور رضاعت کبیر کی دس آیات تھیں جو بکری کے کھاجانے سے ضائع ہوگئیں۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا کہ اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ کہا جائیگا کہ عمر نے قرآن پر اضافہ کیا ہے تو رجم کی آیات اس میں لکھ دیتا۔ یہ کھلا تضاد ہے۔ اگر آیات بکری کے کھا جانے سے ضائع ہوتیں تو حضرت عمر نے قرآن میں لکھ دینی تھیں۔
طالبان سب سے پہلے ایک عظیم الشان یونیورسٹی کا اعلان کریں جس میں قرآن وسنت کی تعلیمات کا بالکل واضح تصور ہو۔تضادات کا معاملہ ختم ہوجائے اور متفقہ اور قابلِ عمل آیات اور احادیث دنیا کے سامنے آجائیں۔ فرقہ واریت اور مسلک پرستی کی جگہ قرآن وسنت کی تعلیمات عام ہوں۔دارالعلوم دیوبندکے شیخ الحدیث مولانا انور شاہ کشمیری نے کہا تھا کہ میں نے ساری عمر ضائع کردی۔

8:غیرت میں قتل کا ممنوع ہونا
وَالّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُہَدَآئَ فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَةً وَّّلَا تَقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَةً اَبَدًا وَاُولٰئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ Oاِلَّا الّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر رَّحِیْم Oوَالّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُنْ لّہُمْ شُہَدَآئُ اِلَّآ اَنْفُسُہُمْ فَشَہَادَةُ اَحَدِہِمْ اَرْبَعُ شَہَادَاتٍ بِاللّٰہِ اِنَّہ لَمِنَ الصَّادِقِیْنَ Oوَالْخَامِسَةُ اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰہِ عَلَیْہِ اِنْ کَانَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ Oوَیَدْرَاُ عَنْہَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْہَدَ اَرْبَعَ شَہَادَاتٍ بِاللّٰہِ اِنَّہ لَمِنَ الْکَاذِبِیْنَ Oوَالْخَامِسَةَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰہِ عَلَیْہَآ اِنْ کَانَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ O
ترجمہ: ” اور جو لوگ بیگمات پر بہتان باندھتے ہیں اور پھر وہ چار گواہ لیکر نہیں آتے تو ان کو اسّی کوڑے لگائیں۔ اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کریں۔ اور یہی لوگ فاسق ہیں۔ مگر جن لوگوں نے اسکے بعد توبہ کی اور اپنی اصلاح کرلی تو بیشک اللہ غفور رحیم ہے۔ اور جو لوگ اپنی ازواج پر بات مارتے ہیں اور ان کے پاس کوئی گواہ نہیں ہیں مگر وہ خود تو پھر ان میں کسی ایک کی چار گواہیاں ہوں گی کہ بیشک وہ سچا ہے اور پانچویں یہ کہ اللہ کی لعنت ہو اس پر اگر وہ جھوٹا ہے۔اور اس عورت کو سزا نہ ہوگی اگر وہ چار گواہیاں دے کہ خدا کی قسم وہ جھوٹوں میں سے ہے۔ اور پانچویں یہ کہ اللہ کا غضب ہو اس پر اگر وہ سچا ہو۔ (النور: 4تا 9)
اکثر و بیشتر اوقات کسی مرد کی عزت پر حملہ کرنے کیلئے اس کی بیگم پر بہتان لگایا جاتا ہے یا عورت کو اپنے شوہر کے سامنے بے وقعت بنانے کیلئے بہتان لگایا جاتا ہے اسلئے بطور خاص دوسروںکی بیگمات پر بہتان لگانے کی سزا اسّی کوڑے ہے۔ جبکہ اپنی بیگم پر بہتان لگانے کی صورت میں عورت کیساتھ مرد کی عزت بھی ٹھکانے لگتی ہے۔ قرآن میں بہتان پر اسّی اور بدکاری پر سَو کوڑے کی سزا کا حکم ہے۔ اگر عورت اپنے شوہر کو جھٹلاتی ہے تو اس سے سز ا اُٹھادی جائے گی۔ یہاں عورت کی گواہی کو مرد کے مقابلے میں زیادہ اثر انداز قرار دیا گیا ہے۔ ان آیات میں عورت کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ اس پر بہتان لگانے کی بھی بڑی سزا ہے اور غیرت کے نام پر اس کو قتل بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اگر افغان طالبان نے ان آیات پر عمل کیلئے ساری دنیا کو آگاہ کیا تو دنیا بھر کی خواتین ان کا خیر مقدم کریں گی۔ جب برصغیر پاک و ہند پر برطانیہ نے قبضہ کیا تو تعزیرات ہند میں غیرت کی بنیاد پر شوہر کیلئے بیوی کو قتل کرنا جائز قرار دیا گیا تھا۔ ساڑھے چودہ سو سال پہلے قرآن نے عورتوں پر جو احسانات کئے ہیں اگر ان کو کھلے الفاظ میں دنیا کے سامنے لایا جائے تو یہ بہت بڑا انقلاب ہوگا۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اپنے رسم و رواج میں قرآنی آیات کی طرف کبھی توجہ دینے کی زحمت بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ قرآن کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے فقہی مسالک میں مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ قرآنی آیات پر سیدھے انداز میں عمل کرنے کے بجائے موشگافیوں میں لگ جاتے ہیں۔ پہلی اُمتیں بھی اس لئے گمراہی کا شکار ہوئی تھیں کہ اللہ کے واضح احکام کے مقابلے میں فرقہ واریت اور مسلکوں کے شکار ہوگئے اور آپس میں لڑ جھگڑ کر صراط مستقیم سے ہٹ گئے۔
نبیۖ کی زوجہ ام المؤمنین حضرت عائشہ پر بہتان لگانے کی سزا بھی اسّی کوڑے دی گئی اور ایک عام شخص کی بیگم پر بہتان کی سزا بھی اسّی کوڑے ہے تو اس سے اسلام میں اعلیٰ ترین مساوات کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ کوڑوں کی سزا غریب وامیر کیلئے یکساں ہے لیکن ہتک عزت میں پیسوں کا فرق یکساں نہیں اور غریب کیلئے دس لاکھ بھی بڑی سزا اور امیر کیلئے دس کروڑ بھی کچھ نہیں ہے۔ علماء نے کبھی قرآن کے مساوات کا نظام اپنا ووٹ حاصل کرنے کیلئے بھی پیش نہ کیا۔

9:اسلام کی بڑی روشن خیالی
سورۂ نور میں چشم دید گواہ ہونے کے باوجود بھی شوہر کو بیوی کے قتل سے روک کر لعان کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا روشن خیالی ہوسکتی ہے کہ جو قرآن ایک غیرتمند شوہر کو اپنی بیوی کی کھلی فحاشی پر بھی غیرت کے نام پر قتل سے روکتا ہے اور دوسری طرف کسی اجنبی خاتون کو بھی جبری جنسی زیادتی نہیں بلکہ محض تنگ کرنے اور اذیت پر بھی جہاں پایا جائے پکڑ کر قتل کیا جائے کا حکم دیتا ہے؟۔
جب علماء افغانستان میں قرآن کی آیات پڑھیں، کتاب کی تعلیم دیں اور ان کا تزکیہ کریں اور حکمت سکھادیں تو اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز ہوجائے گا اور دنیا کیلئے اس مثبت انقلاب کو روکنا مشکل نہیں بلکہ نا ممکن ہوگا۔ عورت کے حقوق پر ایک مختصر کتابچے میں مدلل بات کی ہے جس کو سمندر کی طرح خاموش پذیرائی بھی ملی ہے۔ ابھی تو عام لوگ اس مختصر علمی مواد کو سمجھنے سے قاصر ہیں ورنہ یہ ایک اپنی جگہ پر بڑا انقلاب ہے۔ تصویر کے جواز پر میری کتاب ”جوہری دھماکہ” نے ایک انقلاب برپا کیا تھا۔پہلے ہم نے جاندار کی تصویر کی سخت مخالفت کرکے ایک لہر پیدا کی تھی جس کو طالبان نے عملی جامہ پہنایا تھا۔ لیکن انہوں نے اسامہ بن لادن کو رعایت دی تھی اور یہی بلا ان کیلئے وبال جان بن گئی۔ طالبان نے بھی ہماری طرح جاندار کی تصویر کی مخالفت اور داڑھی منڈانے کے خلاف تشدد کا معاملہ چھوڑ دیا ہے۔ نماز کیلئے بھی زبردستی کے معاملات بالکل بھی نہیں ہیں۔
افغانستان کا اسلامی آئین بنانے میں قتل کے بدلے قتل، دانت کے بدلے دانت، کان کے بدلے کان، ہاتھ کے بدلے ہاتھ ، آنکھ کے بدلے آنکھ اور زخموںکا قصاص (بدلہ) بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح ڈکیتوں کو عبرتناک سزائیں دینے سے معاشرے میں سکون قائم ہوگا۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ” جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو ، تو انصاف سے فیصلہ کرو”۔ریاستوں کا بھاری بھرکم بوجھ عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔ طالبان ایسا نظام تشکیل دیں جس میں حکمران آقا اور رعایاعوام غلام نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں عورتوں اور مردوں کو ناحق ستانے والوں پر لعنت بھیجی ہے۔ لیکن عورتوں پر بہتان لگانے کی سزا کا حکم 80 کوڑے بیان کیا ہے۔ جس سے عورت کی عزت کا اسلام میں اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اگر بدکاری پر قرآن کے مطابق 100کوڑے اور بہتان پر 80 کوڑے کا حکم معاشرے میں سرِ عام زندہ ہوجائے تو بڑا انقلاب آئے گا۔
قرآن میں لونڈی اور غلام کیلئے بھی ماملکت ایمانکم کے الفاظ استعمال ہوئے اور کاروباری شراکت داروں کیلئے بھی۔ قرآن میں غلام کیلئے عبد اور لونڈی کے امة کا لفظ استعمال ہواہے۔ اللہ نے بیوہ وطلاق شدہ، عبد اور امة کا نکاح کرانے کا حکم دیا ۔ مشرکوں کے مقابلے میں مسلمان لونڈی اور غلام کو ترجیح دینے کا حکم بھی ہے۔ لاتعداد لونڈیوں کے رکھنے کا تصوربھی بالکل غلط تھا۔البتہ جس طرح لونڈیوں سے ایگریمنٹ اور نکاح کا تصور تھا اسی طرح آزاد عورتوں سے بھی ایگریمنٹ اور نکاح کا تصور تھا اور آزاد عورتوں کا بھی غلاموں سے نکاح اور ایگریمنٹ کا تصور ہوسکتاتھا۔ قرآن کی تفسیر کو غلط مفہوم نہ پہنایا جاتا تو پھر لونڈی کو جبری حرام کاری پر مجبور نہ کرنے کے غلط ترجمے بھی نہ کئے جاتے۔
صدروفاق المدارس مولانا سلیم اللہ خان نے ”کشف الباری”میں جو فقہی مذاہب سے عورت کی بے حرمتی کا بھانڈہ پھوڑا ہے وہ بھی قابل دیدہے۔
لکھا ہے کہ عورت کا نکاح سے پہلے کتنا حصہ دیکھنا چاہیے؟جمہور کے نزدیک صرف ہتھیلی اور چہرہ دیکھنا جائز ہے۔ امام اوزاعی کے ہاں شرمگاہ کے سوا پورے جسم کو دیکھنا جائز ہے اور ابن حزم کے نزدیک پورے جسم کو دیکھنا جائز ہے۔ دیکھنے کیلئے عورت سے اجازت کی بھی ضرورت نہیں ۔ (کشف الباری)

10:عورت کے حقوق کا جنازہ
مولانا سلیم اللہ خان نے طالبان پر احسان کرکے لکھ دیا ہے کہ ”کسی امام کے نزدیک بچی، عورت، کنواری، طلاق شدہ اور بیوہ سب پر اپنی مرضی مسلط کرکے ولی اسکا جبری نکاح کراسکتا ہے اور کسی کے نزدیک بچی اور کنواری پر زبردستی مسلط کرنا جائز ہے اور کسی کے نزدیک بالغہ کنواری اور بیوہ وطلاق شدہ پر زبردستی کرنا جائز نہیں، بچی پر زبردستی جائز ہے” (کشف الباری شرح بخاری)
مسلکی کاروبارکی یہ مارکیٹنگ قرآن واحادیث سے متصادم ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” کنواری سے پوچھ کر اس کی رضامندی سے اسکا نکاح کیا جائے لیکن زبان سے اس کااقرار خاموشی اور ہنسنا بھی ہے اور بیوہ وطلاق شدہ کا زبان سے اقرار اور اعتراف کے بعد اس کا نکاح کروایا جاسکتا ہے”۔( صحیح بخاری)
نکاح کیلئے قرآن میں نان نفقہ اور عدل وانصاف دینا شوہر کی ذمہ داری ہے اور ایسی صورت میں دودو،تین تین، چار چار عورتوں سے بھی نکاح کرسکتے ہیں مگر جب انصاف فراہم نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر ایک سے نکاح کیا جائے یا پھر جن سے ایگریمنٹ ہو۔ ایگریمنٹ سے مراد لونڈی نہیں اسلئے کہ لونڈی سے نکاح کا حکم ہے اور اسکے بھی نان نفقہ اور انسانی حقوق اسلام نے محفوظ رکھے تھے اور اگرلونڈی یا آزاد عورت سے ایگریمنٹ کیا جائے تو ہی انصاف فراہم کرنے کی ذمہ داری اس پر عائد نہیں ہوگی بلکہ ایگریمنٹ ہی کے مطابق ایکدوسرے کیساتھ معاملات طے ہوسکتے ہیں اور دونوں اپنے اپنے طور پر مکمل آزاد اور خود مختار ہوںگے ،البتہ طے شدہ ایگریمنٹ کے پابند ہونگے۔
عثمانی خلیفہ عبدالحمید کی حرم سرا میںساڑھے چار ہزار لونڈیوں کا جواز قرآن وسنت اور اسلام نہیں بلکہ یہ اسلام کو اجنبیت میں دھکیلنے کے کرتوت تھے۔محمد شاہ رنگیلا کا ننگی لڑکیوں کی چھاتیاں پکڑ پکڑکر بالاخانے کی سیڑھیاں چڑھنا بھی بہت برا تھا مگر سودی نظام کو جواز بخشنے اور اس پر چپ رہنے کا گناہ زیادہ بڑا ہے۔ ایسٹ انڈین کمپنی نے تجارت کے بہانے برصغیرپاک وہند پر قبضہ کیا اور اسلامی بینکاری نے ہمارے موٹر وے اور ائیر پورٹوں کو بھاری بھرکم سودی نظام کے تحت قبضہ کرنے کی بنیادیں فراہم کی ہیں۔آج ہماری فوج، پولیس، عدلیہ اور سول بیوروکریسی اپنے ملک وقوم کے ملازم اور ان کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں لیکن آنے والے کل کوIMF اور دیگر سودی مالیاتی اداروں کو یہی ملازم بھرپور تحفظ دینے پر مجبور ہوںگے۔ پہلے ہم نے غلامی کا نام آزادی رکھاتھااب پھر آزادی سے غلامی کے نرغے میں چلے جائیںگے۔ اسلئے ہوش کے ناخن لیں۔
طالبان جامعة الرشید کے نالائق مفتی عبدالرحیم اور نام نہاد شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے نرغے کا شکار نہیں بنیں۔ رسول اللہۖ نے سود کو جواز نہیں بخشا بلکہ جب تک مکہ فتح اور آخری خطبہ ارشاد نہیں فرمایا تو سودی نظام کو برداشت کیا لیکن جونہی معاملات پر دسترس حاصل ہوئی تو سب سے پہلے چچا عباس کے سود کو معاف کرنے کا اعلان فرمادیا۔ دارالعلوم کراچی نے اپنی کتابوں میں شادی بیاہ کے اندر لفافے کے لین دین کو سود قرار دیا اور ساتھ میں حدیث کا بھی حوالہ دیا کہ سود کے ستر سے زیادہ گناہوں میں سے کم ازکم گناہ اپنی سگی ماں سے زنا کے برابر ہے۔ پھرمعاوضہ لیکر بینکنگ کے سودی نظام کو جواز بخش دیاہے۔ وزیراعظم عمران خان نوجوانوں کو بلاسود قرضہ دینے کی بات کرتا ہے یا پھراسلامی سود کا؟۔مفتی محمد تقی عثمانی کی طرف سے ایک شخص کو جواب دیا گیا کہ ”ہم نے ہندوؤں کے رسم کی مخالفت کی تھی اور لفافے کے لین دین کا معاملہ ہم خود بھی کرتے ہیںلیکن عتیق گیلانی کو یہ نہیں بتایا جائے اسلئے کہ وہ بات کو دوسری طرف لے جائے گا”۔جبکہ ہم طالبان کی عدالت میں بھی ان کیساتھ پیش ہوںگے۔

11:عورت کوخلع اور مالی تحفظ
یا ایھا الذین اٰمنوا لا یحل لکم ان ترثوا النسآء ..(النسائ:19)
”اے ایمان والو! تمہارے لئے حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کے مالک بن بیٹھو اور ان کو اسلئے مت روکو کہ ان سے بعض واپس لو جو تم نے ان کو دیا ہے مگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہوں اور انکے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تم انہیں ناپسند کرتے ہو توشایدکسی چیز کو تم ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سارا خیر رکھ دے”۔
اس آیت سے ثابت ہے کہ عورت شوہر کو چھوڑ کر جاسکتی ہے اور شوہر کیلئے یہ جائز نہیں کہ اپنا دیا ہوا مال اس کو اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت نہ دے۔ مگر فحاشی کی صورت میں بعض دی ہوئی چیزوں سے اس کو محروم کیا جاسکتا ہے۔ خلع میں عورت کو غیر منقولہ دی ہوئی جائیداد سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ جو حدیث سے ثابت ہے۔ اور خلع میں عورت کی عدت ایک حیض ہے۔ جبکہ طلاق کے بعد عورت دی ہوئی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی مالک ہے۔ چاہے اس کو کافی سارا مال دیا ہو۔ جو آیت 21، 22 النساء میں واضح ہے۔ ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں مقرر کردہ نصف حق مہر اور اپنی وسعت کے مطابق مال فرض ہے۔
عورت کو اپنے بچوں ،حق مہر، جہیز ،مالی حقوق اور خرچے سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔ اسلام نے عورت کو جو معاشرتی انصاف دیا تھا اسکے مسلم معاشرے میں آثار بھی دوردور تک دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ ماں باپ اور شوہر کی جائیداد میں عورت کا جو حصہ ہوتا ہے عورت اس میں بھی محروم کردی جاتی ہے۔
تجارت، تعلیم، روزگار اور معاشرے ہر معاملے میںعورت کو اس کا جائز حق دینا اسلام کا تقاضہ ہے۔کراچی بھر میں برتن دھونے کی مزدوری عورتیں کرتی ہیں مگر جہاں ائیرلائنوں میں برتن دھونے کا زیادہ معاوضہ ملتا ہے تو وہاں مردوں کو لگا دیا جاتا ہے۔ بے غیرتی کا یہ عالم ہے کہ عورتوں کے دھندوں کی بھڑواگیری بھی مرد ہی کرتے ہیں۔ طارق اسماعیل ساگر نے دوبئی کے ائیرپورٹ کا یہ واقعہ بیان کیا تھا کہ” لاہور کے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے نے سرائیکی لڑکیوں کو دھندے کیلئے لائن میں کھڑا کیا تھا۔ مجھ سے ائیرپورٹ پر پوچھا کہ تم کیا کرنے جارہے ہو؟۔ تو میں نے کہا کہ ان سے کیوں نہیں پوچھتے ہو کہ تمہارا کیا دھندہ ہے”۔
طارق اسماعیل ساگرنے بڑائی کے انداز میں اپنے اس ویلاگ کو سوشل میڈیا میں ڈالا ہے ۔ یہ نہیں سوچا کہ قومی غیرت اس سے اتنی چھلنی نہیں ہوتی ہے کہ مرد سے پوچھ لے کہ کیا کرنے جارہے ہو؟۔ بلکہ لڑکیوں کو دھندے کیلئے لے جانے سے قومی غیرت کا جنازہ نکلتا ہے۔ طارق اسماعیل ساگر میں غیرت ہوتی تو اس بات پر ناراض ہونے کے بجائے کہ کیا کرنے جارہے ہو؟۔ اس بات پر ڈوب مرنے کی بات کرتا کہ میری تو خیر ہے لیکن سامنے جو لڑکیوں کو سپلائی کرنے جارہا ہے اس پر مجھے ایک پاکستانی کی حیثیت سے بہت زیادہ شرمندہ ہونا چاہیے تھا۔ ہمارے ہاں جمہوریت اور شریعت نام کی ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کی کتاب نے چہروں سے نقاب اُٹھا دیا ۔امریکیوں کو کراچی اور اسلام آباد کے ہوٹل حوالہ کرنے کی کہانی چھپے گی تو پردہ نشینوں کے چہروں سے نقاب اُٹھے گا لیکن ہمیں سرِ دست اپنے ملک میں افراتفری کی فضائیں پھیلانے کی جگہ صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ صلح حدیبیہ کے معاہدے سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر کسی بات سے اتفاق نہ ہو تو جہاں تک ممکن ہو ، حکمرانوں کیخلاف فضا کو گرمانے کی سیاست سے باز آنا چاہیے۔ جب عورت کو قرآن کے مطابق خلع کا حق نہیں۔ خلع و طلاق کے بعد کے اسکے مالی حقوق اور بچوں کا تحفظ معاشرے سے نہیں بن پڑتا ہے تو اغیار کی چوہدراہٹ اور اپنے نااہلوں کی مفادپرستی سے ہماری جان اللہ تعالیٰ کیوں چھڑائے گا۔ اپنے نامہ ٔ اعمال کو درست کرنا پڑے گا۔

12:مغرب اور جمہوریت
عن سعد بن ابی وقاص قال قال رسول اللہ ۖ لا یزال اہل الغرب ظاھرین علی الحق حتی تقوم الساعة (صحیح مسلم : 4958)
سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اہل مغرب ہمیشہ حق پر رہیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ (کتاب الامارة)
جب معاذبن جبل کو نبیۖ نے یمن کا حاکم بناکر بھیجا تو پوچھا کہ فیصلہ کیسے کروگے؟۔ معاذ نے عرض کیا کہ قرآن سے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ اگر قرآن میں نہ ملے تو؟۔ عرض کیا کہ آپ کی سنت سے۔نبیۖ نے فرمایا کہ اگر سنت میں نہ ملے تو؟۔ عرض کیا کہ خود قیاس کروں گا۔ نبیۖ نے فرمایا : شکر ہے کہ اللہ نے رسول کے رسول کو توفیق بخش دی جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہے۔
جب ایک جج کسی کا فیصلہ کرتا ہے اور وہ بات قرآن و حدیث میں نہ ہو تو پھر اپنے قیاس سے اجتہاد کرتا ہے۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کا اجتہادقرآن و سنت میں موجود ہے۔ جب کسی قوم ، ملک اور بین الاقوامی قوانین کیلئے قانون سازی کرنی ہو تو جس طرح میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ مدینہ کے یہود اور مشرکین مکہ کے ساتھ مل جل کر ہوا ، اسی طرح کوئی ملک اپنے لئے اندرونی اور بیرونی قانون سازی کرسکتا ہے۔ موجودہ دور میں ویزا ، روڈ کے ٹول ٹیکس، گاڑی کے ٹیکس اور جہازوں کی لینڈنگ کے ٹیکس وغیرہ کیلئے قانون سازی پارلیمنٹ ہی کے ذریعے سے ہوسکتی ہے جس میں عوام کے منتخب نمائندے شامل ہوں۔
نبی ۖ کو حکم تھا کہ و شاورھم فی الامر ”اور ان سے خاص بات میں مشورہ کیا کریں”۔ صحابہ کی یہ صفت قرآن میں ہے وامرھم شوریٰ بینھم ”اور ان کی خاص بات آپس کے مشورے سے طے ہوتی ہے”۔ اولی الامر سے قرآن میں عوام کیلئے اختلاف کی گنجائش بھی ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا اتبعوا السواد الاعظم ”عظمت والے گروہ کی اتباع کرو”۔ جس سے کئی جماعتوں کا وجود ثابت ہوتا ہے۔ انصار و قریش اور اہل بیت کے گروہوں کی حیثیت مختلف جماعتوں کی تھی۔ نبی ۖ نے فرمایا ”میری اُمت گمراہی پر کبھی اکھٹی نہ ہوگی”۔ اس حدیث میں اکثریت اور اقلیت دونوں کیلئے اہل حق ہونے کی گنجائش ہے۔ البتہ اگر قوم کیلئے قانون سازی کی بات ہو تو اقلیت کے مقابلے میں اکثریت ہی کا فیصلہ معتبر ہوگا۔ جسطرح حضرت علی کے مقابلے میں حضرت عثمان کے ووٹ زیادہ تھے اور انصاری سردار حضرت سعد بن عبادہ کے مقابلے میں حضرت ابوبکر کو جمہور اُمت کی تائید حاصل تھی۔ نبی ۖ نے اہل غرب کو اہل حق قرار دیا ہے تو مغرب نے بادشاہوں کے مقابلے میں جمہور عوام کی رائے کو اسلام کی وجہ سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ فقہ کی قانون سازی کیلئے جمہور کا نام مسلمانوں نے دنیا کو متعارف کرایا ہے۔ البتہ قیاس سے مراد استنجے ، غسل، وضو، نکاح و طلاق اور دیگر معاملات کے شرعی احکام گھڑنا نہیں ہے بلکہ حکومتی سطح پر قانون سازی مراد ہے۔
بخاری و مسلم کی روایت میں نبی ۖ نے قریش کی عورتوں کو دنیا کی عورتوں پر اسلئے فضیلت دی ہے کہ وہ اونٹ پر سواریاں کرسکتی ہیں۔ اگر سعودیہ میں عوامی پارلیمنٹ ہوتی تو اس حدیث کی بنیاد پر قانون سازی ہوتی کہ موجودہ دور میں گاڑیوں کی ڈرائیونگ اونٹوں کے مقابلے میں زیادہ حیاء اور تحفظ کے قابل ہے اسلئے خواتین کو پورے ملک اور دنیا میں ڈرائیونگ کرنے کی اجازت دی جاتی۔ سعودیہ میں اجنبی ڈرائیوروں کے ہاتھوں خواتین کے ماحول کا اتنا ستیاناس ہوا کہ آخر کار مسیار کے نام پر وقتی شادی کی اجازت دینی پڑی۔ اگر اسلام کی اعلیٰ تعلیمات کی صحیح تصویر پیش کی جائے تو پاکستان اور افغانستان میں کیا مغرب میں بھی اسلام کی علمبردار جماعت حیثیت نہ رکھنے کے باوجود اکثریت سے جیتے گی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز